Barish K Bad Urdu Novel | Episode 21| بارش کے بعد اردو ناول
میر شہزاد نے قدرے الجھ کر برقعے میں ملبوس اس عورت کو اندر داخل ہوتے دیکھا.
،،اسلام عليكم شہزاد بھائی!!!،،
آواز جانی پہچانی لگی.
،،وعليكم السلام بیٹھو.،، اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کے لئے کہا.
،،مہناز تم؟؟؟،،
جیسے ہی اس نے چہرے سے نقاب ہٹایا… بے یقینی کے عالم میں میر شہزاد کے منہ سے نکلا.
مہناز سلمیٰ خالہ کی چھوٹی بیٹی تھی.اگرچہ ان کا گھرانہ مذہبی اقدار کا حامل تھا… جہاں پردے اور دوسری بہت ساری خاندانی روایات کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، مگر شوخ و چنچل مہناز گھر بھر کی لاڈلی ہونے کے ناطے ان پابندیوں کو اکثر خاطر میں نہ لاتی تھی.
ایف ایس سی کے بعد اس نے ضد کرکے یونیورسٹی داخلہ لیا تھا.
لڑکے لڑکیوں کے ایک ساتھ پڑھنے پر سلمیٰ خالہ کو بہت زیادہ تحفظات تھے. وہ اس کے یونیورسٹی جانے پر بالکل راضی نہیں تھیں…
امی کو منانے کےلیے مہناز نے اپنے بڑے بھائی عمران کو آگے کیا تھا.
کیونکہ عمران کی کچھ زیادہ چہیتی ہونے کے ناطے وہ اس کی کوئی فرمائش رد نہیں کرسکتا تھا. اس نے جیسے تیسے کرکے اماں کو راضی کرلیا تھا.
میر شہزاد کے جیل جانے سے چند ماہ پہلے عمران نے اچانک مہناز کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا تھا. ان دنوں وہ اس کے بارے میں اچھا خاصا متفکر رہنے لگا تھا.
اس کے بعد میر شہزاد نے نوٹ کیا کہ عمران ہر کسی سے کھنچا کھنچا سا گم سم رہنے لگا ہے.
بعد میں حالات ایسے پیدا ہوئے کہ وہ دونوں پھر کبھی مل بیٹھ کر کر اپنے مسائل ڈسکس نہیں کرپائے.
جب وہ جیل سے باہر آیا تو پتا چلا کہ عمران نے میر شہزاد کے جیل میں جانے کے فوراً بعد مہناز کی شادی کردی تھی.
اب مہناز کو اپنے سامنے دیکھ کر میر شہزاد کو اچھی خاصی حیرت ہو رہی تھی. کیونکہ سلمیٰ خالہ اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی تھیں تو پھر مہناز اسے ملنے کیوں آئی تھی اور وہ بھی بالکل اکیلی؟؟؟
اس وقت وہ انگلیاں مروڑتی بہت زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی، یوں لگتا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر ہمت نہیں پڑ رہی.
میر شہزاد نے اس کےلیے جوس منگوایا. ایک دو گھونٹ بھر کر اس کے حواس قدرے بحال ہوئے.
،، اب بتاؤ مہناز تم میرے پاس کیوں آئی ہو؟،،
میر شہزاد نے نرم ہموار لہجے میں پوچھا.
،،شہزاد بھائی آپ کے جیل جانے اور عمران کی موت کی اصل ذمہ دار میں ہوں. میری وجہ سے یہ سب کچھ ہوا.،،
،،کیا کہہ رہی ہو مہناز!!! ان سب کے پیچھے تم کہاں سے آگئی؟؟؟،،
وہ جو کرسی کی ٹیک لگا بیٹھا تھا ایک دم جھٹکے سے سیدھا ہوتے ہوئے بولا.
،،شہزاد بھائی یونیورسٹی میں میری ایک لڑکے سے دوستی ہوگئی تھی…. اس نے اپنی محبت کا یقین دلا کر میری کچھ ایسی تصاویر لے لی تھیں جو اگر سب کے سامنے آجاتیں تو میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی…
مجھے نہیں معلوم تھا وہ لڑکا کسی کے کہنے پر مجھے استعمال کرنے آیا تھا…. بعد میں میری تصاویر اس لڑکے نے ان لوگوں کو دے دیں جو آپ کو جیل بھجوانا چاہتے تھے.
ان تصاویر کے ذریعے سب سے پہلے انھوں نے عمران بھائی بلیک میل کرنا شروع کردیا.
میری عزت بچانے کی خاطر میرا بھائی وہ سب کچھ کرتا گیا جو وہ لوگ چاہتے تھے.
ان لوگوں کے مجبور کرنے پر آپ کے پمپ پر منشیات کا کاروبار شروع کیا گیا تھا.،،
میر شہزاد ہم تن گوش تھا.
،،عمران بھائی مجھ سے سخت خفا تھے. کیونکہ میری وجہ وہ آپ کو جیل جانا پڑا تھا.
مجھے لگتا تھا بس اب زندگی ختم ہوگئی ہے پھر سے دوبارہ کچھ اچھا نہیں ہوسکے گا.
مگر پھر اچانک بھائی پرجوش سا نظر آنے لگا. پہلے جو وہ میری شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا اب نارمل ہونے لگ گیا تھا. ایک اچھی جگہ رشتہ ڈھونڈ کر اس نے فوراً میری شادی کی بات پکی کردی.
تصاویر والی بات صرف میرے اور عمران کی بیچ رہی تھی. گھر والے اور آپ اس بات سے مکمل لاعلم تھے.
شادی سے ایک رات پہلے عمران بھائی میرے کمرے میں آکر کتنی دیر مجھ سے باتیں کرتا رہا تھا.
پہلی بار اس نے نہ صرف مجھے معاف کرنے کی بات کی بلکہ تسلی دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا اب مجھے ماضی کو بھول کر زندگی میں آگے بڑھ جانا چاہیے.
اس رات عمران بھائی نے بتایا تھا کہ اس نے نہ صرف میری ساری تصاویر ان لوگوں سے حاصل کرکے ہمیشہ کے لیے تلف کردی ہیں بلکہ ان کو چراتے وقت اس کے پاس کچھ ایسی وڈیوز اور آڈیوز ہاتھ لگی ہیں جن کے ذریعے وہ بہت جلد میر شہزاد کو جیل سے باہر نکال لائے گا.
ایسا لگ رہا تھا جیسے عنقریب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا…،،
مہناز دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے بول رہی تھی.
،،شادی کے بعد اس رات میں امی کے گھر آئی ہوئی تھی… عمران بھائی بہت زیادہ خوش نظر آ رہا تھا کیونکہ اس نے ہم سب کو خوشخبری سنائی کہ ایک ہفتے کے اندر میر شہزاد جیل سے رہا ہوجائے گا. گیارہ بجے تک ہم سب اکھٹے بیٹھے کتنی دیر باتیں کرتے رہے تھے پھر انھیں کسی کی کال آئی اور وہ اسی وقت فوراً گھر سے باہر چلے گئے. جاتے وقت وہ اپنا لیپ ٹاپ بھی ساتھ لے گئے تھے.
ان کے جانے کے کچھ دیر بعد کچھ لوگ ہمارے گھر گھس آئے ان کے چہرے نقاب سے چھپے ہوئے تھے.
وہ بار بار عمران بھائی اور اس کے لیپ ٹاپ کا پوچھ رہے تھے. انھوں نے نہ صرف ہمارے گھر کی ایک ایک چیز چھان ماری بلکہ ہمارے سیل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے.
جاتے وقت وہ دھمکی دے کر گئے کہ اگر عمران نے ہمارا جو کچھ چرایا ہے واپس نہیں کیا یا پھر اس نے اس کے ذریعے میر شہزاد کو چھڑانے کی کوشش کی تو آپ سب اس کی لاش کےلیے تیار رہیں … ہم بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئے تھے. اس رات بار بار ہم عمران بھائی کو امی کے سادہ موبائل سے کال کرتے رہے مگر ان کا نمبر بند جارہا تھا. اگلی صبح تھانے سے اطلاع آئی کہ رات روڈ ایکسیڈنٹ میں عمران کی وفات ہوگئی ہے آکر لاش لے جائیں.،،
مہناز کرب سے بول رہی تھی.ادھر میر شہزاد سکتے کی کفیت میں بیٹھا تھا.
،،شہزاد بھائی ہم سب جانتے ہیں کہ عمران بھائی کا کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا بلکہ اسے قتل کیا گیا تھا.
اس وقت کاشان بہت چھوٹا تھا. جواں سالہ بیٹے کی وفات سے امی اتنی زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھیں کہ انھوں نے مزید کوئی پولیس کارروائی کروانے کی بجائے سب کو یہی کہا کہ اس کے بیٹے کی وفات روڈ حادثے کی وجہ سے ہوئی ہے.
اس کے بعد انھوں نے ہم سب کو سختی سے تاکید کہ آپ میں سے کوئی بھی میر شہزاد کے ساتھ رابطہ یا اسے جیل میں ملنے کی کوشش نہیں کرے گا.
یوں سمجھو عمران کے ساتھ میر شہزاد بھی ہمارے لیے مر گیا ہے!!!،،
مہناز کب کی جاچکی تھی. میر شہزاد ابھی تک شاک کی کفیت میں بیٹھا تھا. وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ بھائیوں جیسے دوست کے دھوکہ نہ دینے پر خوشی منائے یا اس کی خاطر اپنی جان دینے پر دھاڑیں مار مار کر روئے.
مہناز بتا رہی تھی کہ اس دن سلمیٰ خالہ نے میر شہزاد سے اپنے تعلقات ختم کرنے کا مجبوراً کہا تو تھا مگر اسی دکھ اور صدمے کی وجہ سے وہ بستر پر جالگی ہیں.
اس کی وجہ سے کتنے لوگ تکلیف میں تھے پہلی بار اسے احساس ہورہا تھا اس کی ماں کا صحیح فیصلہ تھا.جب تک اس کی شناخت دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی تھی نہ صرف وہ بالکل اس سے جڑے لوگ بھی محفوظ رہے تھے.
،، سر آپ ٹھیک تو ہیں؟،، ملازم نے اندر جھانک کر تشویش سے پوچھا.
میر شہزاد نے سر اوپر اٹھایا وہ واقعی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا.
ملازم کو دیکھ کر اچانک اس کے دماغ میں بجلی کوندی.
،،جلال جہاں سے تم نے لیپ ٹاپ ریپئر کروایا تھا مجھے فوراً اس دکان پر لے چلو.،،
وہ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے عجلت میں بولا.
کچھ دیر بعد وہ بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کے سامنے کھڑے تھے. دکان پر تالا لگا ہوا تھا. انھوں نے قریبی دکاندار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا کرایہ دار ہفتہ پہلے دکان چھوڑ کر یہاں سے جا چکا ہے.
ہمایوں لغاری کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا. خاندان کا واحد لڑکا جو اتنے بڑے عہدے پر اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر پہنچا تھا.
چونکہ شازیہ میر اور ہمایوں لغاری دونوں کا پیشہ ایسا تھا کہ اکثر کسی نہ کسی سلسلے میں ان کا رابطہ ہوتا رہتا تھا.
شازیہ میر اس کی پرسنیلٹی اور رکھ رکھاؤ سے کافی متاثر تھیں اس بات کا اندازہ ہمایوں لغاری کو اچھی طرح سے تھا. چنانچہ جب اس نے شازیہ میر کو شادی کا پروپوزل بھیجا تو بغیر کسی پس و پیش کے اس نے فوراً اس کا پروپوزل قبول کرلیا تھا.
ان دنوں ساجدہ بیگم فیاض ماموں کے بیٹے وجاہت درانی سے شادی کرنے کے لیے شازیہ میر پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہی تھیں.
وجاہت درانی نہ صرف عمر میں شازیہ سے چھوٹا تھا بلکہ اس کے چال چلن دیکھ کر وہ اسے ایک منٹ برداشت نہیں کرتی تھی کجا وہ شادی کے لئے راضی ہوتی.
ساجدہ بیگم کی مخالفت کے باوجود شازیہ میر نے ہمایوں لغاری سے پسند کی شادی کرلی تھی.
جب نارمل طبقے کے مرد کو اپنی بیوی کی وجہ سے ہر جگہ خصوصی پروٹوکول ملنے لگ جائے اوپر سے خاندانی اربوں کی جائیداد گھر میں آتے ہی لائف سٹائل ایک دم سے تبدیل ہوجائے تو لالچ خود بخود اپنی کونپلیں نکالنے لگتی ہے.
یہی حال ہمایوں لغاری کے ساتھ ہوا وہ اس سے زیادہ کی حرص میں پڑگیا.
سب سے پہلے مکمل پلاننگ سے اس نے میر فرہاد کو راستے سے ہٹایا. اس کا دوسرا مشن فیاض پٹواری کو دیوار سے لگانا تھا. ایسے میں اچانک شازیہ میر نے اپنے سوتیلے بھائی کا ذکر کردیا.
چونکہ آج تک اس نے میر شہزاد کا نام کسی کے منہ نہیں سنا تھا وہ اس بات سے مکمل بے لاعلم تھا کہ شازیہ میر کا ایک اور بھائی بھی ہے.
ان دنوں شازیہ میر بھائی کے نئے نئے صدمے سے گزری تھی. اپنا غم بانٹنے کے لئے اس نے ہمایوں لغاری سے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے اپنے ماضی کے بارے میں بتایا کہ کس طرح میر شہزاد کو پچپن میں گھر سے نکال دیا گیا تھا.
اسے لگتا تھا کہ اس کی ماں اور فیاض ماموں نے جو زیادتیاں آمنہ بیگم اور میر شہزاد پر کی تھیں اس کی سزا میر فرہاد کی موت کی صورت میں انھیں ملی ہے.
ادھر ہمایوں لغاری جو بیوی کے دکھ میں برابر کا شریک ابھی صحیح طرح سے اپنی کامیابی سلیبریٹ نہیں کرپایا تھا کہ اس کے سامنے اچانک کسی بدروح کی طرح میر شہزاد نکل کر آگیا تھا.چونکہ شازیہ میر میر شہزاد کے معاملے میں بہت زیادہ جذباتی ہو رہی تھی. اس نے ان دنوں اس کی جائیداد واپس لوٹانے کے لیے فیاض پٹواری پر دباؤ ڈالنا بھی شروع کر دیا تھا.
ایسے میں ہمایوں لغاری نے میر شہزاد کو جیل بھجوا کر وقتی طور پر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی.
کیونکہ یہ تو طے تھا اگر ایک بار جائیداد میر شہزاد کے پاس چلی جاتی تو پھر واپس ملنا تقریباً ناممکن تھا.
وہ جانتا تھا کہ شازیہ میر بھائی کو جیل سے نکالنے کے لیے ضرور آگے آئے گئی چنانچہ اس نے اپنا شاطر دماغ استعمال کرتے ہوئے پہلے میر شہزاد کو دنیا کی نظر میں مجرم بنایا پھر اسے گرفتار کروایا. سب کچھ پلان کے مطابق جا رہا تھا… فی الحال وہ میر شہزاد کو قتل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر شازیہ میر کو اس پر ذرا سا شک ہوجاتا تو سب کچھ ختم ہوجاتا. اس کا ارادہ میر شہزاد کو عدالت کی طرف سے سزائے موت دلوانے کا تھا. چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے عارف کے ماں باپ کو پیسے کا لالچ دے کر میر شہزاد کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا تھا.
اس وقت ہمایوں لغاری اپنے فارم ہاؤس کے پرتعیش کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا. ولید، طلال، اور شوکت جو نہ صرف اس کے ذاتی محافظ تھے بلکہ ہر سیاہ کام کو انجام تک پہچانے والے اس کے انتہائی قابل بھروسہ بندے تھے.
اس وقت وہ تینوں لیپ ٹاپ پر جھکے ان وڈیوز اور آڈیوز کو چیک کر رہے تھے. جو کچھ دیر پہلے ہمایوں لغاری کے موبائل پر نامعلوم نمبر سے بھیجی گئی تھیں. ہمایوں لغاری بار بار ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر سکرین پہ نظر دوڑا لیتا پھر پریشانی کے عالم میں وہاں سے ہٹ جاتا. اپنے گناہوں کو دوسروں کے رحم کرم پر دیکھ کر اندر کی ساری سیاہی اب اس کے سرخ و سفید چہرے پر پھیلتی جارہی تھی.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
وعدے کے مطابق آج کی ایپیسوڈ جلدی اپلوڈ کر دی ہے۔
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Bht interesting novel h
Thanks Sid🙏
Saturday ko new episode ati h na??
ہما آج انشاءاللہ اپلوڈ ہوجائے گی