بادشاہ اور تقدیر کی کہانی | Urdu Story
میری نانی اماں پچپن میں مجھے ایک کہانی سناتی تھی جو آج بھی ویسے کی ویسے یاد ہے۔
میں نے سوچا کیوں نہ آج آپ سے بادشاہ اور تقدیر کی کہانی شئیر کی جائے بہت مزے کی سٹوری ہے۔
کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک بادشاہ شکار کرتے ہوئے اپنے لشکر سے بھٹک گیا۔ بھوک پیاس سے حالت خراب تھی۔۔۔ اتنے میں ایک جگہ اسے ایک جھونپڑی نظر آئی، وہ بنا سوچے سمجھے اس کے اندر گھس گیا۔
یہ جھونپڑی بہت ہی غریب کسان کی تھی، وہ بادشاہ کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے مہمان سمجھ کر اپنی طرف سے خوب مہمان نوازی کی۔۔۔ اتنے میں اندھیرا چھا گیا اور رات ہوگئی۔ کسان نے اسے رات یہیں گزارنے کی پیشکش کی جسے بادشاہ نے بلاتردد قبول کر لیا۔ جیسے ہی رات ہوئی بادشاہ گہری نیند سو گیا۔
رات کے کسی پہر بادشاہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ کوئی سایہ خیمے سے باہر نکل رہا ہے۔ بادشاہ نے جاکر تلوار اس کی گردن پر رکھ دی اور بارعب آواز میں بولا
کون ہو تم؟؟؟
اس سایے نے تلوار گردن سے ہٹاتے ہوئے جواب دیا کہ میں تقدیر ہوں اور آج رات اس گھر میں ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی ہے میں اس کی تقدیر لکھنے آئی ہوں۔
:بادشاہ نے مسکرا کر تلوار نیچے کر لی اور ازراہ مذاق پوچھا
ویسے اس کی کیا تقدیر لکھنے آئی ہو۔۔۔؟
تقدیر نے مسکرا کر کہا کہ اس کا نصیب میں تمہارے ساتھ لکھنے آئی تھی۔ یہ کہہ کر تقدیر دبے پاؤں واپس چلی گئی۔
یہ سن کر بادشاہ کو بڑا غصہ آیا اس نے سوچا کہاں میں بادشاہ اور کہاں یہ جھونپڑی کی بچی۔۔۔
اس نے غصے میں آکر بچی کے پیٹ میں چھرا گھونپا اور باہر نکل آیا۔
بادشاہ مطمئن تھا کہ وہ تقدیر سے جیت گیا ہے آہستہ آہستہ صبح کی روشنی پھیلنے لگی بادشاہ کو ڈھونڈتے اس کے خادم بھی مل گئے اور وہ واپس اپنے محل میں آگیا۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا۔۔۔ شہر میں کسی دوشیزہ کے بارے میں بہت زیادہ چرچے ہونے لگے جو تھی حسن میں لاجواب علم و ہنر میں باکمال اس کے امیدواروں میں امراء اور شرفاء کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
اس کے قصیدے بادشاہ تک بھی پہنچ گئے جیسا کہ بادشاہوں کی روایت رہی ہے کہ ہر نایاب چیز پر وہ اپنا حق سمجھتے ہیں چنانچہ اس نے دوشیزہ کو شادی کا سندیسہ بھیجا۔
بڑی منتوں اور مال و دولت سے اسے راضی کیا گیا اور اس نے بادشاہ سے شادی کےلیے ہاں کردی۔
جب بادشاہ نے اسے دیکھا تو وہ واقعی حسن کی دیوی تھی۔۔۔مگر اس کے پیٹ پر بہت بدنما داغ تھا۔
بادشاہ نے اس داغ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ میری اماں بتاتی ہیں کہ جب میں پیدا ہوئی تو کسی درندے نے رات کو میرا پیٹ پھاڑ ڈالا تھا، بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ مگر تقدیر میں میری جان بچی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ میں ٹھیک ہوگئی۔ لیکن یہ داغ ابھی تک قائم ہے۔
:یہ سن کر بادشاہ زور زور سے رونے لگا۔۔۔ اور سر پیٹتے ہوئے بولا
بخدا میں ہار گیا تقدیر جیت گئی۔۔۔ تقدیر جیت گئی۔۔۔
آخر میں میری نانی اماں مجھے مخاطب کرکے کہا کرتی تھی کہ میرے بچے جب تم اپنی پوری کوشش کے باوجود کوئی خواہش پوری نہ کرسکو تو تقدیر پہ راضی ہوجانا کیونکہ تقدیر سے تو بادشاہ بھی نہیں جیت سکتا۔
( تحریر حمنہ قندیل)