چاچو ایڈوینچر | Urdu Story
کائنات ابھی کالج کے اندر داخل ہوہی رہی تھی کہ اس دوران تیزی سے زینب آتی ہوئی دکھائی دی۔
میں لیٹ تو نہیں ہوگئی۔۔۔؟
اس نے آتے ہی فوراً پوچھا۔
میرے خیال میں تو نہیں۔۔۔ کائنات نے کلائی پہ بندھی گھڑی پہ ٹائم دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
دیکھا میں کہہ رہی تھی کہ مجھے دیر ہوگئی ہے۔ مگر چاچو نے کہا کہ میرے ساتھ سفر کرتے تم کبھی لیٹ ہوہی نہیں سکتی۔ قسم سے اتنی تیز ڈرائیونگ کرتے ہیں لگتا ہے ابھی اگلے جہان پہنچا کر دم لیں گے،مگر پھر اتنی مہارت سے گاڑی نکال لیتے ہیں پتا ہی نہیں چلتا۔ ہم سب نے تو چاچو کا نام چاچو ایڈوونچر رکھا ہوا ہے۔ زینب جوش و خروش سے اپنے چاچو کے بارے میں بولے چلی جارہی تھی۔
تیز ڈرائیونگ کرنا کوئی سمجھداری تو نہیں۔ کائنات نے چاچو کے قصیدے پڑھتی زینب کو دیکھ کر ناگواری سے کہا۔
تم جو اپنے ابو کے ساتھ ہر رولز کو فالو کرتے ہوئے آتی ہو۔ کبھی میرے چاچو کے ساتھ سفر کرو تو تمہیں پتا چلے ایڈونچر ڈرائیونگ کا مزہ ہی اور ہے۔
اللہ بچائے ایسے ایڈونچر سفر سے۔۔۔ کائنات نے کالج کے اندر داخل ہوتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
یہ سن کر زینب کھلکھلا کے ہنس پڑی۔ زینب کے گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم تھا۔ سب گھر والے بہت ہنس مکھ گھلنے ملنے والے تھے۔ ابھی اس کے چاچو کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اس لیے پوری فیملی نے شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ بس گرمیوں کی چھٹیوں کا انتظار تھا۔
چھٹیوں کے بعد زینب کے ایک دو میسج کائنات کو وٹس ایپ پہ موصول ہوئے کہ ہم سب سوات گئے ہوئے ہیں بہت مزہ آرہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پھر اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد کائنات نے زینب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو نمبر بند جارہا تھا۔ کائنات خود اتنی مصروف ہوئی کہ چھٹیاں گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ چھٹیوں کے بعد وہ کالج گئی تو زینب بھی آئی ہوئی تھی۔
حد درجے کمزور اور بہت ہی خاموش تھی۔ کائنات کے پوچھنے پر وہ اس کے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگی۔ اس نے روتے روتے بتایا کہ سیر سے واپسی پر چاچو کی گاڑی کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا۔
میری پھپھو اور تین سال کا چھوٹا بھائی موقع پر ہی فوت ہو گئے۔ چاچو کی بیوی کو شدید دماغی چوٹیں آئیں وہ ابھی تک ہسپتال کومے میں ہے۔
کائنات ہمارے گھر تو قیامت سے بڑی قیامت آگئی ہے۔ چاچو اس دن سے بولنا بھول گئے ہیں انھیں بالکل چپ لگ گئی ہے۔ سب کہتے ہیں اللہ کو جو منظور تھا۔ مگر سچ یہ ہے کہ چاچو کی تیز ڈرائیونگ اور لاپرواہی سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔
وہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی جبکہ پوری کلاس اور ٹیچر اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
نوٹ یہ بالکل سچا واقعہ ہے. بعد میں اس کی بیوی کومے سے باہر تو نکل آئی تھی مگر دماغی پیچیدگیاں اتنی زیادہ ہوگئی تھیں مگر کتنا عرصہ وہ اپنا علاج کرواتی رہی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے سمجھدار ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھتے ہی خود کو ہیرو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اپنی ڈرائیونگ پہ حد درجے کانفیڈنس انھیں لے ڈوبتا ہے۔ اسی خمار میں وہ اپنے ساتھ کئی اور معصوم جانوں کو روند ڈالتے ہیں۔
مریم عید کے دوسرے دن اپنی امی کے ہاں سے واپس آرہی تھی۔ اس دوران اچانک انتہائی تیزی سے موٹرسائیکل بھگاتے ہوئے ایک لڑکا گزرا اور سیدھی اپنی بائیک سامنے سے آتے ہوئے ایک اور موٹر سائیکل کو جا ماری۔
دوسری بائیک پہ دو چھوٹی چھوٹی بچیاں اور ان کا باپ آرہے تھے۔ وہ آدمی اور آٹھ سال کہ بچی موقع پر فوت ہوگئے۔ جبکہ چھ سال کی دوسری لڑکی بچ گئی۔ وہ لڑکا خود تو مرگیا مگر اپنے ساتھ ایک ہنستے مسکراتے گھرانے کی خوشیاں ہمیشہ کے لیے اجاڑ گیا۔ مریم کی آنکھوں میں کتنے دن تک وہ معصوم سی بچی اور خون میں لت پت اس کے باپ اور بہن کی موت کا منظر گھومتا رہا۔
عبدالکریم ٹیکسی ڈرائیور ہیں وہ بتا رہے تھے خدا کی قسم میں نے حادثات میں سب سے زیادہ اٹھارہ انیس سال کے کم عمر لڑکوں کو مرتے دیکھا ہے۔ کٹے پھٹے لاوارثوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں. انھیں دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ خود تو مرگئے ہو جب تمہارے والدین آکر اس حالت میں تمہیں دیکھیں گئے تو کیا ان کے دل جگر سلامت رہیں گے؟
میری ان تمام نوجوانوں سے گزارش ہے جو ایڈونچر کے شوق میں الٹی سیدھی ڈرائیونگ کرتے ہیں یہ زندگی کوئی گیم نہیں ہے جو بار بار آپ کو چانس دیتی چلی جائے گی۔
دوستوں کے ساتھ چیلنج اور چند منٹ کی واہ واہ کےلیے اپنے ساتھ دوسروں کے گھرانوں میں اندھیرے پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔ ضروری نہیں کسی حادثے کے بعد آپ کو عقل آئے۔ بعض اوقات زندگی کسی کے سنبھلنے کا موقع تک چھین لیتی ہے۔
( تحریر حمنہ قندیل)