Barish K Bad Urdu Novel | Episode 22| بارش کے بعد اردو ناول
امی کے گھر جاکر بھی مہرانگیز کے دل کی وحشت کم نہیں ہوئی تھی. اس کی حالت دیکھ کر سب پریشان ہو گئے تھے.
گھر والوں کے بار بار پوچھنے پر اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کردیا.
مہر انگیز کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جب اسے اس غنڈے سے اسی قسم کے رویے کی توقع تھی تو اب وہ اس کی بےرخی پہ اتنی آزردہ کیوں ہورہی تھی؟
بار بار وہ موبائل اس امید کے ساتھ اٹھا کر دیکھتی شاید میر شہزاد کی کوئی کال یا سوری والا میسج آیا ہوا ہو مگر آگے شاید میر شہزاد نے بھی اسے ستانے کی قسم اٹھائی ہوئی تھی.
اس کا ہر چیز سے دل اچاٹ ہوگیا تھا. یہاں تک کہ وہ اپنی دوستوں میں سے کسی کے میسج کا ریپلائی نہیں دے رہی تھی…
،،اگر وہ فون نہیں کررہا تو تم کرلو.،،
امی نے اسے اس قدر بے چین دیکھ کر مشورہ دیا.
،،جب اسے ضرورت نہیں ہے تو میں بھی مری نہیں جارہی اس کے لیے.،،
وہ موبائل پرے پھینکتے ہوئے بولی.
،،مگر لگ تو ایسے نہیں رہا ہے.،،امی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی.
آج اسے یہاں پر آئے تیسرا دن تھا اب تو اس کے گھر والے بھی حقیقتاً پریشان ہو گئے تھے سعد کئی بار کہہ چکا تھا کہ وہ خود میر شہزاد سے بات کرکے پوچھتا ہے کہ آخر تم دونوں کے درمیان ہوا کیا ہے؟
مگر مہرانگیز نے سختی سے منع کر دیا کہ اگر کسی نے رابطہ کر کے اسے بلانے کی کوشش کی تو وہ پھر یہاں زندگی بھر نہیں آئے گی.
شام کو کھانے کے ٹائم امی اسے زبردستی کمرے سے بلا کر لائی. سب کے مجبور کرنے پر اس نے ایک دو لقمے زہر مار کر کھائے. اتنے میں عباد نے کھانے کی میز پر اس کا سیل فون لاکر دیا کہ آپ کی کال آرہی ہے. مہرانگیز کا فون کمرے میں چارجنگ پہ لگا ہوا تھا.
موبائل بجنا اب بند ہوچکا تھا. اس نے سرسری انداز میں سکرین پر نظر دوڑائی مسڈ کال میں میر شہزاد کا نام جھلملا رہا تھا.
دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی تھی وہ تیزی سے اٹھ کر اندر کمرے میں آگئی. کتنی دیر وہ اس کی دوبارہ کال کا انتظار کرتی رہی… اس نے کوئی بیس بار موبائل اٹھا کر دیکھا. مگر فون پھر نہیں آیا.
کئی بار اس کا دل چاہا کہ وہ کال بیک کرلے مگر اتنی آسانی سے وہ بھی جھکنے والی نہیں تھی.
خدا خدا کر کے کوئی ایک گھنٹہ بعد میر شہزاد کی دوبارہ کال آئی. مہر انگیز نے دوسری گھنٹی پر ہی فون اٹھالیا.
،،ہیلو اسلام عليكم!!! ،، میر شہزاد کی آواز اس کے کانوں میں گونجی.
،،وعلیکم السلام!،، مہرانگیز نے آہستگی سے جواب دیا.
چند لمحے دونوں طرف سے مکمل خاموشی چھائی رہی جیسے انھیں مزید بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ نہ مل رہے ہوں.
،،تم ٹھیک ہو؟،،چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میر شہزاد نے نرمی سے پوچھا.
مہرانگیز کا دل پہلے ہی غم سے بھرا ہوا تھا اس کے پوچھتے ہی وہ رونے لگ گئی.
،، تم رو رہی ہو؟،، میر شہزاد کی آواز میں بے یقینی تھی.
،، نہیں تو.،، وہ بیدردی سے آنسو پونجھتے ہوئے بولی مگر اس کی ہچکیاں اب بھی میر شہزاد تک پہنچ رہی تھیں.
،،کیا ہوا؟ پلیز مہرانگیز تم رونا بند کرو….،، وہ دو منٹ میں پگھل گیا تھا.کہاں کا غصہ کہاں گئی ناراضگی؟؟؟
مگر میر شہزاد کی اس بات پہ اسے مزید رونا آگیا.
،،تم فوراً تیار ہوجاؤ ،میں ابھی تمہیں لینے آرہا ہوں.،،
اس کے بعد وہ مہرانگیز کا جواب سننے کے لیے رکا نہیں تھا کھٹاک سے فون بند ہوگیا تھا.
مہر انگیز موبائل ہاتھ میں پکڑ کر کچھ دیر مزید روتی رہی جب دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو وہ اٹھ کر جلدی جلدی گھر جانے کےلیے تیار ہونے لگی.
وہ اپنے ساتھ زیادہ کپڑے نہیں لائی تھی. کچھ سوٹ اس کے امی کے گھر پہلے سے پڑے ہوئے تھے. ان میں ایک سوٹ جو اس کی دوست نے گفٹ کیا تھا وہی اس نے پہننے کے لئے نکال لیا.
بلیک ٹاپ اور پرنٹڈ لانگ اسکرٹ کے ساتھ ریڈ دوپٹہ حجاب کے انداز میں پہن کر جب وہ باہر آئی تو سب اسے دیکھ کر حیران رہ گئے.
میر شہزاد مجھے لینے آرہا ہے. سب کی سوالیہ نظریں بھانپ کر اس نے قدرے جھنپ کر وضاحت دی.
یہ سن کر سب معنی خیز انداز میں مسکرانے لگے.
،،اتنے دنوں بعد ایسے منہ اٹھا کے چلی جاؤ گی؟ کم از کم تھوڑا بہت تو تیار ہوجاؤ.،، امی خفگی سے بولیں.
وہ خاموشی سے واپس کمرے میں چلی آئی. سعد بھی اٹھ کر اس کے پیچھے آیا تھا.
ان چند دنوں میں کوئی اگر سب سے زیادہ خاموش تھا تو وہ سعد تھا مہرانگیز کو پریشان دیکھ کر تفکر کے مارے اس کا چہرہ بالکل زرد ہوگیا تھا.
مگر اب وہ پرسکون لگ رہا تھا. بلکہ مہرانگیز کی پھرتیاں کو دیکھ کر اچھا خاصا محفوظ بھی ہورہا تھا.
،،ایک بات کہوں اپو؟،،
،،کہو.،، مہرانگیز لپ سٹک لگاتے ہوئے مصروف انداز میں بولی.
،،مجھے لگتا ہے آپ کو میر شہزاد سے محبت ہوگئی ہے.،،
جس یقین سے اس نے یہ بات کہی اتنی بے یقینی سے اس نے سعد کو دیکھا.
مگر وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے باہر چلا گیا.
مہر انگیز نے الجھ کر دوبارہ آئینے میں خود کو دیکھا کیا اسے واقعی میر شہزاد سے محبت ہوگئی ہے؟ نہیں نہیں اس غنڈے سے اسے قطعاً محبت نہیں ہونی چاہیے. اس نے جھرجھری لیتے ہوئے اس خیال کو سختی سے رد کیا.
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد میر شہزاد مہرانگیز کے گھر تھا. اس نے بلیو جینز کے ساتھ ریڈ بٹنوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی. ماتھے پہ بکھرے بال دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اسی رف حالت میں گھر سے نکلا تھا. جلدی میں اس نے بال سنوارنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی.
وہ زیادہ دیر نہیں رکا تھا بس سب کو سلام کرکے مہرانگیز کو لیکر چلا آیا تھا.
گاڑی میں کچھ دیر دونوں خاموش رہے.
،،تم رو کیوں رہی تھی؟،، کچھ دیر بعد میر شہزاد نے اسے دیکھے بغیر سنجیدگی سے پوچھا.
مگر مہرانگیز خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو گھورتی رہی.
،،گھر کیوں چھوڑ کے چلی گئی تھی؟،، چند لمحے توقف کے بعد ایک اور سوال.
،،میں گھر چھوڑ کے نہیں گئی تھی آپ کو بتا کر آئی تھی.،، اس بار مہر انگیز نے فوراً تصحیح کی.
،،سعد کو بلانے کی کیا ضرورت تھی مجھے کہتی میں بھی تو چھوڑ سکتا تھا.،،
،، آپ صرف دوسروں کی ٹانگیں توڑ سکتے ہیں.،، چھبتا ہوا نہایت ترش لہجہ تھا.
میر شہزاد کتنی دیر اس کے جواب پر مسکراتا رہا.
جبکہ مہرانگیز سنجیدگی سے ونڈ سکرین کے پار دیکھتی رہی.
،،ابھی توڑی تو نہیں تھی ناں…تم بھی تو منع کرنے کے باوجود اپنی ضد پہ اڑی ہوئی تھی. پہلے میں اچھا خاصا ٹینشن میں تھا. اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تم گھر چھوڑ کر چلی جاؤ.،،
،،یہ چھوٹی موٹی بات نہیں تھی. آپ کے کہنے پر میں اس وقت رک گئی تھی… مگر اس کے باوجود نہ تو آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور نہ ہی آپ نے ایکسکیوز کیا.،،
،،اچھا تمہیں میری معذرت کا انتظار تھا.،،
،،نہیں مجھے کسی کی معذرت کا انتظار نہیں تھا.،، وہ بدستور خفا تھی.
،،مجھے نہ صرف اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا بلکہ میں شرمندہ بھی تھا. مگر اس کے بعد تم نے کیا کیا فوراً گھر فون کرکے سب کو نہ صرف پریشان کردیا بلکہ مجھے سعد کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا.
کم از کم اس کے سامنے تو تم اپنا موڈ ٹھیک کرسکتی تھی. چلو جو ہوا سو ہوا پھر اچانک تم گھر چھوڑ کر چلی گئی. تمہیں اندازہ ہے مجھے کتنا برا لگا ہوگا؟؟؟
اس کے باوجود ہر روز میں تمہارے فون کا انتظار کرتا تھا…مگر ایک بار تم نے کال نہیں کی؟؟؟ اب بھی مجھ پر غصہ ہے کیا؟؟؟،،
،،گھر چھوڑ کے نہ جاتی تو کیا اکیلی دیواروں سے سر ٹکراتی رہتی.،، وہ تنک کر بولی.
،،گھر میں میرے ہونے یا ہونے سے تمہیں بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟،، وہ موڑ کاٹ کر گاڑی کو ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولا.
،،چلو اندر چل کر کھانا کھاتے ہیں.،، وہ سیٹ بیلٹ اتار رہا تھا.
،،میں کھانا پہلے کھا چکی ہوں.،، مہرانگیز بدستور اپنی جگہ پر بیٹھی رہی.
،،تمہاری شکل دیکھ کر تو ایسا لگ رہا جیسے تین دنوں نے تم نے کچھ نہیں کھایا.،،
مہر انگیز نے یوں نظریں چرائیں جیسے میر شہزاد نے اس کی چوری پکڑ لی ہو. کم از کم اس کے سامنے وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ اسے اتنی اہمیت دیتی ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا کھانا پینا تک چھوٹا ہوا تھا.
مگر وہ زبردستی اسے کھانے کے لیے ریسٹورنٹ میں لے گیا.
کھانے کے دوران مہرانگیز نے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی جبکہ میر شہزاد کا موڈ اتنا اچھا تھا جیسے ان کے درمیان کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو.
اتنے میں اس کے سیل فون پر کال آئی وہ زیادہ تر ہوں ہاں ہی میں بات کرتا رہا مگر اس کے چہرے پھیلتی پریشانی مہرانگیز نے بھی محسوس کر لی.
فون بند کرکے مہرانگیز کو اپنی طرف سے متوجہ پا کر وہ ہلکا سا مسکرایا.مگر وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا.
نہ صرف راستے میں بلکہ گھر پہنچ کر بھی وہ اچھا خاصا ڈسٹرب تھا.
اسے پریشان دیکھ کر لاشعوری طور پر وہ اس کے لیے فکرمند ہوگئی تھی.
،،جاگ رہی ہو؟،،
اس وقت وہ دونوں بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے جب میر شہزاد نے اسے پکارا.
،،ہوں.،،
مہرانگیز نے آنکھوں پر سے بازو ہٹائے بغیر مختصر جواب دیا.
،،پتا ہے مہرانگیز شروع سے میرے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے کہ جو میرے دل کے زیادہ قریب ہوتا ہے وہی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا جاتا ہے.،، وہ بکھرا ہوا شکست خوردہ لگ رہا تھا.
مہر انگیز نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا.
،،مجھ سے جڑے ہر رشتے کو صرف میری وجہ سے تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں.یہ بوجھ میری جان نکالنے سے زیادہ شدید ہے.،،
اس وقت اسے کسی کندھے کی ضرورت تھی.
،،تمہارے علاوہ میرے پاس اور کچھ نہیں ہے. میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا پلیز مہرانگیز آئندہ کبھی زندگی میں مجھے چھوڑ کر مت جانا.
تم مجھے نہیں چھوڑو گی ناں؟؟؟،، وہ جیسے تصدیق چاہ رہا تھا.
مہر انگیز نے اس کی طرف رخ پھیر کر خاموشی سے تسلی کے انداز میں اس کا ہاتھ تھام لیا تھا.
سیاہ گاڑی شہر سے دور دریائی خانہ بدوشوں کی بستی کے قریب جاکر رکی. اس میں سے شازیہ میر باہر نکلی. اس نے کالی چادر سے خود کو اچھی طرح سے چھپایا ہوا تھا باہر نکل کر محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھ کر ڈرائیور کو کوئی وہیں رکنے کا کہہ کر وہ آگے کی طرف بڑھ گئی.
سڑک کے ایک جانب پانی کی نہر رواں تھی. جبکہ دوسری طرف نیچے گہرائی میں چند گھرانے نظر آ رہے تھے جن کی چھتیں سرکنڈوں سے ڈھانپی گئی تھیں.ان گھروں میں چار دیواری کا کوئی تصور نظر نہیں آ رہا تھا. چند ننگ دھڑنگ بچے باہر کھیل رہے تھے… جو اب اپنا کھیل چھوڑ کر اجنبی عورت کو دلچسپی سے دیکھنے لگ گئے تھے.
وہ عورت پردہ ہٹا کر ایک جھگی کے اندر چلی گئی. اندر چارپائی پر تقریباً ڈھلتی عمر کا ایک شخص جس کی چمکیلی سیاہ رنگت تھی حقہ پینے میں مصروف تھا. شازیہ میر نے اپنا چہرہ بدستور چادر سے چھپایا ہوا تھا.
اسے دیکھ کر وہ شخص احترام سے اٹھ کھڑا ہوا.
،،آپ نے یہاں آکر خوامخواہ تکلیف کی مجھے یاد فرما لیتیں بندہ ناچیز سر پر پاؤں رکھ کے حاضر ہوجاتا.،، وہ نہایت عاجزی سے چارپائی پر کشیدہ کاری کی گئی چادر بجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا.
،،نہیں ہمارا آنا زیادہ مناسب تھا.،، وہ اب چارپائی پر بیٹھ چکی تھی.
جبکہ وہ شخص سامنے مؤدب انداز میں ہاتھ باندھے کھڑا رہا.
،،حکم کریں میں آپکی کیا مدد کرسکتا ہوں؟،، وہ سر جھکا کر بولا.
،، میرے بابا اکثر آپ سے جو کام لیتے تھے… یوں سمجھیں آج اسی کام کی ہمیں ضرورت پڑگئی ہے.،،
،،آپ حکم کریں ابھی بھی فقیر کی پٹیاری میں ایسے زہریلے سانپ موجود ہیں جو چند سیکنڈ میں کسی کی جان لے سکتے ہیں.،،
جس کی جان لینی ہے وہ ہمارے دل کے بہت قریب تھے…مگر اس دغاباز نے ہمیں زندگی بھر کا ایسا روگ دیا ہے جس کا تریاق کسی حکیم کے پاس نہیں…،،
ہمایوں لغاری نے شازیہ میر کے اندر جو شک کا بیج بویا تھا اس وقت وہ ایک تناور درخت بن چکا تھا.
،،ہم صرف اس کی دردناک موت اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں.،،
اس وقت تم اگر شازیہ میر کا چہرہ دیکھتے تو وہ سنگدلی کی انتہا پر نظر آ رہی تھی… بدلے کی آگ نے اس کے پورے وجود کو زہریلا کر دیا تھا.
،، بندہ، مقام، اور تاریخ بتا کر بے فکر ہوجائیں کام سو فیصد گارنٹی کے ساتھ ہوگا.،،
کیسری رنگ کا چوغا پہنے اس جوگی کی آنکھوں میں خاص چمک تھی.
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
پلیز آپ بتایا ضرور کریں کہ یہ والی ایپیسوڈ آپ کو کیسی لگی۔ مجھے سچ میں آپ کی رائے کا انتظار رہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Bht interesting zabrdst aj ki episode
Thanks Huma next episode upload ho gi h.
Bhttt w8 karna parta Hy har episode ka bhttt achi thi aaj ki episode but bht disturbing b ab next part ka w8 Hy
Isfa Nadeem next episode upload ho gi h.
Can’t wait next episode
Sid next episode upload ho gi h.
Plz baqi ka novel aik sath upload kr dain
شازیہ فی الحال تو اگلی ایپسوڈ اپلوڈ کر دی ہے۔