ٹوٹے رشتے بکھری یادیں | Urdu Story
عامر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا سامنے اس کے ابو صوفے پہ بیٹھے تھے۔
اسے دیکھ کر وہ فوراً بولے میں نے سنا ہے تم کل ہوسپٹل گئے تھے۔۔۔ اپنے تایا کا پتہ کرنے۔۔۔ انھوں نے اپنے تایا پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
جی میں گلی میں گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا ایمبولینس میں سب پریشانی کے عالم میں تایا ابو کو لیکر جارہے تھے تو میں ان کا پتا کرنے ہسپتال چلا گیا تھا۔
عامر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا۔
لیکن میں نے تمہیں منع کیا تھا ان سے کسی قسم کے تعلقات رکھنے کو۔۔۔
ان کی آواز میں سختی آگئی عامر خاموشی سے سر جھکائے کھڑا رہا۔
آئندہ میں ایسی بات دوبارہ نہ سنو۔۔۔اب تم جا سکتے ہو۔
یہ کہہ کر وہ دوبارہ tv دیکھنے میں مصروف ہوگئے جبکہ عامر خاموشی سے اپنے کمرے میں آگیا۔
جب تک دادی زندہ رہیں عامر کے ابو تایا ابو اکٹھے رہتے تھے۔ چھوٹے چاچو پڑھائی کے سلسلے میں اکثر باہر رہتے تھے۔ مگر جب وہ ملنے آتے تو دادی جان کے بڑے کمرے میں سماں سا بندھ جاتا تھا۔
اس کی دونوں پھپھو بھی بچوں سمیت آجاتی تھیں۔ مزے مزے کے پکوان پکتے خوب ہلا گلا ہوتا۔ چونکہ عامر سب بہن بھائیوں سے بڑا تھا۔ اس لیے اس نے سب سے بہت زیادہ پیار سمیٹا تھا۔ دادی کی تو وہ جان تھا.۔
عید والا دن اس کے لیے بہت زیادہ خوشی کا دن ہوتا تھا۔ کیونکہ اس دن اسے سب سے عیدی ملتی تھی۔
اب تو صرف ان لمحوں سے جڑی یادیں باقی بچی تھیں۔
کیونکہ دادی جان جب تک زندہ رہیں انھوں نے اپنی اولاد کو قیمتی موتیوں کی طرح پرو کے رکھا تھا۔ ان کی وفات کے بعد موتیوں کی لڑی ٹوٹ کے بکھرتی چلی گئی۔۔۔ جائیداد کے تنازعات اتنی شدت اختیار کرگئے کہ چھوٹے چاچو ہمیشہ کیلئے بیرون ملک سیٹل ہوگئے وہیں پر انھوں نے شادی بھی کرلی. دادی کی وفات کے بعد وہ ایک بار یہاں آئے تھے۔
ان دنوں جائیداد کا بٹوارہ ہورہا تھا. دلوں میں شدید رنجشیں پیدا ہوگئی تھیں۔۔۔ بدمزگی اتنی زیادہ تھی کہ چاچو کے آنے پر کسی نے وہ گرمجوشی نہیں دکھائی تھی۔۔۔ جو اس گھر کا ہمیشہ سے وطیرہ رہی تھی۔
زیادہ اختلافات ابو اور تایا ابو میں تھے۔ چاچو چپ چاپ اپنا حصہ لے کے چلے گئے تھے۔
عامر کے ابو حویلی چھوڑ کے اسی گلی میں دوسرے گھر میں شفٹ ہوگئے تھے۔۔۔ جبکہ سرخ اینٹوں سے بنی لال حویلی جو ہمیشہ سے محبتوں چاہتوں کا مرکز تھی۔۔۔ اب مکینوں کی رنجشوں پہ ماتم کدہ نظر آتی تھی۔
اب تو کئی سال گزر گئے تھے۔۔۔ آمنا سامنا کتنی بار ہوتا مگر دلوں کے ساتھ منہ بھی پھیر لیے گئے تھے۔
چاچو کا بیرون ملک سے کبھی کبھار فون آجاتا۔ دونوں پھپھو بھی مہینوں بعد ایک آدھ چکر لگا لیتیں۔ مگر اب وہ چاشنی نہیں رہی تھی۔۔۔ سب اپنی زندگی میں مصروف تھے۔
اس دن تایا ابو کو دل کا دورہ پڑا تھا۔۔۔ ان کی حالت دیکھ کر عامر سے رہا نہ جاسکا اور وہ فوراً ہسپتال دوڑا تھا۔۔۔ جب تک ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہوئی وہ وہیں رہا۔
جب عامر کے والد کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ سخت ناراض ہوئے۔۔۔ کیونکہ پچھلے سال ان کا پتے کا آپریشن ہوا تھا. تایا ابو یا اس کے گھروالوں میں سے کوئی پوچھنے تک نہ آیا تھا۔
اس لیے اس بات پہ ان کے دل میں شدید رنجش تھی۔ چنانچہ اب انھوں نے سختی سے سب گھر والوں کو منع کر دیا تھا کہ کوئی ان کی عیادت کو نہ جائے۔
مگر عامر ایک بار پھر چھپ کر تایا ابو کو ملنے ہوسپٹل چلا گیا۔ پچھلی بار تو وہ ہوش میں نہیں تھے مگر اس بار ان کی حالت اچھی خاصی سنبھل چکی تھی۔
تایا ابو نے کچھ دیر اس کے ساتھ باتیں بھی کی تھیں۔۔۔ اس کی تعلیم وغیرہ کے بارے میں پوچھتے رہے تھے. چونکہ نقاہت ابھی بھی تھی۔۔۔اس لیے وہ پھول اور فروٹ وغیرہ دے کے جلد واپس آگیا تھا۔
جسے تایا ابو نے شکریہ کے ساتھ لیکر اپنے بڑے بیٹے کو رکھنے کے لیے کہا تھا۔
شکر ہے دوسری ملاقات کا علم اس کے والد کو نہیں ہوسکا تھا۔
ان دنوں کراچی کے حالات شدید خراب تھے۔ وہ مغرب کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو امی نے اسے دہی لانے کے لیے بھیجا وہ دہی لے کر گھر کی طرف آرہا تھا کہ چند نامعلوم افراد نے اچانک سے اس پہ فائرنگ کردی۔
تین گولیاں سیدھی اس کے سینے میں جاکے لگیں عامر کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے گرم لوہے کی سلاخیں اس کے اندر گھونپ دی ہوں۔ درد کی شدت اتنی تھی کہ اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔
ایک دن بعد ہوش آیا تو اب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آرہا تھا۔
غم سے نڈھال اس کے ابو کو تایا ابو نے سہارا دیا ہوا تھا۔ تائی امی اور اس کی ماں اس پہ پڑھ رہی تھیں۔ اس کا چچازاد بھی پاس کھڑا رو رہا تھا۔
پچھلے سال نئی نئی بائیک سیکھتے وہ گرگیا تھا اور اسے اچھی خاصی چوٹیں آئی تھیں۔ عامر اپنے گھروالوں سے چھپ کر اس کی طبیعت پوچھ آیا تھا۔
اس وقت اس کے بہن بھائی پھپھیاں چاچو سب اکھٹے تھے۔
عامر کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے دادی واپس آگئی ہوں۔ سب دوبارہ سے ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔
ایسا خواب وہ کئی بار دیکھ چکا تھا۔ مگر اب یہ سب حقیقت تھی۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر سب اس کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ وہ انھیں دیکھ کر دھیمے سے مسکرایا۔
مگر درد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہ پایا۔
آہستہ آہستہ درد کی شدت کم ہوتی گئی۔ عجیب سا ٹھنڈا ٹھنڈا سکون اس کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔
رشتوں کے ٹوٹے دانوں کو اس نے جوڑنے کی کئی بار کوشش کی تھی مگر اس بار وہ واقعی کامیاب ہوگیا تھا۔ مرنے سے پہلے یہ اس کے لیے خوشی کیا کم تھی کیا۔۔۔
اس نے آخری نظر سب پہ ڈالی سب رو رہے تھے تایا ابو کی حالت بھی اس کے والدین کی طرح خراب تھی، اس کے سارے اپنے اکھٹے تھے۔ اس نے مسکرا کر اطمینان سے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کردیں۔
(تحریر حمنہ قندیل)