برے پڑوسی | Urdu Story
پانچویں بار گھر تبدیل کرتے ہوئے بہت ہی شریف طبیعت کے حامل ارشد بھی بول اٹھے۔۔۔
،، حرا پلیز!!! اب یہاں کوئی نیا ہنگامہ کھڑا نہ کرنا میں تھک چکا ہوں روز روز کی شفٹنگ سے۔۔۔ ،،
یہ سن کر حرا تڑپ کے بولی، تو آپ کو کیا لگتا ہے میں خود یہ سب کچھ کرتی ہوں۔۔۔ بس اللہ نے ہمارے نصیب میں جو ایسے پڑوسی لکھ دیے ہیں۔
اچھا چلو ناراض مت ہو۔۔۔ میں ہوٹل سے کھانا لینے جارہا ہوں تم دروازہ اچھے سے بند کر دینا۔ راشد نے جاتے ہوئے کہا۔
جب وہ واپس آیا تو دروازہ جوں کا توں کھلا ہوا تھا جبکہ حرا بڑی گرمجوشی سے کسی سے باتیں کررہی تھی۔
حرا تم نے دروازہ بند نہیں کیا تھا۔۔۔؟ راشد نے اونچی آواز میں کہا۔
اس کی بات سن کر ایک عورت جلدی سے واپس چلی گئی جبکہ حرا بڑی گرمجوشی سے اسے بتانے لگی کہ یہ ساتھ والی پڑوسن تھی کھانے وغیرہ کا پوچھنے آئی تھی۔
خیر دو تین دن تو سامان وغیرہ سیٹ کرنے میں لگ گئے اس کے بعد جیسے ہی اس کا شوہر نوکری کے لئے روانہ ہوتا۔۔۔ حرا ڈیڑھ سال کا علی بغل میں تھامے ہمسائیوں سے ملنے نکل پڑتی۔
اسے نئے لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ دوستیاں کرنے کا بڑا شوق تھا۔ شروع میں تو سب کے ساتھ خوب ملنا ملانا ہوتا مگر پھر آہستہ آہستہ لڑائیاں شروع ہو جاتیں۔
حالانکہ وہ دل کی بہت اچھی تھی، مگر جو چیز اسے بری لگتی وہ فوراً منہ پہ کہہ دیتی۔
دس پندرہ دن کے اندر ہی وہ پورے محلے میں اپنی دکھی داستانیں سب کو سنا چکی تھی۔
شروع میں نئی نئی سٹوریاں سننے کے چکر میں ہر کوئی اس سے ہمدردی کرتا۔۔۔ مگر پھر آہستہ آہستہ سب سمجھ جاتے کہ یہ اتنی مسکین بھی نہیں ہے جتنی بنتی ہے۔
حرا کے گھر کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی فیملی رہتی تھی جس میں ساس بہوئیں بیٹے سب اکٹھے رہتے تھے۔ ایک مہینے کے اندر ہی حرا کے ان سے شدید اختلافات ہوگئے۔
اس دوران عید آگئی اور حالات یہ تھے کہ تقریباً آدھے محلے والوں سے حالات سخت کشیدہ اور وہ خود ذہنی طور پر شدید ڈسٹرب تھی۔
اس کا مسکین سا شوہر شام کو تھکا ہارا گھر آتا اور حرا محلے والوں کے گلے شکوے لیے بیٹھی ہوتی۔ وہ بیچارہ روز کڑوی دوائی کی طرح چپ کرکے سن کے پی جاتا۔
عید والے دن ساتھ والے گھر سے بڑی آنٹی عید ملنے آئی تو حرا پھٹ پڑی کہ کیسے اس کی بہو نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔۔۔ اور آپ نے اسے کچھ کہا بھی نہیں تھا۔
یہ سن کر آنٹی دھیمے انداز میں بولی۔
ہمیں اس گھر میں رہتے ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں مگر ہماری تو آج تک کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی۔
تم مجھے دل کی اچھی لگتی ہو مگر یہ سچ ہے تم نے دوستی بنانے کے چکر میں الٹا سب کو دشمن بنا ڈالا ہے۔
جیسے اس دن تم پورے زوروشور سے مجھے میری چھوٹی بہو کی ماں کے بارے میں بتا رہی تھی کہ وہ کتنی چالاک ہیں یہ ہیں وہ ہیں۔۔۔ اس دن کمرے سے گزرتی میری چھوٹی بہو نے تمہاری ساری باتیں سن لی تھیں۔ اب بتاؤ آئندہ وہ تمہیں سیدھا منہ دے گی۔۔۔؟
تم جب بھی آؤ میری بیٹی کو بار بار کہتی رہتی ہو کہ بیٹیاں اپنے گھروں میں اچھی لگتی ہیں حالانکہ تمہیں معلوم نہیں اس کا شوہر جیل میں ہے۔
کہنے کو تو تمہاری بات سولہ آنے درست ہے مگر اس وقت وہ مجبور اور شدید پریشانی میں ہے۔ الٹا تم اس کی بھابھیوں کو شہ دیتی رہتی ہو۔ اب تم ہی بتاؤ اس کا دل کرے گا کہ تم دوبارہ اس گھر میں قدم رکھو۔
میرے پیٹھ پیچھے تم خوب زوروشور سے میری بہوؤں کے ساتھ مل کر اپنی ساس اور میری برائیاں کرتی ہو، ظاہر ہے دل تو میرا بھی کھٹا ہوتا ہے۔
اس سے مستزاد جب بھی آؤ میرے سب سے بڑے بیٹے کے ساتھ ضرورت سے زیادہ فری ہوجاتی ہو۔ میری بڑی بہو تمہاری شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔
میرے بچے ہر چیز اعتدال میں اچھی لگتی ہے کسی کے ساتھ حد سے زیادہ تعلقات رکھو گی تو یہی کچھ ہونا ہے۔
دوسری بات تم اپنی ہر بات ہر کسی کے ساتھ شئیر کرتی پھرتی ہو۔۔۔ اس سے سب کو پتا چل جاتا ہے کہ تمہاری اپنی کتنی عزت ہے۔۔۔گھر کی باتیں یوں چوراہے میں نہیں اچھالنی چاہیں، کیونکہ چوراہے پہ تماشا دیکھنے والے زیادہ اکھٹے ہوتے ہیں۔
تم اپنے گھر پہ توجہ دو اگر دوستیاں کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے اللہ سے دوستی کرو۔ جو دوستی نبھانے کے لیے سب سے بہترین ہے۔
یہ دن میں چار چار چکر لگانا بھی مناسب نہیں میں نے تو تمہیں گھر میں ٹک کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اس سے تمہارا امیج ہی ہر جگہ خراب ہو رہا ہے۔
تمہاری ماں نہیں ہے اس لیے بیٹی سمجھ کے میں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تم اب مذید گھر بدلو۔
اس لیے بڑی ہوتے ہوئے میں خود تمہیں عید ملنے آئی ہوں، تاکہ تلخیاں کچھ کم ہوجائیں۔
اب ذرا اپنے ہاتھ کی سوئیاں تو چکھاؤ کب سے تمہارے ہاتھ کا پکا کچھ کھایا نہیں ہے۔ آنٹی نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
حرا مسکرا کر سوئیاں لینے چلی گئی کچھ کچھ باتیں واقعی اسے بھی صحیح لگ رہی تھیں۔
مگر سالوں کی عادتیں ایک دن میں تو نہیں بدلنی تھیں۔ لیکن امید بہت ہے کہ اگر آنٹی کا ساتھ رہا تو وہ واقعی بدل جائے گی۔
کیونکہ دل کی تو وہ اچھی ہے ہی۔۔۔
(تحریر حمنہ قندیل)