Barish K Bad Urdu Novel | Episode 24| بارش کے بعد اردو ناول
مہرانگیز کو سجاول کی یوں ڈھٹائی سے گھر آنے کی ہرگز توقع نہیں تھی.
سجاول نے مہر انگیز کے سرخ ہوتے گالوں کو گہری مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا.
وہ آج بھی ویسی ہی تھی.جب اسے غصہ آتا تو اپنے غصے کو چھپانے کا طریقہ اسے کبھی نہیں آیا تھا.
جبکہ میر شہزاد اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا.
سجاول اسے گھر کے باہر ملا تھا جو مسکان کو لینے آیا کھڑا تھا…سلام دعا کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مہرانگیز کا کزن ہے. میر شہزاد اس کے رشتہ داروں کو اتنا زیادہ نہیں جانتا تھا.
مہر انگیز کا کزن باہر کھڑا تھا ایسے میں میزبانی کا تقاضا یہی تھا کہ وہ اسے اندر چلنے کا کہتا. میر شہزاد کی آفر سجاول خوشدلی سے قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ اندر آگیا تھا. مگر یہاں آکر اسے احساس ہوا کہ سجاول کی آمد مہرانگیز کو سخت ناگوار گزری ہے.
کسی سے کوئی بات کیے بغیر وہ خاموشی سے اندر کمرے میں چلی گئی تھی.
سجاول اور مسکان کوئی پندرہ بیس منٹ میر شہزاد کے ساتھ بیٹھے رہے تھے.
مسکان ضرورت سے زیادہ میر شہزاد سے فری ہونے کی کوشش کرتی رہی تھی…ہر بات میں اپنے سٹیٹس کا اظہار کرتی وہ میر شہزاد سے حددرجے مرعوب بھی نظر آ رہی تھی.
بظاہر میر شہزاد ان سے بہت شائستگی سے پیش آرہا تھا. مگر اندر ہی اندر مہرانگیز کا رویہ اسے الجھن اور پریشانی میں مبتلا کررہا تھا.
،،اصل میں سجاول اور مہرانگیز کی پچپن سے بات طے تھی. بعد میں بعض وجوہات کی بناء پر یہ رشتہ نہیں ہوسکا تھا. لگتا ہے مہرانگیز ابھی تک یہ سب نہیں بھولی ہے.،،
مسکان نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہارت سے زہر گھولا.
میر شہزاد نے چونک کر اسے دیکھا.
،،اب ظاہری بات ہے کچھ عرصہ تو لگے گا ناں حقیقت کو قبول کرنے میں…،،
ٹانگ پر دوسری ٹانگ جماتے ہوئے وہ بظاہر ہمدردی سے بولی.
سجاول اس دوران چپ رہا تھا نا اس نے اس بات کی تصدیق کی تھی اور نہ ہی تردید…
تیر نشانے پر لگ چکے تھے.
خاموشی سے سر جھکائے موبائل اسکرین پر مصروف میر شہزاد کے ساتھ مزید بیٹھے رہنا اب فضول تھا.
چنانچہ دونوں بہن بھائی اجازت لیکر وہاں سے روانہ ہوگئے.
ان کے جانے کے بعد وہ مہرانگیز کے پاس آیا…سر جھکا کر تیزی سے کپڑے ہینگر میں لٹکاتی مہرانگیز کی آنکھیں لال تھیں مگر وہ رو نہیں رہی تھی.
،،کیا بات ہے مہرانگیز؟،،
اس کے بالکل قریب آکر میر شہزاد نے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا.
،،طعنہ دے کے گئی ہے کہتی ہے تمہارا شوہر ایک کام والی نہیں رکھ کے دے سکتا.،،
چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی.
،، ہاں میری غلطی ہے مجھے خیال ہی نہیں آیا.،،
وہ فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے بولا.
،،کیا میں یقین کرلوں کہ تم صرف اس وجہ سے ہرٹ ہوئی ہو؟،،
چند لمحے توقف کے بعد وہ بغور اسے دیکھتے ہوئے بولا.
زبردستی آنسو چھپاتے وہ وہیں نڈھال سی بیڈ پر بیٹھ گئی…
،،آپ کو اندازہ نہیں ہے ان لوگوں کی وجہ سے میں نے کتنی اذیت جھیلی ہے.میری شخصیت میری عزت نفس سب کچھ روند کر ابھی بھی انھیں سکون نہیں ملا.،،
توڑ توڑ کر الفاظ ادا کرتی مہرانگیز میر شہزاد کو اس وقت بہت معصوم اور قابل رحم لگ رہی تھی…
،،میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتا ہوں مہرانگیز !!!،،
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے بولا.
ہچکیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ وہ سب کچھ اسے بتاتی گئی. اتنے سال گزرنے کے بعد وہ آج پہلی بار کسی کے سامنے اپنی ان تکلیف دہ یادوں کو شئیر کررہی تھی جن کی وجہ سے وہ ابھی تک اذیت اور کرب میں مبتلا تھی.
میر شہزاد کنگ سا اسے دیکھے جارہا تھا بس دیکھے جارہا تھا.
،،اوہ مائی گاڈ مہرانگیز تم نےصرف ان لوگوں کی وجہ سے راگ ٹی وی میں کام کیا تھا؟،،
گیلی آنکھیں زبردستی رگڑتی مہرانگیز نے اثبات میں سر ہلا دیا.
،،جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو ماں مجھے ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ اچھے بچوں کی طرح کسی سے لڑنا جھگڑنا نہیں ہے… بس اپنے کام سے کام رکھنا ہے.،،
کچھ دیر توقف کے بعد میر شہزاد نے بولنا شروع کیا….
،،شروع میں ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے میں اچھا بچہ بننے کی پوری کوشش کرتا تھا. مگر کچھ لڑکے ایسے تھے جو میری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مجھ سے چیزیں چھین لیتے اور مجھے خوب ستایا کرتے تھے.
کچھ عرصہ تو میں شریف بچہ بن کر ان کا ظلم سہتا رہتا رہا مگر کب تک الٹا ان کی بدمعاشیاں بڑھتی گئیں. ایک دن تنگ آکر میں نے پلٹ کر جواب دیا تو وہ فوراً ایک قدم پیچھے ہٹ گئے.تب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے.،،
میر شہزاد کی اس بات پہ مہرانگیز نے تعجب سے سر اٹھا کر اسے دیکھا.
اس نے اپنی بات جاری رکھی….
،،مہرانگیز زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں ایسے بےشمار بلّیز ملیں گے جن کا کام صرف دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہوتا ہے.
بدقسمتی سے ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے شریف انسان بننا ہے مگر کبھی یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کوئی آپ کو زچ کرے یا اپنی طاقت کے ذریعے آپ کی شخصیت کو مجروح کرے تو پھر اپنے دفاع میں کیا کرنا چاہیے… حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدلہ لینے کا مکمل اختیار دیا ہے. صبر اور معاف وہاں کیا جاتا ہے جہاں زیادتی کرنے والا شرمندہ ہو.،،
،،اگر ہم بدلہ لینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو پھر کیا کریں.،، مہر انگیز نے الجھ کر پوچھا.
پھر خود کو تکلیف دینے کی بجائے ہمیں کم از کم اپنے گرد ایسا مضبوط حصار قائم کرنا چاہیے کہ کوئی اس حصار سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرے. اکثر دیکھا یہی گیا ہے کہ زیادہ تر مذاق مذاق میں کمزور کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے. وہ بیچارہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے. حالانکہ اسے اسی وقت سٹینڈ لیکر واضح الفاظ میں بتانا چاہیے کہ وہ اس قسم کے گھٹیا مذاق پسند نہیں کرتا ہے. جس طرح ہم اپنے گھر کی حفاظت کے لیے دروازہ لگاتے ہیں تاکہ ہر کوئی منہ اٹھا کر اندر نہ چلا آئے… ویسے ہمیں اپنے گرد ایک ایسی حفاظتی باڑ لگانی چاہیے جسے پھلانگنے کی کوئی جرآت نہ کرسکے.،،
وہ بہت نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا.
،،ایک بات کہوں؟،،
وہ اسے دیکھتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولی.
میر شہزاد نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا.
،،تم سب غلط کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟،،
،،فرض کرو اگر میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں تو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی؟؟؟،،
وہ اس کی طرف دیکھ کر شریر انداز میں بولا.
،،پتا نہیں.،،
وہ گڑبڑا کر بولی
،،مہرانگیز جب میں نے تم سے نکاح کیا تھا تو اس وقت صرف غصہ تھا. جیل جانے کے بعد وہ غصہ پچھتاوے سے شرمندگی میں بدلا…میں سوچا کرتا تھا اگر کبھی رہا ہوا تو تم سے اپنی زیادتی کی معافی مانگ لوں گا بس!!!
پھر پتا نہیں کیوں تمہاری وہ التجا کرتی خوفزدہ آنکھیں بار بار مجھے پریشان کرنے لگیں. میں جتنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا تم اتنا میرے قریب آتی گئی. آہستہ آہستہ مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے. یہ محبت کب ہوئی اور کیوں ہوئی میں خود نہیں جانتا؟؟؟
مہرانگیز جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو وہ کچھ نہیں دیکھتی کہ اگلا بندہ کون ہے وہ کیا کام کرتا ہے بس ہوجاتی ہے.،،
وہ اس کی ناک کھینچ کر اٹھتے ہوئے ہوئے بولا.
اس کی اس بات پہ گیلا چہرہ صاف کرتی مہرانگیز ہلکا سا مسکرا دی تھی.
سیاہ رات!!!
وہ رات بہت ہی بھاری اور دہشت ناک تھی. شازیہ میر ساری رات سو نہیں پائی تھیں.
دوسری طرف ہمایوں لغاری نے وہ رات اپنے فارم ہاؤس میں گزاری تھی.
اپنے آدمیوں کے ساتھ مل کر میر شہزاد کو جان سے مارنے کی مکمل منصوبہ بندی کرکے صبح اذانوں کے ٹائم وہ گھر پر پہنچا تھا. آجکل اس کی نیند بالکل اڑ چکی تھی.سکون آور ادویات بھی اب اپنا اثر کھونے لگی تھیں.
تازہ دم ہونے کے لیے اس نے گولیاں کھا کر سونے کی کوشش کی آہستہ آہستہ اس کا دماغ غنودگی میں چلا گیا.
وہ ایک سنگل روڈ تھی. ایک ٹرک آہستہ آہستہ سامنے سے آرہا تھا. ڈرائیور نے سفید سوٹ اور سفید ٹوپی پہنی ہوئی تھی.
میر شہزاد روڈ کراس کرنے لگا تو اچانک ڈرائیور نے اپنی سپیڈ بڑھادی.
مہر انگیز سڑک کے کنارے چیخ چیخ کر میر شہزاد کو پکارنے لگی. مگر پلٹنے سے پہلے ٹرک اسے کچلتا ہوا آگےبڑھ گیا تھا.
خون میں لت پت میر شہزاد سڑک کے درمیان گرا پڑا تھا.
،،میر شہزاد!!!،،
ایک دلدوز چیخ فضا میں بلند ہوئی.
،،کیا ہوا مہرانگیز؟تم ٹھیک ہو؟،،
میر شہزاد نے اسے نیند سے جگاتے ہوئے پوچھا.
،،میرشہزاد….تمہیں کچھ نہیں ہوگا. ہاں کچھ نہیں ہوگا… تم ایسے نہیں جاسکتے. ،،
تھر تھر کانپتی وہ جیسے ابھی تک اس منظر سے باہر نہیں نکلی تھی.
،،میں کہیں نہیں جارہا مہرانگیز آنکھیں کھولو تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہوگا.،،
،،وہ تمہیں مار دیں گے.،، وہ خون وہ منظر اس خواب نے ابھی تک مہرانگیز کو جکڑا ہوا تھا
،،کسی نے نہیں مارا مجھے…دیکھو میں تمہارے سامنے ہوں.جسٹ ریلکس مجھے کچھ نہیں ہوگا.،،
وہ مہرانگیز کو اپنے قریب لگاتے ہوئے بولا.
وہ صبح!!!
آٹھ بجے ایک بھرپور نیند لیکر ہمایوں لغاری جب جاگا تو گھر میں مکمل خاموشی تھی.
آج اتوار تھا. اس کا خیال تھا کہ بچے گھر پر ہوں گے. مگر سکوت کچھ زیادہ گہرا محسوس ہورہا تھا.
سفید بند گلے والا ڈیزائنر سوٹ پہنے شازیہ پہلے سے کھانے کی میز پر اس کا انتظار کررہی تھی. اتوار کا ناشتہ وہ دونوں اکھٹے بیٹھ کر کرتے تھے ورنہ تو ان کی لائف اتنی سوشل تھی کہ کھانے کے ٹائم پر باقاعدہ کسی کا انتظار نہیں کیا جاتا تھا.
،،بچے نظر نہیں آ رہے؟،،
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بشاشت سے بولا.
شازیہ میر نے گہری نظروں سے اسے دیکھا.سیاہ کرتے میں ملبوس ہلکی بڑھی ہوئی شیو، رنگت انتہائی سفید بات کرنے اٹھنے بیٹھنے میں بلا کی تہذیب و شائستگی…وہ آج بھی ویسا خوبصورت اور دل موہ لینے والی شخصیت کا مالک تھا.
،،بچے آج نانو کو ملنے حویلی چلے گئے ہیں.،،
پہلو بدل کر وہ سپاٹ انداز میں بولی.
،،اچھا …. اتنی صبح صبح میں سوچ رہا تھا کافی دنوں سے بچوں سے ملنے کا موقع نہیں ملا.،،
اچھا کو قدرے لمبا کرتے ہوئے اس نے حیرت سے کہا.
،،بچے اب آپ کے بغیر رہنے کے عادی ہوگئے ہیں.،،
دلیہ کی پلیٹ اپنی طرف کھسکاتے ہوئے وہ بظاہر عام سے لہجے میں بولی.
،،آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں. آجکل بچوں اور آپ کو صحیح طرح سے ٹائم نہیں دے پا رہا ہوں.،،
وہ شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا.
،،اٹس اوکے میں آپ کی مصروفیات سمجھ سکتی ہوں.،،
پتا نہیں ایسا کیا تھا اس کے لہجے میں کہ چائے کا تھرماس اٹھاتے ہمایوں لغاری نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا. پھر سر جھٹک کر کپ میں چائے انڈیلنے لگا.
مہر انگیز صبح سویرے جب جاگی تو دل عجیب طرح سے بوجھل تھا. شاید رات والے خواب کا اثر ابھی تک دماغ سے محو نہیں ہوا تھا…اے سی کی خنکی کے باوجود سب کچھ گھٹا گھٹا محسوس ہورہا تھا. نماز کے بعد تازہ ہوا لینے کے لئے وہ ٹہلتی ٹہلتی باغیچے میں آگئی.کچھ دن پہلے اس نے اور میر شہزاد نے جو پودے لگائے تھے ان سے نکلتی نئی کونپلیں زندگی کی امید دلا رہی تھیں. وہ نہ جانے کتنی دیر جھولے پر خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی.
پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے میر شہزاد کو اپنے قریب پاکر وہ ہلکا سا چونکی. وہ کب سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا.
،،رات تم کیا کہہ رہی تھی ہاں؟،،
وہ مسکرا رہا تھا.
،،کیا کہہ رہی تھی…؟؟؟،،
،،لوجی میں ساری رات خوامخواہ خوش فہمیاں پالتا رہا کہ کسی کو واقعی مجھ محبت ہوگئی ہے مگر یہاں پر کچھ یاد ہی نہیں.،،
جتنا وہ اداس تھی اتنا اس کا موڈ خوشگوار تھا.
ایک پل کو اس کا دل چاہا کہ وہ اسے بتا دے کہ محبت کا تو پتا نہیں مگر وہ اسے زندگی بھر کےلیے کھونا نہیں چاہتی. سوچنا اور بات تھی جبکہ اعتراف کرنا اتنا سہل نہ تھا.
ناشتہ کرتے ہوئے میر شہزاد بہت زیادہ خوش لگ رہا تھا. اس کا ریسٹورنٹ مکمل ہوکر کھلنے کے لیے بس تیار تھا.
تھوڑی سی سجاوٹ کا کام جو باقی رہ گیا تھا آج اس نے وہی جاکر فائنل کروانا تھا. کیونکہ اس جمعہ ریسٹورنٹ کا افتتاح ہونا تھا.میر شہزاد کی کوشش تھی کہ افتتاحی تقریب میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے.
وہ جب روانہ ہونے لگا تو پہلی بار مہرانگیز اسے روانہ کرنے دروازے تک آئی تھی. جاتے جاتے میر شہزاد نے مڑ کر کر اسے دیکھا.
وہ ابھی تک متفکر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی.
وہ اس کی پروا کرنے لگ گئی تھی یہ خوشی کم تھی کیا!!!
مسکرا کر سرشاری سے سر جھٹکتا وہ چابی گاڑی کے کی ہول میں گھسانے لگا.
بے اختیار مہرانگیز کا دل چاہا کہ آج وہ اسے جانے سے روک دے.
ہمایوں لغاری کے پاس عہدہ تھا طاقت تھی کوئی اس کا بال بینکا نہیں کرسکتا تھا.مگر اس کے باوجود اگر شازیہ میر کا شک اس پر چلا جاتا تو پھر یہ طاقت یہ عہدہ کچھ بھی اس کے عتاب سے نہیں بچا سکتا تھا.
اس لیے احتیاطاً وہ آج جان بوجھ کر گالف کھیلنے اپنے فارم ہاؤس نہیں گیا تھا.
میر شہزاد کی موت کی خبر آنے تک وہ شازیہ میر کی نظروں کے سامنے رہنا چاہتا تھا.
شام کے چار بجے معمول کے مطابق ہمایوں لغاری اسٹڈی روم چلا گیا.
اس دوران شازیہ میر کا فون پر اپنی دوست کے ہمراہ شاپنگ کرنے کا پروگرام بن گیا.
اس شاپنگ مال کی سیکورٹی بہت سخت تھی چاروں طرف سے کیمرے اور چاک و چوبند گارڈز باہر کھڑے تھے. ظاہری بات ہے اس وقت شاپنگ کرتی شازیہ میر کی وڈیو بھی کیمرے میں ریکارڈ ہورہی ہوگی.
اس نے چند ضرورت کی اشیاء خریدیں. اس کا چہرہ حددرجے پرسکون اور مطمئن نظر آ رہا تھا….
گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں.
میر شہزاد صبح گیارہ بجے گھر سے نکلا تھا. اب ساڑھے چار بج چکے تھے…اس وقت تک تو اسے آجانا چاہیے تھا. مہرانگیز نے تشویش سے ٹائم دیکھتے ہوئے سوچا.
اس نے کال ملائی مگر نمبر بند جارہا تھا. پریشانی کے عالم میں سے اس نے دوسرا نمبر ملایا مگر گھنٹی اسی کمرے میں گونجنے لگی. آواز کے تعاقب میں اس کی نظر سنٹر ٹیبل پر پڑے موبائل پر گئی. میر شہزاد اپنا دوسرا موبائل گھر پر چھوڑ گیا تھا.
چھ بجے کے قریب اپنی دوست کو گھر چھوڑ کر شازیہ میر جب واپس لوٹی تو باہر باوردی گارڈز ویسے الرٹ کھڑے تھے.گھر میں کسی قسم کی کوئی ہنگامی صورتحال نظر نہیں آ رہی تھی.
ہمایوں لغاری ابھی تک اسٹڈی روم سے نہیں نکلا تھا.اس نے آہستگی سے لائبریری کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا.
اسٹڈی ٹیبل پر کافی کا کپ جوں کا توں رکھا ہوا تھا جبکہ ہمایوں لغاری ٹیبل سے ہٹ کر دائیں طرف رکھے صوفے پر سر جھکا کر بیٹھا تھا. اس کے ایک ہاتھ سے خون کے چند قطرے نمودار ہو رہے تھے جبکہ دوسرے ہاتھ کی مدد سے اس نے کلائی کو سختی سے پکڑ رکھا تھا.
،،بہت جلد بچے میرے ساتھ رہنے کے عادی ہو جائیں گے.،،
وہ شازیہ میر کی طرف دیکھے بغیر اطمینان سے بولا.
دروازہ پہ ہاتھ رکھے شازیہ میر وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
میرا نہیں خیال کہ مجھے یاد دلانا چاہیے۔ اگر یہ والی ایپیسوڈ آپ کو پسند آئی ہے تو امید ہے کمنٹس میں آپ مجھے اپنا فیڈ بیک ضرور دیں گے۔
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Bht interesting
Samia aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Bht acha likhti hn ap
Thanks Sid, aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Bhtttt der karti hn plzzzzzz itna intezar mat karwaya karn bht behtareen likhti hn Masha Allah
Thanks, aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Bht achi thi ye episode b..ab jldi sy new episode a jaey
Mujhy b next part ka intezaar rehta h.
Whatsapp k 1 page pr b aap k novel ki episodes upload Hoti hn…alishba or Sultan ki b hui thn.
JH aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Alishba aur Sultan novel ap ko kesa lga tha?
Anonymous aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Waiting for today episode
Sara aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.
Aj ki episode mam
Khdija aj ki episode upload ho gi h.Mjhe btae ga zaror ye vali episode ap ko Kesi lgi.