زہریلے لوگ | Urdu Story
سولہ سالہ رمشا لہنگا سنبھالتی لمبی ہیل پہنے تقریب میں آئی تو سب کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ بھائی کی شادی کے لیے پہلی بار اس نے اچھے اور تھوڑے بھاری سوٹ بنوائے تھے۔
ورنہ تو اماں نے ہمیشہ اس پہ کرفیو لگا کے رکھا تھا۔ مہندی کی رات کےلیے اس نے بڑی منتوں سے یہ لہنگا بنوایا تھا۔
ایک تو پہلی بار اس نے اتنا بھاری سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ دوسرا لمبی ہیل پہننے کی وجہ سے وہ ڈگمگاتی ہوئی باہر نکلی۔
مسز انجم کی پہلی نظر جب اس پہ پڑی تو اس کی آنکھوں میں ستائش تھی۔
مگر تھوڑی دیر بعد اس کے ہونٹوں پہ زہریلی مسکراہٹ تیرنے لگی۔
جیسے ہی وہ قریب سے گزری۔۔۔ مسز انجم نے اس کی کلائی پکڑ کر تھوڑا ڈانٹنے کے انداز میں کہا۔
رمشا بیٹا اس عمر میں اتنی لمبی ہیل نہیں پہنتے اب دیکھو سب کے سامنے تماشا لگ رہی ہو۔ تمہاری ماں کو سوچنا چاہیے تھا۔
اماں کا سن کر کم عمر رمشا اچھی خاصی گڑبڑا گئی، کیونکہ یہ بات کوئی اماں کو کرتا تو اس نے سب کے سامنے اس کی کلاس لے لینی تھی۔ اسی گھبراہٹ میں رمشا کی چال مذید خراب ہوگئی۔
مائرہ مسز انجم کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ رمشا کا رہا سہا کنفیڈنس ختم کرکے اس کے چہرے پہ شریر مسکراہٹ تھی۔
،،!!!رمشا،،
اس نے گھبرائی سی رمشا کو پکارا۔
رمشا نے پلٹ کر دیکھا تو مائرہ نے اس کی طرف پیار بھری مسکراہٹ اچھالتے ہو ئے کہا۔
لہنگا اور بڑی ہیل پہن کر ہر کوئی ایسے ہی چلتا ہے۔ تم ٹینشن نہ لو بہت پیاری لگ رہی ہو ایک دم سے دلہے کی بہن۔
مائرہ نے ایک دم پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
ایک چھوٹے سے ستائشی جملے نے اس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کی لہر دوڑا دی تھی۔
مسز انجم کی بات ان کر اس فطرت کی باقی عورتیں شہ پاکر مزید کمنٹس دینے کے لیے تیار ہوہی رہی تھیں کہ مائرہ نے اس کی سائیڈ لیکر سب کے منہ بند کردیے۔
اس کے بعد رمشا ایک منٹ بھی مسز انجم کے قریب نہیں بھٹکی۔ ہاں مائرہ سے وہ دو بار کھانا یا کسی اور چیز کا ضرور پوچھ گئی تھی۔
منیر صاحب سرکاری ملازم ہیں۔ انھوں نے بڑی بچت کرکے قسطوں پر نئی گاڑی مہران خریدی۔ اس کا پڑوسی وجاہت حسین مبارک باد دینے آیا تو گاڑی دیکھ کر فوراً کہا۔
منیر بھائی چھوٹی گاڑی لیکر آپ نے بہت بڑی غلطی کی۔۔۔ لیتے تو کچھ بڑی آرام دہ سواری لیتے۔۔۔ یہ تو صندوقچی جیسی لگ رہی ہے۔
حالانکہ خود ان کے پاس سواری میں صرف ایک بائیک تھی۔
وجاہت حسین کی بات سن کر منیر صاحب کڑوا گھونٹ بھر کے رہ گے۔
ان کا خیال تھا کہ وجاہت صاحب اس کی گاڑی دیکھ کر خوشی کا اظہار کریں گے۔ کیونکہ انھوں نے بڑے جوڑ توڑ کر کے یہ نئی گاڑی خریدی تھی۔
پہلے وہ ہمیشہ اس سے ہر قسم کے مشورے یا اس کی باتوں کو اہمیت دیتے تھے۔ مگر اس دن چند تنقیدی جملوں نے منیر صاحب کے دل میں وجاہت حسین کی اہمیت زیرو کردی تھی۔
نمرہ بازار سے شاپنگ کرکے آئی تو اس ٹائم اس کی جیٹھانی شازیہ آگئی۔ نمرہ خوش ہوکر اپنی شاپنگ دکھانے لگی۔
شازیہ اس کی لائی ایک ایک چیز پہ نام رکھتی گئی۔
لان کے سوٹ کے پرنٹ اچھے نہیں تھے۔ جوتیوں کا ڈیزائن پرانا تھا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ نمرہ کی ساری خوشی چند اعتراضی جملوں سے کافور کرکے اس کے اندر اچھی خاصی ٹھنڈ پڑ چکی تھی۔
کیونکہ پچھلے ایک مہینے سے وہ اپنے شوہر سے شاپنگ کے لیے پیسے مانگ رہی تھی۔ مگر اس نے ابھی تک نہیں دیے تھے. جبکہ اس کا دیور خود نمرہ کو بازار شاپنگ کروانے لے گیا تھا۔ اس بات کا غصہ اس نے ہر چیز پہ اعتراض کرکے نکالا تھا۔
اس دن کے بعد سے نمرہ محتاط ہوگئی۔ آئندہ کوئی بھی چیز وہ لاتی اس سے چھپا کے رکھتی۔ جبکہ شازیہ ہر وقت یہ الاپتی رہتی کہ نمرہ مجھے اپنا نہیں سمجھتی مجھ سے کچھ شئیر نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔
ایسا آپ میں سے بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوگا کہ جب آپ کا سامنا جیلس قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے۔
میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ہر وقت تنقید کرنے والوں سے ہر کوئی دور رہنا پسند کرتا ہے۔ جیلس قسم کے لوگ دوسروں کو دیکھتے صرف اس نظر سے ہیں کہ کوئی عیب نظر آئے اور وہ اس بات کو پکڑ سکیں۔
اگر آپ دوسروں کے دل میں رہنا چاہتے ہیں تو ذرا دل بڑا کریں۔ کسی کی کوئی چیز اچھی لگے تو دل کھول کر تعریف کریں۔
اگر آپ کے پاس وہ چیز نہیں ہے تو بجائے جلنے کڑھنے کے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی عطا فرمائیں اور اگلے کی کےلیے برکت کی دعا مانگیں۔
کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ زہریلے لوگ بہت جلد لوگوں کی نظروں میں گر جاتے ہیں کوئی بھی ان کے ساتھ وقت گزارنا یا کچھ شئیر کرنا پسند نہیں کرتا۔
( تحریر حمنہ قندیل)