خواہش جو لب پہ آئی نہیں Urdu Story

خواہش جو لب پہ آئی نہیں | Urdu Story

ایسا کبھی کبھی ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے ابھی خواہش لبوں پہ آئی ہی نہیں اور فوراً پوری ہوگئی۔ تب کن فیکن کا مطلب اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔
طیبہ آج اپنی کزن بشری کے بیٹے کی مبارک باد دینے جارہی تھی۔
ہلکا پھلکا تیار ہونے کے بعد آئینے میں خود کو دیکھا تو خالی کان سونے سونے سے لگ رہے تھے۔ آرٹیفشل جیولری ڈھونڈ کر پہنننی چاہی تو وہ بہت زیادہ ہیوی تھی۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا پہن کر جائے۔
دل میں شدید خواہش جاگی کاش سونے کا کوئی ہلکا پھلکا زیور ہوتا تو وہی پہن لیتی۔ کب سے وہ سونے کے ٹاپس بنوانے کا ارادہ کررہی تھی اسی مقصد کے لیے کمیٹی بھی ڈالی ہوئی تھی مگر نہ جانے
کب نکلے گئی۔
ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز بند کی اور بنا کچھ پہنے کزن کے گھر روانہ ہوگئی۔
وہاں پر تھوڑی دیر بعد اس کی پھپھو بھی آگئی باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ اس کی بہو نے سونے کے ٹاپس بنوائے ہیں مگر اب وہ نیا ڈیزائن پسند کیے کھڑی ہے اور اسے بیچنا چاہتی ہے۔ اس کی کزن بشری نے وہ ٹاپس اپنے لیے منگوائے تھے شاید اسے پسند آجائیں۔ مگر ٹاپس کا ڈیزائن بشری کو کچھ خاص پسند نہیں آیا۔
پھپھو نے ایک نظر طیبہ کو دیکھنے کے لیے کہا۔ ٹاپس بالکل اسی طرز کے تھے جیسے طیبہ اپنے لیے بنوانا چاہتی تھی۔ تمہیں پسند ہیں تو تم رکھ لو۔ پھپھو نے مشورہ دیا۔
پسند تو ہیں مگر ابھی پیسے۔۔۔وہ ذرا جھجھکی۔
کوئی بات نہیں تم رکھ لو پیسے سہولت سے دے دینا۔ بلکہ لاؤ میں پہنا دیتی ہوں۔
جگ مگ کرتے ٹاپس اپنے کانوں میں دیکھ کر اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر پہلے دل سے کی گئی خواہش اچانک کیسے پوری ہوسکتی ہے۔


عائزہ کی بھابھی اس کے گھر ملنے آئی تو اس نے بہت ہی خوبصورت سینڈل پہنی ہوئی تھی۔ عائزہ نے ایک نظر بھابھی کے سینڈل پہ ڈالی اس کا سوٹ(جو پرسوں اس نے اپنی دوست کی شادی پہ پہننا تھا) کے ساتھ ایک دم میچ۔۔۔ ایسے دل میں خیال آیا کاش یہ جوتی اس کے پاس ہوتی تو وہ فنکشن پہ پہن لیتی۔ واپس جاتے وقت اس کی بھابھی نے کہا۔ عائزہ یہ جوتی مجھے تھوڑی تنگ ہے۔ تمہارا پاؤں پتلا ہے تم چیک کرکے دیکھو اگر پسند آئے تو رکھ لو۔۔۔ عائزہ اچانک دلی مراد پوری ہونے پر شدید حیران رہ گئی تھی۔ اللہ نے کیسے اس کی خواہش اتنی جلد پوری کردی تھی۔
امی آج میرا اتنا حلیم کھانے کو دل کررہا ہے کاش کہیں سے آجائے۔۔۔ ابھی یہ بات کیے اسے دس منٹ گزرے ہوں کہ دروازے پر دستک ہوئی محلے میں سے کسی نے حلیم بھجوائی تھی۔
ایسا کبھی کبھی ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے ابھی خواہش لبوں پہ آئی ہی نہیں اور فوراً پوری ہوگئی۔ تب کن فیکن کا مطلب اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔
اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی اتنی شدت سے طلب ہوتی ہے کہ انسان اسے پانے کے لئے کسی حد تک جانے کو تیار ہوجاتا ہے مگر اس کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
ایک وقت ایسا آتا ہے جب شدید مایوسی کے بعد اس چیز کی خواہش مانند پڑنے لگ جاتی ہے تب اچانک وہ عطا کردی جاتی ہے۔
یہ قدرت کے بھید ہیں جنہیں کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ کبھی کبھی فوراً خواہش پوری ہونے پر وہی چیز ہمارے لیے وبال بن جاتی ہے تو کبھی یا لیٹ ہونے پر اس میں ایسی بہتری نکل آتی ہے کہ بندہ حیران رہ جائے۔ اس لیے بہترین طرز عمل یہ ہے کہ جو چیز مل جائے اس پہ شکر کریں اور کوئی تشنگی رہ جائے تو اپنی پوری کوشش کرنے کے بعد معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیں شاید اس میں کوئی بہتری ہوگئی۔


عارف بیگ کا پندرہ دکانوں پہ مشتمل پلازہ مارکیٹ کے مرکز میں کرائے کے لیے پچھلے دو برس سے تیار کھڑا تھا۔ کوئی کرائے دار آ ہی نہیں رہا تھا اگر کوئی ایک آدھ آ بھی جاتا تو بمشکل دو تین ماہ ٹک پاتا اسے بہت سارے مشورے دیے گئے۔ جادو ٹونا کے بارے میں شک دلایا گیا۔ بندش کا توڑ کروانے کا کہا گیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔
اگر کوئی کمزور عقیدہ شخص ہوتا تو وہ فوراً پیروں فقیروں کے چکروں میں پڑجاتا مگر عارف صاحب ایمان کے پکے تھے کہیں نہیں گئے بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگتے رہے۔ کچھ عرصے بعد کسی شخص نے پورا پلازہ ایک ساتھ کرائے کے لیے لے لیا۔ کرایہ بھی مناسب تھا۔۔۔ تب کرائے دار نہ ٹکنے کی حکمت عارف بیگ کو سمجھ آئی۔ اگر اس وقت کچھ کرائے دار پلازے پر ہوتے تب چانس بہت کم تھے کہ وہ بندہ پلازہ لیتا۔ کیونکہ جس شخص نے پلازہ خریدا اس کا کاروبار اس نوعیت کا تھا کہ اسے ایک ساتھ پندرہ بیس دکانیں درکار تھیں۔


اس لیے کہتے ہیں تقدیر پہ راضی رہنا سیکھیں۔ اپنی طرف سے ہر ممکن جدوجہد کریں پھر بھی کچھ نہ بن پڑے تو مایوس ہونے کی بجائے دوسرا راستہ ڈھونڈیں۔ کیونکہ جس مقصد کے لیے آپ اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں قدرت ایسے حالات لازمی پیدا کرتی ہے کہ گھوم پھر کر آپ اسی جگہ آجاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہتے ہیں کہ قدرت کے بھید رب ہی بہتر جانے۔۔۔
( تحریر حمنہ قندیل)

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *