کیا وہ سب حقیقت تھی | Urdu Afsanay
اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے…رات کی سیاہ چادر نے ماحول کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔45 سالہ ریٹائرڈ فوجی جیک بار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔
انجانے خطرے کی بو اسے بے چین کر رہی تھی۔
ایک انسانی ہیولا آہستہ آہستہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا…. جیک اپنے کمرے کا لاک ہمیشہ کھول کے سوتا تھا۔
اس انسانی ہیولے نے اندھیرے سے ہم آہنگ ہونے کے لیے خود کو سیاہ چادر سے لپیٹا ہوا تھا۔
اس گھر میں جیک کے علاوہ کوئی نہیں تھا. پورے گھر میں موت کا سناٹا تھا… کہیں دور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز خاموشی کو ڈسٹرب کرتی ہوئی محسوس ہوتی…سیاہ ہیولا کمرے کے بالکل سامنے پہنچ چکا تھا۔
اس نے تھوڑی دیر رک کر اپنے سانسوں کی رفتار کو نارمل کیا….پھر آرام سے دروازہ کھول کر اندر گھس گیا. جیک کے بالکل قریب پہنچ کر بجلی کی تیزی سے اس نے اپنا ہاتھ اوپر کیا۔
اگلے لمحے اس کے ہاتھ میں خنجر تھا… جیسے ہی اس نے خنجر سینے میں گھونپنے کے لیے ہاتھ نیچے کیے اتنی ہی تیزی سے جیک اس سیاہ سائے کو دبوچ چکا تھا۔
سیاہ سایا اس اچانک افتاد سے گھبرا گیا اس نے خود کو چھڑانے کے لیے بہت زیادہ ہاتھ پاؤں مارے۔
مگر آگے اس کا سامنا ایک ریٹائرڈ فوجی کے ساتھ تھا۔ جیک نے پھرتی سے پاس پڑے لیمپ کو جلایا اور اس کا نقاب الٹ دیا۔
یہ دیکھ کر وہ بہت زیادہ حیران رہ گیا کیونکہ سامنے اس کا پرانا ملازم جیک کھڑا تھا۔
اتنا لکھ کر پونم نے کاغذ قلم ایک طرف پھینکے…اس وقت رات کے دو ڈھائی بجے ہوں گے پونم خاموشی سے بستر پہ آکے سوگیا..صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔
وہ جلدی جلدی کام پہ جانے کی تیاری کرنے لگا… ابھی وہ دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ سامنے اس کا دوست جوزف آگیا۔
جوزف دوسرے شہر میں رہتا تھا… ایک دو مہینے بعد وہ پونم کو ملنے آ جایا کرتا۔
دیکھو میرے دوست اس وقت میں بہت زیادہ جلدی میں ہوں… تم اندر جاکر اپنے لیے ناشتہ وغیرہ بنالینا میں شام کو آجاؤں گا… گڈ بائے فرینڈ پونم نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا۔
گڈ بائے میرے دوست ہاں ہاں تم آرام سے جاؤ میں سب کچھ سنبھال لوں گا. جوزف نے ہاتھ ہلاتے ہوئے زور سے کہا۔
اندر آکر جوزف نے دیکھا سارا گھر بکھرا پڑا ہے۔
سب سے پہلے تو اس نے اپنے لیے مزیدار قسم کا ناشتہ تیار کیا…پھر گھر کو صاف کرنے کے لیے کمر کس لی۔
شام کو جب پونم لوٹا تو ہر چیز قرینے سے واپس اپنی جگہ پر تھی… جوزف نے شام کے کھانے کےلیے مچھلی تلی ہوئی تھی جو اس نے رات اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کھیلتے ہوئے پکڑی تھی۔
مچھلی پکڑنے کی اسے اتنی زیادہ excitement تھی کہ اس نے سوچا پونم کو بھی اس کی لذت کام و دہن میں شریک کیا جائے… مچھلی واقعی بہت سپائسی تھی۔
:رات کو جب وہ سونے کےلیے لیٹے تو اچانک جوزف نے پوچھا
!!!پونم میرے دوست
تم نے کہانیاں لکھنا کب سے شروع کی ہیں؟ آج جب میں تمہارے گھر کی صفائی کر رہا تھا تو مجھے بہت زیادہ تعداد میں تمہارے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودے ملے ہیں۔
پتا نہیں دوست میرے ساتھ آجکل کیا ہو رہا ہے۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں کوئی کہانی تیزی سے گردش کرنے لگتی ہے…جب تک اسے میں کسی کاغذ پر اتار نہ دوں وہ میرے دماغ میں گھومتی رہتی ہے…ایسے لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ ابھی میرے سامنے ہورہا ہو
:پونم نے پریشانی سے کہا.
ارے یہ تو ایک رائٹر ہونے کی نشانی ہے… میں نے تمہاری ساری سٹوریاں پڑھی ہیں بہت ہی زبردست ہیں۔
میرا دوست ایک پبلشر ہے. کل میں یہ ساری کہانیاں اس کے پاس لے جاؤں گا، دیکھنا کیسے تم ایک اچھے رائٹر کے طور پر ابھرتے ہو
جوزف نے پرجوش انداز میں کہا۔
.ویسے کوئی فائدہ نہیں ہے اس کا… کیونکہ کہانیاں لکھنا کبھی میرا شوق نہیں رہا ہے
پونم نے لاپرواہی سے کہا۔
مگر دوسرے دن پونم سارا پلندہ اپنے ساتھ لے گیا۔
کچھ دنوں بعد اس کی کہانیاں کیا شائع ہوئیں ایک بھونچال آگیا۔۔۔
کیونکہ اس نے جو بھی کہانیاں لکھی تھیں حقیقت میں ویسے کا ویسا کسی کے ساتھ ہوچکا تھا۔
اس رات واقعی ریٹائرڈ فوجی جیک کو اس کے بوڑھے ملازم نے جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔
ان دنوں قومی خزانے میں بہت بڑی چوری ہوئی۔ چوروں نے پلان نے سب کچھ کیا تھا۔
پولیس کی انتھک کوششوں کے باوجود چوروں کو پکڑنے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
اس دوران پونم نے چوری کی واردات سے لیکر وہاں سے جانے مال کو چھپانے اور پھر ان کے ٹھکانے تک کی ساری تفصیل رات کو اٹھ کر لکھی تھی۔
چونکہ یہ بات پونم کو بھی معلوم تھی کہ وہ جو کچھ لکھتا ہے حقیقت میں اسی ٹائم وہی ہو رہا ہوتا ہے۔
چنانچہ اس نے اس سٹوری کو پبلش کروانے سے گریز کیا
اس وقت پولیس کی کارکردگی پر بہت زیادہ اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے… کیونکہ مجرموں کو ابھی تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا تھا۔
ایک رات پونم پولیس کے انویسٹی گیشن آفیسر کو جاکر ملا اور اس چوری کی ساری تفصیلات جاکر اسے بتائیں۔۔۔
پہلے تو آفیسر بہت زیادہ حیران ہوا اور پونم کو مشکوک انداز میں دیکھنے لگا کہ اسے یہ سب کیسے پتا چلا…؟؟؟
مگر جب پونم نے اپنے بارے اور پھر لگاتار ہونے والے سچے واقعات کے بارے میں بتایا تو نہ چاہتے ہوئے بھی آفیسر کو یقین کرنا پڑا۔
اس نے اسی وقت چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دیئں. پونم کو کڑی نگرانی میں وہیں پر روک لیا گیا۔
چند گھنٹوں بعد چور مال سمیت جیل میں بند تھے۔
دوسرے دن پولیس کی جانب سے اخبارات میڈیا پر مکمل تفصیلات سمیت پونم کو ساری کامیابی کا کریڈٹ دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد پونم ایک ہیرو کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
چند مہینوں میں عام سا لڑکا بہت بڑی شخصیت بن چکا تھا۔
عزت دولت شہرت ہر چیز اس کے قدموں میں تھی.اس نے اپنی خاص صلاحیتوں کا استعمال مثبت طریقے سے کرنا شروع کر دیا۔
اس رات پونم دوسرے شہر جوزف کو ملنے آیا ہواتھا جوزف نے بارہا کہا کہ وہ آج کی رات یہیں رک جائے کیونکہ باہر موسم شدید خراب ہو رہا تھا۔
مگر پونم کو کوئی عجیب سی جلدی تھی. یہ دسمبر کی ٹھٹرتی ہوئی برفانی رات تھی. پونم نے کالے رنگ کی برساتی پہنی ہوئی تھی.جیسے ہی وہ باہر نکلا اسے فوراً سواری مل گئی. اس نے کوچبان کو اپنی منزل کا بتا کر نشست سے ٹیک لگا دی۔
کوچوان نے سفید رنگ کا جبہ پہن رکھا تھا… اس نے اپنے چہرے کو ایک بڑے ہیٹ سے چھپایا ہواتھا.پونم کو اس وقت سکون کی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی.جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں کوچوان نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑانا شروع کر دیا۔
گھوڑے کے قدموں کی چاپ اور بارش کی بوندیں مل کر پونم کے کانوں میں مدھر سا شور پیدا کر رہی تھیں۔
پونم آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔
بطور مصنف ویکاش بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھا. مگر جب سے پونم کی سچی کہانیوں کا سلسلہ شروع ہوا… ویکاش کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے چلا گیا۔
کتنے دنوں سے وہ پونم کو جان سے مارنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا… آج کی رات وہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
اس وقت کوچوان کے روپ میں ویکاش کسی سنسان جگہ کی تلاش میں تھا…جہاں وہ آرام سے وہ پونم کا کام تمام کر سکے… ایک آدھ بار وہ مڑ کر گہری نیند میں سوئے پونم کو دیکھ لیتا تھا۔
ویکاش کے چہرے پر مطمئن مسکراہٹ تھی… ایک جگہ اسے مطلوبہ مقام نظر آگیا اس نے گھوڑے کی رفتار آہستہ کردی. جیسے ہی اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا پونم نیند سے بیدار ہو کر کچھ لکھ رہا تھا
ویکاش کی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا…وہ جلد سے جلد پونم کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا تھا.اتنا لکھ کر پونم کو احساس ہوا کہ وہ اپنی موت کی کہانی لکھ رہا ہے.پونم کو اچانک لکھتے دیکھ کر ویکاش تھوڑا چونک گیا۔
مگر پھر وہ سنبھل کر پونم کو مارنے کے لیے لپکا…اس دوران پونم ویکاش کو وقت سے بیس سال آگے اور خود کو واپس اپنے بچپن میں بھیجنے کا لکھ چکا تھا۔
اچانک عجیب سا دھواں بنا اور ایک جھٹکے سے پونم کی آنکھ کھل گئی… اس نے جیسے ہی خود کو دیکھا تھا دھک سے رہ گیا کیونکہ اس وقت وہ آٹھ نو سال کا بچہ تھا.. اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی… سامنے میز پر 55 سالہ ویکاش کی کہانیوں کی کتاب پڑی ہوئی تھی.تو کیا یہ کہانی پڑھتے پڑھتے مجھے نیند آ گئی تھی؟اور وہ سب ایک خواب تھا پونم نے پریشانی سے سوچا۔
ابھی وہ گومگو کی کیفیت میں تھا کہ اس کی ماما اسے جگانے آ گئی… اچھا ہوا تم جاگ گئے اب جلدی سے نیچے آجاؤ ناشتہ پر تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔
ماما اسے ہدایات دیتے ہوئے واپس چلی گئی. تب پونم کو یاد آیا کہ یہ سب ایک خواب تھا ابھی تو وہ سکول جاتا ہے جہاں اس کی عمر کے بہت سارے دوست ہیں۔ جوزف تو کوئی ہے ہی نہیں۔
ویکاش تو اس کا پسندیدہ مصنف ہے جس کی کہانیاں وہ بہت شوق سے پڑھتا ہے… اس نے مسکرا کر سر جھٹکا، اور نیچے کی طرف دوڑ لگا دی۔
بظاہر یہ کہانی ختم ہوچکی ہے…مگر ذرا ٹھہرئیے کچھ عرصے بعد پونم اپنے والدین کے ہمراہ دوسرے شہر گھومنے پھرنے گیا۔
وہاں پر اچانک اسے جوزف نظر آگیا…. پونم نے دوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور بے یقینی کے عالم میں پوچھا:
جوزف تم نے مجھے پہچانا…؟؟؟
جوزف نے پیچھے مڑ کر دیکھا…. کہانی ابھی جاری ہے…ختم شد
( تحریر حمنہ قندیل )
حمنہ قندیل کے مذیدافسانے