لڑکیاں گھروں سے کیوں بھاگ جاتی ہیں | Urdu Story
یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل کا دور نہیں آیا تھا۔ بڑے سے بڑا کسی خوشحال گھرانے میں پی ٹی سی ایل فون ہوا کرتا تھا۔
مومنہ اور ریحانہ آپا ایک ہی محلے میں رہتی تھیں، اگرچہ دونوں کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔۔۔ مگر ان کے تعلقات بہنوں جیسے تھے۔
مومنہ کی سترہ سالہ بیٹی مہرالنساء اور ریحانہ کی بیٹی دونوں ہم عمر تھیں۔ وہ دونوں بھی پکی سہیلیاں تھیں۔ میٹرک دونوں نے محلے کے سکول میں اکھٹے پاس کیا۔ فاطمہ نے کالج شہر میں داخلہ لے لیا خواہش تو مہرالنساء کی بڑی تھی کہ وہ کالج میں پڑھے۔۔۔ مگر اس کی اماں نے اسے سلائی سنٹر میں بھیج دیا تاکہ وہ کوئی ہنر وغیرہ سیکھ جائے۔
چونکہ مہرالنساء کے ابو پچپن میں فوت ہو گئے تھے۔۔۔ بھائی وغیرہ کوئی تھا نہیں اس کی اماں کے بقول لڑکیوں کو اکیلا بھیجنا مناسب نہیں ہے۔ فاطمہ کو اس کا بھائی موٹر سائیکل پہ لے جاتا تھا۔ اس لیے اس کے کالج جانے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔
مہرالنساء مزید پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔ اسے سلائی وغیرہ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ پچپن سے اماں کو یہی کام کرتے دیکھ دیکھ کر اسے شدید کوفت ہوتی تھی۔
اماں نے محلے والوں کے کپڑے سی سی کر گھر چلایا تھا۔ اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ مہرالنساء بھی یہی اب کچھ سیکھ جائے تاکہ مشکل وقت آنے پر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
قصہ مختصر مہرالنساء راستے میں کریانے کی دکان پر بیٹھے ایک لڑکے کے ساتھ دوستی کرلیتی ہے۔ دونوں میں خط و کتابت کا سلسہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی اماں کو کسی طرح شک ہوجاتا ہے وہ مہرالنساء کی غیر موجودگی میں خط ڈھونڈ کر پڑھ لیتی ہے۔۔۔ جب اسے پتا چلتا ہے کہ محلے کے سب سے زیادہ لفنگے لڑکے نے اس کی پھول سی بیٹی کو پھنسا لیا ہے تو مومنہ کا دل کرتا ہے جاکر لڑکے کا منہ نوچ لے۔
خط میں دونوں نے گھر سے بھاگنے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا ہوتا ہے۔
مہرالنساء سلائی کڑھائی سے سخت بیزار لگتی ہے اس کی نظر میں اماں اس ہر ظلم کررہی ہے۔۔۔ جبکہ لڑکا اس کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اسے اس مشکل سے نکالنا چاہتا ہے۔
خط پڑھ کر مومنہ ویسے کے ویسے رکھ دیتی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ مومنہ کی سلائی سنٹر سے چھٹی کرادیتی ہے۔ دوسرا اس کی ذہن سازی کرنا شروع کر دیتی ہے کہ اس کی بیٹی جہاں چاہے گئی وہ اس کی مرضی سے شادی کرے گئی۔ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ عزت سے ماں باپ کو بھیجتا ہے ایسے کسی کو بھگا کے لے جانے والے لڑکے دھوکے باز ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مومنہ نے کہیں سے بھی بیٹی کو ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کے خط پڑھ چکی ہے۔
اگر لڑکا واقعی شریف ہوتا تو مومنہ اس سے مہرالنساء کی شادی کا سوچ بھی لیتی۔
ادھر مہرالنساء خوش ہوکر جب اسے ماں باپ کو رشتہ بھیجنے کا کہتی ہے تو لڑکا آئیں بائیں کرنے لگتا ہے۔
مومنہ ان لڑکیوں سے رابطہ کرتی ہے جن سے لڑکے کی پہلے دوستیاں تھیں۔ پھر فاطمہ کی مدد سے وہ لڑکیاں مہرالنساء کو ملتی ہیں اور باتوں باتوں میں اس لڑکے کی بیوفائی کی داستانیں سنانا شروع کر دیتی ہیں۔
ان کی باتیں سن کر مہر النساء کو ہوش آتا ہے کہ وہ کتنی سنگین غلطی کرنے جارہی تھی۔ وہ آئندہ سے اس لڑکے کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے ختم کردیتی ہے۔
کچھ عرصے بعد اس کی اماں مناسب رشتہ دیکھ کر مہرالنساء کی شادی کردیتی ہے۔
آج کے دس سال پہلے اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج پاس بیٹھے ہوئے بھی ماؤں کو پتا نہیں چلتا کہ ان کی بیٹی کس سے موبائل پہ چیٹنگ کررہی ہے۔ پہلے زبردستی کرنے سے لڑکیاں دب جاتی تھیں مگر اب وہ دور نہیں رہا۔
میرے خیال میں زیادہ آزادی اور بہت زیادہ پابندی دونوں مناسب نہیں ہیں۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بیٹی کو اتنا اعتماد دے اگر کچھ ہو تو وہ بنا جھجک ماں سے اپنی فیلنگ شئیر کرسکے۔
جب میں کسی لڑکی کے گھر سے بھاگنے کا سنتی ہوں تو مجھے اس سے نفرت کی بجائے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ عمر ہوتی ہی ایسی ہے۔ مناسب رہنمائی نہ ملنے پر بچیاں بہک جاتی ہیں۔ اس وقت تو نیا نیا پیار ہوتا ہے بعد میں بیچاری پوری زندگی کےلیے ذلیل کی جاتی ہیں۔۔۔ نہ انھیں سسرال شوہر سے عزت ملتی ہے نہ میکے سے۔۔۔ ماں باپ کو چاہیے اپنی بیٹیوں کو اتنی عزت اور احترام دیں کہ انھیں یہ سب کچھ باہر نہ ڈھونڈنا پڑے۔
بعض خاندانوں میں یہ روایت ہوتی ہے کہ شادی خاندان سے باہر نہیں کرنی خواہ بچیاں بوڑھی ہوجائیں یا بنا جوڑ کے شادی کردینی ہے۔ ان حالات میں کچھ بغاوت کرجاتی ہیں۔۔۔ دوسرا مستقبل بنانے کے چکر میں لڑکی لڑکے کی شادی نہیں کرنی۔کچھ بچے واقعی ایسے ہوتے ہیں جو پڑھ لکھ کر کچھ نہ کچھ بننا چاہتے ہیں۔ باقی جنہیں کوئی دلچسپی نہیں انھیں زبردستی کرنے کی بجائے مناسب رشتہ دیکھ کر شادی کردینی چاہیے۔ تاکہ وہ مزید بری سرگرمیوں میں پڑنے کی بجائے ذمہ داری اٹھانا سیکھیں۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ جو بچیاں بلاوجہ بغاوت کرجاتی ہیں شروع میں تو ہر چیز بہت حسین لگتی ہے مگر یہ چند دن کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ بعد میں ساری دلکشی ختم ہو کے حقیقی زندگی شروع ہوتی ہے۔ ماں باپ کی بددعائیں لیکر سکون کبھی نہیں ملتا خواہ آپ جتنا خوش ہونے کا دعویٰ کریں۔
جوان بچیوں کے گھر سے بھاگ جانے کی جو اذیت والدین کو ملتی ہے اس کا احساس آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ اپنی بیٹی کو دیکھتے ہیں۔
!!!میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا دن کسی ماں باپ کو نہ دکھائے ساتھ والدین کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
( تحریر حمنہ قندیل)