زندگی کے وہ کانٹے جو ہمیں خود چننے پڑتے ہیں | Urdu Story
چھٹانک بھر کے نھنھے سے وجود کو کسی نے نرمی سے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا۔ نرم گرم گود کا احساس پاتے ہی بچے نے سکون سے آنکھیں موند لی تھیں۔ یہ ایک بچے اور اس کی ماں کا پہلا تعارف تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ بچہ ماں پہ زیادہ انحصار کرنے لگا۔ کسی اور کی گود میں جاتے ہی وہ دوبارہ اسی مہربان ہاتھوں کے لمس کےلیے ہمکنے لگتا کیونکہ جو محبت اور تحفظ کا احساس ماں کے ساتھ جڑا تھا ویسا اسے اور کہیں نہ ملتا تھا۔ وہ نھنھا وجود کچھ بڑا ہونے لگا تو ماں باپ دادا دادی سب گھروالوں کے بے انتہا پیار اور توجہ کا عادی ہوتا گیا۔۔۔ اس کے بولنے ہنسنے غرض رونے ہر بات کو نوٹ کیا جاتا اور اس پہ ڈھیروں پیار لٹایا جاتا۔ سب کچھ ٹھیک جارہا تھا کہ اچانک اس کے رشتے میں کوئی اور شریک ہوگیا۔ ایک اور نھنھا وجود اس کی چھوٹی سی دنیا میں افتاد بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ وہ ماں جو صرف اس کی تھی اچانک چھن گئی۔۔۔ اس کی توجہ پیار سب کچھ بٹ گیا تھا۔ بچے کے اندر چڑچڑاپن حسد غصہ خودبخود پیدا ہونے لگا۔
اگرچہ اب بھی اس بچے کا دل بہلانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی مگر وہ جو اکیلا محبتوں وارث تھا اب اس میں شراکت داری برداشت کرنا اس کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔
اگرچہ بعد میں بچہ آہستہ آہستہ اپنی چھوٹی بہن یا بھائی کو قبول کرنا شروع کردیتا ہے مگر شروع میں اپنی عمر اپنی سوچ کے حساب سے بچہ جس تکلیف اور اضطراب سے گزر رہا ہوتا ہے اس کا احساس کوئی اور کر ہی نہیں کرسکتا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں آتے ہی خوشیاں غم تکالیف رزق کی طرح ہمارے نصیب میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یہاں پر صرف انسان نہیں بلکہ جنگلوں میں رہنے والے جانوروں تک کو اپنی بقا کی جنگ خود لڑنا لڑتی ہے۔ ہر عمر ہر دور کی مشکلات ایک جیسی نہیں ہوتیں جیسے پچپن کے شدید دکھ بڑے ہوکر کچھ خاص نہیں لگتے بلکہ اکثر یاد آنے پر ہنسی آتی ہے۔
ویسے عمر کے ساتھ ساتھ ہماری پسند ہماری سوچنے کے انداز بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
کچھ اس طرح ہر انسان کے دکھ تکالیف برداشت کرنے کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جو چیز ہماری نظر میں اتنی اہم نہیں ہوتی کسی اور کے لیے وہ زندگی موت کا سوال بنی ہوتی ہے۔ انسان کتنا مظبوط کیوں نہ ہو کبھی کبھی ہم پر اچانک کوئی ایسی افتاد آ پڑتی ہے جس کےلیے ہم بالکل ذہنی طور پہ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ تب ہمیں کسی پل قرار نہیں آتا۔ اندر کی گھٹن اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سانس لینا محال لگنے لگتا ہے۔ ہر طرح کی تسلیاں دلاسے کسی کام نہیں آتے یا تو اس دوران انسان شدید ڈپریشن میں چلا جاتا ہے یا آہستہ آہستہ حقیقت کو قبول کرکے جینا سیکھ لیتا ہے۔
بظاہر کہنے کو بہت آسان ہے کہ آپ صبر کریں مگر جب صبر کرنے کا وقت آتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ اس کا اجر و ثواب اتنا زیادہ کیوں رکھا گیا ہے۔
اس لیے جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سب سے پہلے دماغ اسے قبول نہیں کرتا۔ اور جب دماغ قبول نہ کرے تب یہیں سے گڑبڑ شروع ہوتی ہے سب سے پہلے انسان مایوسی کی کفیت میں چلا جاتا ہے۔ بے بسی کا احساس اتنی شدت سے غالب آجاتا ہے کہ کچھ لوگ خودکشی تک کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں اور کچھ تو یہ انتہائی قدم اٹھا بھی لیتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ پہلے کا دور بہت سادہ ہوا کرتا تھا۔ تب ذہنی مسائل اتنے زیادہ نہیں تھے۔ مگر اب ڈیجیٹل دور ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں غلط صحیح ہر قسم کی معلومات ہمارے ذہن میں منتقل ہورہی ہیں۔ اس سے بھی ہمارا دماغ زیادہ انتشار کا شکار رہنے لگا ہے۔
پہلے کی نسبت اب ہمارا واسطہ زیادہ لوگوں سے پڑتا ہے۔ ان میں سے ہر انسان مختلف مزاج سوچ کا حامل ہے۔ اب لوگوں میں اتنی برداشت نہیں ہے۔ ہر کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔
اس لیے لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنے اور اپنی اپنی مشکلات پہ قابو پانے کا طریقہ ہمیں خود سیکھنا ہوگا۔ ہمیشہ مثبت سوچنے کی کوشش کریں۔ جتنا آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مظبوط ہوگا آپ اتنے ریلکس رہیں گے۔ اپنی صحت اور کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی زندگی میں ترتیب لائیں۔ یہ نہیں انسان مایوس یا دکھی نہیں ہوتا۔ ہم سب انسان ہیں جو ہر کیفیت سے گزرتے ہیں مگر بہت جلد ان سے نکلنے کی کوشش کریں دکھ کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں۔اچھا پڑھیں دیکھیں اور سنیں۔ خود کو موٹیویٹ کرتے رہیں۔ جب تک آپ خود ڈپریشن سے نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک مایوسی احساس کمتری اور بہت ساری الجھنیں آپ کا پیچھا کرتی رہیں گی۔
اس کے ساتھ کوشش کریں آپ ایسے دوست بنائیں جو آپ کے ساتھ دل سے مخلص ہوں۔
کیونکہ کچھ لوگ صرف تنقید کے عادی ہوتے ہیں ان لوگوں کے ساتھ رہنا خود کو کنویں میں گرانے کے مترادف ہے۔ وہ الٹا ہماری صلاحیتوں کو اپنی تنقید کی بدولت دبا دیتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے ساتھ رہیں جو اچھی سوچ اور آگے بڑھنے کی لگن رکھتے ہوں۔
یاد رکھیں خوشیوں کا تعلق پیسے دولت یا کسی کی محبت پالینے سے منسلک نہیں ہے۔ یہ سچ ہے پیسے بہت سے مسائل حل کرتا ہے مگر بہت دولت والے آپ نے غم زدہ اور دکھی دیکھے ہوں گے۔ ان سب جمع تفریق سے باہر نکل آئیں۔ کیونکہ خوش رہنا ایک آرٹ ہے یہ فن ہر کسی کو نہیں آتا۔
ایک چیز جو میں نے میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ کہ کسی چیز کی کمی یا محرومی آپ کو متحرک رکھتی ہے اگر سب کچھ مل جائے تو بہت جلد آپ اپنی زندگی سے اکتا جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مشن رکھیں۔ ہمیشہ خود کو مصروف رکھیں۔ جتنا آپ مصروف رہیں گے اتنا ڈپریشن سے دور رہیں گے۔
آپ خود محنت کریں اور اپنے شوق اور دلچسپی کو مدنظر رکھ کر کریں کیونکہ جو عزت دولت اپنی محنت سے حاصل کی جائے اس کا سرور ہی کچھ الگ محسوس ہوتا ہے۔
باقی اگر سب کوششوں کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہورہا تو سورت بقرہ کی یہ آیت نہ صرف پڑھ لیا کریں بلکہ ان آیات پہ مکمل یقین بھی رکھیں۔
ترجمہ : ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو ، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ، تم محض بے خبر ہو ۔
اگر یہی بات دل میں بیٹھ جائے تو یقین کریں 80 فیصد آپ کی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی اور آپ پرسکون زندگی گزارنے کا راز پالیں گے۔
( تحریر حمنہ قندیل)