وہ ہمسفر تھا مگر | Urdu Afsanay
!!! وہ ہم سفر تھا مگر
ایمن ابھی ایم ایس سی کر رہی تھی کہ اس کا رشتہ پکا ہو گیا جس یونیورسٹی میں وہ پڑھتی تھی وہاں کی وائس چانسلر صدف کو ایمن اتنا زیادہ پسند آئی کہ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے ہاں کرا کے ہی دم لیا۔
ویسے تو مالی لحاظ سے ایمن کے گھر والے بھی اچھے خاصے خوشحال تھے.مگر ایمن کے سسرال کا شمار بہت ہائی کلاس میں ہوتا تھا۔۔۔ایمن کا منگیتر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا۔وہ زیادہ تر بیرون ملک رہتا۔
شادی سے پہلے وہ ایک بار پاکستان آیا تھا وہ بھی ایمن کے گھر والوں کے بے حد اصرار پر. ایمن نے تصویروں میں اسے دیکھا وجیہہ صورت لمبا چوڑا بھورے بالوں والا سٹائلش سا ڈاکٹر فرقان… اعتراض والی کوئی بات تھی ہی نہیں۔
ایم ایس سی کے فوراً بعد اس کی شادی ہوگئی. فرقان نے منہ دکھائی میں اسے نئے ماڈل کی گاڑی دی. جس کی دھوم ایمن کے رشتہ داروں میں دور دور تک سنی گئی تھی۔
شادی کے فوراً بعد دونوں گھومنے پھرنے مختلف ممالک چلے گئے.فرقان کو بچے بالکل پسند نہیں تھے اس بات کا اظہار اس نے شروع ہی میں کر دیا تھا. ایمن نے اس بات کو اتنا سیریس نہیں لیا تھا کیونکہ بہت سے مرد شادی کے شروع میں ذمہ داری اٹھانے سے گھبراتے ہیں… وہ بھی اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا چاہتا تھا۔
کچھ لڑکیاں بہت زیادہ شوق و چنچل قسم کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ بہت زیادہ سادہ مزاج کی ہوتی ہیں.ایمن ان میں سے ایک تھی بہت کم گو خاموش طبیعت کی حامل ۔۔۔
اس کے برعکس فرقان بہت زیادہ کھلے ڈھلے ماحول کا عادی تھا. روز پارٹیاں کرنا… ہر قسم کی نیچر کے دوست پھر اکٹھے میوزک ڈانس..۔ عام سی بات سمجھی جاتی اس کے دوستوں کی بیگمات بھی اسی قسم کی تھیں۔
وہ سب خوب انجوائے کرتے.جبکہ ایمن کو یہ سب بہت بیہودہ سا لگتا.جس کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ بہت زیادہ ایڈجسٹ نہیں ہوسکی تھی.شروع میں فرقان اس قسم کی پارٹیوں میں جانے کی زبردستی کرتا ان کے اختلافات بھی یہیں سے شروع ہوئے تھے. مگر جب اس نے دیکھا کہ ایمن سے یہ سب نہیں ہوسکتا تو اس نے کہنا چھوڑ دیا.اس کی اپنی کولیگ ڈاکٹر روزی کے ساتھ بہت زیادہ انڈرسٹینڈنگ تھی وہ اسے ساتھ لیکر جانے لگا. اس نے ایمن کو ہر قسم کی آزادی دی ہوئی تھی.شاپنگ کرنے یا کہیں آنا جانا ہوتا تو وہ خود ڈرائیو کر کے چلی جاتی. اسے کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
شروع میں وہ اسے ٹائم دینے کی کوشش کرتا آہستہ آہستہ وہ اتنا مصروف ہوتا گیا کہ ہفتہ ہفتہ وہ اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتی. جب تک ساس زندہ رہی ایمن نے رشتہ نبھانے کی پوری کوشش کی.ان کی وفات کے بعد حالات یہ تھے کہ شادی کے دس سال بعد بھی فرقان بچے بالکل نہیں چاہتا تھا.ماں کی وفات کے بعد اس نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ایمن کے ساتھ اس کی ساتھ انڈر سٹینڈنگ بالکل نہیں ہوسکی ہے.ماما کی وجہ سے وہ چپ تھا۔
لیکن اب وہ روزی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے پوری طرح سے سیریس ہے.چونکہ دونوں ایک ہی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں تو دونوں کی پسند ناپسند بھی تقریباً یکساں ہے۔
اب ایمن پر منحصر تھا کہ وہ یہاں رہنا چاہتی ہے یا خلع چاہتی ہے۔
اس کے شوہر اور روزی میں اس قدر نزدیکیاں آ چکی تھیں جب فرقان نے اسے یہ بات کہی وہ اتنا زیادہ چونکی نہیں تھی بلکہ خاموش ہو گئی تھی. ماں کی وفات کے تین دن بعد فرقان یہاں سے چلا گیا تھا۔
پہلے ساس ہوتی تھی تو اتنا زیادہ اکیلے رہنے کا مسئلہ نہیں تھا.جیسے تیسے کرکے اس نے کچھ عرصہ تنہا گزارا.مگر کب تک کبھی کبھی تو اسے نوکروں گارڈز سے ڈر لگنے لگتا کیونکہ سب کو یہ بات معلوم تھی کہ چھ مہینے سے اس کا شوہر ایک بار بھی گھر نہیں آیا ہے۔
پہلی بار اس نے اپنے بھائیوں کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا. میکے میں سب اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو اتنے بڑے گھر میں شاہانہ زندگی گزار رہی ہے.
ظاہری بات ہے امی ابو کی وفات ہوچکی تھی.سب بہن بھائی شادی شدہ اور اپنے گھروں میں سیٹل تھے بھابھیاں کہاں برداشت کرتیں۔
اسے ایک بار دوبارہ فرقان سے نباہ کرنے کی کوشش کا مشورہ دیا گیا.کیونکہ اگر وہ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی اکثر پیسے والے مرد کرتے رہتے ہیں.
گھر آکر اسکی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی فرقان کو فون کرنے کی…کیونکہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنی بقا کے لئے وہ اس سے کس قسم کی بھیک مانگے…مگر اس کا مسئلہ خود فرقان نے فون کرکے حل کردیا۔
ایمن میں نے اور روزی نے شادی کرلی ہے.اب ہم دونوں نے مستقل پاکستان شفٹ ہو کے اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا ہے. میں طلاق کے کاغذات بنوا رہا ہوں میرا خیال ہے تمہیں اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینے کا حق ہے مما نے اپنی پسند کے چکر میں ہم دونوں پر ظلم کیا تھا.امید ہے علیحدگی کے بعد تم یہ گھر چھوڑ دوں گی. تمہارے جانے کے بعد ہم دونوں پاکستان آئیں گے یہ سن کر ایمن کا دل چاہا کہ وہ گڑگڑا کر اس کی منتیں کرے.اسے طلاق نہ دینے کے واسطے دے. مگر نہ جانے اس ٹائم اسے کیا ہوا وہ ایک لفظ بھی نہ بول پائی اور خاموشی سے کھڑی رہی۔
طلاق کے بعد سب سے چھوٹے بھائی نے اسے اپنے گھر میں رکھنے کا فیصلہ کیا…ایک تو آبائی گھر اس کے حصے میں آیا تھا…دوسرا اس کی شادی کو ابھی تین سال ہوئے تھے۔
باقی دو بھائیوں کی اولاد جوان ہونے والی تھی. ان کی بیویاں گھروں میں اتنے قدم جما چکی تھیں کہ انہوں نے واضح الفاظ میں طلاق شدہ نند کو اپنے پاس رکھنے سے صاف انکار کردیا۔
ایمن اور اس کے چھوٹے بھائی خرم کی آپس میں شروع ہی سے بہت زیادہ بنتی تھی.کیوں کہ بڑے بھائی شادی کے کچھ عرصہ بعد علیحدہ ہوگئے تھے۔ جبکہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے ایمن اور خرم دونوں امی ابو کے ساتھ رہے تھے۔
اس کے ماں باپ کا کمرہ اب گیسٹ روم کے لیے استعمال ہوتا تھا.اسے وہی خالی کرکے دے دیا گیا.چھوٹی بھابھی شبانہ کا موڈ اسے دیکھتے ہی خراب ہو گیا. ایمن کو شادی کے بعد مالی پریشانی کبھی نہیں آئی تھی…اتنا عالیشان گھر…نوکر چاکر…مہنگے مہنگے برینڈز کے کپڑے غرض کسی چیز کی کمی نہ تھی.مگر یہاں آکر اسے محسوس ہوا جیسے وہ عرش سے فرش پر آگری ہو…اے سی کے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی… بھائی کے کمرے میں تو اے سی تھا مگر اپنے لئے اس نے سختی سے منع کردیا۔
ہر چیز میں بھائی بھابھی کی محتاجی آگئی… اس کے سابق شوہر نے طلاق دیتے وقت گاڑی منہ مانگی رقم اور فلیٹ کی آفر کی تھی۔
مگر اس کی انا آڑے آگئی تھی اس نے اور اس کے بھائی نے کسی قسم کی کوئی چیز لینے سے سختی سے انکار کر دیا تھا۔
مالی پریشانی تو وہ برداشت کر لیتی.لیکن اس کے بعد خاندان والوں کی باتوں کا جو طوفان اٹھا وہ ایمن کےلیے شدید کرب کا باعث تھا۔
کوئی کہتا بچے نہیں ہو رہے تھے اس وجہ سے طلاق ہوئی ہے.کوئی کہتا اس میں سارا ایمن کا قصور ہے شادی کے بعد بیوی کو شوہر کی پسند نا پسند کے مطابق چلنا پڑتا ہے. ایمن نے خود اپنے رشتے کو خراب کیا ہے…غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ مرد جتنا قصور وار ہو الزام ہمیشہ عورت پہ لگتا ہے۔
ایمن خود ایک صدمے سے گزر رہی تھی دوسرا لوگوں کی باتوں نے اسے ڈپریشن کا مریض بنا دیا۔
اس نے باہر نکلنا بالکل چھوڑ دیا.خود کو صرف ایک کمرے تک محدود کر لیا۔
سارا سارا دن اسے ہول اٹھتے رہتے.یوں لگتا جیسے طلاق لیکر اس نے بہت بڑی غلطی کر دی ہو.شادی کے شروع کے حسین لمحے پچھتاوے کی صورت میں یاد آتے.اسے خود سے نفرت ہونے لگی.کاش وہ فرقان کی پسند کے مطابق خود کو ڈھال لیتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے.یا طلاق کے وقت وہ اس کے قدموں میں گر جاتی تو شاید فرقان طلاق کا ارادہ ملتوی کردیتا۔
ہر کوئی اسے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتا… دن بدن اس کی صحت گرتی گئی کھانے پینے کا کوئی ہوش نہ رہا۔
ایمن کو لگتا طلاق ملنے کے بعد اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے… طلاق شدہ عورت کو ہر کوئی برا سمجھتا ہے… اسے معاشرے میں وہ مقام کبھی نہیں مل سکتا۔ رات کو اٹھ اٹھ کر وہ چیخنا شروع کر دیتی۔
اس کا چھوٹا بھائی پوری طرح کوشش کرتا کہ کسی طرح ایمن اس حقیقت کو قبول کر لے.مگر ایمن کی حالت مزید خراب ہوتی گئی۔
خرم زبردستی اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا کیونکہ کوشش کے باوجود تسلی دلاسے کچھ بھی اس پر اثر نہیں کر رہے تھے… اسے لگا شاید علاج سے یہ کچھ بہتر ہو جائے گی۔
ڈاکٹر کے سامنے ایمن بالکل خاموش رہی تھی… خرم نے اس کی شادی طلاق اس کے بعد کے حالات کے بارے میں تفصیل سے ڈاکٹر کو بتایا۔
ڈاکٹر زرینہ کو شاید اللہ تعالی نے بنایا ہی دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تھا یا اس شعبے سے تعلق کی وجہ سے وہ ایسی تھیں…کچھ عرصہ وہ اسکا علاج کرتی رہیں ساتھ ساتھ وہ ایمن کو سمجھاتی بھی تھیں.دیکھو ایمن طلاق شدہ ہونا کوئی بہت بڑا جرم نہیں ہے. تمہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زندگیوں سے ایسی بہت ساری مثالیں ملیں گی… ان کی آپس میں نہ بنتی تو وہ طلاق کے ذریعے علیحدہ ہو جاتے تھے.یہ سچ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے. مگر یہ حرام نہیں ہے…اس لئے تاکہ اگر کسی کی آپس میں نہیں بنتی تو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے کی بجائے باہمی رضامندی سے علیحدہ ہو جائیں.تمہیں تو شکر کرنا چاہیے کہ تمہاری بچے نہیں ہیں… جن کی وجہ سے تم مزید مشکل زندگی گزارتی۔
ایمن کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں بہت برے لگتے ہیں…بعد میں ان میں سے ایسی بہتری نکلتی ہے کہ ہم خود دنگ رہ جاتے ہیں. تم خود سوچو اگر وہ طلاق نہ دیتا تو کونسا تم اس کے ساتھ ایک نارمل زندگی جی رہی تھی.یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ طلاق شدہ عورت کو قاتل سے بڑا مجرم گردانتے ہیں.تم اپنے آپ کو دیکھو وہاں تمہاری زندگی رکی ہوئی تھی…مگر طلاق کے بعد تم نے اس نے اسے بالکل منجمد کر دیا ہے.اپنے آپ کو مصروف رکھو ماشاءاللہ سے پڑھی لکھی ہو مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا.تمہیں تو آرام سے کہیں پر جاب مل جائے گی اس طرح تو تم کسی پر بوجھ نہیں بنو گی۔
اگر اللہ نے چاہا تو کوئی قدر کرنے والا تمہیں اپنا لے گا. فی الحال تو اس بھنور سے نکلو جس میں تم نے خود اپنے آپ کو پھنسایا ہوا ہے۔
کچھ ڈاکٹر زرینہ کی وجہ سے اور کچھ خاندان والوں کے لئے لئے یہ ٹاپک پرانا ہو گیا تھا اب ان کی باتیں بھی کم ہو گئیں تھیں… ایمن آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹنے لگی… اکثر وہ بھابھی کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا لیتی.خرم کا ڈیڑھ سال کا بیٹا حدید ایمن کی زندگی میں بہار کا جھونکا تھا.اس نے جاب کیلئے کئی جگہوں پر اپلائی کیا ہوا تھا ایک جگہ بہت اچھی آفر آ گئی تو اس نے وہاں پر ملازمت شروع کردی.جب پیسے آنا شروع ہوئے تو اس نے اپنی ضرورت کی چیزیں خود لینی شروع کر دیں.کچھ زیور اس کے پاس تھا. انہیں بیچ کر قسطوں پر اپنے لئے گاڑی بھی لے لی۔
اس کے بڑے دونوں بھائیوں کے پاس گاڑیاں تھیں. خرم کی شادی اور جاب دونوں کے اوائل تھے اس لئے اس کے پاس صرف ایک بائیک تھی۔
جب گھر میں گاڑی اور ڈبل آمدن آنا شروع ہوئی تو شبانہ بھابھی کا موڈ بھی ٹھیک ہو گیا. ایمن کی وجہ سے گھر میں آسائشیں آنا شروع ہو گئی تھیں… شام کو کہیں گھومنے پھرنے کے لیے ایمن زبردستی بھائی بھابھی کو اپنی گاڑی میں بھیج دیتی تھی۔
حدید کو اکثر وہ خود سنبھال لیتی.ایمن کے پہلی بار گھر آنے پر شبانہ بھابھی کو بہت زیادہ اندیشے تھے۔ سب کہتے آمدن کم ہے کیسے اس کا خرچہ چلاؤ گئے؟
طلاق شدہ بہنیں بھائی کے کان بھر کر بھاوج کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں… مگر ایمن نے ان ساری باتوں کو غلط ثابت کر دیا تھا. الٹا اس کے آنے سے شبانہ کو بہت زیادہ بچت ہو گئی تھی. پہلے چھوٹے بچے کے ساتھ گھر کو اکیلے سنبھالنا پڑتا تھا…اب نہ صرف جاب سے واپس آنے کے بعد حدید زیادہ تر ایمن پھپھو کے پاس رہتا تھا…بلکہ گھر کے کام کےلیے ایمن نے ماسی بھی رکھوا دی تھی۔
ویسے بھی ایمن کی کسی کی زندگی میں مداخلت کرنے والی فطرت تھی ہی نہیں… اس کی اچھائیوں نے شبانہ کا دل جیت لیا۔
اب تو بھائی سے زیادہ ان دونوں میں دوستی ہوگئی تھی. دل ہی دل میں ایمن خرم اور بھابھی کی بہت زیادہ احسان مند رہتی تھی.کیونکہ مشکل وقت میں انھوں نے سب سے زیادہ ساتھ دیا تھا.اس دوران رشتے بھی آتے رہے کوئی طلاق شدہ ہوتا کوئی بچوں والا تو کوئی دوسری شادی کا خواہاں ہوتا، مگر ایمن انکار کرتی رہی.تین سال بعد بہت ہی اچھے گھرانے سے ایمن کےلیے بہت مناسب رشتہ آیا… خرم اور شبانہ بھابھی نے زبردستی اسے اس رشتے کےلیے راضی کیا. شادی کے وقت وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی. مگر بعد میں سارے اندیشے ختم ہو تے گئے. اس کا شوہر قاسم ڈاکٹر فرقان کی طرح بہت امیر کبیر تو نہیں تھا…مگر پھر بھی اچھا خاصا خوشحال گھرانہ تھا.شروع کے ایام میں دونوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگا اور کچھ غلط فہمیاں بھی ہوئیں… مگر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوتا گیا۔
اس کی دوسری شادی پہ بھی لوگوں نے بہت باتیں بنائی تھیں. مگر جب اللہ نے پھول سی بیٹی سے نوازا تو سب کو چپ لگ گئ.جب پہلی بار اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ خوشیاں پیسوں سے نہیں ملتیں۔
فرقان کا ساتھ تو محض ایک فریب تھا.زندگی کو حقیقی معنوں میں جینا تو اب وہ شروع کررہی تھی
اسے ڈاکٹر زرینہ کی بات یاد آگئی ایک بار اس نے کہا تھا کہ جب شدید چاہنے کے باوجود کچھ نہ بن پائے تو تم اللہ پر چھوڑ دینا ایک وقت ایسا آئے گا جب اس میں سے ایسی بہتری نکلے گی تم خود حیران رہ جاؤ گی۔
آج وہ حیران تھی حد سے زیادہ رب کی شکرگزار تھی۔
پہلی بار اسے فرقان سے طلاق کا فیصلہ بالکل صحیح لگا۔
اس نے اپنی بیٹی کا نام کنول رکھا. کنول کے بعد تو زندگی حسین ہوگئی بلکہ بہت زیادہ حسین تھی۔
آخر میں صرف یہی کہوں گی کہ ضروری نہیں ہر طلاق شدہ عورت کی زندگی ایمن کی طرح سنور جائے۔
اگر کسی کی طلاق ہوجائے وجہ خواہ کوئی بھی ہو ۔۔ خدارا ایک وہ خود بہت مشکل وقت سے گزر رہی ہوتی ہے دوسرا آپ باتیں کرکر کے اسے نفسیاتی مریض نہ بنائیں… آخر کوئی تو وجہ ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ اپنا گھر توڑتی ہے.طلاق شدہ عورت ایک جیتی جاگتی عورت ہوتی ہے کوئی ابنارمل نہیں … بالکل ہم اور آپ کی طرح اسے بس جینے دیں۔
ختم شد
(تحریر حمنہ قندیل )