دو پل کی دلہن | Urdu Afsanay
دو پل کی دلہن
کمرے کے اندر داخل ہوتے وقت اس کی سانسیں بہت زیادہ بے ترتیب تھیں… دروازے کی اچھے سے کنڈی لگا کے وہ آہستہ آہستہ…چلتا ہوا مصنوعی پھولوں کی سیج پر بیٹھی غزل کی طرف بڑھنے لگا…بہت زیادہ رگڑ کر شیو کرنے کی وجہ سے اس کے گال مزید پچکے ہوئے لگ رہے تھے۔
میٹرک فیل اقبال عرف بالی کو ابھی تک یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے واقعی حقیقت ہے یا پھر خواب۔
ابھی پچھلے مہینے تک اس کی شادی کے کوئی آثار نہیں تھے… بالی کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ اس کی پرورش دادی نے کی تھی۔
غزل اسی گاؤں کی رہنے والی تھی… مگر بچپن ہی سے اس کے والدین شہر چلے گئے تھے… اس لیے وہ وہیں پر پلی بڑھی تھی۔
بالی سے ان کی رشتہ داری نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گھر آنا جانا بالکل نہیں تھا۔۔۔سال میں ایک آدھ بار وہ گاؤں آتی تھی۔
چونکہ غزل کے سارے رشتہ دار گاؤں میں رہتے تھے۔ یہیں کا رہائشی ہونے کی وجہ سے بالی نے کبھی کبھار اسے اپنی کزنوں کے ہمراہ کھیتوں کی سیر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
وہ بلاشبہ بہت حسین اور معصوم سی تھی. اسے دیکھ کر گاؤں کیا شہر کے لڑکے بھی اپنانے کے لیے تیار ہوجاتے… سننے میں یہی آیا تھا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے۔
ایف ایس سی میں ٹاپ کے نمبر حاصل کرنے کے باوجود انٹری ٹیسٹ میں اس کا میرٹ نہ بن سکا تھا… جس کی وجہ سے ڈاکٹر بننے کا سپنا ادھورا رہ گیا تھا۔
کچھ دن پہلے غزل کے ابّا بالی کی دادی کو آکر ملے اور اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ بالی سے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
پہلے تو دادی کو سمجھ نہیں آیا کہ غزل کا باپ ماسٹر بشیر کیا کہہ رہا ہے… کیونکہ لفنگے سے بیوقوف بالی کے ساتھ شہر کی لڑکی تو کجا گاؤں کی ان پڑھ شبانہ بھی بیاہ کےلیے تیار نہ ہوتی کہاں پڑھی لکھی بہت حسین غزل کا رشتہ آگیا تھا۔
جب یہ بات بالی کو پتا چلی تو جب تک دادی نے لڈو اس کے منہ میں نہیں ڈالا…وہ منہ کھولے دادی کو سکتے کی حالت میں دیکھتا رہا تھا۔
دادی تجھے میرے مرے ہوئے ابا کی قسم
یہ جو توں کہہ رہی ہے کوئی مذاق تو نہیں ہے؟
بالی نے دوبارہ تصدیق چاہی۔
تیرے ابا کیا تیرے دادا جان کی قسم… اس کا ابا خود کہہ کے گیا ہے۔
دادی اپنے پوپلے منہ سے کھلکھلا کے ہنستے ہوئے بولی۔
یہ سن کر بالی نے دھمال کے انداز میں ناچنا شروع کر دیا۔جب یہ بات گاؤں والوں کو پتا چلی تو ہر کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ماسٹر بشیر کو ایسا کیا نظر آیا جو اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ اس کے ساتھ طے کر دیا۔
گاؤں کے چودھری رب نواز کے بیٹے کو جب یہ بات پتہ چلی تو اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح ماسٹر اپنی بیٹی کا رشتہ اس کے ساتھ کردے۔
زیور زمینیں نقدی ہر طرح کی آفر کی گئیں مگر ماسٹر نے ہر پیشکش دھتکار دی۔
یہ بات بھی زبان زد عام تھی کہ غزل کا باپ بھی بالی کے ساتھ رشتہ کےلیے ناخوش ہے… مگر خود غزل نے ضد کرکے اپنے والدین کو بالی کے ساتھ شادی کےلیے راضی کیا ہے۔
چاروناچار ماسٹر بشیر کو اکلوتی بیٹی کی پسند کے آگے ہار ماننی پڑی تھی۔
اس وقت دلہن کے روپ میں سجی سنوری غزل کے پاس جاتے ہوئے بالی کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔
بیڈ کے آخری سرے پہ بیٹھتے وقت وہ بہت زیادہ ڈرا ہوا لگ رہا تھا. اس کی مشکل خود غزل نے گھونگھٹ اٹھا کے حل کردی۔
پہلی نظر میں ہی بالی کو اپنا آپ بہت کمتر لگنے لگا۔ کہاں وہ کانچ کی نازک سی گڑیا اور کہاں یہ گنوار سا بالی۔
غزل جی آپ پانی پئیں گی…؟
گھبراہٹ میں اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ پانی لینے کےلیے اٹھنے لگا. مگر غزل نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اقبال مجھے پانی نہیں چاہیے میں تم سے کچھ اور مانگنا چاہتی ہوں۔
جھیل سی آنکھوں میں التجا تھی۔
وہ اس کی نظروں کی تپش سہہ نہ پایا اور جلدی سے نگاہیں جھکا لیں۔
چند لمحے موت سی خاموشی میں گزر گئے… بالآخر غزل نے سکوت توڑا۔
تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گے کہ میں نے شادی کےلیے تمہارا انتخاب کیوں کیا…؟
میں چاہتی تو چودھری کے بیٹے کے ساتھ شادی کر لیتی… مگر پورے گاؤں میں تم مجھے سب سے زیادہ قابل اعتبار لگے ہو… تمہارے ساتھ شادی کا فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کے کیا ہے۔
بالی پہلے ہی اتنا بدحواس تھا اوپر سے غزل کی باتیں اسے مزید پریشان کررہی تھیں۔
تم نے سنا تو ہوگا مجھے ڈاکٹر بننے کا کتنا شوق تھا۔۔۔؟ وہ دور خلاؤں میں تکتے ہوئے بولی۔
بالی سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
مگر بدقسمتی سے میرا یہ خواب پورا نہ ہوسکا اب اس کی آواز میں درد تھا.میں چاہتی ہوں ڈاکٹر بننے کا میرا یہ خواب تم پورا کرو۔
میں کیسے کر سکتا ہوں غزل جی؟؟؟
پہلی بار اس نے سر اٹھا کر حیرت سے دیکھا۔
تمہارے ابا مرحوم کی زمین جو اب تمہاری ہے وہ اگر تم بیچ دو تو میں ڈاکٹر بن سکتی ہوں.. غزل نے جلدی سے کہا۔
ہاں مگر اس کی آمدن تو ہمارا واحد ذریعہ ہے۔ دوسری بات دادی تو مر کے بھی نہیں مانے گئی۔ غزل کی اس بات نے بالی کو واقعی پریشان اور الجھا کے رکھ دیا تھا۔
میں جانتی ہوں دادی کو تم جیسے تیسے کرکے منا لو گئے…. میں تم سے وعدہ کرتی ہوں ڈاکٹر بن کر تمہارے سارے پیسے لوٹا دوں گی…بےشک تب تک تم مجھے طلاق نہ دینا۔
کیا یہ مجھے چھوڑ جائے گی بالی کو زور سے جھٹکا لگا۔
غزل جی آپ نے صرف ڈاکٹر بننے کےلیے مجھ سے شادی کی ہے…؟
بالی کی آواز گھمگھیر تھی۔
تمہارے ساتھ شادی میں نے ایک جوا سمجھ کے کھیلی ہے یہ اب تمہارے اوپر منحصر ہے یا تو تم زبردستی کرکے پوری زندگی مجھے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دو یا میرے خواب کو پورا کرنے میں میری مدد کرو۔
غزل کے اس مطالبے نے بالی کو عجیب سے دوراہے پہ لا کھڑا کیا تھا۔
تمہیں معلوم ہے میں اگر چوہدری کے بیٹے کے ساتھ شادی کرکے اسے یہی بات کہتی تو اس نے بھلے سونے چاندی کے ڈھیر میرے قدموں میں لا کر رکھ دینے تھے مگر وہ کبھی نہیں چاہتا کہ میں ڈاکٹر بنوں.میری ساری امیدیں اب تم سے وابستہ ہیں. پلیز میرے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچا لو ورنہ میں مر جاؤں گی۔ غزل کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اللہ نہ کرے غزل جی آپ ایسی باتیں نہ کریں بالی نے تڑپ کر کہا…میں ضرور آپ کےلیے کچھ نہ کچھ کروں گا۔
یہ کہہ کر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد غزل پرسکون ہو کر سو گئی۔
دوسرے دن کی صبح بالی کےلیے معمول سے بھاری تھی… ایک تو اسے ساری رات نیند نہیں آئی تھی دوسرا غزل نے اس کی زندگی میں آکر بھونچال برپا کر دیا تھا۔
وہ اس کی مدد کرنا چاہ بھی رہا تھا مگر دکھ بھی ساتھ تھا کہ غزل نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے اس کا استعمال کیا ہے۔
کچھ دنوں بعد اس نے ڈرتے ڈرتے دادی سے غزل کی خواہش کا ذکر کیا… جسے سن کر دادی کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔
جب بی بی نے ڈاکٹر ہی بننا تھا تو تجھ سے بیاہ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔ دادی تپ کر بولی۔
دادی ڈاکٹر بننا اس کا خواب تھا… اب وہ اداس ہے تو میں اسے اس طرح نہیں دیکھ سکتا۔
بالی نے زمین پر نظریں گاڑھتے ہوئے کہا۔
توں تو چپ ہی کر بالی میں خود اس سے بات کرتی ہوں۔ دادی غصے سے اپنا عصا زمین پر مارتے ہوئے بولی۔
دادی خدا کے لئے اسے کچھ نہ کہو جو کہنا ہے مجھے کہو…،، بالی نے آگے بڑھ کر دادی کو جانے سے روک دیا۔
جیسے تیسے کرکے اس نے دادی کو خاموش تو کروا لیا تھا مگر سب سے بڑی مشکل اپنی جائیداد بیچنے کے لیے دادی کو راضی کرنا تھا۔
اپنی خاندانی زمینیں بیچنا وہ بھی اس لڑکی کے لیے جس کا کوئی اعتبار ہی نہ ہو کہ کل کو وہ بالی کے ساتھ رہے گی بھی یا نہیں… دادی کےلیے آسان نہ تھا۔
دو مہینے بعد۔۔۔
!!!آج غزل خوش تھی بہت زیادہ کیونکہ اگلے مہینے وہ چین جا رہی تھی ڈاکٹر بننے۔۔۔ بالی نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا تھا
اس کی خاطر بالی نے پوری دنیا سے ٹکر لے لی تھی۔ دادی تو ابھی بھی شدید ناراض تھی… مگر بالی کو امید تھی کہ بہت جلد وہ اسے منا لے گا۔
جب سے پیسوں کا بندوبست ہوا تھا غزل بہت زیادہ خوش رہنے لگی تھی… اسے گاؤں کے سرسبز کھیت بہت زیادہ پسند تھے… ان دنوں بہار کا موسم اپنے جوبن پر تھا… شام کو وہ اکثر بالی کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے چلی جاتی… زرد سورج اور سرسوں کے پھولوں کا منظر بہت حسین لگتا۔
وہ بالی کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کرتی رہتی… اس وقت بالی کا دل کرتا کاش وقت تھم جائے اور یہ حسین سپنا کبھی نہ ٹوٹے۔۔۔
بالی کے لیے ایک مہینہ پر لگا کے گزر گیا… جبکہ غزل کا ایک ایک دن بھاری گزرا… وہ جلد از جلد اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا چاہتی تھی.جس دن اس نے جانا تھا وہ دن بالی کی زندگی کا بھاری ترین دن تھا… جبکہ غزل ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔
جاتے وقت اس نے بالی کا ہاتھ تھام کر بڑی رسانیت سے کہا تھا۔
بالی تم یہ مت سوچنا کہ میں تمہیں دھوکہ دے جاؤں گی۔
تمہارے پیسے ایک امانت ہیں.تب تک میرا اور آپ کا نکاح قائم رہے گا.جیسے ہی پیسوں کا بندوبست ہوگا میں تمھیں ضرور لوٹا دوں گی… اس کے بعد تم مجھے آزاد کر کر دینا… پلیز مجھے خودغرض مت سمجھنا میں اتنی بری نہیں ہوں…اور ہاں زندگی کا مقصد صرف کبوتر پالنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے۔ میرے جانے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور کرنا. تم بہت ہی سیدھے سادھے اور معصوم ہو… اس لیے اپنا بہت خیال رکھنا۔۔۔اللہ حافظ
اس کے جانے کے بعد بالی بہت زیادہ خاموش رہنے لگا تھا.وہ چھت پر جاتا تو اسے فضا میں کبوتر اچھالتی قہقہے لگاتی غزل یاد آ جاتی.یوں لگتا جیسے کبوتر بھی اس کی طرح اداس ہیں۔
اس نے باہر نکلنا بالکل چھوڑ دیا… اس کے یار اسے لینے آتے تو مگر وہ جانے سے انکار کردیتا… دادی اس کی حالت دیکھ کے کڑھتی رہتی اور منہ بھر بھر کے غزل کو گالیاں دیتی رہتی جس نے اس کے اکلوتے پوتے کی زندگی ویران اور برباد کر کے رکھ دی تھی۔
کچھ دنوں بعد بالی شہر کمانے چلا گیا کیونکہ زمینیں تو اب بک چکی تھیں. گھر کا خرچہ بھی چلانا تھا۔
وہاں جانے کے بعد غزل بہت مصروف ہوگئی تھی.وہ ہفتے پندرہ دن بعد اسے مسیج کر دیتی اور اپنی مصروفیات وغیرہ کے بارے میں بتاتی رہتی۔
سال پر سال گزرتے گئے… اب اسے ڈاکٹر بننے میں چند مہینے رہ گئے تھے. ان دونوں وہ اپنے ساتھ پڑھتے ہمایوں کا بہت زیادہ ذکر کرنے لگی تھی.ہمایوں بہت ہی امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔
غزل اس سے بہت زیادہ متاثر تھی. کچھ دن پہلے بالی کو غزل کا آخری مسیج آیا تھا۔
اقبال میں تمہیں یہ بتاتے ہوئے کتنی خوشی محسوس کر رہی ہوں تم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔۔۔
آج مجھے یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر کی ڈگری مل گئی ہے…بہت جلد میں پاکستان لوٹ آؤں گی۔
میں تمہیں ہمایوں کے بارے میں اکثر بتاتی رہتی تھی ناں.ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں.چونکہ وہ بھی ڈاکٹر بن چکا ہے… اس لیے میں نے اس کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مجھے یقین ہے جب میں ہمایوں کو تمہارے بارے میں بتاؤں گی تو وہ خود ہی تمہارا قرضہ اتار دے گا۔ کچھ دنوں تک میں تمہیں رقم اور خلع کے کاغذات بھجوا دوں گی۔
امید کرتی ہوں تمہیں طلاق کے دستخط کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
دوسرے دن اسے بالی کا پیغام موصول ہوا
غزل جی
آپ کو اپنا خواب پورا کرنے کی بہت بہت مبارکباد جب آپ کو پیسوں کی ضرورت تھی تو اسی دن میں نے فیصلہ کیا تھا…کہ یہ رقم میں کبھی واپس نہیں لوں گا… ایک گنوار ہونے کے ناطے میری یہ غیرت گوارا نہیں کرتی… کہ بھلے ہمارا کوئی تعلق نہ رہا ہو… مگر اتنے سال آپ میری منکوحہ رہی ہیں… اور ہم پینڈو لوگ جب اپنی بیویوں کو کچھ دے دیں تو واپس لینا اپنی توہین سمجھتے ہیں.مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے آپ جب کہیں میں اسی وقت طلاق پر دستخط کر دوں گا. نئی زندگی کی شروعات کرنے پر آپ کو ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔
ایک ہفتے بعد ڈاکیا اس کے نام کا لفافہ دے گیا. بالی کو یقین تھا کہ اس میں خلع کے کاغذات ہوں گے۔
اس نے سرد جذبات کے ساتھ لفافہ کھولا۔۔۔
ڈئیر اقبال
تمہارا مسیج ملا یقین کرو کتنی دیر میں اسے پڑھ پڑھ کر روتی رہی… میں یہاں آکر بہت سے لوگوں سے ملی ہوں… یہ سچ ہے ہمایوں کی پرکشش شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔
مگر کل جب میں نے اس کا دوسرا روپ دیکھا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی کھلے ذہن کا ہمایوں ہے۔
وہ تو کبھی ایک شادی شدہ لڑکی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے سیریس ہی نہیں تھا.میں تو صرف اور صرف اس کا ٹائم پاس تھی.اس طرح کی دوستیاں تو اس کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ بھی تھیں۔
یہ تو میں بیوقوف تھی جو اسے پانے کی خواہش لے کر بیٹھ گئی تھی.اس نے جب مجھےدھتکارا تو تب مجھے اس تکلیف کا اندازہ ہوا جو میں نے تمہارے جذبات کے ساتھ کھیل کر تمہیں دی تھی. اقبال یہاں پر لوگوں کے کئی روپ ہیں.انھوں نے اپنے مکروہ چہروں کو دولت فریب اور جھوٹ کے خوبصورت لبادوں میں چھپایا ہوا ہے… اندر سے ان کا حقیقی چہرہ بہت بدصورت ہے بہت زیادہ ۔۔۔
یہاں پر میرا تعلق ہر قسم کے لوگوں سے رہا… یقین کرو کوئی بھی مجھے تمہاری طرح مخلص اور وفادار نہیں ملا. میں اپنی غلطیوں پر تم سے شرمندہ ہوں۔ ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔
اگلے جمعہ میری پاکستان کی فلائیٹ ہے. امید ہے ایک خود غرض اور اپنی منزل سے بھٹکی ہوئی بیوی کو واپس لانے تم ضرور آؤ گے۔
صرف اور صرف تمہاری
ڈاکٹر غزل اقبال
خط پڑھ کر سوبر سے اقبال نے چشمہ اتار کر میز پر رکھ دیا.غزل کے جانے کے بعد اس نے زندگی میں بہت زیادہ دھکے کھائے تھے.ان مشکلات نے اسے کندن بنا کے کامیابی کا راستہ دکھایا تھا۔
شہر کے سب سے بڑے شوروم کے مالک نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا…. کہ غزل کے ساتھ یک طرفہ محبت اسے کمزور بنانے کی بجائے اتنا مضبوط کر دے گی کہ چند سالوں میں وہ دنیا کو اپنی مٹھی میں قابو کر لے گا۔
مہنگی ترین گاڑی میں سوٹڈ بوٹڈ سا اقبال ہاتھ میں پھول لیکر جب ایئرپورٹ پہنچا تو غزل ابھی تک باہر نہیں آئی تھی.یہ سوچ کر اقبال کے چہرے پر ایک دل آویز مسکراہٹ تھی کہ جب چند لمحوں بعد پینڈو سے بالی کا خاکہ آنکھوں میں سجائے غزل باہر نکل کر اسے ڈھونڈ رہی ہوگی تو وہ منظر کتنا فنی ہوگا۔
ختم شد
( تحریر حمنہ قندیل)
حمنہ قندیل کے مذیدافسانے