حمیرا کی عید Urdu Story

حمیرا کی عید | Urdu Story

حمیرا یار اب بس بھی کردو. رات کے تین بجے کچن کی صفائی کرتی حمیرا کو اس کے شوہر نے آکر کہا۔


بس یہی درازیں بچ گئی ہیں صاف کرنی… حمیرا ماتھے کا پسینہ پونجھتے ہوئے بولی۔

اب کل کون آکر تمہاری اتنی گرینڈ صفائی دیکھے گا۔ ایک تو اتنا شدید گرمی ہے دوسرا صبح تم نے جلدی جاگنا بھی ہے کچھ ریسٹ کروگی تو کل کا کام ہوسکے گا. حمیرا کے شوہر کامران نے فکرمندی سے کہا۔


آپ جاکر سوئیں میں پانچ منٹ بعد آجاؤں گی۔ حمیرا نے ٹالنے کے انداز میں کہا۔


سر جھٹکتے وہ واپس آگیا کیونکہ کامران یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جب تک سارا کام ختم نہیں ہوگا حمیرا ایسے کبھی نہیں سوئے گی۔

ہوا بھی یہی سارا کچھ کرتے کرتے اسے صبح کے پانچ بج گئے. اس نے سونے کے لیے سر رکھا ہی ہوگا کہ صبح عید کی گہماگہمی شروع ہوگئی۔

ناشتہ بنا کر ڈیڑھ سالہ ھادی کو تیار کرکے وہ گھر سیٹ کررہی تھی کہ سب عید کی نماز پڑھ کر آگئے۔ میٹھا اس نے رات کو بنا کے رکھ دیا تھا۔

اتنے میں دیورانی کے بچے عید ملنے آگئے۔ ان کے جانے کے بعد اس کے میکے کی طرف سے بھائی اور ان کے بچے پکی ہوئی عید دینے آگئے۔

ان سب کو میٹھا اور دوسری چیزیں دیتے وقت جو برتن استعمال ہورہے تھے وہی ذہن میں گھوم رہے تھے کہ بعد میں انھیں دھونا بھی تھا۔


سب کے جانے کے بعد ابھی وہ نہا کر نکلی ہی تھی کہ گوشت آگیا. اس کو پکاتے بانٹتے باقی فریج میں رکھتے رکھتے شام ہوگئی۔


شام کو وہ بھاگم بھاگ امی کے گھر عید ملنے پہنچی۔ وہاں سے آتے آتے بارہ بج گئے۔ دوسرے دن اس نے اپنے سسرال والوں کی دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔


عید کے تیسرے دن اس کی جیٹھانی کی طرف سے دعوت ہوتی تھی۔ وہاں پر سب کو خوب مزہ آرہا تھا۔۔۔مگر حمیرا شدید تھکی تھکی لگ رہی تھی۔

ٹانگوں کمر میں شدید درد تھا۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے چہرہ الگ مرجھایا ہوا تھا۔

اس نے بہت زیادہ بازار کے چکر لگا کر اپنے لیے سوٹ پسند کیا تھا۔ اس کے ساتھ میچنگ کی جیولری جوتی سب کچھ اپنے حساب سے اعلیٰ قسم کی خریدی تھی۔ کیونکہ اس کی ہمیشہ سے سوچ تھی کہ ہر چیز پرفیکٹ ہونی چاہیے۔

خواہ کھانا پکانا ہو گھر کی صفائی یا پھر کسی چیز کی خریداری کرنی ہو۔۔۔ اسے ہر چیز پرفیکٹ کرنے کا خبط تھا۔

عید پر سب کچھ بہت اچھے سے ہوگیا تھا۔ اس نے دعوت میں سب سے زیادہ چیزیں بنائی تھیں۔ سب نے اس کے ہاتھ کے بنے کھانے اور اتنا زیادہ اہتمام کرنے پر بہت زیادہ تعریف کی تھی۔

مگر پتا نہیں کیوں جب بھی عید قریب آتی اسے خوشی ہونے کی بجائے ٹینشن شروع ہوجاتی تھی۔ اتنا زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ہمیشہ اس کی حالت خراب ہوتی۔

جبکہ اس کے برعکس حمیرا کی جیٹھانی یاسمین بہت زیادہ خوش اور خوب ریلکس ہوکر عید مناتی تھی۔

اسے دیکھ کر حمیرا کو ہمیشہ حیرانی ہوتی تھی۔ دعوت کے بعد یاسمین کے چہرے پر کسی قسم کی تھکن کے اثرات نہیں تھے بلکہ سب کے ساتھ وقت گزار کر وہ بہت زیادہ خوش نظر آرہی تھی۔

سب کے جانے کے بعد برتن اٹھانے میں اس کی مدد کرتے ہوئے یہی بات حمیرا نے اپنی جیٹھانی سے کی۔

بھابھی کسی بھی تہوار پر میں نے آپ کو ہمیشہ خوش دیکھا ہے۔ آپ کو کام کی ٹینشن نہیں ہوتی نہ آپ تھکی تھکی لگتی ہیں۔ مجھے تو ہر عید بوجھ کی طرح لگتی ہے جب تک روٹین کی زندگی شروع نہ ہو جائے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ شادی کے بعد ٹینش اور کام کی وجہ سے میں کوئی بھی عید انجوائے نہیں کرسکی۔

اس کی بات سن کر یاسمین بھابھی مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔

بالکل یہی کچھ میرے ساتھ شادی کے شروع میں ہوتا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ ہر چیز مکمل ہونی چاہیے خواہ شادی کا فنکشن ہو یا کوئی اور تقریب کسی چیز میں جھول نہ رہ جائے۔ اسی پرفیکٹ بننے کے چکر میں پتا ہے کیا ہوتا کبھی میرا میک اپ خراب ہوجاتا۔

کبھی سوٹ میں ٹیلر گڑبڑ کر دیتا۔ سب کچھ اگر مکمل ہوبھی جاتا تو کوئی ایسا مسئلہ آجاتا کہ ساری تیاریاں ٹھپ ہوجاتیں۔

کسی کو بلاتی تو اس بات پہ پورا زور لگا دیتی کہ میرے پکے ہوئے کھانوں میں کسی قسم کی کمہ نہ رہ جائے۔

گھر کے ہر کونے کو خوب رگڑ رگڑ کے صاف کرتی مگر اس کے باوجود کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا جس سے سارا مزہ کرکرا ہوجاتا۔

پھر کسی نے مجھے بہت ہہت ہی خوبصورت بات بتائی جو سیدھی میرے دل میں جاکے لگی وہ یہ کہ پرفیکٹ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ بندہ تو ہے ہی خطا کا پتلا۔

وہ خود کو جتنا پرفیکٹ سمجھے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو بھی وہی لوگ پسند ہیں جو اپنی خطاؤں پہ نادم ہوکر اس کی طرف پلٹتے ہیں۔

پتا ہے حمیرا اس دن کے بعد سے میں پرفیکٹ بننے کے چکروں سے مکمل آزاد ہوگئی ہوں۔

اب کسی کو دعوت دوں تو میری نیت واہ واہ سمیٹنے کی نہیں بلکہ اللہ کی رضا حاصل کرنا اولین ترجیح ہوتی ہے۔

اس سے بڑا فائدہ ہوجاتا ہے کیونکہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود کسی کا تکلیف دہ رویہ اتنا دکھ نہیں دیتا کیونکہ اب نیت جو دوسروں کو خوش رکھنے کی نہیں رہی۔

باقی الحمداللہ ہر چیز کی تیاری بھی کرتی ہوں گھر صاف کرنا یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اب وہ خبط نہیں ہے کہ عید پہ سب کچھ مکمل ہو۔

ہفتہ پہلے ہی سے سب کچھ آہستہ آہستہ کرنا شروع کردیتی ہوں. ساتھ یہ نیت بھی ہوتی ہے کہ ان سب کا اجر اللہ تعالیٰ دیں گے۔

اگر کوئی کمی پیشی رہ جائے تو اتنا کریزی نہیں ہوتی کہ اب کیا ہوگا یا کسی طرح یہ مکمل ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ جو اللہ کو لکھا منظور ہوتا ہے وہی ہمارے حق میں بہترین ہوتا ہے۔

یاسمین بولتی جارہی تھی جبکہ ایک ایک بات حمیرا کے دل میں اترتی جارہی تھی۔

ساتھ اسے ندامت بھی ہورہی تھی کہ واقعی پرفیکٹ بننے کے چکروں میں اس نے کتنی اپنی قیمتی نمازیں ضائع کردیں تھیں۔ جب اللہ کو راضی رکھنے کی نیت نہ ہو تو بھلے آپ جتنا پرفیکٹ بن جائیں مطمئن کبھی نہیں ہو سکتے۔

اور نہ ہی کوئی خوشی انجوائے کرسکتے ہیں۔ یہ عید تو گزر چکی تھی انشاءاللہ اگلی عید وہ بھی خالص اللہ کی رضا کے مطابق منائے گی۔ دل ہی دل میں پختہ عہد کرتے ہوئے اس نے سوچا۔

ختم شد


( تحریر حمنہ قندیل)

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *