Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 1 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول
علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط 1
وہ ایک عالیشان کشادہ کمرہ تھا۔۔۔ جدید فرنیچر سے آراستہ ہر چیز میں امارت جھلک رہی تھی۔۔۔ تقریباً بائیس تئیس سال کی ایک لڑکی بیڈ پہ بےسدھ پڑی تھی۔ بیڈ کے دائیں جانب مغلیہ طرز کی کرسی پہ ایک شخص ٹانگ پہ ٹانگ جمائے خاموشی سے بیٹھا تھا۔ اس کی عمر 32 یا 33 سال ہوگئی۔
اس نے مکمل سیاہ سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ رنگت بہت زیادہ سفید اور لال تھی۔۔۔ سیاہ بال کانوں کی لو کو چھو رہے تھے۔۔۔ کلائی پر ڈیجیٹل قیمتی گھڑی تھی۔۔۔ہلکی ہلکی داڑھی کے ساتھ اس کے چہرے پہ رعب تھا۔۔۔ سامنے چالیس پینتالیس برس کی ایک ڈاکٹر جھک کر لڑکی کو چیک کر رہی تھی۔
لڑکی کا چہرہ نچڑا ہوا سفید تھا ہونٹ گہرے جامنی رنگ کے ہو رہے تھے۔ یوں لگتا جیسے موت کے منہ سے واپس آئی ہو۔
“میں نے انجکشن لگا دیا ہے امید ہے ایک دو گھنٹے تک پوری طرح ہوش میں آ جائے گی۔”
ڈاکٹر نے اپنی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے اس شخص کو جواب دیا۔
“اماں برکتاں آپ انھیں دوسرے کمرے میں لے جائیں جب تک ہوش نہیں آتا ڈاکٹر صاحبہ یہیں رہے گی۔” اس کے لہجے میں تحکم تھا.
وہ دونوں مؤدب انداز میں کمرے سے باہر نکل گئیں۔
اب اس کمرے میں اس شخص اور لڑکی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
وہ کچھ دیر اسے بغور دیکھتا رہا… اس کا چہرہ سپاٹ تھا بنا کسی تاثر کے۔
کچھ دیر بعد اس کے موبائل پر کوئی میسج آیا اور وہ فون اٹھا کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
کوئی آدھے گھنٹے بعد دروازہ مدہم انداز میں بجایا گیا۔ اس نے دروازہ کھولا سامنے اماں برکتاں ہاتھ باندھے ادب سے کھڑی تھی۔
“سردار!!!
بچی ہوش میں آگئی ہے۔”
فون پر بات کرتے شخص نے تیزی سے موبائل کو قریب پڑے صوفے پہ اچھالا اور جلدی سے لڑکی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اس کی آنکھوں میں ابھی بھی دھند تھی۔۔۔ ہر چیز دھندلی دھندلی نظر آرہی تھی… ارد گرد چیزوں کو دیکھتے اس کی آنکھیں اپنے اوپر کھڑے شخص پر آکر رک گئیں۔۔۔ وہ بغور اسے دیکھنے لگی۔۔۔ آہستہ آہستہ چہرہ واضح ہونے لگا۔۔۔ مگر یہ کون تھا اس کا کوئی اپنا تو نہیں تھا۔
عجیب سے احساس کے ساتھ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
“میں کہاں ہوں آواز میں پریشانی تھی۔۔۔؟”
ذہن اب تیزی سے کام کر رہا تھا۔
وہ ڈوب رہی تھی ہاں بہت زیادہ پانی تھا… آخری نظر دریا کے کنارے پر چیختے چلاتے اس کے دوستوں کی تھی۔۔۔ پھر کچھ نہیں معلوم کیا ہوا تھا۔
“میرا بھائی!!!”
(اس نے فوراً چھلانگ لگائی تھی بہن کو بچانے کے لیے) وہ درد سے بولی۔
“آپ کا بھائی ٹھیک ہے۔ آپ آرام کریں۔”
بےچین سی ہوتی لڑکی کو سیاہ سوٹ والے شخص نے نرم آواز میں کہا۔
“کیسے آرام کروں میرا بھائی ڈوب رہا تھا۔” وہ تیزی سے کمبل کو پرے دھکیل کر اٹھتے ہوئے بولی۔
اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے سر پر بھاری بوجھ آپڑا ہو وہ چکرا کر گر پڑی۔
“ڈاکٹر!!!”
آخری سخت آواز جو اس نے سنی تھی اسی شخص کی تھی۔۔۔ اس کے بعد اسے تھوڑا بہت ہوش آنے لگتا تو فوراً نشے کا انجکشن لگا دیا جاتا۔ کتنے دن وہ نیم بیہوشی کی حالت میں رہی اتنا اندازہ تو اسے ہوگیا تھا کہ اس وقت وہ اپنوں کے پاس نہیں بلکہ اجنبی لوگوں کے رحم و کرم پر ہے۔
آج صبح سے ڈاکٹر اسے انجکشن لگانے نہیں آئی تھی۔ وہ آنکھیں کھولے چھت کو تک رہی تھی۔ سر آج بھاری محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اس کا مطلب اب وہ ٹھیک ہو رہی تھی۔
ہلکی سی آہٹ کے ساتھ دروازہ کھلا اماں برکتاں ناشتہ کی ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔
وہ خاموشی سے ٹرے ساتھ ٹیبل پر رکھ کر واپس چلی گئی۔
اس لڑکی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا مگر کوئی بات نہیں کی۔
چند ثانیے بعد دروازہ اجازت کے انداز میں تین بار بجایا گیا۔۔۔ اس کے بعد وہ اندر داخل ہوا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا۔
بیڈ پر سوئی لڑکی نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ پہلی بار آج وہ اسے واضح انداز میں نظر آ رہا تھا۔
“علیشبہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟”
نرم انداز مگر لہجہ میں سختی تھی۔
وہ تھرماس سے چائے نکالتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
علیشبہ نے ایک اداس نظر اس پہ ڈالی مگر جواب نہیں دیا۔
“آج آپ پہلی بار ناشتہ کر رہی ہیں اس لیے آپ کو چائے اور انڈا پر گزارہ کرنا پڑے گا۔”
انداز حکم دینے والا تھا۔
علیشبہ اس بات پر بھی خاموش رہی۔
“آپ خود اٹھ سکتی ہیں یا میں مدد کروں اب اس کا رخ علیشبہ کی طرف تھا۔”
“میں خود کوشش کروں گی۔۔۔”
وہ جلدی سے اٹھتے ہوئے بولی تھی۔
“گڈ!!!”
علیشبہ بیڈ پر مضبوطی سے ہاتھ جما کر اٹھنے لگی۔
اس شخص نے جلدی سے تکیہ ٹیک کے انداز میں پیچھے رکھ دیا۔
“اب آپ ٹھیک ہیں؟؟؟”
علیشبہ نے اثبات میں گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔ اور چائے لیکر خاموشی سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگی جیسے ہی چائے اور ابلا ہوا انڈا اس نے ختم کیا۔
وہ اٹھ کر جانے لگا۔
“میں کام کے سلسلے میں کہیں جا رہا ہوں۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوتو بلاجھجھک آپ اماں برکتاں کو کہہ سکتی ہیں۔”
“میرا بھائی!!!”
تکلیف سے اس کے ہونٹ پھڑپھڑائے۔۔۔
جاتے ہوئے وہ واپس پلٹا۔۔۔
“آپ کا بھائی شایان بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔
چونکہ اسے تھوڑا بہت تیرنا آتا تھا۔ اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔ آپ بہت آگے نکل گئی تھیں اس لیے وہ آپ کو ڈھونڈ نہیں سکے۔”
“میرے گھر والوں کو پتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔” وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی جیسے سانس لینے میں دقت کا سامنا ہو۔
“نہیں!!!”
مختصر جواب دے کر وہ دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔
علیشبہ کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ صدیوں کا سفر طے کر کے آئی ہو.
اس نے سر تکیے پہ ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ فوراً اماں برکتاں کمرے میں آئیں تکیہ سیدھا کرکے اس کا سر آہستہ سے ٹکا دیا۔
اس دوران اس نے آنکھیں نہیں کھلیں۔۔۔ وہ سونا چاہتی تھی ڈھیر سارا۔۔۔ شام چار بجے وہ جاگی۔۔۔ وہی کمرا وہی چھت کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔
اماں برکتاں اس کےلیے یخنی لے آئی۔۔۔ پہلے اس نے سہارا دے کر علیشبہ کو اٹھایا۔
علیشبہ نے منع نہیں کیا کیونکہ صبح اٹھتے وقت اسے اچھی خاصی تکلیف ہوئی تھی۔ چونکہ اس وقت وہ اس شخص کا سہارا نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس لیے خود کوشش کی تھی۔
اماں سے اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
یخنی پکڑاتے وقت اس نے بڑے پیار سے پوچھا:
“آپ کھا لیں گی یا میں کھلاؤں ؟؟؟”
“میں خود کھا لوں گی۔” وہ ڈونگا لیتے ہوئے بولی۔
“میں اس وقت کہاں ہوں۔۔۔؟” علیشبہ نے اچانک پوچھا:
جسے سن کر اماں نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ اس کا مطلب اسے بتانے کی اجازت نہیں تھی۔
“اس کمرے میں جو آتا ہے وہ کون ہے؟ یہ بھی بتانا منع ہے کیا؟؟؟”
علیشبہ نے چمچ یخنی میں بلاوجہ ہلاتے ہوئے دوبارہ سوال کیا:
“سلطان!!!
سلطان خان ہے وہ!!!”
“میں یہاں کیسے آئی ہوں؟؟؟”
“آپ کو سلطان لیکر آئے تھے۔ اس وقت ان کے کپڑے گیلے تھے۔ جس کا مطلب انھوں نے آپ کی جان بچائی تھی۔
آپ کے بچنے کے چانس بہت کم تھے جی!!! مگر سردار نے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
پچھلے پندرہ دن سے وہ صرف آپ کا خیال رکھ رہے ہیں۔ آپ کے ہوش میں آنے کے بعد پہلی بار وہ کام کےلیے گھر سے نکلے ہیں۔ ورنہ تو ہمارے سردار کو اپنا ہوش تک نہیں تھا.”
اماں برکتاں فکرمندی سے بول رہی تھیں۔
“یہ لے جائیں مذید کھانے کو میرا دل نہیں کر رہا۔” یکدم سے اس کی طبیعت اوب گئی۔
اماں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے یخنی واپس لی۔اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد وہ پرسوچ نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ اماں برکتاں صحیح کہہ رہی تھی۔ وہ واقعی سردار تھا۔
کمرے کی شاہانہ طرز اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی تھی۔ مگر اسے یہاں کس مقصد کے لیےرکھا گیا ہے۔۔۔؟ اس کے گھر والوں کو ابھی تک کیوں نہیں اطلاع دی گئ۔۔۔ یہ سوالات اسے ہوش میں آنے کے بعد سے پریشان کر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد دروازہ ناک کیا گیا۔۔۔ مگر اجازت کا انتظار کیے بغیر وہ تیزی سے اندر داخل ہوا۔
“آپ نے یخنی کیوں نہیں کھائی؟” آواز میں دبا دبا سا غصہ تھا۔
“مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔” علیشبہ نے بے نیازی سے کہا۔
“اوکے جب تک آپ یخنی نہیں کھائیں گی۔ میں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں۔” وہ ڈھٹائی سے بائیں جانب رکھی کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا۔
جاری ہے۔۔۔
(تحریر حمنہ قندیل)
.نوٹ: اس ناول کی تمام اقساط آپ نیچے دی گئی لنک پہ کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں
Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول