urdu afsanay

باغی اردو افسانے | Baaghi Urdu Afsanay

وہ شہر سے یہاں آرہی تھی میرے پاس… دماغ میں ہلکا سا غرور جاگا تھا. مجھے پورا یقین تھا کہ اس بار وہ اپنی انا توڑ کر میرے قدموں میں گر جائے گی مجھے اپنی محبت کے واسطے دے گی.ہم مرد کچھ کچھ ہوتے ہیں ناں انا پرست… عورت کی ضد توڑ اپنی تسکین حاصل کرنے والے۔
مگر وہ آئی تھی ہمیشہ کی طرح معمول کے مطابق۔۔۔ کوئی گلہ کوئی شکوہ کچھ بھی نہیں کیا تھا. حالانکہ میں انتظار میں تھا کہ وہ کچھ تو کہے گی اور نہیں تو کم از کم لڑے گی تو ضرور مگر اپنی انا کے خول میں وہ اتنی قید ہوچکی تھی کہ اسے اب میری ضرورت نہیں رہی تھی۔
مہتاب بڑھ چڑھ کر اس کی خدمتیں کر رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس کے لیے کپڑے اور ڈھیر سارا سامان لائی تھی۔
مہتاب…وہی مہتاب ہماری ملازمہ کی بیٹی جسے سب تابی تابی بلاتے تھے.وہ کوئی پانچ چھ ماہ کی ہوگئی جن دنوں ہماری شادی ہوئی تھی. ان دنوں ڈیڈی کی وفات کی وجہ سے ہمیں یہاں گاوں آنا اور کچھ عرصہ رکنا پڑا تھا. اس کی اماں تابی کو چارپائی پہ بندھے کپڑے کے جھولے میں ڈال کر تقریباً ہر ذمہ داری سے بری الزمہ ہو جاتی تھی. وہ بچی باہر برآمدے میں سارا دن چیختی بلکتی رہتی.اس کی چیخ پکار سن کر کنول ترس کھا کر کبھی کبھار اسے جھولا دے آتی یا اس کی ماں سے ناراض ہوتی کہ آکر بچی کو کچھ کھلا پلا جائے۔
قسمت کے پھیر دیکھیں وہ گہری رنگت کی تابی جسے دیکھ کر میرا بلاوجہ منہ بن جایا کرتا تھا آج وہ اتنی بڑی ہوچکی تھی کہ کنول سے اس کا شوہر چرانے جا رہی تھی. مگر سب کچھ جاننے کے باوجود کنول کے چہرے پر تابی کے لیے کسی قسم کی نفرت یا ناراضگی نہیں تھی۔
پچھلے سال میرے اور تابی درمیان اتنی نزدیکیاں آچکی تھی کہ جب کنول چھٹیوں میں یہاں رہنے آئی تو ہم دونوں چور چور نگاہوں سے ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے کتراتے رہتے تھے کہیں کنول ہمارے دل کی چوری نہ پکڑ لے. مگر اس بار میرے چہرے پر استحقاق بھرا غرور تھا. میں جان بوجھ کر اس کے سامنے تابی کو بلاتا.. میرے کپڑے لادو مجھے یہ کردو تابی میرا وہ کام ابھی تک ادھورا کیوں ہے…؟
مگر مجال ہے جو کنول کے چہرے کے ذرا سے زاویے بگڑے ہوں. وہ آج بھی بچوں کی طرح نرمی سے تابی کو ڈیل کیا کرتی تھی. جیسے وہ کچھ جانتی ہی نہ ہو۔ میں حیران ہوتا کہ یہ وہی کنول ہے جو فنکشن میں ذرا سا کسی لڑکی کے ساتھ ہنس کر بات کر لیتا تو واپسی پہ اس کا شدید خراب موڈ ملتا۔
کنول تم اتنی ڈھیٹ کب سے ہوگئی ہو؟ میں اندر ہی اندر سلگ کے سوچتا۔
میرے والد کا تعلق روایتی زمیندار گھرانے سے تھا مگر انھوں نے شہر میں شادی اور رہائش کو ترجیح دی تھی. وہ سی ایس ایس کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر بنے تھے۔
اپنے دور میں انھوں نے دنیا کی ہر آسائش ممی اور مجھے دی تھی. ممی کے پورے خاندان میں ہمیں رشک سے دیکھا جاتا تھا…پھر اچانک ڈیڈی نے ریٹائرمنٹ کے بعد واپس گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
ظاہری بات ہے ممی شہر کی پلی بڑھی تھیں ان دنوں گاؤں میں اتنی سہولیات نہیں ہوا کرتی تھیں. انھوں نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا تھا. ان دنوں میری عمر 15 سال کے لگ بھگ ہوگئی۔
ڈیڈی ہمیں چھوڑ کر واپس اپنے آبائی گاؤں چلے گئے وہیں پر انہوں نے مستقل رہائش اختیار کر لی. وہ باقاعدگی سے ہمارے اخراجات بھجواتے تھے ہر مہینے ہمیں ملنے کے لیے کراچی کا چکر لازمی لگاتے. ان کے بغیر شروع میں مشکل تو ہوئی مگر پھر سب کچھ نارمل لگنے لگا تھا۔
ممی بہت سوشل تھیں انھیں ڈیڈی کی اتنی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنا میں محسوس کرتا.بہرحال وقت ٹھیک گزر رہا تھا جب تک ہمیں ڈیڈی کی دوسری شادی کے بارے میں پتا نہیں چلا۔
یہ خبر سن کر ممی تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں تھیں.مجھے ڈیڈی سے شدید نفرت ہوگئی تھی.ایسے لگتا جیسے میں عرش سے فرش پہ آگرا ہوں. ممی کے خاندان میں ہمیں خاص طور پر مجھے ترس سے دیکھا جانے لگا تھا.کیونکہ ان کے خاندان میں پہلی بار کسی مرد نے دوسری شادی کی تھی. ڈیڈی جب تک زندہ رہے میرے دل میں ان کے لیے شدید رنجشیں رہیں. وہ ہر مہینے مجھے ملنے آتے ڈرائنگ روم میں گھنٹہ گھنٹہ بیٹھ کر واپس چلے جاتے.مگر کوئی بھی ان کی شکل دیکھنا گوارا نہ کرتا۔
اپنی وفات سے قبل وہ بہت دکھی تھے ان کی حالت انتہائی خراب تھی وہ مجھے ملنے نہیں آسکتے تھے مگر آخری بار ملنے اور بیٹے کی شکل دیکھنے کے لیے بار بار بلواتے رہے تھے. مرنے سے چند دن پہلے فون پہ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ شاہد بیٹا ابھی تمہیں میں مجرم لگ رہا ہوں مگر جب میری عمر کو پہنچو گے تو تب تمہیں احساس ہوگا کہ تمہارے ڈیڈی اتنے برے نہیں تھے.اس وقت تم میری مجبوریوں کو اچھی طرح سمجھو گے.ان کی جذباتی باتیں سن کر کچھ دیر کو میرا دل پگھلا ضرور تھا مگر جب ممی کی حالت کے بارے میں سوچتا تو اندر ہی اندر لاوا پکنے لگ جاتا۔
آج وقت کی ستم ظریفی دیکھیں اس نے مجھے بالکل اسی مقام پہ لا پٹخا تھا کہ میں خود دوسری شادی کرنے جا رہا تھا. ڈیڈی کی ہر بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی تھی۔
کہنے کو تو میری اور کنول کی ارینج میرج ہوئی تھی مگر سچ یہ تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کےلیے پسندیدگی رکھتے تھے.وہ میرے چھوٹے ماموں کی بیٹی تھی.ڈیڈی کی دوسری شادی کے بعد میں بہت گم صم اور تنہا پسند ہوگیا تھا. کنول بھی میری طرح سنجیدہ طبیعت کی لڑکی تھی. وہ میرا بہت احترام کرتی تھی. ہم دونوں کی رضامندی سے یہ رشتہ ہوا تھا۔
ممی نے میری شادی پہ دل کے ہر ارمان نکالے تھے۔ بھتیجی ہونے کے ناطے انھوں نے اپنی ساری قیمتی جیولری کنول کے حوالے کر دی تھی۔
رشتے کےلیے ڈیڈی کی رضامندی لینا تو دور کی بات انھیں اپنی شادی کی اطلاع دینا ممی اور میں نے ضروری نہیں سمجھا تھا. ہمیں ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ اس بات کو وہ اتنا دل پہ لیں گے کہ ایک مہینے کے اندر اس دنیا سے چل بسیں گے.ان کی سیریس حالت کا سن کر(بقول ممی کے وہ تمہیں اپنے پاس بلانے کے لیے بیماری کا ڈھونگ رچا رہے ہیں) کوئی نہیں ملنے گیا تھا. مگر جب اچانک وفات کی خبر آئی تو مجھے شدید ترین ذہنی دھچکا لگا تھا. یہی سے میرے اندر مذید توڑ پھوڑ شروع ہوئی تھی۔

!!!کنول کی آمد
کنول کے ساتھ میرا بڑا ماموں بھی آیا تھا. اس نے اکیلے میں بیٹھ کر مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر واپسی کے سارے دروازے تو ہم دونوں کب کے بند کرچکے ہیں۔
اب تو یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ کنول اور میرے درمیان اتنی دوریاں کب سے پیدا ہوئی تھیں۔
تین سال سے یہاں رہتے ہوئے میرا اکلوتا بیٹا ریان میرے بغیر رہنے کا عادی ہوچکا تھا بلکہ ہم سب علیحدہ علیحدہ اپنے مدار میں گردش کرنا سیکھ چکے تھے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ایک دن اس عمر میں آکر اسے بھی میری طرح اپنے باپ سے محبت ہوجائے گی۔
میں اگر واپس کراچی چلا بھی جاتا تو کیا کرتا.. کنول کا ساتھ بھاری بوجھ لگنے لگا تھا.وہاں پر میرا دم گھٹتا. جبکہ یہاں پر تابی میرے لیے خوشی کا باعث بنتی جارہی تھی وہ ہر اس گر سے آگاہ تھی جس سے کسی مرد کا دل مٹھی میں کیا جائے. کئی بار سخت ڈانٹنے کے باوجود وہ آکر میرے پیروں میں بیٹھ جاتی.وہ خود کو خاک سمجھتی تھی.اس کی عاجزی میرے جیسے بقول کنول کے گھمنڈی مرد کو اندر تک سرشار کردیتی تھی. اس کے برعکس کنول میرے منانے کے باوجود کئی کئی دن تک چھوٹی سی بات کو دل میں دبائے رکھتی.اس کی اس عادت سے مجھے شدید چڑ تھی۔
چھوٹے ماموں سے بات کرکے جب میں باہر نکلا تو کنول فوراً واش روم میں گھسی تھی. وہ چھپ کر ہماری باتیں سن رہی تھی۔
میں جان بوجھ کر کرسی کھینچ کے وہیں بیٹھ گیا جب وہ باہر نکلی تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں. اسے روتے دیکھ کر میرے کلیجے تک ٹھنڈ اترتی چلی گئی کنول تم ایسے ہی ساری زندگی روتی رہو گی۔ تنی ہوئی گردن سے اسے دیکھتے ہوئے میں بڑبڑایا۔

اگلے دن صبح سویرے وہ واپس چلی گئی تھی…ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ نہیں جھکی ناں..اس کے جانے کے بعد میں نے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے نہایت تلخی سے سوچا۔
کیا ہوجاتا تابی کی طرح وہ مجھے منا لیتی…مجھ سے معافی مانگ لیتی.وہ اگر ایک بار میرے سامنے جھک جاتی میں کبھی دوسری شادی کا سوچتا ہی نہیں۔
مجھے غصے سے تلملاتے دیکھ کر تابی میرے پاس آنے لگی تو میں نے ہاتھ سے اسے دفعہ ہونے کا اشارہ کیا ہے وہ الٹے پاؤں واپس چلی گئی۔
پورا دن میں نے غصے میں کھولتے اور اپنے ساتھ بک بک اور جھک جھک کرتے ہوئے گزارا. شام کو فریج کھولا تو اس کے اندر کنول میری پسند کے بیسن کے لڈو بنا کے رکھ گئی تھی۔
میں نے پلیٹ اٹھا کر دیوار کو دے ماری اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا. ہم دونوں انا کے قیدی تھی. کوئی ایک جھک جاتا تو شاید ساتھ نبھ جاتا۔۔۔
اگلے چند دن میں عجیب سی کشمکش میں رہا دل کرتا مجھے ایک بار کنول کو فون کرنا چاہیے اور دماغ کہتا وہ نہیں جھکی تو مرد ہوکر میں کیوں جھکوں. ویسے بھی میرے فون کرنے سے کونسا وہ سب کچھ بھلا دے گی میں اس کی ضدی فطرت سے اچھی طرح آگاہ تھا۔ کچھ دن تک تابی کو مکمل نظرانداز کرکے میں اپنے اندر چھڑی جنگ سے لڑتا رہا۔
بالآخر جمعہ کے دن تابی کے باپ کو بلا کر کہا کہ وہ آج شام کو نکاح خواں اور رخصتی کا بندوبست کرے.جب شادی کرنی ہی ہے تو کل کہ بجائے آج کیوں نہیں. میں اب اس حالت میں آچکا تھا جب مجھے لوگوں کی باتوں کی پرواہ کی بجائےذہنی سکون کی شدید ضرورت تھی.
میرا کزن اور پچپن کا دوست شامیر امریکہ میں رہنے کی وجہ سے بہت عرصے بعد پاکستان آیا تو مجھے ملنے گاؤں بھی آیا تابی کو دیکھ کر اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا تھا:
شاہ زمان تمہیں اس کے علاوہ اور کوئی لڑکی نہیں ملی تھی کیا؟؟؟
اگر دوسری شادی کرنی ہی تھی تو کم از کم اپنا معیار تو دیکھ لیتے. کسی خاندانی گھرانے کی لڑکی تو ڈھونڈتے۔
شامیر خاندانی بیویاں انا والی ہوتی ہیں وہ اپنا شوہر دوسروں کے حوالے کردیتی ہیں مگر جھکتی کبھی نہیں ہیں. ہم ٹھہرے روایتی مرد جو اولاد تو خاندانی عورتوں سے چاہتے ہیں مگر اپنی تسکین کے لیے ہمیشہ نچلے درجے کی عورت ڈھونڈتے ہیں۔ میں نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
شادی کے بہت عرصہ میں شہر نہیں گیا تھا . اپنے بیٹے سے فون پر بات کرنے کے لیے جب بھی کال کرتا کنول سیدھا فون ریان کو تھما دیتی تھی. نہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی تھی اور نہ میں نے کوئی ایسی کوشش کی تھی. اس دن کنول کے بھائی کا فون آیا کہ ریان سیڑھیوں سے گرگیا ہے ہم اسے ہوسپٹل لے آئے مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آرہا ہے. ریان کا سن کر میرے پیروں سے حقیقت میں زمین سرکی تھی.مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میں نے چار گھنٹے کا سفر کیسے طے کیا تھا۔
جب میں ہوسپٹل پہنچا تو ریان ابھی تک ہوش میں نہیں آیا تھا. کنول ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ ماموں اور ممانی( میرے ساس سسر) بھی وہیں پر موجود تھے. انھوں نے میرے سلام کا جواب نہایت سپاٹ لہجے میں دیا۔
البتہ کنول کا بھائی مجھے گلے لگ کر ملا تھا. میں وہیں کوریڈور میں کرسی پر مجرم کی حثیت سے سر جھکا بیٹھ گیا.میری موجودگی کو غالباً کنول نوٹس نہیں کیا تھا.جس کمرے میں ریان تھا وہ بار بار اٹھ اس کے دروازے تک جاتی اور دوبارہ نڈھال سی کرسی پہ آکر بیٹھ جاتی. ایک بار دل چاہا کہ جاکر کندھے پہ ہاتھ رکھ کر دلاسہ دوں مگر پھر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
رات کے بارہ بجے ڈاکٹروں نے ریان کے ہوش میں آنے کی خوشخبری سنائی تو سب سے پہلے کنول اندر لپکی تھی. دس منٹ بعد وہ مطمئن چہرے کے ساتھ باہر نکلی تو پہلی بار اس کی نظر مجھ پہ پڑی۔
کتنی سرد اور اجنبی آنکھیں تھیں اف۔۔۔مجھے جھرجھری آگئی۔
اگلی صبح ریان کو ڈسچارج کردیا گیا. گھر آکر مجھے دیکھ کر وہ جی اٹھا تھا. سالوں بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا تھا.میں مانتا ہوں میں اتنا اچھا شوہر نہیں تھا مگر ریان کے معاملے میں ہمیشہ اچھا باپ رہا تھا.ڈیڈی نے جب شادی کی تب میں پندرہ سال کا تھا۔ جس طرح میں ہرٹ ہوا تھا وہ ابھی اس عمر تک نہیں پہنچا تھا.شاید میری دوسری شادی کے بارے میں کنول نے اسے نہیں بتایا تھا یا اگر اسے پتا تھا تو اس کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی.میرے آنے کی وجہ سے کنول دوسرے کمرے میں سونے لگی تھی. جبکہ ریان دو منٹ مجھ سے دور نہیں ہونا چاہتا تھا.ادھر گاؤں میں گندم کی کٹائی ہونے کی وجہ سے سارے انتظامات میری وجہ سے رکے ہوئے تھے. اوپر سے بارشوں کا سیزن شروع ہونے والا تھا جس سے ساری فصل خراب ہونے کا اندیشہ تھا.چنانچہ میں نے کنول سے التجا کی کہ جب تک ریان ٹھیک نہیں ہوجاتا وہ میرے ساتھ گاؤں چلے. پہلی بار اس نے میرے بات خاموشی سے مان لی تھی۔

تابی کو میں نے فون پہ حکم دیا کہ کنول کا کمرہ سیٹ کروا کر وہ کچھ دن کےلیے اپنی ماں کے پاس چلی جائے. وہاں پہنچ پر ریان کی طبیعت بہت جلد سنبھلنے لگی تھی. وہ وہاں بہت زیادہ انجوائے کررہا تھا۔
کام کی حد تک کبھی کبھار کنول براہ راست مجھ سے بات کرلیتی یا کچھ ایسا اظہار کرجاتی جس سے مجھے شک ہونے لگتا کہ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے.وہ دونوں ایک مہینہ میرے ساتھ رہے تھے. ریان اب بالکل ٹھیک ہوچکا تھا. اس کے سکول کھلنے والے تھے چنانچہ وہ واپس چلے گئے.ان سب دنوں میں کچھ انہونی نہیں ہوئی زندگی پھر سے واپس اپنی روٹین پہ آگئی. ہاں اب میں ہر پندرہ بیس دن بعد ریان کو باقاعدگی سے ملنے جانے لگا تھا اور ایک آدھ رات رک بھی جاتا۔
کنول نے میری دوسری شادی کو نہایت خاموشی سے قبول کیا تھا. نہ وہ ممی کی طرح مجھ پر چیخی چلائی تھی نہ اس کے میکے کی طرف سے مجھے کچھ کہا گیا تھا. سب سے بڑی چیز جس کی مجھے قطعاً امید نہیں تھی وہ یہ کہ اس نے ریان کے دل میں میرے لیے نفرت کا بیج نہیں بویا تھا.نہ ہی وہ ممی کی طرح میرے آنے پر حقارت آمیز رویہ اختیار کرتی۔ بلکہ ہم دونوں جب بھی ایک دوسرے کو مخاطب کرتے عزت و احترام ہمیشہ غالب رہتا۔
تابی کے ساتھ شادی کے بعد میرے اندر کافی حد تک ٹھہراؤ آگیا تھا.پندرہ سال کی عمر میں میرے اندر جو توڑ پھوڑ ہوئی تھی…اس عمر میں آکر وہ ساری باتیں اب بےمعنی لگنے لگی تھیں. شہر کی نسبت گاؤں میں مجھے بہت زیادہ عزت دی جاتی تھی.یہاں کے لوگ ہم زمینداروں سے جھک کر رہتے. تابی کسی کنیز کی ماننند دل و جان سے میری خدمت کرکے خوشی محسوس کرتی۔
ٹھیک ہے کنول اور ہمارے درمیان دوریاں آگئی تھیں مگر میں ان کی ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں ہوا تھا. تابی تو صرف مجبوری تھی.وہ بھی کبھی اپنی اوقات سے نہیں بڑھی تھی.ہر معاملے میں کنول اور ریان کو برتری دیتا تھا.ڈیڈی کی طرح میں نے بھی دوسری شادی اولاد کے لیے نہیں کی تھی۔
ویسےبھی مجھے نیچ قوم کی عورت سے اپنی نسل بڑھانے کا قطعاً شوق نہیں تھا. اس لیے میں نے تابی کے لیے چند ٹکڑے زمین کے چھوڑ کر باقی سب ریان کے نام کردیا تھا.سب کچھ ٹھیک جارہا تھا کم از کم میری نظر میں اگر اس دن شامیر کا فون نا آتا۔
شاہد زمان میں نے سنا ہے کنول عمران سے شادی کررہی ہے تجھے معلوم ہے کیا؟؟؟اس کے اس انتہائی بھونڈے مذاق پہ میں کھول کے رہ گیا۔
اگر تو میرے سامنے ایسی بکواس کرتا تو خدا کی قسم میں تیرا منہ توڑ دیتا. میں نے تیز آواز میں انتہائی برا مناتے ہوئے کہا تھا.پہلے کنول سے بات کرکے اپنی تسلی کرلے. میرا منہ بعد میں توڑنا. اس نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔
کنول ایسا سوچ ہی نہیں سکتی. میں نے اس منحوس خبر کو پوری شدت سے جھٹلاتے ہوئے سوچا.اسی وقت فوراً میں نے کال ملائی. فون ریان نے اٹھایا. اپنی مما سے بات کراؤ…. میں نے بےچینی سے کہا۔
ہیلو ہمیشہ کی طرح کسی جذبے کے بغیر کنول کی سادگی بھری آواز سماعت میں گونجی۔
کیسی ہو کنول؟ پہلی بار دل کی گہرائی سے میں نے اس کا نام لیتے ہوئے پوچھا۔
جی ٹھیک وہی سادگی بھرا عام سا جواب۔
تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔
سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات کا آغاز کہاں سے کروں۔
اچھا ہوا آپ نے فون کرلیا ورنہ میں خود آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی. اس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔
کونسی بات؟ دل بری طرح دھڑکا تھا۔
مجھے آپ سے طلاق چاہیے؟ بنا کسی ہچکچاہٹ یا شرمندگی سے کہا گیا۔
طلاق ؟؟؟
میری آواز میں لرزش تھی۔
عمران اور میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. وہ اتنے عام سے لہجے میں بتا رہی تھی جیسے میرے لیے کوئی یہ بڑی بات نہ ہو.تم ہوش میں تو ہو کنول… میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔
ٹھیک ہے پھر عدالت میں بات ہوگئی. اس کے بعد فون بند کردیا گیا.میرا دماغ بھک سے اڑ چکا تھا. سمجھ نہیں آرہی تھی کہ چالیس سال کی عمر میں کنول کیسے دوسری شادی کا سوچ سکتی ہے. میں تو چلو مرد تھا اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے. جب میں ریان اوراس کے اخراجات پوری ایمانداری سے ادا کررہا ہوں تو اسے دوسری شادی کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔

عمران کا سوچ کر میرا خون کھول اٹھتا. تیس بتیس سال کا وہ لفنگا لڑکا جسے خاندان میں کوئی لڑکی دینے کو تیار نہیں تھا. کنول اس سے شادی کرنے جارہی تھی.دسمبر کی سرد رات ہونے کے باوجود میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگےتھے… میں نے اپنے گرد لپیٹی سیاہ شال اتار کر پرے پھینک دی. تابی دوسرے کمرے میں گہری نیند سو رہی تھی.ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے بے چینی سے ٹہلتے ہوئے مجھے رہ رہ کر اس پہ غصہ آرہا تھا. تابی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا تھا نہ وہ مجھے اپنی طرف مائل کرتی نہ نوبت یہاں تک آتی۔
ڈیڈی کی وفات کے بعد ہماری زندگی میں جو سب سے بڑا بحران آیا وہ پیسوں کی تنگی تھی. دوسری شادی کے باوجود انھوں نے ہماری آسائشات میں کوئی کمی نہیں آنے دی تھی. اب لے دے کے واحد آمدن ان کی پنشن تھی. جس میں سے نصف حصہ سوتیلی والدہ کے حصے میں کٹتا باقی آدھی سے گھر چلانا تو دور کی بات ممی کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔ مالی لحاظ سے کنول کا تعلق مڈل کلاس سے تھا. وہ تو ان حالات میں ایڈجسٹ ہوہی جاتی مگر میرے لیے ساری آسائشات کو خیرباد کہہ کر عام سی نوکری کرنا اتنا آسان نہ تھا.ویسے بھی میرے اندر بابا کی طرح حاکمانہ سوچ تھی. میں کسی کے آگے جھکنا اپنی توہین سمجھتا تھا. یہی وجہ تھی کہ جو بھی جاب کرتا دو تین مہینے بمشکل ٹک پاتا. اس کے برعکس کنول کے بھائی چھوٹے سے کاروبار کو بڑھا کر بہت زیادہ ترقی کرجارہے تھے. جس سے میرا مورال ان کے سامنے مذید ڈاؤن ہوتا گیا.جب مالی حالات مذید بگڑے تب میں اپنی آبائی زمینوں کی طرف لوٹا تھا۔

ڈیڈی وہاں پر میرے لیے پہلے سے گھر بنوا گئے تھے. ان کو جیسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا ضرور پلٹے گا.زمینوں کی دیکھ بھال کےلیے مہینے میں دو تین دن کے لیے مجھے یہاں آکر رکنا پڑتا تھا. کبھی کبھار کنول بھی ساتھ آجاتی ورنہ زیادہ تر میں اکیلا یہاں آکر رہتا تھا.میں جب بھی آتا تابی کام کرنے کے بہانے میرے اردگرد منڈلاتی رہتی تھی. وہ خوبصورت نہیں تھی مگر مردوں کو کس طرح خوش رکھنا ہےاس فن سے پوری طرح آگاہ تھی. میرے آنے پر وہ بچھ سی جاتی تھی. ضرورت کی ہر چیز میرے کہنے سے پہلے کمرے میں حاضر ہوتی.وہ میری اتنی خدمت اور عزت کرتی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کی طرف متوجہ ہونے لگا تھا.دوسری طرف کنول سے مجھے کبھی اس قسم کی والہانہ گرمجوشی یا توجہ نہیں ملی تھی۔
ریان کے آنے کے بعد وہ اس میں مصروف ہوگئی تھی.ایک لگی بندھی زندگی تھی جو ہم گزار رہے تھے. کنول نے اپنی علیحدہ دنیا بسا لی تھی جس میں اس کے بہن بھائی بھانجے بھتیجے تھے یا ریان تھا. میں تو اس کی توقعات پہ کبھی پورا نہیں اترا تھا.جوانی تو جیسے تیسے گزر گئی تھی اب بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتے مجھے تنہائی سے وحشت ہونے لگی تھی. کنول میرے بغیر جینے کی عادی ہوگئی تھی جبکہ اس عمر میں مجھے کسی ایسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی جو میری تنہائی دور کرنے کے ساتھ میرے آرام و سکون کا بھی خیال رکھے. یہ کام تابی پہلے سے بخوشی کررہی تھی. اس لیے جب میں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا تو مجھے تابی سے بہتر کوئی اور آپشن نظر نہیں آیا تھا.مگر میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانچ سال بعد اچانک کنول بھی دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کرلے گئی. اس نے ریان کے بارے میں نہیں سوچا تھا. ماں کا تو نام قربانی ہے وہ اتنی خود غرض کب سے ہوگئی ہے ؟؟؟
میں جیسے جیسے اس کے خلاف سوچتا وہی سب کچھ میرا اپنا کیا سامنے آجاتا. پہلی بار مجھے احساس ہورہا تھا کہ کنول نے بھی میرے بارے میں یہی سوچا ہوگا. وہ بھی اسی تکلیف سے گزری ہوگی جس طرح اس وقت میں سلگ رہا تھا. اسے بھی میری طرح یقین نہیں آیا ہوگا کہ شاہد زمان ایسا کیسے کرسکتا ہے.ٹھیک ہے اس وقت وہ نہیں جھکی تھی مگر میں جھک جاؤں گا.بیٹے کی خاطر میں جاکر اس سے معافی مانگ لوں گا اسے منا لوں گا. پتا نہیں وہ مانتی بھی ہے یا نہیں؟؟؟
ہزاروں تاویلیں ہزاروں وسوسے تھے جنہوں نے پوری رات مجھے سونے نہیں دیا تھا. صبح منہ اندھیرے گاڑی نکال کر میں شہر کے لیے نکل پڑا تھا. ایک مدھم سی امید تھی کہ شاید یہ جھوٹ ہو اس نے ناراضگی میں ایسے کہہ دیا ہو.اس کا ایسا کوئی ارادہ نہ ہو۔
،،میں ہار سنگھار کروں تو کس کے لیے… ؟؟؟ وہ میری طرف دیکھنا گوارا ہی نہیں کرتا.،،
عجلت میں کف کے بٹن بند کرکے باہر کی طرف جاتے قدم لحظہ بھر کو رکے تھے۔
شادی کے شروع کے ایام میں یہ میری بیوی کنول کی آواز تھی… اس کے لہجے میں یاسیت اور کرب واضح تھا.چند لمحے میں رک کر بیوی کی آواز میں چھپی تلخی کے بارے میں سوچتا رہا پھر ذہن جھٹک کر آگے کی طرف بڑھ گیا۔
کیونکہ اتنی عام سی بات کا سوگ منانے کے لیے میرے پاس فی الحال بالکل وقت نہیں تھا…کزن کی شادی میں ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہورہے تھے.کنول سارہ جلدی کرو میں گاڑی میں جاکر بیٹھ رہا ہوں. میری بات سن کر وہ دونوں جلدی جلدی باہر نکل آئیں.سارہ(میری کزن) مذاق مذاق میں کنول کی تعریفیں کرکے مجھے چھیڑتی رہی تھی جبکہ میں جان بوجھ کر پورا راستہ کنول کو مکمل نظرانداز کرتا گیا تھا. میں شروع ہی سے ایسا تھا خشک طبیعت کا مالک.مجھ سے یہ سب فلمی ڈائیلاگ نہیں بولے جاتے تھے. شادی پر سب نے اس کی بہت زیادہ تعریف کی تھی مگر واپسی پر بجھی بجھی سی کنول یوں لگا جیسے ابھی میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہے. میں نے سر جھٹک کر اس منظر سے فرار ہونا چاہا۔
سنو مجھے گجرے بہت پسند ہیں.پھول بیچنے والے لڑکے کو دیکھ کر موٹر سائیکل پہ بیٹھی کنول نے سرگوشی کے انداز میں بڑے مان سے کہا تھا.میرے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں۔
اگلی بار اس نے دوبارہ فرمائش کی تو میں چڑ گیا تھا. کیا بچوں کی طرح گجرے گجرے کی رٹ لگائی ہوئی ہے عام سے پھول ہیں جو چند منٹ میں مرجھا جاتے ہیں. اس سے بہتر ہے بندہ کھانے کی کوئی چیز خرید لے. میرے برا منانے پہ وہ مرجھا گئی تھی. مان کی ایک اور ڈوری خاموشی سے ٹوٹی تھی۔
وقت مزید سرک رہا تھا…شادی کی پہلی سالگرہ تھی۔۔۔ شام کو جب گھر آیا تو کنول نے پورے کمرے کو سجایا ہوا تھا اور میری پسند کی بہت ساری ڈشیں بنا کر وہ خود بھی تیار ہوئی کھڑی تھی.ہفتہ پہلے اس نے نئی ساڑھی لینے کے بہانے جھوٹ بول کر ان پیسوں سے یہ سب کچھ ارینج کیا تھا۔
کیا فائدہ مل گیا تمہیں یہ سب فضول خرچی کرکے…کونسا ایک سال میرے ساتھ گزار کر تم نے تیر مار لیا ہے. میرا موڈ اچانک سے خراب ہوگیا. وہ جو مجھ سے بہت زیادہ رومانٹک باتوں کی امید لیے کھڑی تھی ہکا بکا رہ گئی تھی. ویسے سچ پوچھیں تو سیرئیسلی مجھے یہ سب بکھیڑے شروع سے پسند نہیں تھے.اچھا چلو کیک تو کاٹ لو. اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا.پہلے جاکر ممی کو مناؤ دو دن سے وہ تم سے شدید ناراض ہے اور تمہیں یہاں ویڈنگ اینورسری منانے کی پڑی ہے۔
میں نہیں جاؤں گی. اس نے نہایت سپاٹ لہجے میں پہلی بار انکار کیا تھا۔
ٹھیک ہے پھر کیک بھی نہیں کٹے گا. میں نے حتمی لہجے میں کہا اور دوسرے کمرے میں چلاگیا۔
میرا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح جاکر سوری کہہ لے گی مگر نہ تو وہ ممی کو منانے گئی اور نہ میرے پاس آئی…میں سارا دن کا تھکا ہارا تھا… اسی وقت سوگیا.رات کو بھوک لگنے کی وجہ سے آنکھ کھلی تو وہ بیڈ کے نیچے سر ٹکائے کپڑے چینج کئے بغیر سورہی تھی. بہت زیادہ رونے کی وجہ سے کاجل اس کی آنکھوں کے نیچے پھیلا ہوا نظر آرہا تھا۔
اب اس بات پہ پتا نہیں کتنے دن موڈ آف رہے گا. میں نے ناگواری سے سر جھٹک کر سوچا تھا. وہ پندرہ دن مجھ سے ناراض رہی تھی پھر آہستہ آہستہ بول چال شروع ہوگئی.یہ ایک اور گرہ تھی جو کنول کے دل میں میرے لیے پڑی تھی.اس کے بعد اس نے آئندہ پھر کبھی اس گھر میں سالگرہ منانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
ان دنوں مجھے لگتا کہ میں سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہوں. کنول کو میری مجبوریوں کا احساس نہیں ہے. وہ صرف اپنے بارے میں سوچتی ہے. شاید اپنی کم مائیگی اور محرومیوں کا غصہ کنول پہ نکال کر مجھے تسکین ملتی تھی.شروع میں ہمیشہ سوری کرنے میں وہ پہل کرتی تھی.اس دن مجھے مناتے ہوئے وہ خود پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
کنول پلیز یہ آنسو اپنے پاس سنبھال کر رکھا کرو. مجھے سخت چڑ ہے عورتوں کے ان جھوٹ موٹ کے آنسو سے.اس نے شرمندگی سے فوراً اپنے آنسو صاف کیے تھے.پھر واقعی وہ میرے سامنے نہیں روتی تھی.اس نے اپنے دکھ سکھ مجھ سےشئیر کرنے بالکل چھوڑ دیے تھے.وقت کے اوراق تیزی سے پلٹ رہے تھے۔

ڈاکٹر مردہ بچی میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ شکر کریں ماں کی جان بچ گئی ہے. بہت زیادہ پیچیدگیوں کی وجہ سے مزید بچے کے چانس بہت کم ہیں. اگر اللہ دینا چاہے تو اس کے آگے دیر نہیں ہے۔
ایک اور تکلیف دہ منظر ابھرا تھا. ڈاکٹر دلاسہ دے کر کب کی جاچکی تھی جبکہ ممی اور میں مردہ بچی کو اٹھائے چور چور نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کیونکہ حمل کے دوران ہم ماں بیٹے نے کنول کو ذہنی ٹارچر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی.ممی کے کہنے پر کہ بیویاں سر پر چڑھ جاتی ہیں میں جان بوجھ کر اس کی کوئی مدد نہیں کرواتا تھا۔ ابھی ڈیلوری میں دو ماہ باقی تھے وہ صبح سے مجھے طبیعت خراب اور بار بار ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا کہہ رہی تھی. جسے میں نے بالکل نظر انداز کردیا تھا۔ ویسے بھی مجھے کہیں جانا تھا اور میں بہت جلدی میں تھا. اوپر چھت پر میرا کچھ سامان پڑا تھا میں نے کنول سے وہ لانے کو کہا. اس نے کہا بھی کہ اس طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ خود جاکر لے آئیں۔
توبہ ایک تو تم عورتوں کے حیلے بہانے مجھے ناگواری بڑبڑاتے ہوئے دیکھ کر وہ خاموشی سے اوپر چلی گئی تھی. پتا نہیں واپس آتے ہوئے اس کا پیر پھسلا یا چکر آیا تھا… وہ وہیں پہ گر پڑی تھی. ہوسپٹل لیکر جاتے ہوئے پورا راستہ میں اسے سناتا گیا تھا دیکھ کر چل نہیں سکتی تھی. میرا وہاں جانا اتنا ضروری تھا. کل باس کے سامنے بےعزتی تو میری ہوگئی. تمہیں اس سے کیا لینا.مگر جب اس کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر نے فوراً آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تب مجھے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا.ہوش میں آنے کے بعد کنول کو تو جیسے چپ سی لگ گئی تھی. کئی ماہ وہ اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکی تھی میری معافی مانگنے کے باوجود وہ کبھی میری اس لاپرواہی کو نہیں بھول سکی تھی.گھر آگیا تھا گاڑی سے نکل کر میں ماضی سے حال میں لوٹ آیا تھا.بیل بجانے پر دروازہ کنول نے کھولا تھا. میرے ہاتھوں میں موتیے کے گجرے دیکھ کر وہ بالکل چونکی نہیں تھی۔
کنول تمہیں پھولوں کے گجرے بہت پسند ہیں ناں دیکھو میں تمہارے لیے لے کر آیا ہوں. میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر گجرے پہناتے ہوئے کہا.وہ خاموشی سے ساتھ چلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
زمان صاحب اب میری پسند تبدیل ہوگئی ہے اس عمر میں مجھے گجرے پسند نہیں ہیں.وہ انھیں کلائیوں سے اتار کر شیشے کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی۔
ہلکی جامنی کلر کی شال اوڑھے آنکھوں کے نیچے بڑھاپے کے اثرات بھرے بھرے جسم والی وہ میری کنول نہیں تھی. جسے میں تیس سال کی خوبصورت لڑکی کے روپ میں چھوڑا کر گیا تھا.پتا نہیں کتنے عرصے بعد میں اسے نظر بھر کر دیکھ رہا تھا.وقت کی دھول نے ہم دونوں کو بالکل اجنبی کر دیا تھا۔
کنول میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو مگر خدارا اس عمر میں آکر ایسا کیوں کر رہی ہو تم؟
ہاں میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی تھی.مرد تو غلطیاں کرتے ہیں مگر قربانی ہمیشہ عورت دیتی آئی ہے.یہی صدیوں سے دستور چلا آرہا ہے. یاد نہیں اللہ نے کتنی دعاؤں کے بعد ریان دیا تھا. میرے لیے نہ سہی کم از کم اپنی اولاد کے لیے تو سوچ لو۔
نہیں آپ سے غلطی نہیں ہوئی آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا تھا.دوسری شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ وہ نہایت سکون سے بولی تھی۔
گناہ نہیں ہے لیکن تم خود سوچو اس کا ریان پہ کتنا برا اثر پڑے گا.لوگوں کی مختلف باتیں سن کر اس کی شخصیت توڑ پھوڑ کا شکار ہوجائے گی.بڑا ہوکر وہ ہم دونوں سے نفرت کرے گا. پلیز اپنے اور ریان یہ ظلم مت کرو۔
ریان بہت سمجھ دار ہے. میں اسے چھوڑ کے کہیں نہیں جارہی بلکہ ہماری زندگی میں صرف ایک فرد کا اضافہ ہونے والا ہے اور نہ ہی میں نے ریان کی ایسی تربیت کی ہے کہ وہ بڑا ہوکر آپ یا مجھ سے نفرت کرے. باقی رہ گئی بات ظلم کی تو پچھلے بارہ سال سے بنا کسی تعلق بنا کسی جذباتی وابستگی کے میں تنہا زندگی گزار رہی ہوں وہ ظلم نہیں ہے کیا؟ اس کے لہجے میں طنز کی کاٹ واضح تھی.
تمہاری ضد اور انا کی وجہ سے مجبور ہوکر میں نے دوسری شادی کی تھی. ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا. اس کے باوجود میں اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے نبھا رہا ہوں. تم علیحدہ گھر میں بنا کسی معاشی تنگی کے آرام و سکون سے رہ رہی ہو.اور تمہیں کیا چاہیے؟اولاد کے لیے عورت کیا سے کیا برداشت نہیں کرتی. ممی کو دیکھ لو انھوں نے بھی تو میری خاطر دوسری شادی نہیں کی تھی۔
میری بات پہ وہ چند ثانیے خاموش ہو گئی اور پھر تلخی سے مسکراتے ہوئے بولی… پتا ہے شادی سے پہلے دوسروں کی طرح میں بھی پھپھو کو بہت عظیم سمجھتی تھی.مگر جب خود پہ گزری تو سمجھ آیا کہ وہ قربانی نہیں بالکل اپنی جائز خواہشات کا گلا گھونٹنا تھا. میں نہیں چاہتی کہ بعد میں اپنی ساری محرومیوں کا بدلہ اپنی بہو سے لوں.ہر بات میں اولاد کو جذباتی طور پہ بلیک میل کروں.یہ قربانی نہیں سیدھا سادھا ظلم ہے جو پہلے خود عورت سہتی ہیں اور پھر بڑھاپے میں اس کی نسلیں بھگتتی ہیں۔
رہ گئی بات انا اور ضد کی تو زمان صاحب زندگی میں کئی موقع ایسے آئے جب مجھے آپ کی ضرورت تھی۔ میں آپ کے کندھے پر سر رکھ کر رونا چاہتی تھی. آپ سے بہت کچھ شئیر کرنا چاہتی تھی. مگر آپ ہمیشہ میرے جذبات میرے احساسات کو دھتکار کر الٹا اسے میری انا اور ضد کا نام دیتے آئے ہیں. حالانکہ یہ انا نہیں صرف بھرم ٹوٹنے کا ڈر تھا۔
وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بول رہی تھی. اس کے اندر بہت زیادہ اعتماد آگیا تھا.
تم اپنے خاندان کی روایات سے بغاوت کررہی ہو. تمہیں کیا لگتا ہے باغی عورت کو معاشرہ قبول کرلے گا.تم دوبارہ ماں نہیں بن سکتی. وقتی طور پر عمران تمہیں اپنانے کو تیار تو ہوگیا ہے مگر بہت جلد اس کا تم سے دل بھر جائے گا. دیکھنا بعد میں تم بہت پچھتاؤ گی۔ میں نے اسے سمجھانے سے زیادہ ڈرانے کی کوشش کی۔
یہ لوگوں کی نام نہاد سوچ ہے.جسے انھوں نے روایات کا نام دے ڈالا ہے.عورت کو قربانی کے نام پر زبردستی مجبور کیا جاتا ہے. حالانکہ اسلام ایسی کسی قربانی کا تقاضا نہیں کرتا. جس طرح آپ کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق ہے ویسے مجھے بھی خلع لیکر دوسری جگہ نکاح کا حق اسلام نے دیا ہے. دنیا بہت وسیع ہے زمان صاحب یہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں. میں اب آگے بڑھنا چاہتی ہوں. ہنسنا چاہتی ہوں تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتی. ہاں میں مانتی ہوں میں زمانے سے بغاوت کررہی ہوں. معاشرہ مجھے باغی عورت کے نام سے پکارے گا۔
مگر جب ہم اکیلے روتے تب معاشرہ ہمارے ساتھ نہیں ہوتا. ہماری سسکیاں ہماری تنہائیاں ہمارا درد لوگ آکر نہیں بانٹتے وہ صرف باتیں بناتے ہیں۔
دوسری بات عمران سے شادی کرکے پچھتانے کی تو گھٹ گھٹ کر جینے کی بجائے میں خود کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہوں. میں جانتی ہوں عمران بہت کھلنڈری طبیعت کا مالک ہے. مگر وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے اسے دوسروں کے ساتھ مل کر ہنسنا آتا ہے. وہ دوسروں کے جذبات کو سمجھتا ہے.ہوسکتا ہے اس بار مجھے پچھتانا نہ پڑے۔
مجھ سے بات کرتے وقت وہ ہمیشہ جھجھکتی تھی پہلی بار وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہی تھی۔
شامیر اکثر کہا کرتا تھا کہ جب عورت گھر بسانا چاہے تو بڑی سے بڑی بات مسکرا کر برداشت کر جاتی ہے اور جب وہ بغاوت پہ اتر آئے تو کوئی مائی کا لال اسے روک نہیں سکتا. اس کی بے خوف باغی آنکھیں دیکھ کر میرے دل کو دھکا سا لگا تھا.مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی تھی.میں اپنے قیمتی سرمائے کو کھو چکا تھا. اس کی حفاظت میں مجھ سے کوتاہی ہوگئی تھی.کوئی اور نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
میرے خیال میں ابھی تم غصے میں ہو.کچھ عرصہ ہم ساتھ رہتے ہیں ہوسکتا ہے کوئی راہ نکل آئے اور تم اپنا ارادہ بدل دو. میں نے نرم ہموار لہجے میں بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
یہ صرف وقتی جوش ہے. بیس سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھ پائے تو چند دنوں میں بھی کچھ نہیں بدلنے والا.بہتر یہی ہوگا کہ باہمی رضامندی سے ہم دونوں اپنے راستے الگ کر لیں۔
ریان نیند سے جاگ گیا تھا. وہ اٹھ کر ناشتہ بنانے چلی گئی تھی۔
بابا آپ آگئے.اچانک مجھے دیکھ کر وہ خوشی سے لپٹ گیا تھا۔
ہاں آپ کے بابا لوٹ آئے ہیں. وہ اب واپس کبھی نہیں جائیں گے. میں اس کے گال چوم کر گھمبیر آواز میں بولا.ناشتے کی مخصوص خوشبو پورے گھر میں پھیلنے لگی تھی۔
شام کو کنول کا بھائی تنویر آیا تو اس کے ساتھ پراپرٹی ڈیلر بھی تھا.یہ گھر کنول کے نام تھا وہ اب اس کو بیچ کر نئی جگہ گھر لینے جارہی تھی.کتنا تکلیف دہ لگتا ہے ناں اس رشتے کو کھونا جن سے برسوں کا ساتھ رہا ہو. محبت تو ہم دونوں کے درمیان تھی صرف اظہار نہیں تھا.میری طرف سے گرمجوشی نہیں تھی. جب دل کا موسم ہمیشہ سرد رہے تو محبت کی کونپل کبھی نہیں پھوٹتی. منجمند تعلق میں بہار کے موسم نہیں آیا کرتے۔
کنول بیسن کے لڈو تو بنا دو؟
میں اس کی آنکھوں میں جھانک کر اپنی پرانی کنول ڈھونڈنے کی کوشش کرتا مگر وہ آنکھیں جن میں کبھی میرا عکس دکھائی دیتا تھا اب غیرشناسا تھیں۔ وقت کا پھیر دیکھیں کبھی وہ میری توجہ کی منتظر رہا کرتی تھی. آج میں اس کی ایک نظر التفات کےلیے ترس رہا تھا۔
چائے کا کپ ختم کرنے میں مجھے گھنٹوں لگ جاتے.مرد عورت کی نفسیات بہت پیجیدہ ہے. عورت محبت کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتی ہے. وہ خدمت اطاعت کے بدلے توجہ، محبت اور اس کا اظہار چاہتی ہے. جبکہ اکثر مرد محبت کا اعتراف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں.اس رشتے کی خوبصورتی ایک دوسرے کی خواہشات احساسات کا خیال رکھنے اور احترام کرنے میں ہے. بلاوجہ کی ضد انا میں صرف دل نہیں گھر تک ٹوٹ جاتے ہیں. مگر جس عمر میں آکر یہ بات سمجھ آتی ہے تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
وہ آہستہ آہستہ گھر کی پیکنگ کر رہی تھی ایک ہفتے بعد اس نے یہ گھر چھوڑ کر نئے گھر میں شفٹ ہوجانا تھا.میں اداسی سے املی کے پیڑ کے نیچے جا کھڑا ہوتا۔ اس گھر میں کنول کی محبت چاہت اور وفا کا لمس تھا.میری طرح پورا گھر عجیب سی سوگواریت اور طویل سناٹے میں ڈوبا ہوا لگتا۔
جن دنوں میں تابی سے شادی کررہا تھا تب کنول اس طرح بولائی بولائی پھرتی تھی. اس کی لال رگڑی ناک آنکھوں کی التجا مجھے اس وقت نظر نہیں آئی تھی.جب خود پہ بیتی تب سمجھ آیا کہ اپنا سرمایہ کسی اور کے سپرد سونپنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے. پتا نہیں کنول نے وہ وقت کس طرح گزارا تھا۔
کیا کروں میں ایسا ہی ہوں جو چیز میرے پاس ہوتی ہے تب اس کی قدر نہیں کرتا. ڈیڈی کو بھی میں نے اس طرح کھویا تھا. ان کی وفات کے بعد مجھے اپنی زیادتیوں کا احساس ہوا تھا. کنول کے ساتھ بھی میں یہی کچھ کرتا آیا تھا. ہمیشہ خود کو حق پہ سمجھ کے کبھی اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے اپنی طرف بڑھتے ہر قدم کو رکھائی سے دھتکار دیا کرتا تھا. اب جب وہ میرے بغیر چلنا سیکھ گئی تو زبردستی اس کے ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنے کی بچوں سی ضد کررہا تھا۔
آج شام اس نے نئے گھر چلے جانا تھا. ایک کپ چائے تو بنادو. میں نے بیوی کی حیثیت سے کنول سے آخری فرمائش کی تھی۔
بہتر یہی ہوگا کہ عدالت جانے کی بجائے آپ اس وقت مجھے خلع کے پیپر پر سائن کردیں۔ کنول نے چائے کا کپ مجھے تھماتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔
پلیز کنول ایک بار سوچ لو…. میں کیسے رہوں گا تم دونوں کے بغیر میں نے اس کےآگے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
آپ تو کب سے ہمارے بغیر رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مشکل تو ہمیں ہوئی تھی. ریان آپ کا بیٹا ہے جب چاہیں مل سکتے ہیں جب چاہیں اپنے پاس بلا سکتے ہیں.باقی رہ گئی میں تو زمان صاحب ہمارے رشتے میں اتنی تلخیاں اور دوریاں آگئی ہے ہم چاہ کر بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے.بہت سارے کانٹے ہیں جنہیں کبھی مل بیٹھ کر چننے کی کوشش نہیں کی گئی.بہت سارے شکوے ہیں جو صرف دل ہی دل میں رہ گئے. جب احساسات سن ہوجائیں روح قرب سے ناآشنا ہوجائے تب جانے والوں کو جانے دیتے ہیں اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنتے. اس نے ساکت وجود کے ساتھ آنسو پیتے ہوئے التجا کی تھی۔
میں شاہد زمان ولد طارق زمان اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔۔۔
میں شاہد زمان دوسری بار کہتے ہوئے میرا سینہ غم سے بوجھل ہوگیا اور آواز بھرا گئی. تیسری بار الفاظ نے ساتھ دینا چھوڑ دیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا. کنول بھی زاروقطار رو رہی تھی….میں شاہد زمان ولد طارق زمان اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں آزاد کرتا ہوں میں نے نظریں اٹھا کر کنول کو دیکھا اس نے غم کی شدت سے آنکھیں بھینچ لی تھیں۔ میں فوراً نظریں جھکا گیا ان دو لفظوں نے اچانک ہمیں محرم سے نامحرم بنادیا تھا اور پھر۔۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجا کر۔۔۔
ختم شد
( تحریر حمنہ قندیل)

حمنہ قندیل کے مذید ناول

دو پل کی دلہن

وہ ہمسفر تھا مگر

پچپن کی منگیتر

کیا وہ سب حقیقت تھی

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *