Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 4 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول
علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط 4
جو کچھ آپ سوچ رہی ہیں تو آپ کی اطلاع کےلیے عرض یہ ہے کہ میں گھر پر ہوں خواہ نہ ہوں یہاں ذرا سی گڑبڑ کا فورا مجھے پتہ چل جاتا ہے۔
ویسے بائی چانس اگر آپ ان آہنی دروازوں کو توڑ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو باہر گھنے جنگل اور جنگلی جانوروں کے علاوہ آبادی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
انسانوں تک پہنچنے کا واحد راستہ دریا کو عبور کرکے جانا پڑے گا۔۔۔
!!! ماشااللہ جتنا اچھا آپ تیرنا جانتی ہیں تو میرے خیال میں یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا
ویسے ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہے، اگر آپ دریا میں ڈوب گئیں تو میں ہوں ناں آپ کو بچانے کے لئے۔
وہ کافی کے مزے سے سب لیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
آپ کو کس نے کہا ہے۔۔۔ کہ میں بھاگنے کا پروگرام بنا رہی ہوں، مجھے تو بس یہ جاننا ہے کہ آپ مجھے قید کرکے کونسا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ابھی وقت نہیں آیا، بہتر یہی ہوگا کہ آپ آرام سے رہیں اور قید کے ان لمحوں کو انجوائے کریں۔
!!!آپ کو ذرا سا ترس نہیں آتا مجھ پر
وہ کرواہٹ سے بولی۔
ترس آیا تھا تو آپ کی جان بچائی تھی۔
ایسے جان بچانے سے بہتر ہے کہ آپ نے مجھے مرنے دیا ہوتا یہ کہہ کر وہ رکی نہیں بلکہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی جہاں بیڈ پر گر کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔ اس دوران کوئی نہیں آیا یہاں تک کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے۔ پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
آہٹ سے آنکھ کھلی تو اماں برکتاں اس کے لیے چائے لے کر آئی ہوئی تھی۔ صبح سے ایک سیب کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔
اس وقت دن کے دو بج رہے تھے، سر بہت زیادہ بھاری محسوس ہو رہا تھا، واقعی اسے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔
چائے کے بعد اس نے وہیں کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔
تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکل آئی۔
اس کی اس گھر میں کچن سمیت تین چار کمروں یا پھر ہال تک رسائی تھی۔
!!!جہاں سے راہداری ختم ہوتی وہاں پر ایک دروازہ تھا۔ جیسے ہمیشہ بند کر کے رکھا جاتا تھا
علیشبہ کتنی دیر رک کر اسے بغور دیکھتی رہی۔
سلطان جب بھی باہر جاتا اس دروازے کو کبھی نہیں کھولتا تھا اس کا مطلب باہر جانے کا کوئی اور خفیہ راستہ تھا۔۔۔؟
ادھر ادھر گھوم کر وہ ہال میں آگئی۔ جہاں پر سلطان بڑی دلجمعی سے سیاہ رنگ کی رائفل کی صفائی کر رہا تھا وہ جديد قسم کی رائفل تھی۔
سلطان نے غور سے اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔ ایک بار کہہ دیا ہے ناں وقت آنے پر سب ٹھیک ہو جائے گا پھر آپ سے صبر کیوں نہیں ہو رہا۔
:وہ قدرے بےزاری سے بولا
آپ مجھے وقت آنے کی وجہ بتادیں میں صبر کر لوں گی… وہ رائفل کو بغور دیکھتے ہوئے بولی۔
میرے کوئی کچھ بندے ہیں۔۔۔ جن پر فوجی عدالتوں میں دہشتگردی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ میں خود کوشش کر رہا ہوں۔ آپ کو آخری آپشن کے طور پر رکھا ہوا ہے، کیونکہ تمہارے پاپا اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرکے انھیں چھڑوا سکتے ہیں۔
اس لئے بہتر یہی ہوگا تھوڑا صبر کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں میں وعدہ کرتا ہوں جیسے ہی میرے بندے رہا ہوگئے اسی دن آپ کی قید ختم ۔
اس کام میں کم از کم تین سے چار مہینے یا اس سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ذہنی طور پر خود کو تیار کرلیں۔
وہ رائفل کا نشانہ چیک کرتے ہوئے بولا۔
تین چار مہینے کہنا کتنا آسان ہوتا ہے جو گزارتے ہیں وہی بتا سکتے ہیں کہ ایک ایک لمحہ کاٹنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔
وہ بھی خاموشی سے دن کاٹنے لگی۔ اس دن کے بعد سے دل میں ایک مبہم امید ضرور جاگ اٹھی تھی کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھر چلی جائے گی۔
اسے وہ دن یاد آتے جب وہ حسرت سے کہا کرتی تھی۔
کاش اس کے پاس بہت سارا وقت ہوتا تو وہ جی بھر کر مویز اور سیریز دیکھتی۔۔۔ کتنی سیریز اس نے ویٹنگ لسٹ میں رکھی ہوئی تھی کہ وقت آنے پر آرام سے دیکھوں گی۔
اب اس کے پاس وقت ہی وقت تھا مگر کچھ دیکھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کبھی کبھی وہ سارا دن کمرے سے باہر نہ نکلتی اور کبھی وہ سارا دن کمرے کے اندر نہ گھستی۔ عجیب سا وقت تھا،کسی دن اس پہ رونے کا دورہ چڑھتا تو سارا سارا دن روتے ہوئے گزار دیتی۔
کبھی کبھی وہ حسین خواب دیکھنے لگ جاتی۔ کہ جب وہ زندہ اپنے گھر جائے گی تو سب کتنا حیران اور خوش ہوں گے۔۔۔اور اس کا منگیتر احمر۔۔۔اس کا سوچتے ہی لبوں پہ مسکراہٹ آ جاتی۔۔۔اکثر وہ اپنی ماما کو کہا کرتی کہ احمر کہیں سے لگتا نہیں ہے اتنے بڑے سیاستدان کا بیٹا ہے۔
عجیب سا بونگا تھا اکثر لڑکیوں میں گھسا رہتا۔۔۔ اسے ہمیشہ سے اپنے پاپا کی طرح پروقار اور تھوڑے رعب و دبدبے سے بھرپور مرد اچھے لگتے تھے۔
احمر تو الٹا اس سے ڈرتا تھا کبھی کبھی تو وہ اس سے چڑ جاتی تھی۔۔۔ مگر ماما ہمیشہ سمجھاتی اور کہتی یہ جو سخت مزاج مرد ہوتے ہیں ناں۔۔۔ یہ صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں ان کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتی ہے بیویوں کو ساری زندگی دبا کر رکھتے ہیں۔
اپنے پاپا کو دیکھ لو مجال ہے جو کبھی میری ایک بات مانی ہو ہمیشہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے آئے ہیں۔
شاید ان میں سے احمر کا انتخاب پاپا نے یہی سوچ کر کیا ہوگا کہ اس کی بیٹی زندگی بھر جھک کر نہیں رہے گی یہی سوچ کر وہ خود کو تسلی دے دیتی تھی۔
مگر اب وہ یہاں ایک قیدی کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔
جب بھی سلطان آتا اسے دیکھ کر امید کے دیے جگمگانے لگتے کہ شاید آج وہ کہہ دے کہ میرا کام ہو گیا ہے اب تم آزاد ہو۔
پچھلے ایک ہفتے سے وہ بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ سلطان نے اسے خوشخبری سنائی تھی کہ بس تمہاری آزادی قریب آگئی ہے۔
ایک ایک پل کاٹنا دشوار ہو رہا تھا۔
اس وقت کچن میں عجیب سی ہلچل کا احساس ہوتے ہی سلطان نے اندر جھانک کر دیکھا۔
علیشبہ بڑے جوش و خروش سے بیلن پر روٹی بیل رہی تھی جبکہ اما برکتاں اسے گول روٹی بنانے کا طریقہ بتا رہی تھی۔
:یہ سب کیا ھو رہا ہے؟ سلطان نے قدرے اچھنبے سے پوچھا
جی علیشبہ بی بی نے کہا ہے کہ وہ روٹی بنانا سیکھنا چاہتی ہیں۔
مگر کس خوشی میں؟؟؟
آپ کو نہیں معلوم میری شادی طے ہو چکی تھی۔ ماما کو ہمیشہ یہ ٹینشن رہتی تھی کہ مجھے کچھ کرنا نہیں آتا۔۔۔ شادی ہونے سے پہلے کم از کم ایک روٹی پکانی تو آنی چاہیے۔
اس لئے میں نے سوچا یہاں پر تو ویسے ہی فارغ ہو تو کیوں نہ اماں برکتاں سے روٹی بنانا ہی سیکھتی جاؤں۔
اماں برکتاں نے پوری شدت سے سر اثبات میں ہلایا۔
اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اماں برکتاں اور علیشبہ کی آپس میں بڑی دوستی ہوگئی تھی۔
ویسے آپ کو کیا لگتا ہے چھ ماہ لاپتا رہنے کے بعد آپ کا منگیتر آپ کے ساتھ شادی کے لئے تیار ہوجائے گا؟
وہ دروازہ کی ٹیک لگ کر دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
جس کے سنہری بالوں کی لٹیں بار بار چہرے پر آ جاتی تھیں۔
اس کی اتنی جرآت ہے ہی نہیں۔۔۔ وہ بالوں کی لٹ پیچھے کرکے مصومیت سے مسکراتے ہوئے بولی۔
اس دوران خشک آٹا اس کے گالوں پر لگ چکا تھا۔
سلطان کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
ویسے خوش فہمیاں کچھ زیادہ ہی پال لیتی ہیں آپ!!! جاتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا ۔
روٹی بنانے میں پرجوش علیشبہ نےاس کی بات سنی ہی نہیں تھی جیسے۔
دو دن بعد وہ کچن سے چائے کا کپ لیکر ہال سے گزر رہی تھی جب چلتی ٹی وی پر اشرف دانیال کا نام سن کر وہ لمحے بھر کو ٹھٹکی، اس وقت کوئی نیوز چینل چل رہا تھا شاید۔۔۔
سکرین پر اشرف دانیال کے بیٹے کے ولیمے کا کلپ بار بار دکھایا جا رہا تھا اور تنقید یہ کی جا رہی تھی کہ غریب عوام کے لیڈر کو بیٹے کی شادی پر پیسے کا اتنا بے دریغ استعمال زیب دیتا ہے۔
علیشبہ کو اور کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا نظریں تو صرف تھری پیس سوٹ میں ملبوس اشرف دانیال کے بیٹے احمر پر رکی تھیں۔
احمر نے شادی کرلی تھی۔ اس کے ساتھ دلہن کے روپ میں کھڑی لڑکی کون تھی۔ یہ سب تو اسے نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔
ذہن جیسے ماؤف ہوگیا ہو۔۔۔ احمر نے شادی بھی کرلی۔۔۔ وہ بار بار ایک لفظ دہرائے چلی جا رہی تھی۔
جاری ہے۔
اگلی قسط کل انشاءاللہ
(تحریر حمنہ قندیل)
Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول
Episode ۹ علیشبہ اور سلطان اردو ناول