نمبروں کی دوڑ
نوٹ. آج سے ایک سال پہلے ایف ایس سی کے سٹوڈنٹ نے نمبر کم آنے پر خودکشی کر لی تھی یہ تحریر اسی تناظر میں نہایت تکلیف سے لکھی گئی تھی شاید کسی کے دل پہ اثر کر جائے۔۔۔
پچیس لڑکوں پہ مشتمل میٹرک کی کلاس میں ہر قسم کے لڑکے تھے۔ ان میں سے کچھ تو بہت زیادہ ذہین تھے کچھ نارمل اور کچھ بہت ہی کند ذہن۔
ان میں سے ہر والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے یا انجینئر. مگر امتحانات کے بعد ساتھ آٹھ لڑکوں کا توقع کے مطابق شاندار رزلٹ آیا۔
باقی کچھ لڑکوں کی سپلی آئی تو کوئی اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اب جو آٹھ ٹاپر لڑکے تھے ان میں سے دو ایف ایس سی میں بہت اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔
باقی چھ میں سے صرف ایک لڑکے نے انٹری ٹیسٹ پاس کیا۔ تو کیا صرف وہی کامیاب ہوا باقی سب کا مستقبل خراب ہوگیا…؟؟؟
جی نہیں ان میں سے ارسلان میٹرک میں فیل ہوا تھا۔ اس نے پڑھائی کو خیر باد کہہ کر کاروبار میں قسمت آزمائی کی تھی۔ چھوٹے سے ڈھابہ سے کام شروع کرنے والا آج ایک ریسٹورنٹ کا مالک ہے.
شاہ زیب نے میٹرک کے بعد آرٹس رکھی تھی آج وہ بہت مشہور صحافی ہے۔ ایک بار وہ بتا رہا تھا کہ جب اس کے میٹرک میں بہت کم نمبر آئے تو اس پہ بہت زیادہ دباؤ تھا۔ سب کہتے تھے کہ اس کا تو مستقبل تباہ ہوگیا ہے۔ سائنس میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا تھا۔ جب آگے اس نے آرٹس میں پڑھنے کا ارادہ کیا تو سب نے خوب ڈرایا کہ آرٹس کا تو اب دور ہی نہیں ہے۔ یہ کن چکروں میں پڑ رہے ہو. وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا کہ آج الحمدللہ نہ صرف مجھے ملک کے کونے کونے سے لوگ پہنچانتے ہیں بلکہ کما بھی اچھا رہا ہوں۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ضروری نہیں آپ کا بچہ بہت ہی اعلیٰ قسم کے نمبر حاصل کرے تو وہ کامیاب ہے، ورنہ اس کے کسی شعبے میں آگے بڑھنے کے چانس ختم ہوگئے ہیں۔
سب سے پہلے تو والدین کو دیکھنا چاہئے کہ ان کے بچے کا رجحان کس طرف ہے۔ پھر اسی کے مطابق اسے تعلیم دلوائی جائے۔ اکثر بچوں کی سائنس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور والدین بڑے بڑے سکول مہنگی ٹیونشنز رکھ کر اپنے بچوں اور خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ جب رزلٹ امیدوں کے برعکس آتا ہے تو سارا پریشر بچے پہ آجاتا ہے۔
ہر سال کسی بچے کی کم نمبروں کی وجہ سے خودکشی کی خبر جب آتی ہے تو دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ کیا آپ کو اولاد سے زیادہ اس کے نمبر پیارے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اکیڈمیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
جہاں پر بیچارے اساتذہ کے تشدد کے ساتھ والدین سے دوری علیحدہ برداشت کرتے ہیں۔ بچوں کو اچھا انسان بنانے کی بجائے صرف اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ ہے بس۔
خدارا یہ آپ کے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ قیامت کے دن ان کی اچھی تربیت پہ آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا نہ کہ اچھے نمبروں پہ۔۔۔ ایک اچھا مسلمان بنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ان کے رجحان کے مطابق تعلیم کا بندوبست کریں انھیں سمجھیں انھیں خود اعتمادی دیں۔دوسروں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرکے اور طعنے مار مار کر انھیں زندگی سے اتنا بیزار نہ کر دیں کہ موت کو گے لگانا ان کو واحد آپشن نظر آئے۔
(تحریر حمنہ قندیل)