پچپن کی منگیتر | Urdu Afsanay
چاند تم اتنی صبح سویرے سب خیریت تو ہے ناں؟؟؟
منور نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا۔
اس نے دفتر جانے کے لیے جیسے ہی دروازہ کھولا…سامنے اس کا چچازاد بھائی چاند گھنٹی بجانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا ہی رہا تھا…کہ اچانک دروازہ کھل جانے پر ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا۔
کیامنو بھائی کمال کرتے ہو میری تو جان ہی نکال دی۔ چاند نے منہ بنا کر کہا۔
تم خود جو صبح سویرے نازل ہو گئے ہو تو کیا میری جان سلامت ہے؟
منور نے مصنوعی خفگی سے آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
رات خالہ نے کوئی برا سپنا دیکھا تو صبح ہونے سے پہلے تیری خبر لانے کو بھیج دیا۔
اب بھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے… کہ پیچھے سے لمبی ہیل کی کھٹ کھٹ کرتی مہرین سیڑھیاں اترتی نظر آئی… صبح سویرے چاند کو دیکھ کر وہ لحظہ بھر کو رکی پھر منہ بنا کر آہستہ آہستہ اترنے لگی۔
قریب آکر اس نے زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے چاند کو سلام کیا۔
تووو چلیں… منور… نہیں تو آفس لیٹ ہو جائیں گے۔ مہرین نے تو کو لمبا کھینچے ہوئے شان بےنیازی سے کہا۔ آفس کا سنتے ہیں منور نے کلائی پہ بندھی گھڑی پر ایک نظر ڈالی۔
ٹھیک ہے چاند ہم چلتے ہیں تم ذرا آرام کرو اور ہاں یہ پیسے ہیں تم بازار سے ناشتہ کر لینا ہمیں دیر ہو رہی ہے ورنہ میں کروا دیتا۔
منور نے والٹ سے پیسے نکالتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں آپ لوگ بےفکر ہو کر جاؤ میں کرلونگا ۔چاند ہاتھ میں پکڑا تھیلا اندر لاتے ہوئے بولا۔
ابھی جانے کے لیے انھوں نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ پیچھے سے چاند کی آواز آئی۔
!!!منو بھائی
بڑھتے قدم رک گئے نسرین آپ کو دعا سلام دے رہی تھی۔
اس بار منور نے پیچھے رک کر نہیں دیکھا بلکہ مسکراہٹ دباتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
مہرین نے مڑ کر ایک زہر خند نگاہ چاند پہ ڈالی اور پیر پٹختی ہوئی چلی گئی. اس کی جوتی کی کھٹ کھٹ چاند کے کانوں میں دور تک گونجتی گئی۔
منور اور چاند آپس میں چچازاد بھی تھے اور خالہ زاد بھی… چاند منور سے پانچ سال چھوٹا تھا…منور ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح اس کا خیال رکھا کرتا۔
ان دونوں کی ایک اور خالہ بھی اسی گاؤں میں رہتی تھی… نسرین اسی خالہ کی بیٹی تھی۔
چاند کی ہم عمر ہونے کے ناطے ان دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنتی تھی۔
جب وہ پیدا ہوئی تو منور کی امی نے اسے اپنی بہو بنا لیا تھا۔
پچپن میں جب کبھی چاند اور نسرین کی آپس میں لڑائی ہوتی تو وہ اسے منو بھائی کی منگیتر کہہ کر چھیڑا کرتا تھا۔
گھر کا سب سے بڑا بچہ ہونے کے ناطے منور کی پڑھائی پر بہت زیادہ دھیان دیا گیا… مڈل کے بعد اسے شہر پڑھنے بھیج دیا گیا۔
اس لیے منور بھائی پڑھائی کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہر رہتے تھے۔
پڑھائی مکمل کرنے کے بعد منور کی نوکری لگتے ہی نسرین کی امی نے شادی کی جلدی مچانا شروع کر دی۔
کیونکہ یہ تو طے تھا کہ منور کی شادی نسرین سے ہی ہوگی. پہلے سب اس کی پڑھائی کی وجہ سے چپ تھے… اب تو ماشاءاللہ سے وہ کمانے بھی لگ گیا تھا۔
مگر اچانک منور نے نسرین کے ساتھ شادی کےلیے انکار کردیا… وجہ یہ رکھی کہ وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے ہمارے مزاج آپس میں نہیں ملیں گے۔
منور کے انکار کو خاندان میں گیارہ ستمبر سے بھی بڑا واقعہ سمجھا گیا…اور فوراً گھر سے باہر نکال دیا گیا۔
سب کا خیال تھا کہ یہ وقتی انکار ہے زیادہ دباؤ ڈالنے پر مان جائے گا. مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ منور نے اپنے ساتھ دفتر میں کام کرتی مہرین سے پسند کی شادی کر لی۔
دو سال سے وہ دونوں شہر میں رہ رہے تھے… گاؤں جانے کے تمام راستے اب بند ہوچکے تھے۔
چونکہ چاند منور کی شادی سے پہلے اکثر شہر آجایا کرتا تھا.مگر شادی کے بعد اسے منور سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے سے منع کر دیا گیا۔
بچپن ہی سے گھر میں کوئی اسے ڈانتتا یا برا بھلا کہتا تو….منور ہمیشہ اس کے لیے ڈھال بن جاتا تھا۔
ابھی تک وہ اس کی معصوم سی شکایتیں سیریس لیکر سنتا بھی اور اسے حل کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا۔
چنانچہ جب منور کا سوشل بائیکاٹ ہوا تو چاند ہی واحد تھا جس نے سب کے سامنے اس بائیکاٹ پر احتجاج کیا تھا… مگر نہ تو اس کے احتجاج کو سیریس لیا گیا اور نہ ہی منور کے ساتھ چھپ چھپ کر رابطہ رکھنے کو… کیونکہ سب کی نظروں میں وہ بھولا بھالا بیوقوف لڑکا تھا۔
مگر قیامت تو تب آئی جب گھر کے بڑوں کو اچانک سے یہ خیال آیا کیوں نہ نسرین کا رشتہ اب چاند کے ساتھ کر دیا جائے۔
بیچارہ چاند نہ تو انکار کرکے گھر چھوڑ کر جاسکتا تھا نہ کوئی شہر کی لڑکی اس کے ساتھ شادی کرتی…مجبوراً کڑوی گولی نیم کے پانی کے ساتھ اسے ہی نگلنی پڑی۔
اس کی نسرین کے ساتھ شروع ہی سے نہیں بنتی تھی… یہ سوچ کر ہی اسے جھرجھری آجاتی کہ ہر وقت سر میں جوئیں کھجاتی بات بات پہ لڑتی جھگڑتی چڑیل اب اس کے نصیب میں آنی تھی۔
اس دن کے بعد سے مہرین اس کے دشمنوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پر آگئی۔
کیونکہ چاند کی نظر میں مہرین نے ہی منور کو اپنے ساتھ شادی کےلیے پھنسایا تھا… ورنہ منور تو ہمیشہ سے نسرین کےلیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
جب وہ مہرین کے سامنے نسرین کا ذکر کرتا تو جلن کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہوجاتا… شروع میں منور مہرین کی ناراضگی کے ڈر سے چاند کو اس کا ذکر کرنے سے منع کرتا تھا۔
وہ اس وقت کی بات تھی جب نئی نئی شادی اور محبت کا بخار تھا… دو سال بعد اب مہرین کے چہرے پر آئے غصے کو وہ چاند کے ساتھ مل کر خوب انجوائے کیا کرتا تھا۔
اگر وہ کچھ زیادہ چڑنے لگتی تو چاند یہ کہہ کر چپ کرادیتا کہ کیا ہے بھابھی وہ میری منگیتر ہے… بندہ اب اپنی منگیتر کا ذکر ہی نہ کرے کیا؟
کم از کم آج کا دن تو تمہارا دفتر میں اچھا نہیں گزرنے والا مہرین بھابھی۔۔۔
سامان کا تھیلا ایک طرف پھینک کر اس کے کھولتے چہرے کو انجوائے کرتے ہوئے چاند دل ہی دل میں مسکرایا۔
یہ مائیں پتہ نہیں ایسی کیوں ہوتی ہیں… کوئی پوچھے تو بیٹے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں… مگر ذرا سا برا خواب کیا آیا… سحری سے پہلے ننھی جان کو اٹھا کر بھیج دیا… چاند کونے میں پڑی چارپائی دھوپ میں گھسیٹتے ہوئے بڑبڑایا۔
ابھی پوری طرح سے اس کی آنکھ لگی بھی نہیں ہوگی کہ اس کے سر کے بالکل قریب آکر ایک مرغے نے اذان دینی شروع کر دی
اس نے جھلا کر اسے بھگایا اور دوبارہ آنکھیں موند لیں.مرغا بھی شاید ڈھیٹ نسل کا تھا اس نے دوبارہ آکر یہی گستاخی کی۔۔۔
چاند نے غصے سے جھلا کر اسے مارنے کےلیے جوتا اٹھانا چاہا مگر جوتے کا اشارہ شاید مرغے کو اچھی طرح سے سمجھ آگیا تھا۔
وہ فورا غائب ہوگیا… اس نے جوتا نیچے رکھا اور کروٹ بدل کے سو گیا… شاید اسے سوئے ہوئے آدھا گھنٹہ یا اس سے کچھ اوپر ہوا ہوگا… اس کے داہنے پیر کے انگوٹھے کو کسی نے زور کاٹا۔
چاند ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا… سامنے غصے سے گھورتا مرغا مزید حملے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
چاند کو اپنی پھولی سانسیں بحال کرنے میں کچھ لمحے لگے۔
اس نے غور سے بدمعاش مرغے کو گھورا… وہ لال اور کالے رنگ کا صحتمند مرغا تھا… اس کی گردن پر سنہری دھاریں اسے مزید مغرور بنا رہی تھیں۔
چاند نے خاموشی سے آنکھیں بند کر کے چہرے پر بازو کا ہالہ بنا لیا۔
تھوڑی دیر بعد مرغا اپنی چونچ کو تیز کرتا چاند کے پاؤں کی طرف حملے کی غرض سے آیا… مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی۔
اس پر کسی طاقتور بلے کا جھپٹا پڑ چکا تھا۔
اپنی گرفت مظبوط کرتے پیار سے اس کے سر کو سہلاتے چاند کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
بیٹا دادا جی صحیح کہتے ہیں جو رزق اللہ نے ہمارے نصیب میں لکھ دیا ہے ہم اسے جتنا دور بھگائیں وہ ہمیں مل کر رہتا ہے۔
پتا ہے آج صبح کا ناشتہ میں نے کیوں نہیں کیا کیونکہ میرے نصیب میں آج اماں کے ہاتھ کا پکا پراٹھا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے بھیجا گیا من و سلویٰ کتنی دیر سے مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا۔
ہیلو منو بھائی۔۔۔
ہاں وہ میں کہہ رہا تھا کہ مہرین بھابھی سے کہیں کہ وہ دوپہر کے کھانے کی ٹینشن نہ لیں. سالن میں نے پکا لیا ہے واپسی پر ہوٹل سے روٹی لیتے آئے گا۔۔۔ اس نے مرغے کی ران اٹھا کر منہ میں ٹھونستے ہوئے کہا۔
اس وقت چاند کے چہرے پر سفاک جلاد سی مسکراہٹ تھی۔
واپسی پر جب مہرین کو پتا چلا کہ چاند نے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا ہوا ہے تو… اس کا موڈ خود ہی اچھا ہو گیا۔
پہلے بھی جب چاند آتا تو اس سے بہت سارے کام کروایا کرتی تھی… یہ دیکھ کر منور بیچارہ کڑھتا رہتا…اکثر کہا بھی کرتا تھا…کہ تم میرے کزن کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو۔
مہرین تپ کے بولتی اور میں جو نوکری کے ساتھ گھر سنبھال رہی ہوں… کبھی مجھ پہ ترس آیا چلو دو تنکے اٹھا کے ایک طرف ہی رکھ دوں۔
اد پر منور صرف کان کھجا کے رہ جاتا۔
گھر واپس آنے کے بعد وہ دونوں دستر خوان پر آلتی پالتی مارے کھانا لانے کا انتظار کر رہے تھے… جبکہ مہرین کچن میں کھانے کی پلیٹیں نکال رہی تھی۔
منور ڈونگے کا ڈھکن اٹھا کر مرغی کی اشتہا انگیز خوشبو اپنے اندر اتارتے ہوئے بولا۔
یار چاند تمہارے ہاتھ کے پکے سالن میں مجھے اپنی امی کے ہاتھ کی خوشبو آتی ہے۔
ابھی مہرین دسترخوان پر پلیٹں رکھ رہی تھی کہ دروازے کی بیل بجی۔
میں دیکھتا ہوں منور نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کون تھا؟
واپس آنے پر مہرین نے آبرو اچکا کے پوچھا۔
ساتھ والے گھر سے ببلو تھا کہہ رہا تھا کہ آپ نے ہمارے مرغے کو کہیں دیکھا ہے… صبح سے غائب ہے کہیں مل نہیں رہا۔۔۔
تو کیا وہ پڑوسیوں کا مرغا تھا؟
چاند نے گھبرا کر منور کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
!!!کیا مطلب
ایک منٹ کہیں دسترخوان پہ یہ وہی مرغا تو نہیں ہے۔
منور نے چونکتے ہوئے کہا۔
!!!یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ
مہرین ناسمجھی کے انداز میں بولی۔
مجھے کیا معلوم کہ وہ ساتھ والے گھر والوں کا مرغا ہے میں تو سمجھا۔۔۔
تم کیا سمجھے ہمارے پاس اتنا ٹائم ہے جو نوکری کے ساتھ پولٹری فارم بھی کھولتے پھریں گے۔۔۔
منور چاند کی بات کاٹ کر غصے سے لب بھینچتے ہوئے کہا۔
پتا نہیں کس قسم کا خاندان ہے تمہارا۔۔۔
مہرین منور کے خاندان پر طنز کا اتنا اچھا موقع کیسے گنوا سکتی تھی۔
شٹ اپ مہرین میرا خاندان ایسا نہیں ہے۔
منور نے ڈانٹ کر کہا۔
وہ تو نظر آرہا ہے مہرین منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
منو بھائی وہ مجھے تنگ کر رہا تھا سونے نہیں دے رہا تھا… میں سمجھا آپ لوگوں نے پالا ہوا ہے اس لیے۔۔۔ چاند نے منمناتے ہوئے وضاحت دی۔
چاند یہ گاؤں نہیں شہر ہے پتہ ہے یہاں پر چوری کا مقدمہ بن سکتا ہے۔
ساتھ میں معصوم جان کو مارنے پہ قتل کا مقدمہ بھی۔ مہرین نے درمیان میں لقمہ دیا۔
کوئی اگر تنگ کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی گردن پر چھری پھیر دو… اس طرح تو میں مہرین کی گردن کب کی کاٹ چکا ہوتا۔
منور اب سرد لہجے میں بول رہا تھا۔
تو روکا کس نے ہے… یہ خواہش بھی ابھی پوری کر دو.. مہرین آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔
شاید مجھے بہت پہلے ہی یہ کام نمٹا لینا چاہیے تھا۔۔۔ اپنے گھر والوں سے تو صلح کر لی خسارے میں تو میں رہا… تمہارے ساتھ شادی کرنے کی وجہ سے دو سال سے اپنے گھر والوں کی شکل دیکھنے کو ترس رہا ہوں۔
منور کی آواز خودبخود بھاری ہوگئی۔
تو کر لیتے ناں اپنی پیاری نسرین کے ساتھ بیاہ کس نے کہا تھا مجھ سے شادی کرنے کو۔۔۔ مہرین کہاں چپ رہنے والی تھی۔
اس وقت تو بڑی میسنی بنی پھرتی تھی۔
اور تمہیں پتا ہے.. اب وہ چاند کی طرف متوجہ تھا…تمہاری اس حرکت کا پتا اگر مالک مکان کو لگ گیا تو وہ ہمیں گھر سے نکال باہر کرے گا۔
دو منٹ کے اندر ہم سڑک پہ آجائیں گے… یہ تو تمہیں پتہ ہوگا پڑا کہ ہم اب اس قابل نہیں رہے کہ ہمارے والدین ہمیں اپنے گھر پناہ دیں گے. منور نے متفکر انداز میں کہا۔
اس وقت سب سے پہلے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ مرغا ہمارے گھر سے غائب ہوا ہے۔
مہرین کو شاید حالات کی سنگینی کا علم ہوگیا تھا۔۔۔ اس لیے وہ بھی لڑائی چھوڑ کر پیشانی پہ ہاتھ رکھے اصل مسئلے کی طرف لوٹ آئی تھی۔
ایک منٹ وہ مرغے کی باقیات میرا مطلب اس کے پر وغیرہ وہ سب کہاں پھینکے…؟
منور نے آہستگی سے پوچھا کیونکہ اس واقعے کے بعد دیواروں کے بھی کان ہوسکتے تھے۔
وہاں ڈسٹ بن میں چاند نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔
اگر کوڑا اٹھانے والے نے کسی کو بتا دیا تو…؟
مہرین نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
سب سے پہلے تو ہمیں اسے کسی محفوظ جگہ پر ٹھکانے لگانا ہوگا…وہ دونوں یوں باتیں کر رہے تھے گویا قتل کرنے کے بعد لاش کو کہیں چھپانا ہو۔۔۔
مگر کہاں؟
منور نے ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے سوچتے ہوئے کہا۔
اس کا حل ہے میرے پاس۔۔۔ پہلی بار چاند دبے دبے جوش سے بولا تھا۔
کیا حل ہے…؟ وہ دونوں بیک وقت بولے۔
!!!یہ تھیلا
اس نے کپڑے کے بنے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا… جس میں منور کی اماں انڈے، دیسی گھی اچار وغیرہ گھر والوں سے چھپ کر بھیجا کرتی تھی۔
تھیلے کودیکھ کر دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اسی تھیلے میں ڈال کے لے جاؤں گا… راستے میں جو بڑا نالہ گزرتا ہے وہاں پر پھینک دوں گا۔
ارے واہ یہ ٹھیک رہے گا تو پھر جلدی کرو ناں مہرین جلد از جلد اس مصیبت کو گلے سے اتار پھینکنا چاہتی تھی۔
ایک منٹ چاند فی الحال کہیں نہیں جارہا سمجھی تم!!! ایک مرغا ہے ناں کوئی آفت نہیں آگئی چاند تم آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔
منور کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ مجبوراً مہرین کو بھی خاموشی سے بیٹھنا پڑا۔
سب نے بے دلی سے کھانا کھایا بھوک تو ان کی ویسے بھی اڑ چکی تھی۔
تم ناراض ہو؟
کھانے کے بعد منور نے چاند سے پوچھا جو معمول سے زیادہ خاموش تھا۔
مہرین اس وقت چائے بنانےکچن میں گئی ہوئی تھی۔
چاند نے ایک نظر اس پہ ڈالی مگر جواب نہیں دیا۔
اچھا یار سوری غلطی ہوگئی مجھے اس وقت غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا… تمہیں پتا تو ہے آجکل میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا ہے… دو سال ہوگئے ہیں جمع تفریق کرتے کرتے دکھ پچھتاوا اپنوں کی یاد ان سب سے نکل ہی نہیں پا رہا…مجھے لگتا ہے ابھی فون آئے گا اور تم کہو گے دادا جی نے معاف کر دیا ہے… واپس لوٹ آؤ… مگر تم جانتے ہو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
میں آپ سے نہیں مہرین بھابھی سے ناراض ہوں۔ چاند نے اٹھتے ہوئے کہا۔
تم کہاں جا رہے ہو…؟ منور بھی ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔
وہیں جہاں مجھے ہونا چاہیے…،، وہ تھیلا اٹھاتے ہوئے بولا۔
جس میں مہرین پہلے ہی مرغے کی باقیات ڈال چکی تھی۔
اچھا چائے تو پیتے جاؤ۔
دل نہیں کر رہا۔
چاند یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
پیچھے منور اسے روکتا رہ گیا….مگر اس نے مڑ کر دیکھا بھی نہیں… وہ ایسا ہی تھا بہت جلد روٹھنے والا اور اتنی ہی جلدی مان جانے والا۔
چاند گھر پہنچا تو خالہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔
وہ دونوں ٹھیک ہیں کچھ نہیں ہوا… سارا دن آپس میں لڑتے رہتے ہیں… اور ایک دوسرے کو الزام دیتے رہتے ہیں۔
چاند نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا۔
دادا جی اس وقت تخت پر سوئے ریڈیو سن رہے تھے۔
کون ٹھیک ہیں؟ دادا جی نے ریڈیو کا والیم کم کرتے ہوئے پوچھا۔
آپ کا ہونہار پوتا منور راجپوت اس وقت بہت زیادہ خوش ہے… جس طرح آپ لوگوں نے اسے اپنی زندگیوں سے نکالا ہوا ہے…بیچارہ اسی دکھ میں اگلے سال تک اس دنیا سے چلا گیا تو آپ سب کو کیا ہونا ہے… اچھا ہے ایسی اولاد کا مر جانا ہی ٹھیک ہے۔
خالہ کو یوں لگا جیسے کسی نے سیدھا دل میں خنجر گھونپ دیا ہو۔
دادا جی بھی بے چین ہوکر اٹھ بیٹھے تھے۔
اچھا ہے اسے بھی تو پتا تو چلے کہ بڑوں کی عزت خاک میں ملانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
مگر آج دادا جی کی آواز میں وہ گونج نہیں تھی جو ہمیشہ سے ان کا خاصا ہوا کرتی تھی۔
میرے لیے شام کا کھانا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے… کم از کم منور کی حالت دیکھ کر تو بالکل بھی دل نہیں کررہا۔
چاند نے کچن میں بیٹھی اماں کی طرف دیکھ کر کہا اور پردہ گرا کے اندر کمرے میں چلا گیا۔
دسمبر کی ڈھلتی شام اس گھر کے باسیوں سمیت مزید سوگوار ہوگئی تھی۔
دوسرے دن چاند بہت دیر تک سوتا رہا… اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا غصہ، جھنجھلاہٹ مہرین کی باتوں پر ہے یا وہ منور کو یوں پریشان دیکھ کر اداس ہے۔
وہ آنکھیں مسلتا باہر نکلا سامنے داداجی کے تخت پر اماں افسردہ سر پکڑے بیٹھی تھیں… اس وقت دادا جی ڈیرے پہ مقامی لوگوں کے مسائل سننے چلے جاتے تھے۔
کیا ہوا اماں؟ وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے سستی سے بولا۔
کیا بتاؤں پتر چھ مرغیاں کل کی غائب ہیں… تجھے معلوم تو معلوم ہے چھوٹے چھوٹے چوزے پالے تھے،میں نے سوچا تھا سردیوں میں خالص انڈے اپنے گھر کے ہوجائیں گے مگر نہ جانے کونسی بلا کھا گئی ہے۔ کل سے بشیر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہوچکا ہے کوئی اتا پتا نہیں ہے۔
اماں دکھ سے بولی۔
چاند نے ایک نظر صحن میں اکیلے گھومتے سفید مرغے پہ ڈالی۔
اماں یہ مرغا؟؟؟
بس یہی اکیلا بچا ہے بیچارہ!!! کل سے خاموش اور اداس اداس پھر رہا ہے۔
اماں ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔
بس کل سے اس کی اداسی ختم۔
چاند نے معنی خیز انداز میں کہا۔
اگلے دن فیروزی کرتا اور سفید شلوار پہنے چاند مہرین کے ساتھ والے گھر میں بیل بجا رہا تھا… اس کی کلائی میں گولڈ کی گھڑی تھی جو اس کے ماموں نے سعودی عرب سے چاند کےلیے بھیجی تھی۔
اتنے میں دروازہ کھلا… سامنے انیس بیس سال کی ایک لڑکی کھڑی تھی… اس کی آنکھوں پر موٹی فریم کا چشمہ لگا ہوا تھا… رنگ کھلتا ہوا بال کسی قید سے آزاد تھے… ناک میں سونے کی نتھ چمک رہی تھی۔
ایک لمحے کو چاند کو یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
جی کون ؟؟؟
اس نے دوپٹہ سر پہ اوڑھتے ہوئے اجنبی نظروں سے پوچھا۔
جی میں منور کا بھائی یہ ساتھ والے گھر سے۔۔۔
اچھا تو پھر…؟
کہنے کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو بھائی ہو تو میں کیا کروں…؟
وہ آپ کا مرغا گم ہو گیا تھا ناں تو میری اماں نے آپ کے لیے یہ مرغا بھیجا ہے۔ چاند نے بغل میں دبایا ہوا مرغا آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
آنٹی نے بھیجا ہے ہاو سویٹ۔۔۔ وہ سفید مرغے کو دیکھ کر خوشی سے نڈھال لگ رہی تھی۔
شبانہ اتنی دیر سے دروازے پر کس سے باتیں کر رہی ہو؟ اندر سے اس کی امی کی کرخت آواز آئی۔
اچھا اوکے آنٹی کو بہت بہت تھینکس کہنا۔
وہ جلدی سے کہتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔
چاند نے کالا چشمہ اتار کر جیب میں ڈالا اور مسکراتے ہوئے اپنی کھٹارا سی جیپ کی طرف مڑا… سامنے منور اور مہرین قہربار نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔
ان کے ہاتھوں میں سامان تھا… شاید وہ بازار سے ابھی لوٹ رہے تھے۔
انھیں دیکھ کر چاند ان کی طرف چلا آیا۔۔۔
وہ کیا ہے ناں مہرین بھابھی!!! بھابھی پہ کچھ زیادہ زور تھا… اس دن آپ منو بھائی کو طعنے مار رہی تھیں کہ پتا نہیں کیسا خاندان ہے تو آپ کی اطلاع کےلیے عرض یہ ہے کہ جتنا آپ کا گھر ہے اتنا تو ہمارے ہاں مرغیوں کے ڈربے ہیں… جا رہا ہوں دھو کے اپنے گناہ!!!
ایک غلطی کیا ہوگئی آپ نے تو مجھے قاتل بنا دیا۔ اب آپ بنا ڈر کے رہ سکتے ہیں اس گھر میں، اور ہاں جاتےجاتے وہ واپس پلٹا نسرین کب سے آپ کا نمبر مانگ رہی ہے… پہلے مجھے لگتا تھا کہ آپ کی بیگم صاحبہ کو اچھا نہیں لگے گا… مگر اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے نمبر دے دینا چاہیے۔
چاند نے سیاہ چشمہ اتار کر منور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور ایک فخریہ نظر غصے سے چنگاریاں نکالتی مہرین کی طرف ڈالتا ہوا… دوبارہ اپنی جیپ کی طرف مڑگیا۔
منور نے کندھے اچکا کر سرسری نظروں سے مہرین کو دیکھا…وہ ہاتھ میں تھامے شاپنگ بیگ وہیں پہ پٹکھتی کھٹ کھٹ کرتی سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی۔
چاند جب گھر پہنچا تو موڈ کچھ زیادہ ہی اچھا تھا۔ تصور میں کھلے بالوں والی شبانہ تھی تو دل میں مہرین کی شکل دیکھ کر ٹھنڈ سی اتری ہوئی تھی۔
وہ سیٹی بجاتا ہوا گھر میں داخل ہوا… سامنے مٹھائی کا ٹوکرا رکھا ہوا تھا، جبکہ اماں اور خالہ اکھٹے سر جوڑے بیٹھی تھیں۔
واؤ یہ مٹھائی کس خوشی میں بانٹی جا رہی ہے۔ اس نے ایک لڈو اٹھا کر قریب پڑے موڑھے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
پہلے کھا لو پھر بتاتی ہوں۔
اماں نے غصیلی آنکھوں سے گھورتے ہوئے جواب دیا۔
لو کھا لی…اب بتائیں۔۔۔ اس نے پورا لڈو منہ میں ڈال کر تقریباً بربڑاتے ہوئے کہا۔
تیرے بیاہ کی تاریخ پکی کرکے آئے ہیں ابھی… اس چاند کی چودھویں کو شادی ہے تیری۔۔۔
اماں ایک اور لڈو اٹھا کے اس کے منہ میں ٹھونسے ہوئے رسیلی آواز میں بولی۔
کککیا؟؟؟
منہ میں لڈو کی مٹھاس اب کرواہٹ میں بدل چکی تھی۔ وہ لڈو اگل کر تقریباً چیخا تھا۔
جی پتر صحیح سنا ہم تو ابھی تجھے بچہ سمجھ رہے تھے پر ہمیں کیا معلوم تو اب اتنا بالغ ہوچکا ہے جو ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر چوری چھپے آشنائیاں کرتا پھرتا ہے۔
وہ تیری خالہ ہے جو اس نے جوان جہان بیٹا غیروں کے ہاتھ میں تھما دیا. مگر میرا نام سکینہ ہے سکینہ!!!
دیکھتی ہوں میں کیسے توں انکار کرتا ہے۔
میں نے نہیں کرنی کوئی شادی وادی… کس نے آپ کو کہا ہے کہ میں چوری چھپے آشنائیاں کرتا پھر رہا ہوں۔
چاند کو اب واقعی غصہ آگیا تھا۔
منور کی لاڈلی نے اطلاع دی ہے… فون کرکے کہ تیرا ان کی پڑوسن کی بیٹی شبانہ کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔ اور یہ بیچاری تیری خالہ منور کو چھپ چھپ کے جو کچھ بھجواتی تھی توں وہ سارے تھیلے ادھر پہنچاتا رہا… میں کہتی ہوں تجھے شرم نہیں آئی؟؟؟
چاند ہق دق کبھی ماں کو دیکھتا تو کبھی خالہ کو۔۔ جو تھیلے کے ذکر پر بے یقینی اور افسردگی کے ملے جلے تاثرات سے چاند کو دیکھ رہی تھی۔
سبحان اللہ اس لاڈلی نے فون کیا اور آپ نے آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا…،، وہ فضا میں ہاتھ ہلاتا کڑواہٹ سے بول رہا تھا۔
ارے سکینہ بیگم ایک بار منور سے تو پوچھ لیا ہوتا کہ قصہ کیا ہے… مہرین نے سازش لڑی ہے سازش!!! تیرے بیٹے کے خلاف اور کچھ بھی نہیں ہے بس!!!
وہ غصے سے جھاگ اڑاتا بولا۔
کیا پوچھتی وہ چھ مرغیاں جو شبانہ بی بی کو سوغات میں دے آئے… اور بیچارے منور کے گھر جانا تک گوارا نہیں کیا!!!
دعوتیں شبانہ کے ساتھ جا کے اڑاتے رہے… اور یہاں آکر میرے سامنے مجھے بھوک نہیں کے ڈرامے کرتے تھے۔ ارے میں پوچھتی ہوں وہ سب جھوٹ ہے تو اتنی آج صبح سویرے بن سنور کے سفید مرغا لیکر کہاں گئے تھے؟؟؟
بشیر نے خود تجھے سفید مرغا لے جاتے ہوئے دیکھا ہے… اور یہ سونے کی گھڑی کس خوشی میں پہنی ہوئی ہے آج تیرا بہاہ تھا کیا!!!
وہ تو۔۔۔ چاند واقعی گڑبڑا گیا تھا۔
کیا وہ تو وہ تو لگا رکھی ہے…مان لیا مہرین جھوٹ بول رہی ہے مگر سفید مرغے کے بارے میں اسے کیسے پتا چلا؟؟؟
اماں وہ مجھ سے بدلہ لے رہی ہے۔
چاند اب واقعی روہانسا ہوکے بول رہا تھا۔
میں نے مذید کوئی بکواس نہیں سننی اگلے ہفتے نسرین کے ساتھ تیری شادی ہے… بہتر یہی ہوگا کہ بندے دا پتر بن کے تیاری کر!!! نہیں تو سامنے دروازہ کھلا ہے دفع ہو جا… منور کی طرح۔۔۔
وصیت چھوڑ کے مروں گی کہ اس ناہنجار کو میرا مرا ہوا منہ دیکھنا نصیب نہ ہو۔
اماں مٹھائی کا ٹوکرا اٹھاتے ہوئے غصے اور دکھ سے آنسو پونچھتے اندر چلی گئی۔
اس بشیر کی تو میں۔۔۔
چاند نے پاؤں سے موڑھے کو پرے دھکیلتے ہوئے دانت پیس کر کہا اور باہر نکل گیا۔
بیچاری خالہ ویران آنکھوں اور دکھ سے وہیں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔
آج چاند کی مہندی رات تھی… منور اور مہرین شادی میں شرکت کےلیے آچکے تھے۔
مہرین نے چاند کے بارے میں جو بروقت اطلاع پہنچائی تھی… اس کے بدلے اس کی سابقہ غلطیوں کو معاف کرکے انھیں شادی میں شرکت کی اجازت دے دی گئی تھی۔
رونا دھونا ملنا ملانا یہ سب سین کچھ دیر پہلے ہوچکا تھا… اس وقت تو پارٹی شروع ہوئی پڑی تھی.مہرین بڑھ چڑھ کر ڈھولک اور دیسی گانوں میں شریک ہو رہی تھی… جبکہ چاند ایک طرف کونے میں سفید کرتا اور پشاوری چپل پہنے سب سے الگ تھلگ بیٹھا تھا۔
غصے کے مارے وہ منور اور مہرین کو ملنے تک نہیں آیا تھا۔
سب سے مل ملا کر منور اب چاند کے پاس چلا آیا تھا۔
دیکھ یار… اتنے عرصے بعد آیا ہوں ذرا سا تو مسکرا دے۔۔۔
منور نے چاند کی ٹھوری اوپر کرتے ہوئے پیار سے کہا۔
اس ڈائن کو میرا مذاق اڑانے کے لئے لے آئے ہو۔
اچھا وہ ڈائن!!!
منور نے مسکراہٹ دبا کر سبز شرارہ، پیلا قمیض اور گلابی دوپٹے میں ملبوس لڈی ڈالتی مہرین کو دیکھا۔
قسم سے یار مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح اس نے میرے موبائل سے گھر کا نمبر نکالا… اور نہ جانے کب سے ان کو راضی کرکے رابطے میں تھی… یہ تو رات اس نے مجھے سرپرائز دیا… شادی کےلیے اپنی اور میری شاپنگ سارا کچھ یہ پہلے چھپ کر کرتی رہی ہے۔
منور وضاحتیں دیتے ہوئے بولا۔
ہوں!!! ناچ تو ایسے رہی ہے جیسے اس کے مامے کا ویاہ ہو رہا ہو۔
چاند غصے سے کھولتے ہوئے بڑبڑایا۔
اچھا توں مجھے یہ بتا تجھے غصہ کس بات پر ہے مہرین کے یہاں آنے پر یا نسرین کے ساتھ شادی ہونے پر؟؟؟
وہ میری عزت نہیں کرتی اس لیے میں اس کے ساتھ شادی کےلیے خوش نہیں ہوں۔
عزت تو مہرین بھی میری نہیں کرتی۔
وہ آہستگی سے بولا۔
وہ میرا مذاق اڑاتی ہے، سب کے سامنے مجھے موٹا آلو بلاتی ہے۔ چاند اب اصل نکتے کی طرف آیا۔
تھوڑا کم کھایا کر ناں یار!!!
منور کو چاند کی معصومیت پہ پیار آرہا تھا۔
اس نے سب کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے کوئی مجھے سیریس نہیں لیتا… سب اس کی طرف داری کرتے ہیں۔
چاند جیسے برسوں سے دل کا غبار اندر دبائے بٹھائے بیٹھا تھا۔
صرف وہی تو ہے جو تمہیں سیریس لیتی ہے، تم نے کبھی توجہ ہی نہیں کی۔
کیا مطلب؟؟؟
مطلب یہ کہ تمہیں پتا ہے میں نے نسرین کے ساتھ شادی کےلیے انکار کیوں کیا تھا…؟
مہرین کی وجہ سے اور کیا؟
چاند فوراً بولا۔
ارے نہیں وہ تو بعد کی بات ہے تمہیں پتا ہے جب گھر والے میری شادی پر اصرار کر رہے تھے تو نسرین آئی تھی میرے پاس!!!
اس نے کہا تھا کہ وہ تمہیں بہت پسند کرتی ہے… اگر اس کی چاند کے ساتھ شادی نہ ہوئی تو وہ مرجائے گی۔
تجھے معلوم تو ہے کہ یہاں پر لڑکیوں کا اپنی پسند بتانا کتنا مشکل ہے، اس لیے یہ کام اس نے مجھ پہ چھوڑ دیا.
کیا ؟؟؟
چاند کو چار سو چالیس واٹ کا جھٹکا لگا!!!
،، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی… کبھی نہیں۔۔۔
چاند پوری شدت سے سر ہلا کر بولا۔
جی ہاں اسے میں نہیں تم پسند تھے… میں تو سمجھتا رہا کہ تمہیں سب معلوم ہے… مگر مجھے کیا پتا تم ابھی بھی پورے ڈفر کے ڈفر ہو… کمال ہے یار ایک لڑکی کی فیلنگ نہیں سمجھ پائے۔
منور اب تاسف سے کہہ رہا تھا۔
تم پہلے قسم اٹھاؤ کہ یہ جو کہہ رہے ہو سب سچ ہے۔ چاند کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔
لو تمہارے سر کی قسم تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
منور کی آنکھوں میں سچائی واضح تھی۔
جبکہ چاند ابھی تک اسی بات پہ الجھا بیٹھا تھا کہ وہ چڑیل اسے پسند کرتی تھی… اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔
چلو اب اٹھو شاباش اپنا موڈ ٹھیک کرو اور بھنگڑے ڈال کر مہرین کو جلاؤ دیکھو تو کیسی خوش خوش پھر رہی ہے تمہیں چڑانے کےلیے۔
منور نے پیار سے چمکار کر کہا۔
آپ کو نہیں پتا کیسے اس نے مجھ پر بڑے بڑے بہتان لگا کر یہاں آنے کے لئے اپنا راستہ صاف کیا ہے!!!
چاند کو جیسے یاد آیا۔
تم فکر نہ کرو میں تمہارے بارے میں سب کچھ کلئیر کرکے جاؤں گا… وہ بھی مہرین کے سامنے، پھر تم اس کی حالت دیکھنا۔۔۔ منور نے چاند کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔
اتنے میں منور کو کسی نے بلایا تو وہ چاند کو جلدی آنے کی تنبیہ کرتے ہوئے چلا گیا۔
کیا واقعی وہ مجھے پسند کرتی تھی… چاند بے یقینی کے عالم میں مسکرائے جا رہا تھا۔
دور بیٹھے دادا جی نے گالوں پہ ہاتھ رکھے بے اختیار چاند کو مسکراتا دیکھا تو وہ بھی حیران ہوئے بغیر رہ نہ سکے… کیونکہ پچھلے دس دنوں سے چاند کے چہرے پہ شدید غصے اور ناراضگی کے بعد یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو وہ دیکھ رہے تھے۔
ایک منور ہی ہے جو اس موٹے بھینسے کو راضی کر سکتا ہے۔
دادا جی بھرپور مسکراہٹ لیے سوچ رہے تھے۔
دو سالوں کا غصہ، ناراضگی اور رنجشیں وہ سب منور کے آنے کے بعد دھل گی تھیں۔
ایک طرف سے ڈھولکی کی آواز آرہی تھی تو دوسری طرف سے شادی کا انتظام سنبھالنے والوں کا شور مچا ہوا تھا… مگر چاند ان سب سے بے نیاز نسرین کے بارے میں سوچے جا رہا تھا۔
کس کس موقع پر ان کی کتنی شدید لڑائیاں ہوتیں تھیں… وہ منور کی بجائے اسے پسند کرتی تھی… اس موٹے آلو کو…اس کی آنکھوں میں تارے جھلملا رہے تھے۔
اس نے آسمان پہ چمکتے چودھویں کے چاند کو دیکھا… صاف شفاف روشنی بکھیرتا چاند بھی شاید نیچے بیٹھے چاند کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا… جیسے اس کی حالت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ رہا ہو، الو کہیں کا۔۔۔
ختم شد
(تحریر حمنہ قندیل )