میرے پچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن

میرے پچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن

یہ کیلے کھائیں ناں پلیز میزبان خاتون نے بڑی گرمجوشی سے کہا۔
ارے بہن خوامخواہ تکلف کیا میرے بچے تو بالکل نہیں کھاتے سائرہ عاجزی سے بولی۔
لیکن امی ہم تو شوق سے کھاتے ہیں آپ لا کے دیتے ہی نہیں۔ منچلے بیٹے نے فوراً کہا۔۔۔ جبکہ سائرہ کی حالت دیکھنے والی تھی۔
یہ کل ہی اس کے شوہر دو درجن کیلے لے کر آئے تھے مجال ہے جو کسی بچے نے منہ لگایا ہو۔ سائرہ دل ہی دل میں بیچ و تاب کھا کے رہ گئی۔
مہمانوں کے لیے کولڈ ڈرنک سب کو دی جارہی تھی نائلہ کا چار سالہ بیٹا چپکے سے ماں کے کان میں تین بار جاکر کہہ چکا تھا امی مجھے بھی پیپسی چاہیے۔
نائلہ نے گھور کے دیکھا اور نہایت دھیمے لہجے میں بولی ہماری طرف آرہے ہیں ناں تھوڑا صبر کرو۔
تھوڑی دیر بعد بچے نے زور سے چیخ کر کہا مجھے پیپسی چاہیے۔ سب نے بچے کی طرف مڑ کے دیکھا۔ بوتل تقسیم کرنے والے نے بھاگ کر سب سے پہلے بچے کو گلاس تھمایا۔ جبکہ نائلہ کے چہرے پر ایک شرمندہ سی مسکراہٹ تھی۔
رباب کے چاروں بچے جہاں بھی جائیں انھیں فوراً بھوک لگ جاتی ہے وہ بیچاری کہیں جانے سے پہلے بچوں کو خوب کھلا پلا کے جاتی ہے۔
مگر کوئی نہ کوئی بچہ میزبان کے سامنے بھوک کا تزکرہ لازمی کرتا ہے۔ اگر کھانا پیش کیا جائے تو تھوڑا سا چکھ کے بس پیٹ بھر گیا ہے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔
ایک کزن بتا رہی تھی ایک بار وہ کسی کے گھر گئے انھوں نے دہی بھلے کھلائے اگلی بار میری چھ سالہ بیٹی بار بار میرے کان میں آکر کہتی امی آنٹی دہی بھلے کب کھلائیں گئیں…؟؟؟
اتنے میں آنٹی نے سن لیا اور فوراً اپنے بیٹے کو دہی بھلے لینے دوڑایا۔ وہ کہہ رہی تھی اس دن تو اس کی بیٹی نے مجھے شرمسار کرادیا۔
بچے تو بچے ہوتے ہیں آپ بھلے جتنا کنٹرول کریں انھوں نے اپنا پچپنا دکھانا ہوتا ہے۔ مزے کا سین اس وقت بنتا ہے جب آپ کسی کے بچوں کے بارے میں بڑے زور و شور سے برائیاں کررہے ہوتے ہیں اس دوران آپ کے اپنے بچے سب کے سامنے کوئی بدتمیزی یا شرارت کردیتے ہیں۔
آپ اپنے بچوں کو لڑاکا یا بدتمیز نہ بنائیں لیکن انھیں سمجھدار بنانے کے چکر میں ان کی معصومیت مت چھینیں۔ بعد میں انھوں نے سمجھدار تو ہو ہی جانا ہے لیکن یہ پچپن کی حسین یادیں ہی ہوتیں ہیں جسے بعد میں وہ قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔۔۔ اکثر اپنا پچپن یاد آتے ہی چہرے کی مسکراہٹ خودبخود لوٹ آتی ہے۔ پرانی یادیں تازہ کرنے کا مزہ ہی اور ہے۔ آپ بھی انھیں ایسا پچپن دیں کہ بعد میں وہ بھی ہماری طرح کہ سکیں کہ
،، میرے پچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن،،
(تحریر حمنہ قندیل)

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *