سارہ کی کہانی | Urdu Story
سارہ کی شادی ایک متوسط گھرانے میں ہوئی وہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بہت سارے خواب خواہشیں لیکر آئی تھی۔
شروع میں سب کچھ اچھا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے مسائل سر اٹھانے لگے اور ہلکی پھلکی لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ لیکن کچھ دن بعد دونوں ایک دوسرے کو منالیتے تھے۔ اللہ نے اولاد سے نوازا تو دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ شادی کے چھ سال بعد اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں ایسی الجھی کہ خود کو تو جیسے بھول ہی گئی۔ اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہونے لگی۔ نتیجتاً گھر میں روز لڑائیاں ہوتیں۔ اس کا وزن حد زیادہ سے بڑھ گیا۔
شوہر نے فون پر دوسری عورتوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنا شروع کردیا۔ گھر بچوں پہ توجہ دینی بالکل چھوڑ دی۔ سارہ خود ڈپریشن کی مریض بن گئی۔ اسے دیکھ کر لگتا جیسے چالیس پچاس سال کی کوئی عمر رسیدہ عورت ہے۔ بچے علیحدہ بدتمیز کسی کی بات نہیں مانتے تھے۔ کبھی کبھی اس کا دل کرتا خودکشی کرکے سب سے جان چھڑا جائے۔
اس کی کالج کی ایک دوست بہت عرصے بعد اسے ملی تو حیران رہ گئی کہاں اتنی پراعتماد ٹیلنٹڈ سارہ کہاں زندگی سے بیزار یہ عورت۔ اس نے جب اس کے حالات سنے تو اسے ایک سائیکالوجسٹ کا پتا دیا کہ وہ اسے ایک بار ضرور مل لے۔
سارہ جب اس کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے سب سے پہلے اس کے تمام مسائل کو بہت غور سے سنا پھر سائیکالوجسٹ نے کہا کہ وہ گھر جاکر ایک کاغذ پر پوری ایمانداری سے شوہر کی سب خامیاں اور خوبیاں خوب سوچ سمجھ کر لکھے۔
اس کے بعد وہ مزید دس سال زندگی کے دو خاکے بنائے. ایک میں شوہر سے علیحدگی کے بعد کے حالات لکھے کہ اس کے بعد وہ آگے کیا کرے گی۔۔۔؟ اس کی زندگی کیسے گزرے گی۔
دوسرے خاکے میں شوہر کے ساتھ اس کی تمام خامیوں سمیت رہتے ہوئے اس دوران کے حالات لکھے کہ ان دس سالوں میں وہ کیسے زندگی گزارے گئی۔۔۔؟
اب دونوں خاکوں کا آپس میں موازنہ کرے کہ اسے زیادہ فائدہ کس طرح کی زندگی گزارنے میں ہوگا۔ ان سب فوائد اور نقصانات کو نمبروں میں شمار کرکے ایک ہفتے بعد اس سے آکر ملے۔
سارہ گھر آکر پورا ہفتہ فوائد نقصانات خوبیاں اور خامیاں پرکھتی رہی ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس تھی۔ ڈاکٹر نے ایک نظر اس کاغذ پہ ڈالی جس پہ اس نے بہت سوچ و بچار کرکے لکھا تھا۔
شوہر کی برائیاں 70٪ تھیں اور اچھائیاں 30٪ شوہر سے علیحدگی کے بعد اسے ستر فیصد زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ جبکہ ساتھ رہنے کی صورت میں اگر اچھی جاب یا مالی حالت مستحکم ہوجائے تو پھر گھر میں 50٪ مسائل کم ہو جاتے۔
اگر جذباتی طور پر سوچتی تو شوہر کے دوسری عورتوں کی طرف رجحان کی وجہ سے وہ سوفیصد زندگی سے بیزار تھی کیونکہ اگر شوہر قدر کرنے والا ہوتا تو کم آمدن میں بھی وہ جیسے تیسے ایڈجسٹ کرلیتی۔
آخر میں لکھا تھا کہ اگر وہ دماغ کی بجائے دل سے فیصلہ کرے تو اس کے دل میں شوہر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا تم اپنے شوہر پر شک کرنا جلنا کڑھنا چھوڑ کر اسے بالکل آزاد چھوڑ دو۔
ایک بار واضح الفاظ میں جاکر اسے کہو کہ میں چاہوں تو ایسی زندگی گزار سکتی ہوں۔ مگر اتنے مقدس رشتے کی میں خیانت نہیں کرنا چاہتی۔ آپ کا معاملہ میں نے اللہ پہ چھوڑ دیا ہے۔
اگر آپ کچھ بھی غلط کریں گے تو قیامت کے دن آپ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے اس دن میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔
اس کے بعد تم اپنے بارے میں سوچو۔ اپنا وزن کم کرو۔ خود پہ دھیان دو اور کوئی ایسا کام چنو جس میں تمہیں بہت زیادہ دلچسپی ہو۔ تم جسمانی طور پر تو بچوں اور کام میں مصروف ہوجاتی ہو مگر ذہنی طور پر بالکل فارغ ہوتی ہو۔۔۔ اپنے دماغ کو مصروف رکھو۔
اب یہ نہ کہنا کہ ٹائم نہیں ملتا کیونکہ جس چیز میں تمہیں دلچسپی ہوگی ٹائم خودبخود نکل آئے گا۔ اسی شوق کو پروفیشنل کاروبار کی طرف لے جاؤ۔
اس سے ایک تو ذہن مصروف ہوگا دوسرا مالی پریشانی بھی کم ہوگئی۔ اگر کام کرنے کا آئیڈیا نہیں ہے تو نیٹ پہ سرچ کرو۔ دوسروں کو اپنے مسائل بتانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ اپنے اللہ سے ساری باتیں کیا کرو۔۔۔ شوہر کے عیب اچھالنے کی بجائے اس کا بھرم بناؤ اس سے تمہاری اپنی عزت بڑھے گی۔ بچوں کو توجہ، محبت اور پیار دو ان میں خوداعتمادی پیدا ہوگی کیونکہ تمہارا سرمایہ تمہاری اولاد ہے اس کی اچھی تربیت کی فکر کرو۔
پانچ سال بعد سارہ کو اس کی دوست ملی تو حیران رہ گئی۔ چاک وچوبند سٹائلش سی سارہ پہچانی ہی نہ جارہی تھی۔ سلائی کڑھائی کے ہنر کو اس نے ایک بوتیک میں بدل دیا تھا۔ وہ چھوٹے سے شہر میں بیٹھ کر آن لائن طریقے سے بہت وسیع پیمانے پہ کاروبار کو پہنچا چکی تھی۔ بچے اچھے سکول میں پڑھ رہے تھے۔ مالی حالات بہتر ہوئے تو شوہر بھی سدھر گیا۔ اب دونوں میاں بیوی مل کر کاروبار کو سنبھال رہے تھے اور معاشرے میں ایک مہذب فیملی کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ڈپریشن سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کوئی مشن بنا کے اپنی ساری توانائیاں اسی پہ خرچ کر دو۔ کیونکہ فارغ ذہن ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ اسے کسی مفید سرگرمی میں لگا کر فوائد حاصل کیے جائیں نہ کہ ٹینشن۔۔۔
( تحریر حمنہ قندیل)