Amaltas Urdu Novel | Episode 1 |املتاس اردو ناول
کال جارہی تھی۔۔۔ اگرچہ اس کی خواہش تھی کہ کال ریسیو کرنے والا اس کا مطلوبہ شخص ہو مگر گھنٹی کی آواز کے ساتھ بے چینی میں مذید اضافہ ہورہا تھا۔۔ دوسری بیل پر فورا کال اٹھا لی گئی۔
“ہیلو۔۔۔”
چند لمحے توقف کے بعد وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
“ہیلو اسلام علیکم!!!”
کسی 6، 7 سال کی بچی کی معصوم بھری آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
“وعلیکم السلام! بیٹا کوئی گھر میں بڑا ہے تو اس سے میری بات کروائیں۔”
اس نے نرمی سے کہا۔
“مما تو گھر پر نہیں ہیں کندن بوا اس وقت کچن میں ہیں۔ آپ کو جو کام ہے ہمیں بتائیں۔”
کیوٹ سی آواز میں تھوڑی عجلت تھی۔
“آپ کا کیا نام ہے؟”
“ہمارا نام ہالہ نور ہے۔”
کھٹ سے جواب آیا۔
“Wao! Such a lovely name.”
“آپ کے بابا کا کیا نام ہے؟”
“میرے بابا نہیں۔”
بنا کسی جذبے کے اس نے جواب دیا۔
“اور مما؟؟؟”
کچھ دیر توقف کے بعد اس نے پوچھا۔
“میں اجنبی لوگوں کو اپنی مما کا نام نہیں بتاتی۔”
اس بات پہ مومن بے اختیار مسکرایا۔
“اوکے سمارٹ لٹل گرل میں بعد میں کال کرلوں گا۔”
“اوکے بائے”
فون کھٹاک سے بند ہوگیا۔
اس نے مسکرا کر فون کی سکرین کو دیکھا جس پہ بابا ہوم لکھا جگمگا رہا تھا ۔
لگتا ہے یہ نمبر اب کسی اور جگہ زیر استعمال ہے۔ ظاہری بات ہے آجکل لینڈ لائن فون کا دور نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا تو پھر اتنا عرصہ وہ اس نمبر کو کیوں آن رکھتی۔
اس نے الجھ کر سوچا۔ اور سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔
لندن کے جدید اپارٹمنٹ میں کرسی پہ جھولتے اس کی عمر تقریبا 31 سال ہوگی۔ رنگت گندمی اور سیاہ کرلی بالوں کی شارٹ کٹنگ اس کے ظاہری حلیے کو ماڈرن اور یونیک لک دی رہی تھی۔
پرسوچ نظروں سے سامنے کے منظر کو دیکھتے وہ جیسے اس منظر سے غائب تھا۔
یہ دماغ بھی عجیب چیز ہے چند لمحے میں انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔
آہستہ آہستہ ماضی کے اوراق پلٹ رہے تھے اور کوشش کے باوجود وہ خود کو اس بہاو سے روک نہ پا رہا تھا۔
اس دن رات 9 بجے
حیات کچن سے ہالہ کا دودھ لیکر کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ ہال میں سٹینڈ پہ رکھے لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی۔ پہلے ایک بار تھوڑی سی بجی۔
حیات کا دل دھڑک کر مٹھی میں آیا تھا۔ حالانکہ سالوں سے اس نمبر پہ رانگ نمر کے علاوہ کوئی کال نہیں آتی تھی مگر جب بھی فون بجتا اس کی حالت ہمیشہ ایک جیسی ہوتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد گھنٹی دوبارہ بجی تو بجتی ہی چلی گئی۔
اس نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا اور لہجے کو حد درجے سرسری رکھتے ہوئے ہیلو کہا۔
دوسری جانب خاموشی رہی۔
“ہیلو”
اس بار حیات نے قدرے اونچی اور سخت آواز میں کہا۔
“ہیلو میں مومن۔۔۔۔”
چند لمحے تو یوں لگا جیسے دل دھڑکنا بھول گیا ہو۔۔
حیات کو سمجھ نہیں آئی کہ اس وقت وہ کس قسم کا ری ایکشن دے۔
کہتے ہیں خاموشی کی زبان میں کئی سوال چھپے ہوتے ہیں اس وقت حیات کی خاموشی نے مومن کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔
“حیات سے بات ہو سکتی ہے۔”
نہایت سپاٹ لہجے میں پوچھا گیا۔
“آپ اس وقت حیات سے بات کر رہے ہیں۔”
اس سے بھی زیادہ سپاٹ لہجے جواب دیا گیا۔
“میں پندرہ دن بعد پاکستان آ رہا ہوں اور آپ سے ملنا ہے۔”
“شیور مجھے بھی آپ کا انتظار تھا۔”
حیات کے لہجے کی کاٹ میلوں دور بیٹھے مومن نے بھی محسوس کرلی تھی۔
“اوکے تو پھر وہاں پر بات ہوگی۔”
مومن نے فورا فون بند کردیا۔
حیات جہاں تھی وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ اس کا دماغ شل ہوچکا تھا۔ مومن واپس آرہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی اس بات پہ سوگ منائے یا خوشی کا اظہار کرے۔
وہ پاس پڑی کرسی پہ نڈھال سی گرگی۔
اس کی عمر 28،29 سال ہوگی۔ سانولی رنگت نارمل قد ان سب میں جو چیز سب سے زیادہ پرکشس تھی وہ تھیں اس کی آنکھیں۔۔۔ نہ تو وہ عام سی بڑی آنکھیں تھیں اور نہ ہی شوخ پلکوں والی بلکہ بغیر کسی کریز کے، ایک سادہ سی بناوٹ لیے۔۔ذہین چھوٹی آنکھیں۔۔۔جس میں عجب سا ٹھہراو نظر آتا۔
پہلی نظر میں کوئی اسے دیکھتا تو ان سرد خاموش آنکھوں کو نظر انداز کرنا تقریبا ناممکن تھا۔
کچھ دیر تو وہ سکتے سی کفیت میں بیٹھی رہی۔ جب حواس کچھ بحال ہوئے تو دماغ جلدی سے کام کرنے لگا۔
مومن واپس کیوں آرہا تھا۔ وہ بھی 8 سال بعد اگر وہ واپس آرہا تھا تو کوئی مقصد بھی ہوگا۔
بے اختیار اسے ہالہ کا خیال آیا ایک جھٹکے سے وہ اٹھ کر ہالہ کے پاس گئی۔ اس کے ٹیبلٹ پہ کارٹون ابھی بھی چل رہے تھے مگر وہ خود گہری نینید سوگی تھی۔ اس نے افسردگی ہاتھ میں پکڑے دودھ کے گلاس کو دیکھا۔۔۔ اور اسے ساتھ رکھی سائیڈ پہ رکھ دیا۔
کچھ دیر وہ اسے پیار سے دیکھتی رہی۔ ایک آنسو لڑھک کے اس کے گالوں پہ گرا اس نے ہڑبڑا کر انگلیوں کے پوروں سے رگڑا کیونکہ یہ نہایت شرمندگی کی بات تھی کہ حیات رو رہی تھی۔
ہالہ کے پھول جیسے گالوں پہ بوسہ دے کر وہ اٹھ کر باتھ روم میں منہ دھونے چلی گئی۔
دوسری صبح معمول کے مطابق لال حویلی میں اتری تھی۔ کندن بوا صبح سے نوٹ کررہی تھی حیات پریشان اور الجھی ہوئی ہے۔
اس وقت وہ چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے برآمدے کے سامنے بنی دو تین سیڑھیاں جو صحن سے اندر داخل ہونے کے لیے بطور انٹرنس استعمال ہوتی تھیں وہاں پر خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی تھی۔
لال اینٹوں سے بنی سادہ حویلی، ہر طرف سے پودوں، بیلوں ںسے ڈھکی ہوئی تھی۔اس کی چاردیواری کو پھل دار اور سایہ دار درختوں نے گھیرا ہوا تھا۔ کشادہ کمرے،اونچی چھتیں لمبے برآمدے اور راہداریاں ایک عجب سکون اور کشادگی کا احساس دلاتے تھے۔
آغا جان کی وفات کے بعد حیات نے اس گھر کی سادگی کو جوں کا توں برقرار رکھا تھا۔
“چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔۔۔پتر “
کندن بوا نے اسے تشویش سے دیکھتے ہوئے کہا۔
حیات نے چونک کر ٹھنڈے کپ کو دیکھا اور اٹھ کر کچن کے سنک میں آکر اسے بہادیا۔
“ناشتہ تیار ہے۔”
کندن بوا جو اس کے پیچھے تیزی سے چلتی آرہی تھی اسے واپس پلٹے دیکھ کر فورا بولی۔
“بھوک نہیں ہے۔۔۔”
“اللہ خیر کرے۔”
کندن بوا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
آج ناجانے ایسی کونسی انہونی ہوگئی تھی جس نے حیات کو اتنا ڈسٹرب کردیا تھا۔
وہ اپنے جذبات چھپانے میں ظالم حد تک ماہر تھی۔ جب تک خود نہ چاہتی، کوئی مائی کا لعل یہ نہیں جان سکتا تھا کہ حیات اس لمحے کیا سوچ رہی ہے۔
اگر اس وقت وہ پریشان نظر آرہی تھی تو اس کا مطلب کوئی سنگین معاملہ تھا۔
“حیات پتر سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟؟”
کندن بوا نے اسے مضطرب دیکھ کر بے چینی سے پوچھا۔
“مومن واپس آرہا ہے؟”
“مومن آرہا ہے۔”
کندن بوا جیسے بے یقین تھی۔
“جی!!!” حیات نے اثبات میں سرہلایا۔
“کیوں آرہا ہے؟”
تعجب واضح تھا۔
“مجھے نہیں معلوم مگر میں اس وقت مذید کوئی نیا تنازع سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ان سب سے بڑھ کر مجھے ہالہ کی فکر ہے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں اس کے ساتھ اور کون کون آرہا ہے۔”
حیات انتہائی پریشان لگ رہی تھی۔
“آخر سب کا سامنا تو ایک دن کرنا ہی تھا۔ اب آرہا ہے تو دعا کرو کوئی بہتر فیصلہ ہوجائے تم دونوں کے درمیان۔”
کندن بوا نے تسلی دینے کے انداز میں کہا۔
“بوا آپ جانتی ہیں یہ اس کے باپ کا گھر ہے میں اسے یہاں آنے سے روک نہیں سکتی۔ مگر جب اس کے ساتھ بیوی اور ظاہری بات ہے بچے بھی ہوں گے تو یہاں کے لوگوں کو ڈسکس کرنے کےلیے نیا ٹاپک مل جائے گا۔۔۔ بوا میں اور ہالہ ان کا ٹاپک نہیں بننا چاہتے۔ آپ جانتی ہیں ہالہ ابھی بہت چھوٹی ہے وہ اس صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان ہوگی۔”
وہ کنپٹیاں مسل رہی تھی۔
“لوگوں کا کیا ہے وہ تو الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں بچی کو باپ سے دور رکھنا ظلم ہے مومن جیسا بھی آخر ہے تو اس کا باپ اس حقیقت کو تم کتنا عرصہ جھٹلاو گی۔”
“جتنا عرصہ وہ مجھ سے بھاگتا رہے گا ۔”
وہ قطعیت سے بولی اور کچن سے باہر نکل گی۔
ابھی اس کے پاس کچھ وقت تھا مومن نے پندرہ دن بعد یہاں آنا تھا اس لیے اس کے آنے پہلے وہ کوئی حل تلاش کرلے گی۔ اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
آج رات تقریبا وہی ٹائم ہوگا جس وقت (پچھلی رات) مومن کا فون آیا تھا۔ حیات کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
چوکیدار کا نمبر دیکھ کر اس نے چونکنے کے انداز میں فورا اوکے کا بٹن دبایا۔
“حیات بی بی کوئی نوجوان گھر کے اندر داخل ہونا چاہ رہا ہے۔۔۔ کہتا ہے یہ اس کے باپ کا گھر ہے۔۔۔میں نے زبردستی روکا ہوا ہے۔”
“میں دیکھتی ہوں۔”
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ تیزی سے کمبل اپنے اوپر اٹھاتے ہوئے بولی۔ اس کے پہلو میں سوئی ہالہ نے چونک کر ماں کو دیکھا اور دوبارہ کارٹون دیکھنے میں مصروف ہوگئ۔ روزانہ رات آٹھ سے نو بجے تک اس کا کارٹون دیکھنے کا ٹائم ہوتا تھا۔
کمرے سے نکل کر ہال میں لگی ایل سی ڈی پر پورے گھر کے کیمروں کی لوکیشن نظر آرہی تھی۔ مین گیٹ پہ چوکیدار سے بحث کرتا نوجوان واضح نظر آرہا تھا۔
بھوری جینز سبز شرٹ کے اوپر موسم کے حساب سے اس نے بلیک جیکٹ پہن رکھی تھی کندھے پہ بیگ کو پکڑے وہ سخت بیزار نظر آرہا تھا۔
“اسے اند آنے دو-” حیات نے کان سے لگائے فون پر حکم دینے کے انداز میں کہا۔
سکرین پر چوکیدار نے موبائل بند کرکے اسے آگے بڑھنے کے لیے راستہ دے دیا۔
ادھر ادھر سرسری دیکھتے وہ اندر گھر میں داخل ہوگیا۔باہر صحن مدہم زرد روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔
جب اس نے قدم برآمدے کی پہلی سیڑھی پہ رکھے (جہاں صبح حیات بیٹھی تھی) حیات نے آگے بڑھ کر انٹرنس کا دروازہ کھول دیا۔
اندر کی روشنی چھن کرکے باہر نکلی تھی مومن کی سب سے پہلی نظر کشمیری سٹائل کا لمبا کرتا پہنے حیات پہ پڑی تھی۔
اس نے آنکھوں کے گرد چھجا بنا کر بنا کر حیات کو غور سے دیکھا وہ آٹھ سال پہلے سے بالکل مختلف نظر آرہی تھی۔
نظریں اس کے کرتے کی کڑھائی سے ہوتے ہوئے آنکھوں پہ جا ٹھری تھیں۔ کڑھائی کے دھاگے اور آنکھوں کا رنگ ایک جیسا تھا۔ منجمد کردینے والا گہرا سیاہ رنگ۔۔۔
آگے بڑھتے قدم تھم گے دل دھڑکنا بھول گیا تھا شاید !!!
جاری ہے۔۔۔
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Next episode
Huma next episode upload kr di h.