Barish K Bad Urdu Novel | Episode 23| بارش کے بعد اردو ناول
سب انسپکٹر اسلم خان ملغانی ہمایوں لغاری کے ماتحت کام کرتا تھا.
میر شہزاد کے پمپ پر منشیات رکھوانے کا سارا منصوبہ ہمایوں لغاری کے حکم پر ملغانی کے ذریعے تکمیل تک پہنچایا گیا.
وعدے کے مطابق میر شہزاد کی گرفتاری کے بعد ملغانی کو ایس ایچ او کے عہدہ پر تعینات کر دیا گیا. پولیس میں رہتے ہوئے ملغانی اچھی طرح جانتا تھا کہ برا وقت آنے پر کیسے افسر مافیا نچلے درجے کے ملازمین کو معطل کر کے اپنا راستہ صاف کرلیتے ہیں.
چنانچہ وہ ہمایوں لغاری کی ہر ملاقات کو اپنی اسمارٹ واچ کے ذریعے ریکارڈ کرتا رہتا تھا. اس کے علاوہ اس کی آنے والی ہر کالز کی ریکارڈنگ اپنے لیپ ٹاپ میں سنبھال کے رکھی ہوئی تھی.
عمران شروع سے کمپیوٹر اور ہیکنگ میں ماہر تھا. اپنی بہن کی نازیبا تصاویر حاصل کرنے کے لیے کسی طرح اس نے ملغانی کے لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل کی. اس دوران ہمایوں لغاری کی ساری وڈیوز اور آڈیوز عمران کے ہاتھ لگ گئیں.
ملغانی کو جب پتا چلا تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے کیونکہ ہمایوں لغاری تک یہ سب پہنچنے کا مطلب اس کی موت تھی. چنانچہ اس نے دھوکے کے ذریعے عمران کو بلا کر روڈ ایکسیڈنٹ میں اسے مروا دیا. مگر اس سے پہلے کسی خیال کے تحت عمران وہ سب ڈیٹا میر شہزاد کے لیپ ٹاپ میں بھی ڈال گیا تھا شاید اس نے خطرہ محسوس کرلیا تھا.یا کچھ اور وجہ تھی یوں وہ ڈیٹا کئی سال میر شہزاد کے لیپ ٹاپ میں پڑا رہا.
بعد میں ہمایوں لغاری نے ہر اس بندے کو مروا دیا جو میر شہزاد کے معاملے میں مددگار کے طور پر ہمایوں لغاری کی اصلیت سے واقف تھے. اس میں وہ ملغانی بھی شامل تھا.
،،سر بلیک میلر کا پتا چل گیا ہے. جھنگ سے تعلق ہے رانا کالونی میں رہتا ہے.پہلے بھی لڑکیوں کے موبائل سے ڈیٹا نکال کر انھیں بلیک میل کر کے پیسے مانگتا رہا ہے.،،
،،فی الحال اسے کچھ نہ کہو اس کے سارے مطالبات پورے کرو.،،
ہمایوں لغاری نے سرد انداز میں کہا.
اس دن کی نسبت آج وہ اپنی سابقہ حالت میں نارمل لگ رہا تھا.
،،مگر سر اس کے بعد کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ لڑکا دوبارہ بلیک میل نہیں کرے گا.،،
ولید نے اپنا خدشہ ظاہر کیا.
،،ابھی وہ بہت زیادہ محتاط ہوگا. بہتر یہی ہے کہ اس کا منہ بند کرکے اسے بےفکر کر دیا جائے. میں نہیں چاہتا کوئی خطرہ محسوس کرتے ہوئے وہ کوئی ایسی حرکت کرے جو ہمارےلیے مزید مشکلات کا باعث بن جائے.،،
ہمایوں لغاری نے گویا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا. ولید سمجھ جانے کے انداز میں سر ہلا کر چلا گیا.
اس دن میر شہزاد اپنے ملازم کے ہمراہ موبائل ریپئر کی شاپ پہ گیا تو وہ بند تھی.
اردگرد پوچھنے سے پتا چلا کہ اس دکان پر کام کرنے والا لڑکا جھنگ کا رہائشی تھا،ایک تو اسے یہاں پر آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا دوسرا وہ کسی سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا اس لیے کسی کے پاس اس کے بارے میں متصدقہ اطلاعات نہیں تھیں.
وہاں سے ناکام ہوکر جاتے ہوئے کسی خیال کے تحت میر شہزاد واپس پلٹا. اس دکان کے مقابل بہت بڑی گفٹ شاپ تھی. کچھ دیر بعد وہ اس گفٹ شاپ کے مالک کی مدد سے اس دکان کی باہر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر دیکھ رہا تھا. وڈیو میں موبائل ریپئر والے کو کتنی بار اپنی دکان کے اندر اور باہر جاتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا.لمبی ناک والا وہ لڑکا بمشکل بائیس تئیس سال کا ہوگا. میر شہزاد نے اس لڑکے کی وڈیو نکال کر اپنے موبائل میں ڈال لی اور گفٹ شاپ کے مالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل آیا.
اس لڑکے کو دھونڈنے کا کام میر شہزاد نے جس بندے کے ذمے لگایا تھا. اس نے اسے ڈھونڈ تو لیا مگر جب وہ وہاں پر پہنچا تو بدقسمتی سے گھر کے باہر اس لڑکے کے سوئم پر بہت سارے لوگ اکھٹے تھے. پوچھنے پتا چلا کہ تین دن پہلے اس لڑکے کو نامعلوم افراد کی جانب سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے.
اس دن ریسٹورنٹ میں مہرانگیز کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے فون پر اس لڑکے کی موت کا سن کر میر شہزاد پریشان ہوگیا تھا.
آجکل میر شہزاد زیادہ ٹائم گھر پر دے رہا تھا.
(ایک طرح سے مہر انگیز کا شکوہ دور کرنے کی کوشش)
کسی زمانے میں مہرانگیز کا بڑا جی للچاتا تھا کہ کاش اسکے گھر میں چھوٹا سا لان ہوتا تو وہ جی بھر کر گارڈننگ کرتی.
امی کے ہاں وہ اپنے شوق کی تکمیل گملوں ڈبوں وغیرہ میں پودے لگا کر کیا کرتی تھی.پھر زندگی نے اسے ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا کہ اس کے سارے خواب خواہشیں جیسے کہیں کھو گئی تھیں.
اب یہاں پر ویران لان دیکھ کر مہرانگیز کے پرانے شوق پھر سے جاگنے لگ گئے تھے.
وہ میر شہزاد کے ہمراہ نرسری سے بہت سارے پلانٹس اور بیلیں لے آئی تھی.اگرچہ میر شہزاد کو ان کاموں میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی کیونکہ شروع سے اس کا ذہن کاروباری تھا مگر اب چاروناچار مہرانگیز کے ساتھ اسے ہاتھ بٹانا پڑ رہا تھا.
،،آپ کو گارڈننگ کرنا اچھا نہیں لگتا؟،، مہرانگیز نے اس کی عدم دلچسپی نوٹ کرتے پوچھا.
،،نہیں مگر تمہیں ایکسائٹڈ دیکھ کر مجھے اچھا لگ رہا ہے.،، میر شہزاد صاف گوئی سے بولا.
،،ظاہری بات ہے جس طرح کے آپ کے دھندے ہیں بھلا آپ کو ایسے کاموں میں انٹرسٹ کیسے ہوسکتا ہے.،، وہ یکدم ناگواری سے بولی.
،،مثلاً کس قسم کے دھندے ہیں میرے؟؟؟،،
میر شہزاد محفوظ ہوکر بولا.
،،یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں.،،
،،کیا اب بھی میں تمہیں غنڈا لگتا ہوں؟،،
،،اس میں کوئی شک ہے؟،، وہ سر اٹھا کر الٹا اس سے سوال کرتے ہوئے بولی.
،،نہیں بالکل شک نہیں.،، وہ معصومیت سے بولا.
،،اسے اتنی ہی گہرائی سے نیچے لگاؤ جتنا یہ گملے میں لگا ہوا تھا.،،
اس نے مہرانگیز کو ایک پودا گملے سے نکال کر کیاری میں لگاتے دیکھ کر ٹوکا.
،،جب آپ ان کے بارے میں کچھ جانتے نہیں تو اپنی ہدایات اپنے پاس رکھیں.،،
وہ بدستور پودے کو زمین کی سطح سے نیچے لگاتے ہوئے بولی.
،،شوق نہیں ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا. جیل میں کتنے پودے میرے ہاتھ کے لگائے ہوئے ملیں گے.،،
وہ فخریہ انداز میں بولا.
ہونہہ بتا تو ایسے رہا ہے جیسے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہو. مہرانگیز نے سر جھٹک کر سوچا.
اگلی صبح دن کے گیارہ بجے ہوں گے. مہر انگیز کچن سے فارغ ہوکر بیڈروم میں آئی تو اس کے سیل فون پر نامعلوم نمبر سے کئی کالیں آئی ہوئی تھیں.
موبائل ہاتھ میں پکڑے ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کس کا نمبر ہوگا کہ اس دوران کال دوبارہ آنے لگی. اس نے اوکے کا بٹن دبایا.
،،ہیلو.،،
،،ہیلو مہرانگیز میں مسکان بول رہی ہوں.،،
مسکان کی عجلت میں آواز آئی.
چند لمحے مہرانگیز بالکل خاموش ہوگئی. برسوں بعد آج پہلی بار اس کی کال آئی تھی.
،،ہیلو آواز آرہی ہے؟،، مسکان کی دوبارہ آواز گونجی.
،،مجھے کال کیوں کی؟،، مہرانگیز نے سپاٹ انداز میں پوچھا.
،،میں تمہارے گھر آرہی ہوں راستہ نہیں مل رہا تھا وردہ آنٹی سے پوچھا تو صحیح طرح سے سمجھ نہیں آیا انھوں نے تمہارا نمبر دیا کہ تم سے فون کرکے پوچھ لوں.
مگر اب اس کی ضرورت نہیں ہے میں بس پانچ منٹ تک پہنچنے والی ہوں.،،
مسکان ایسے بات کررہی تھی جیسے ان کے درمیان کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو.
،،تم میرے گھر کیا کرنے آ رہی ہو؟،، مہرانگیز کرواہٹ سے بولی.
،،کم آن مہرانگیز کسی زمانے میں ہم بہت اچھی دوستیں رہا کرتی تھیں. پرانی باتیں چھوڑو میں بس تمہیں ملنے آرہی ہوں.،،
یہ کہہ کر اس نے فوراً فون بند کردیا.
مہرانگیز کتنی دیر غصے کے عالم میں خالی سکرین کو گھورتی رہی.
میر شہزاد اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا.
وہ واقعی پانچ منٹ بعد مہرانگیز کے گھر تھی. مسکان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ مہرانگیز اس کے آنے پر کس قدر ناخوش دکھائی دے رہی ہے.
اسے تو بس یہ دیکھنا تھا کہ خاندان میں مہرانگیز کے بارے میں جتنے شاندار تبصرے کیے جارہے ہیں وہ سچ ہیں یا ایسے ہی خوامخواہ سب امپرس ہوئے پڑے ہیں.وہ گھر کی ایک ایک چیز کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھ کر سوال پہ سوال کیے جارہی تھی…
گھر اپنا ہے؟ تمہارا شوہر کیا کرتا ہے؟ کتنی آمدن ہے؟ گاڑی کونسے ماڈل کی ہے؟
مہرانگیز کو اس قدر مطمئن دیکھ کر اس کے لہجے میں حسد اور رشک دونوں نظر آ رہا تھا.
،،یہ کیا تمہارے شوہر نے تمہیں ماسی نہیں رکھ کے دی؟ اس معاملے میں بھئی میرے ہسبنڈ بہت کھلے دل کے مالک ہیں. انھوں نے مجھے دو دو کام والیاں رکھ کے دی ہوئی ہیں.،،
مہر انگیز کو برتن دھوتے دیکھ کر مسکان کو پہلی بار اپنی برتری کا احساس ہوا.
،،میں نے خود منع کیا تھا ورنہ وہ تو بار بار کہہ رہے ہیں.،، مہر انگیز نے پہلی بار اپنے شوہر کے حق میں جھوٹ بولا.
،،ہاں اصل میں تم تو عادی ہو ناں ایسے کام وغیرہ کرنے کی. ہم تو بھئی شروع سے نوکروں کے عادی ہیں.،،
یہ کبھی نہیں بدلے گی. مہر انگیز نے ایک نظر اسے دیکھ کر بیزاری سے سوچا.
مسکان پہلے سے زیادہ موٹی ہوگئی تھی. ایک سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی مگر سننے میں یہی آیا تھا کہ اس کی سسرال والوں سے بالکل نہیں بنتی روز لڑائیاں ہوتی ہیں. آجکل بھی وہ روٹھ کر میکے آئی بیٹھی تھی.
بقول مسکان کے کہ اس کے سسرال والے اچھے نہیں ملے شروع سے ہر معاملے میں اسے ڈی گریڈ کرتے رہتے ہیں.
،،ظاہری بات ہے تم نے اپنے جیسا سسرال ڈھونڈا ہوگا.،،
مہر انگیز نے پہلی بار کندھے اچکا کر کہا.
،،اب ایسی بھی کوئی بات نہیں یہ تو تمہارا نصیب ہے کہ الگ گھر میں رہ رہی ہو سسرال ہوتا تو تمہیں پتا چلتا کہ کتنے مسائل کو فیس کرنا پڑتا ہے.،،
مسکان ناک بھوں چڑھا کر بولی.
اس کے بعد وہ پورے جوش و خروش سے اپنے سسرال والوں کی برائیاں کرنا شروع ہوگئی قطع نظر اس کے کہ مہرانگیز اس کی کسی بات پہ توجہ نہیں دے رہی.
ابھی تک مہرانگیز سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اتنے سالوں بعد اچانک ملنے کے بہانے وہ یہاں پر کیوں آئی ہے؟؟؟
کیونکہ جس قسم کی وہ فطرت رکھتی تھی اس سے خیر کی توقع کم از کم مہرانگیز کو نہیں تھی.
میر شہزاد جب گھر آیا تو اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے سجاول کو دیکھ کر مہرانگیز جہاں کھڑی تھی وہیں پر ساکت رہ گئی.سجاول کی آنکھوں میں آج بھی اس کےلیے وہی استحقاق بھری بیباکی تھی. میر شہزاد نے حیرت سے مہرانگیز کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کو دیکھا.
جوگی اور شازیہ میر کی ملاقات سے تین دن پہلے!!!
شام کے چار بج رہے تھے اس وقت شازیہ میر گھر پر موجود نہیں تھی.
ایک کپ کافی اسٹڈی میں بھجواؤ. ہمایوں لغاری نے لونگ روم میں گزرتے ہوئے مہرالنساء کو اچٹتی نظر سے دیکھ کر کہا.
مہرالنساء کارٹون دیکھتے شازیہ میر کے دونوں بچوں کو وہیں چھوڑ کر ملازم کو کافی بھجوانے کا کہنے چلی گئی.
آج ہمایوں لغاری کو ایک ضروری کال کا انتظار تھا. زیادہ تر وہ اسٹڈی روم میں بیٹھ کر اس قسم کی کالیں سنا کرتا تھا. ملازم سعادت مندی سے کافی رکھ کر چلا گیا.
ٹائم گزارنے کے لئے وہ کتاب اٹھا کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا.مگر کال آنے کی بے چینی اتنی زیادہ تھی کہ اسے کسی پل سکون نہیں آرہا تھا.
اتنے میں اس کا بیٹا ارحم ہاتھ میں ٹیبلٹ پکڑے روتا ہوا اندر آیا.کارٹون دیکھتے اس کی اپنے بھائی کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی. ہمایوں لغاری نے اسے گود میں اٹھا لیا. وہ کچھ دیر اپنے بیٹے کے ساتھ دلچسپی سے اسے گیمز کھیلتے دیکھتا رہا.
اس دوران ایک آدھ بار اس نے کال کرکے پوچھ بھی لیا مگر کام ابھی تک نہیں ہوا تھا.
ارحم گیمز کھیلتے کھیلتے وہیں ہمایوں لغاری کی گود میں گہری نیند سوگیا.
بچے کو احتیاط سے کندھے پر لگائے اس نے آکر بستر پر لٹایا. شازیہ میر ابھی تک نہیں آئی تھی.مہر النساء کو خیال رکھنے کی تاکید کرتا وہ دوبارہ لائبریری میں چلا گیا.
،،ہاں بولا کام ہوا؟،،
وہاں پہنچ کر ہمایوں لغاری نے بے چینی سے پوچھا.
،،بندہ مرگیا ہے اب اس کی لاش پولیس پوسٹ مارٹم کے لئے لے جا چکی ہے.
مگر ایک اور پریشانی کی خبر ہے.،، دوسری طرف سے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا گیا.
،،اب بکو بھی یا اگلے دس منٹ مزید انتظار کرنا پڑے گا.،، ہمایوں لغاری نے دانت پیستے ہوئے کہا.
،،سر اس بلیک میلر کو نہ صرف میر شہزاد ڈھونڈ رہا ہے بلکہ اس کی تصاویر سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکال کر اپنے ساتھ لے گیا ہے.،،
،،واٹ!!! میر شہزاد اسے کیسے جانتا ہے؟،،
،،پتا نہیں اس کے علاوہ ابھی کنفرم نہیں کہہ سکتا مگر شک ہے کہ وہ ملغانی کے اہل خانہ سے دوبار خفیہ طور پر مل چکا ہے.،،
،،یہ اب بھونک رہے ہو؟
میں نے کہا تھا اس پہ نظر رکھنے کو…..،،
ہمایوں لغاری تقریباً کھڑا ہوتے ہوئے شدت سے دھاڑا. ساؤنڈ پروف کمرہ ہونے کی وجہ سے آواز باہر نہیں جا سکتی تھی.
میر شہزاد اس کی سوچ سے زیادہ تیز نکلا تھا. وہ اگر بلیک میلر تک پہنچ گیا تھا تو اس کا مطلب اس کا اگلا ہاتھ ہمایوں لغاری کی گردن پر ہوگا. فون پر دوسری طرف سے شاید مزید وضاحت دی جارہی تھی مگر پوری بات سنے بغیر اس نے فون بند کر دیا.
،،میر شہزاد تم نے خود وقت سے پہلے اپنی موت کو دعوت دی ہے…،،
اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات خوفناک حد تک سرد تھے.
میر شہزاد شاید بھول گیا تھا کہ ہمایوں لغاری پہلے شکار کو مروا کر پھر بل سے باہر نکلتا ہے. عجیب سا خوف پوری لائبریری میں سرسرا رہا تھا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Aj ki episode plz jldi upload kr dain
Samia next episode upload kr di h.