الفاظ کی طاقت | Urdu Story
تم یہ کر ہی نہیں سکتے یہ تمہارے بس کا کام نہیں۔ غضنفر نے پوری شدت سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
مگر مجھے لگتا ہے شاید میں کرجاؤں۔۔۔ حماد نے گومگو کی کفیت میں کہا۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں تمہارا سارا خرچہ خوشی سے اٹھا رہا ہوں تو خوامخواہ دو ٹکے کے کام کرکے کیوں اپنی اور میری ناک کٹوانا چاہتے ہو۔
دوسری بات تمہیں ان چیزوں میں بالکل تجربہ نہیں الٹا تم نقصان اٹھا کر پچھتاؤ گے۔ بعد میں میرے پاس آکر نہ کہنا کہ میں نے تمہیں پہلے منع کیوں نہیں کیا تھا۔
غرض پندرہ بیس منٹ کی بحث کے بعد حماد اس نتیجے پہ پہنچ چکا تھا کہ وہ ایک ناکام ترین انسان ہے۔ کاروبار کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ اور ویسے بھی اس کا معیار اتنا گیا گزرا نہیں کہ وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرے۔
حالانکہ غضنفر امیر کبیر باپ کا بیٹا ہونے کے باوجود اپنا علیحدہ کاروبار کررہا تھا۔
حماد غضنفر کا دوست تھا۔ اس کا تعلق چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ باپ سے لڑائی کے بعد وہ پچھلے دو سال سے غضنفر کے ساتھ رہ رہا تھا۔
غضنفر کو اکثر کاروبار کے سلسلے میں دوسرے ممالک جانا پڑتا تو پیچھے اس کے گھر اور ملازموں کی دیکھ بھال حماد کیا کرتا۔
حماد کے پاس تھوڑی بہت رقم جمع تھی اس نے اس رقم سے اپنا کاروبار کرنے کا سوچا۔ یہ آئیڈیا اسے غضنفر کے سیکورٹی گارڈ نے دیا تھا کہ کب تک تم غضنفر صاحب پہ انحصار کرتے رہو گے۔ تم اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے۔۔۔ غضنفر صاحب کو دیکھیں باپ کے پیسوں پہ عیاشی کرنے کی بجائے وہ خود ان سے زیادہ کما رہا ہے۔
بات حماد کے دل کو لگی تھی چنانچہ جب اس نے کاروبار کے لیے غضنفر سے مشورہ کیا تو اس نے اتنا ڈرایا کہ حماد نے ارادہ ہی کینسل کردیا۔ کچھ عرصے بعد غضنفر کو کسی بات پہ غصہ آیا تو اس نے حماد کو اپنے گھر سے نکالنے میں دو منٹ نہیں لگائے۔ تب حماد کو احساس ہوا کہ ان دنوں اگر وہ کچھ کرلیتا تو آج اسے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔
مہناز میٹرک کے بعد فری ہوئی تو اسے سلائی سیکھنے کا شوق چرایا۔ چنانچہ اس نے بڑی محنت سے اپنا ایک سوٹ سیا۔ اس کی دوستیں گھر آئیں تو سوٹ دیکھ کر انھوں نے خوب مذاق اڑایا۔ کسی کو گلا کسی کام کا نہیں لگا تو کسی نے ٹیڑھی میڑھی سلائی دیکھ کر خوب ٹھٹھا اڑایا۔ ان کے جانے کے بعد مہناز بہت زیادہ ہرٹ ہوئی اسے لگ رہا تھا کہ یہ کام اس کے بس کا نہیں ہے۔
مگر امی نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تم نے پہلی بار کوشش کی ہے پھر بھی اتنا بہتر ہے میرا تو پہلا سوٹ اس سے بری حالت میں تھا۔ غرض امی کی حوصلہ افزائی سے آہستہ آہستہ وہ بہت اچھے سوٹ سینے لگی۔
اب وہی اس کی دوستیں فرمائش کرنے لگیں کہ اس سٹائل کا ہمیں بھی ایک سوٹ سی دو۔
رفعت پچپن سے بہت زیادہ شرمیلی تھی کسی سے بات کرتے یا کوئی اپنی رائے دیتے ہوئے اس کی جان جاتی تھی۔ کچھ عرصہ جاب کے سلسلے میں اس کے ماموں رہنے آئے تو انھوں نے نوٹ کیا کہ اس کی بڑی بہن شمائلہ کو بڑی ہونے کے ناطے فیصلہ کرنے کی زیادہ آزادی دی جاتی ہے۔
رفعت کو چھوٹا سمجھ کر سب نظرانداز کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے رفعت کے اندر فیصلہ کرنے کی قوت ہی پیدا نہیں ہورہی۔ ماموں نے آہستہ آہستہ کچھ معاملات میں ان کی رائے مانگنی شروع کردی۔ اسے چھوٹے موٹے فیصلے خود کرنے کی آزادی دی۔ آج وہ نہ صرف ہر کسی کو اپنا نقطہ نظر واضح انداز میں سمجھا سکتی ہے بلکہ بہت سارے فیصلے بنا کسی جھجھک کے آرام سے کرلیتی ہے۔
آفس میں اگر باس حوصلہ افزائی کرنے والا ہو تو ملازموں کی کارکردگی بہتر ہونے لگتی ہے۔ ایسے سکول میں اگر اساتذہ کسی بچے کی تعریف کردیں تو وہ پڑھائی میں اچھا ہوجاتا ہے۔
کسی کی کوکنگ اچھی نہیں آپ کے تعریف کے دو لفظ بول دیں اگلی بار دیکھیں اس نے اس سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہوگی۔
ایک وڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بچی اپنی کالی رنگت پہ افسردگی کا اظہار کررہی ہوتی ہے۔
مگر ایک عورت اس کی خوبیاں اجاگر کرکے اسے اتنا حوصلہ دیتی ہے کہ بچی اپنی رنگت پہ مطمئن ہوجاتی ہے۔ یہ ہمارے الفاظ ہیں جو کسی کا دل چیر دیتے ہیں تو کسی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
کچھ لوگ قدرتی طور پر اپنی خوبیوں کو پہچان کر آگے نکل جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر کوئی آپ سے مشورہ مانگتا ہے تو بجائے ڈرانے دھمکانے آپ اس کی ہمت بندھائیں اسے یقین دلائیں کہ آپ کچھ کرسکتے ہیں۔
اگر کسی نے اچھا کام کیا ہے تو دل کھول کر تعریف کریں۔
جس طرح میں نے اپنے پچھلے بلاگ میں کہا تھا کہ کیا خبر کسی کی آہ ہماری خوشیوں میں رکاوٹ بن رہی ہو۔۔۔اس طرح کسی کی دعا مصبیت میں ڈھال بن جاتی ہے۔
خوشیاں ہم سے کیوں روٹھ جاتی ہیں یہ بلاگ پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
زندگی بہت مختصر ہے۔ اللہ نے ہمیں کسی مقصد کے لیے بھیجا ہے۔ آپ کے الفاظ بہت قیمتی ہیں ان کا اچھا استعمال کرنا سیکھیں۔کیونکہ یہی الفاظ ہر انسان کو معتبر بھی بناتے ہیں اور نظروں سے بھی یہی گراتے ہیں۔
کوئی آپ سے رائے مانگے تو پوری ایمانداری سے دیں اگر کوئی اچھا کام کررہا ہے اس سے آپ کو کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے تو کھل کر اظہار کریں اگلے کو بتائیں آپ کی ہماری نظر میں کیا اہمیت ہے۔
الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ الفاظ اگر دل چیر دیتے ہیں تو مرہم کےلیے بھی یہی کام آتے ہیں۔ یہ اب آپ پہ منحصر ہے کہ آپ ان سے کونسا کام لینا چاہتے ہیں۔
(تحریر حمنہ قندیل)