Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 7 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول
علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط7
مگرآپ کا ردعمل میرے اندازوں سے بالکل مختلف تھا، میں سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سب جاننے کے بعد آپ اتنا خاموش اور بالکل بدل جائیں گئی۔۔۔ یا شاید مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک لڑکی کا اپنے ساتھ جڑا رشتہ ٹوٹے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
آپ کے ساتھ مجھے محبت نہیں بلکہ بابا کی طرح پسندیدہ چیز حاصل کرنے کا جنون تھا۔ میں آپ سے معافی نہیں مانگوں گا کیونکہ اپنی پسندیدہ چیز نہ چاہتے ہوئے بھی چھوڑ دی ہے۔ یہی سزا میرے لیے کافی ہے۔
سلطان کی باتوں میں پچھتاوا تھا، دکھ تھا یا بے بسی اس وقت سمجھنا مشکل تھا۔
اس دوران علیشبہ بالکل خاموش بیٹھی رہی ،کوئی سوال کوئی جواب کچھ بھی نہیں تھا سوائے سرد چہرے کے
علیشبہ خدا کے لئے کچھ تو کہو کہہ دو کہ میں بہت برا ہوں۔ جتنا چیخنا ہے چیخو چلاؤ تاکہ تمہارے بعد کچھ تو ہو تاویل دینے کے لیے ورنہ تو احساس ندامت مجھے مار ڈالے گا۔
اس وقت سلطان جیسا مظبوط اعصاب کا مالک بے بسی کی انتہا پر نظر آرہا تھا۔ علیشبہ کی مسلسل خاموشی نے اسے ہلا کے رکھ دیا تھا۔
پہلے میں سمجھتی تھی کہ دنیا میں صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔ ایک ہیرو قسم کے لوگ۔۔۔ اور دوسرے ولن۔
وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔
ہیرو ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں اور ولن ہمیشہ برے۔۔۔ مگر میں غلط تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہیرو اور ولن کی خصوصیات ہر انسان میں پائی جاتی ہیں. کوئی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہوتا۔
آپ نے جو کچھ میرے ساتھ کیا تھا پہلے مجھے غصہ آیا۔ پھر دکھ ہوا اور پھر مجھے اپنی اوقات معلوم ہوئی۔
جو کچھ میں نے ان چھ مہینوں میں جانا ہے۔۔۔ اس کےلیے چھ صدیاں بھی کم پڑتیں۔ مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔اگر میں یہاں نہ آتی اور دریا میں نہ ڈوبتی تو شاید اس وقت تک میری اور احمر کی شادی ہو چکی ہوتی۔ مگر میرے رب کو کچھ اور منظور تھا۔ اس نے مجھے ایک نئی زندگی نہیں دی بلکہ ایک دوسرا موقع دیا ہے، اور میں اس موقع کو نفرت غصہ اور بدلہ لینے میں ضائع نہیں کرنا چاہتی۔
میں خود کو بدلنا چاہتی ہوں۔ میری زندگی کی ایک ایک سانس بہت قیمتی ہے۔ میں اسے اللہ کی رضا میں ڈھالنا چاہتی ہوں۔
آپ نے میری جان بچائی، اس کےلیے میں تہہ دل سے مشکور رہوں گی۔ باقی آپ کتنا برے اچھے ہیں میں یہ سب جج نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اللہ کی نظر میں آپ مجھ سے زیادہ اچھے ہوں۔ اس لیے پلیز ایسی باتیں کرکے مجھے تکلیف مت پہنچائیں۔
آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔۔۔ اور آپ نے مجھے آزاد کردیا میرے لیے یہی کافی ہے۔ باقی آپ سے میں کچھ نہیں کہنا چاہتی!!! وہ قطیعت سے بولی۔
اس کے بعد شاید سلطان کے پاس کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا۔
آگے کا سفر مکمل خاموشی میں کٹا۔
اس وقت وہ پوش ایریا میں داخل ہوچکے تھے۔ سڑک پر اکا دکا گاڑی نظر آ جاتی۔ علیشبہ نے گاڑی کا شیشہ نیچے کردیا۔
نارمل موسم ہونے کے باوجود رات کے ٹائم فضا میں خنکی تھی۔ وہ تازہ سانسیں لینا چاہتی تھی۔۔ کسی آزاد پنچھی کی طرح!!!
اس سے پہلے اسلام آباد اتنا پرسکون اور اپنا اپنا کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھر کی طرف جانے والی روڈ پر آئے ہر چیز جیسے ذہن میں ریورس ہونے لگی۔ اس کے آگے فلاں کوٹھی آئے گی، سڑک پر وہ گھنا درخت اس کے آگے فلاں آنٹی کا گھر۔۔۔!!!
سب کچھ ویسا تھا کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا سوائے علیشبہ کے!!!
سلطان اشتیاق سے علیشبہ کے چہرے پر آئے خوشی کے مختلف رنگ دیکھ رہا تھا۔
اگر زندگی میں کبھی آپ کے سامنے آجاؤں تو۔۔۔ آپ مجھے دیکھ کر نفرت کریں گئی ناں؟؟؟ اچانک سلطان نے پوچھا:
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں آپ کو معاف کر چکی ہوں۔ اس نے باہر کی طرف نظریں ہٹائے بغیر نارمل انداز میں جواب دیا۔
لیجیے آپ کا گھر آگیا ہے۔
سلطان نے علیشبہ کے گھر سے تھوڑا دور گاڑی روکتے ہوئے کہا۔
آگے آپ اکیلی چلی جائیں گی ناں؟
میری جان بچانے اور یہاں تک چھوڑنے کے لیے شکریہ!!!اس نے نیچے اترنے سے پہلے کہا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا سوائے سادگی کے۔۔۔
سلطان کی گردن میں جیسے کچھ پھنس گیا ہو۔
اللہ حافظ
نہ چاہتے ہوئے بھی آواز بھاری ہوگئی۔ اس دوران علیشبہ نیچے اتر چکی تھی۔
علیشبہ نے سلطان کو اپنے گھر جانے کے لیے نہیں کہا کیونکہ یہ کوئی اچھا موقع نہیں تھا۔۔
اس بات کو دونوں سمجھ رہے تھے۔
اب آپ جا سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی طرف بڑھتی چلی گئی اس دوران علیشبہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا!!!
سلطان خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔
علیشبہ کے گھر پر لائٹنگ کچھ زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اس کا مطلب گھر میں کسی تقریب وغیرہ کا اہتمام تھا۔ اکثر اس طرح کی دعوتیں ان کے ہاں معمول کی بات تھی۔
دروازے پر یعقوب خان ویسے الرٹ بیٹھا تھا۔ علیشبہ کو زندہ دیکھ کر صرف بیہوش نہیں ہوا تھا باقی اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔
علیشبہ بی بی آپ؟؟؟ وہ باقاعدہ اٹھ کر اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے نظروں کا دھوکہ سمجھ رہا ہو۔
ہاں میں زندہ تھی۔۔۔ گھر میں کوئی پارٹی ہو رہی ہے؟
جی وہ ریحان بابو کی کوئی ترقی ہوئی ہے تو اس خوشی میں۔۔۔
اچھا یعقوب میں نہیں چاہتی اس وقت کسی کو میرے بارے میں پتا چلے، میں اندر جا رہی ہوں پلیز آپ گھر میں ابھی کسی کو میرے بارے میں مت بتائیے گا۔ علیشبہ نے کہا تو یعقوب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
تقریب گھر کے پچھلے لان میں ہو رہی تھی۔ علیشبہ پورچ سے ہوتی ہوئی اندر آگئی۔
اس وقت سارے مہمان ملازم پیچھے کی طرف مصروف تھے۔
وہ ایک ایک چیز کو دیکھتی اپنے کمرے میں آگئی۔ اس کے کمرے کی تھوڑی بہت سیٹنگ تبدیل ہوگئی تھی۔ باقی سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔ کتنی دیر بیڈ پر بیٹھے خود کو یقین دلانے میں لگ گئے کہ واقعی وہ اپنے گھر پہنچ چکی ہے اس دوران کسی کام سے شایان اس کے کمرے میں آیا۔
بیڈ پر سفید دوپٹے میں ملبوس علیشبہ کو بیٹھے دیکھا تو ساکت رہ گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔ اتنا حیران جیسے قریب پہنچا تو کہیں منظر تحلیل نہ جائے۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ شایان کو دیکھ کر علیشبہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ یہ اس کا وہی بھائی تھا جس نے اسے بچانے کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈال دی تھی۔
عشو آپی۔۔۔ وہ روتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا۔
آپ زندہ تھیں،مجھے ہمیشہ لگتا تھا آپ میرے آس پاس ہیں۔
وہ رو رہا تھا یا ہنس سمجھنا مشکل تھا۔ بار بار چہرہ اٹھا کر علیشبہ کو دیکھتا کہیں اسے غلط فہمی تو نہیں ہوگئی۔
نہیں یہ معجزہ تھا اور ایسے معجزے ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔
میں ماما پاپا کو جاکر بتاتا ہوں اچانک جیسے اسے کچھ خیال آیا ہو۔ علیشبہ کی کچھ سنے بغیر وہ باہر نکل گیا۔
چند لمحوں بعد پورا کمرا مہمانوں سے بھر چکا تھا۔
اس کے ماما پاپا علیشبہ کو گلے لگائے رو رہے تھے۔اس کے بھائی علیحدہ جذباتی ہو رہے تھے۔ عجیب سا منظر تھا۔ سارے مہمان علیشبہ کو زندہ دیکھ کر حیران تھے۔۔۔ ان میں شامل احمر بھی تھا۔ چور نظریں۔۔۔ سب سے زیادہ کوئی پریشان تھا تو وہ یقیناً احمر تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی بیوی کو لیکر چپکے سے چلا گیا تھا۔
علیشبہ میری بچی آپ کہاں چلی گئی تھیں۔۔۔ ہم نے اتنا ڈھونڈا دریا کا ایک ایک کونہ چھان مارا تھا. کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں تمہارے ملنے کے چانسز ہوں اور ہم نے جاکر نہ دیکھا ہو۔ پاپا گلے سے لگائے پوچھ رہے تھے۔
اس وقت یہی سوال کمرے میں موجود ہر شخص کے ذہن میں اٹھ رہا تھا۔
پتا نہیں پاپا میں کہاں تھی۔ کوئی مجھے ہوسپٹل چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اتنا عرصہ میں کومے کی حالت میں رہی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہوش آیا۔۔۔ میں آپ کو فون کرنا چاہتی تھی مگر مجھے کسی کا نمبر یاد نہیں رہا۔ وہ کرب سے آنکھیں بند کرکے بولی۔
بھلے اس کا تعلق کتنا ہی لبرل فیملی سے ہو۔۔۔ مگر کسی لڑکی کا یوں چھ مہینے انجان لوگوں کے ساتھ رہنا اس کے کردار پر کتنی انگلیاں کھڑی کر سکتا ہے، اس بات کا اندازہ علیشبہ کو اچھی طرح سے تھا۔
اس لیے وہ اپنی قید اور سلطان کے بارے میں جان بوجھ کر سب کچھ چھپا گئی تھی۔
بشیر صدقے کے بکروں کا انتظام کرو۔ علیشبہ کی ماما نگہت بیگم ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے ملازموں کو ہدایات دینے لگیں۔
مہمان اب آہستہ آہستہ واپس جانا شروع ہوگئے تھے۔ کیونکہ اتنی لمبی آزمائش کے بعد خوشی کے یہ خاص لمحات اب گھر والوں نے ایک ساتھ گزارنے تھے۔
جاری ہے۔۔۔
( تحریر حمنہ قندیل)
Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول