Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 2 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول
علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط 2
علیشبہ نے گالوں پہ آئے بالوں کو پیچھے دھکیلا۔۔۔
ابھی تک اس کا چہرہ مرجھایا ہوا زرد لگتا تھا،آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے تھوڑے کم ہوگئے تھے۔
“پوچھ سکتی ہوں آپ نے مجھے یہاں کس مقصد کے لیےرکھا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟”
آپ ٹھیک نہیں ہیں اس لیے۔۔۔” سلطان نے مختصر جواب دیا۔”
“میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔مجھے واپس اپنے گھر جانا ہے۔”
علیشبہ کی اس بات پر سلطان نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ بلکہ توجہ موبائل پہ مرکوز رکھی۔
علیشبہ نے چہرہ گھما کر اطمینان سے بیٹھے اس شخص کو دیکھا۔۔۔ اور دکھ سے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔
“میں جانتی ہوں آپ نے مجھے اغواء کیا ہوا ہے۔”
کچھ دیر بعد اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
اوہ رئیلی، آپ اغواء ہوچکی ہیں، انٹرسٹنگ۔۔۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔” وہ واقعی اس بات پہ خوب محفوظ ہورہا تھا۔۔۔”
“آپ جا سکتے ہیں۔۔۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔”
درشتی سے کہتے ہوئے اس نے بازو آنکھوں پر رکھ لیے۔
اس بات پہ وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔
کوئی پندرہ منٹ تک وہ انتظار کرتی رہی کہ ابھی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلا جائے گا۔ مگر شاید وہ کوئی ڈھیٹ قسم کا بندہ تھا۔ مجال ہے جو ایک منٹ بھی ٹس سے مس ہوا ہو۔ آرام سے موبائل پر مصروف رہا۔
میں جانتا ہوں کہ آپ جاگ رہی ہیں۔۔۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ اٹھ کر آرام سے یخنی کھا لیں ورنہ میں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں۔
اس نے جھنجھلا کر بازو آنکھوں سے ہٹا لیے۔
!”اماں برکتاں کو کہیں لے آئے یخنی۔۔۔”
آواز میں غصہ تھا۔
،،اماں برکتاں۔۔۔،،
اس نے مسکراتے ہوئے آواز دی۔
یخنی کھانے کے آدھے گھنٹے بعد دودھ کا گلاس دے دیجئے گا انھیں۔۔۔ اگر یہ انکار کریں تو میں دوسرے کمرے میں ہوں۔
وہ تاکید کرتے ہوئے اماں برکتاں کو کہہ رہا تھا۔۔۔ جو اس وقت علیشبہ کو سہارا دیتے ہوئے اٹھا رہی تھیں۔
” آپ خود نہیں اٹھ سکتی کیا؟؟؟”
:وہ قدرے اچھنبے سے بولا
اس بات کا جواب کسی نے نہیں دیا۔
وہ کچھ دیرپرسوچ نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔۔۔اور پھر کمرے سے چلا گیا۔
✦✦✦
تین بھائیوں کی اکلوتی بہن علیشبہ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ زندگی اس موڑ پر اسے لے آئے گی۔
کرنل شفیع مرزا کی لاڈلی بیٹی جسے انھوں نے پھولوں کی طرح پالا تھا، آج میلوں دور اس حالت میں زندہ ہوگئی۔۔۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔
یونیورسٹی میں آخری سمسٹر ختم ہونے والا تھا۔۔۔سب آپس میں مستقبل کے پلان بناتے رہتے۔
علیشبہ کی منگنی ہوچکی تھی. بس اس کی پڑھائی ختم ہونے کا انتظار تھا۔
مما نے تو پچھلے دو ماہ سے شادی کی شاپنگ شروع کردی تھی۔
اس دوران اس کے ساتھ پڑھتے نوید نے سب کو اپنی شادی کا کارڈ دے کر شرکت کے لئے بہت زیادہ اصرار کیا۔
نوید کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔
پہلے کوئی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ پورا گروپ جانے کے لیے تیار ہوگیا۔
علیشبہ نے حامی تو بھر لی تھی مگر پورا یقین نہیں تھا کہ پاپا اسلام آباد سے اتنی دور اسے جانے کی اجازت دے دیں گے بھی یا نہیں۔۔۔؟
ویسے تو اسے ہر قسم کی آزادی تھی۔۔۔ ان کا ماحول بہت زیادہ ماڈرن قسم کا تھا۔
اس کے پاپا کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے۔
اس لیے گیدرنگ پارٹیاں لڑکوں کے ساتھ دوستی کہیں آنا جانا عام سی بات تھی۔
مگر اتنا دور وہ بھی ایک بیک ورڈ ایریا میں بیٹی کو بھیجنے کا رسک کرنل شفیع کبھی نہ لیتے۔
ہوا بھی یہی انھوں نے اسی وقت منع کر دیا، مگر اس کے دوستوں کی بہت زیادہ منتوں اور علیشبہ کی ایموشنل باتوں سے مجبور ہو کر پاپا کو ہاں کرنی پڑی تھی۔
تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں۔
ان دنوں اٹھارہ سالہ شایان (علیشبہ کا چھوٹا بھائی) کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ اس نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار بہن سے کیا۔
علیشبہ کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
کرنل شفیع بیٹی کو اتنا دور بھیجنے پر کافی متذبذب تھے۔ جب شایان نے ساتھ جانے کی بات کی تو انھوں نے بخوشی اجازت دے دی، ایک طرح سے ان کا دل مطمئن ہوگیا تھا۔
نوید کی شادی پر یونیورسٹی میں پڑھتے اس کے دوستوں نے خوب ہلا گلا کیا۔
وہاں کے لوگ بہت زیادہ سیدھے سادھے اور ملنسار تھے۔
یونیورسٹی میں نوید کی دوستی لڑکیوں کے ساتھ بھی تھی۔ یہ بات وہاں کے لوگوں کے لیے بہت زیادہ عجیب تھی۔
نوید نے جب انھیں بتایا کہ اس کے گھر کے قریب دریا بہتا ہے تو سب وہاں جانے کےلیے پرجوش ہوگئے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ شادی کے دوسرے دن صبح دریا کی سیر کی جائے گی اور شام کو سب اسلام آباد کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
وہی منحوس گھڑی تھی۔۔۔ جب دریا کے کنارے پر تصویریں بنواتے علیشبہ تھوڑا نیچے پانی میں جاکر سیلفیاں لینے لگی تھی۔
“pic یہاں بھی۔۔۔ایک ”
پتھر پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی دوست حنا کو کہا تھا۔
اچانک پتھر لڑھکا، آن کی آن میں دریا کی موجیں اسے کہاں سے کہاں لے گئیں۔
اس کے بھائی شایان نے اسے بچانے کے لیے اسی وقت چھلانگ لگا دی تھی۔
آخری نظر اس کے دوستوں کے چیخنے چلانے کی تھی۔
“دودھ پی لیں۔۔۔”
آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ اماں برکتاں دودھ لیکر سامنے کھڑی تھی۔
علیشبہ نے ٹھنڈی سانس بھری اور گلاس لیکر خاموشی سے دودھ پینے لگی۔
جاری ہے۔۔۔
(تحریر حمنہ قندیل)
Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول