Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 5 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول

علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط 5
اچانک وہ چلتے ہوئے دیوار میں نصب ٹی وی کے قریب آئی۔۔۔ اور چائے کا کپ سکرین کو دے مارا۔۔۔ چائے گرنے کی وجہ سے ساری سکرین خراب ہو گئی۔
احمر تم ایسا نہیں کرسکتے وہ چیختے ہوئے قیمتی اشیاء اٹھا کر پھینکنے لگی۔۔۔ سنہری چہرہ غصے سے دہک رہا تھا،اس کا تنفس بہت تیز چل رہا تھا۔
اماں برکتاں حیرت اور قدرے سہمی کھڑی تھی۔
اس وقت علیشبہ کے ہاتھ میں جو کچھ آ رہا تھا وہ اٹھا اٹھا کر دیواروں کو مار رہی تھی۔
سلطان شاید اپنے کمرے میں تھا۔ شور سن کر اچانک وہ ہال میں آیا تو اس کے سامنے معصوم سی علیشبہ کی بجائے اس وقت غراتی ہوئی شیرنی کھڑی تھی۔
یہ کیا بدتمیزی ہے، تم جانتی ہو میرے باپ نے یہ سب کچھ کتنی محنت سے اکٹھا کیا تھا۔۔۔ وہ قیمتی ہرن کا شوپیس اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے سخت برہمی سے بولا۔
یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ تم ہی ہو جس نے میری زندگی برباد کی ہے۔۔۔ تم ایک گھٹیا انسان ہو ظالم۔۔۔مکار۔۔۔ خود غرض۔۔۔
یہ جو اپنے چہرے پر اچھا ہونے کا نقاب اوڑھا ہوا ہے۔۔۔ اس کے پیچھے ایک بھیڑیا چھپا بیٹھا ہے۔۔۔ خونخوار بھیڑیا
وہ اس کا گریبان پکڑ کر دھاڑ رہی تھی۔
!!!کس نے کہا ہے میں اچھا ہوں۔۔۔ میں واقعی برا انسان ہوں۔۔۔ تمہاری سوچ سے بھی زیادہ برا۔۔۔ آئی سمجھ
سلطان اس کا ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹک کر بولا۔
اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ بھی اسی لہجے میں بول رہا تھا۔
تم پہلے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہو، جب وہ تمہارے احسان تلے دب جائیں تو ان سے اپنی مرضی کے کام نکلواتے ہو۔ اماں برکتاں، ڈاکٹر نورین کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے ناں؟ وہ تنفر سے بولی۔
اور میرے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا، پہلے میری جان بچائی پھر مجھے اپنے گھناؤنے جال میں جکڑ لیا۔ تمہیں احساس ہے تمہاری وجہ سے احمر کی شادی مجھ سے نہیں ہوئی. میری ساکھ میری شناخت سب کچھ ختم ہوگئی ہے۔
وہ اب تکلیف سے بول رہی تھی۔
ٹھیک ہے میں ذمہ دار ہوں۔۔۔ مگر احمر نے کونسی وفا کی آپ کے ساتھ!!! چند ماہ صبر نہیں ہوا اس سے۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ سب آپ کو بھول گئے ہیں،ان کی نظر میں آپ مر چکی ہیں ،کسی کو آپ کی پرواہ نہیں ہے ان کا غصہ مجھ پر مت نکالیں۔
آپ کو معلوم ہے۔۔۔ احمر کی شادی پر تمہارے ماما بابا مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے ہیں۔
وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا تھا۔
ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔؟؟؟
اس کی بھوری آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
!!!ایسا ہوچکا ہے بہت زیادہ خوش گمانیوں سے نکل آئیں علیشبہ مرزا
یہ بھی تمہاری طرح کوئی گھٹیا چال ہوگی۔ وہ نفرت سے کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سردار میں نے علیشبہ بی بی سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔
اماں برکتاں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے آگے آئی۔
بس!!! سلطان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
یہ رہا فون!!! آپ اپنے گھر والوں کو فون کرکے اپنے زندہ ہونے کی خوشخبری سنا سکتی ہیں۔۔۔ سلطان نے قریب میز پر سیل فون پھینکتے ہوئے کہا۔
علیشبہ اس وقت گھٹنوں میں سر دئیے خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔
ایک بات اور کال کرنے سے پہلے ذرا اپنے پیاروں کے سوشل اکاؤنٹ ضرور چیک کر لینا کہ کون کون تمہاری یاد میں مرا جا رہا ہے۔
دروازہ پوری شدت کے ساتھ بند ہونے کی آواز پر اس نے چونک کر سر اوپر اٹھایا، وہ کمرے سے جا چکا تھا۔
میز پر سیاہ رنگ کا سیل فون جگمگا رہا تھا۔ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھی رہی۔ بنا کسی تاثر کے، پھر اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر فون اٹھا لیا۔
موبائل پر سگنل آ رہے تھے۔سب کے اسے نمبر یاد تھے۔۔۔ کس کو پہلے کال کرے سوچتے ہوئے اس نے بے اختیار بابا کی فیس بک آئی ڈی کھول لی۔
آہستہ آہستہ وہ سب کے سوشل اکاؤنٹ چیک کرتی گئی۔
اسے یہاں رہتے ہوئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ وہ کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔ سب اسے بھول چکے تھے۔ شروع شروع میں ہر کوئی اس کے بارے میں سٹیٹس لگا رہا تھا۔سب اس کے لیے بہت زیادہ افسردہ تھے۔
آہستہ آہستہ وہ گم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ دو ماہ بعد اپنے دوستوں گھر والوں سب کی زندگیوں سے وہ جا چکی تھی۔
سب اپنی زندگی میں مصروف تھے۔ وہ ان میں سے کہیں پر نہیں تھی۔اس کا بڑا بھائی ان دنوں بچوں سمیت برطانیہ گیا ہوا تھا، وہاں کے سیاحتی ٹور کی تصاویر اس نے اپنے انسٹا گرام پہ ڈالی ہوئی تھیں۔
اس کی بہترین دوست حنا کی آجکل منگنی ہو رہی تھی، وہ اس کے بارے میں بہت پرجوش تھی۔
ماما بابا بھی اپنی معمول کی زندگی پہ آچکے تھے۔ احمر کی شادی پہ وہ دونوں پر وقار انداز میں شریک ہوئے تھے۔
ماما نے بنارسی کی وہ خوبصورت ساڑھی زیب تن کی تھی۔۔۔ جو انھوں نے انڈیا سے خاص طور پر علیشبہ کی شادی کےلیے منگوائی تھی۔
علیشبہ نے دکھ سے آنکھیں بھینچ لیں۔
چھ ماہ نظروں سے کیا اوجھل ہوئی سب نے اسے بھلا دیا۔
!!!یہی دنیا کا اصول ہے
کچھ عرصہ پہلے اس نے کسی کی طرف سے بھیجی گئی ایک پوسٹ وٹس ایپ پر سٹیٹس کے طور پر لگائی تھی کہ۔۔۔
آپ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے انسان ساری زندگی اس فریب میں زندگی گزار دیتا ہے۔۔۔ کہ وہ دوسروں کے لیے اہم ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس سٹیٹس کے فوراً بعد احمر کا میسج آیا تھا۔۔۔
لیکن مجھے فوق پڑتا ہے میں آپ کے بغیر کبھی نہیں رہ سکتا۔
اس وقت وہ احمر کی شادی کے بعد اس کی ہنی مون کی تصویریں دیکھتے ہوئے تلخی سے مسکرا رہی تھی۔
اس نے کرب سے موبائل ایک طرف رکھ دیا۔ آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ یوں لگتا جیسے کسی نے دل کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیے ہوں۔۔۔آنسو دل کی گہرائیوں میں گر رہے تھے۔
!!!لال آنسو
خون کے آنسو!!! وہ واقعی مر جاتی تو اس کے بعد کیا ہوتا۔۔۔؟؟؟
پہلی بار اس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا۔۔۔ اس سے پہلے اس نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ جب وہ واپس جائے گی تو اسے زندہ دیکھ کر سب کتنا خوش ہوں گے، مگر آج وہ ان کے بارے میں نہیں اپنے بارے میں سوچ رہی تھی۔
وہ واقعی دریا میں ڈوب جاتی تو اس کے بعد کیا ہوتا؟
اس کی ترجیحات میں مرنا تو شامل نہیں تھا۔
موت تو صرف بوڑھوں کو آتی ہے۔
نہیں جوان بھی تو ایسے مر جاتے ہیں۔
پہلی بار موت کا سوچ کر اسے جھرجھری آگئی تھی۔
اماں برکتاں اس کے کمرے میں آئیں تو وہ جائے نماز پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
اس نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور واپس پلٹ گی۔
میرے اللہ مجھے معاف کر دے۔۔۔ میں انجان تھی۔۔۔ بھٹکی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے اس حقیر دنیا سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔۔۔ اپنی زندگی میں تجھے بھلا دیا تھا۔۔۔ تیرے در سے منہ موڑ لیا تھا۔۔۔ مگر آج مجھے پتا چلا تیرے سوا سب سہارے مصنوعی ہیں۔ کوئی کسی کا نہیں سوائے تیرے۔۔۔اے اللہ میں ٹوٹ چکی ہوں مجھے اور کوئی در نظر نہیں آرہا جہاں جا کر میں اپنا دکھ بانٹ سکوں ،توں مجھے معاف کردے اور اپنا قرب عطا فرما۔ وہ سسک رہی تھی۔۔۔۔مجھے اپنے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ میرا دل اپنی محبت سے منور کردے۔۔۔ یا اللہ مجھے دنیا سے بے نیاز کردے۔
دوسرے دن سلطان ٹوٹے ہوئے سارے شوپیس اٹھا کر انھیں جوڑنے میں لگا ہوا تھا۔
دیکھو تو میرے باپ نے کتنی مشکلوں سے یہ سب کچھ غیر قانونی طریقے سے منگوایا تھا۔۔۔ اور اس لڑکی نے انھیں توڑنے میں چند لمحے نہیں لگائے۔
وہ ایک ایک ٹکڑے کو ایلفی سے جوڑتے ہوئے اماں برکتاں سے مخاطب تھا۔
سردار وہ بہت دکھی ہے اس کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔
اماں برکتاں گہرے رنج سے بولی۔
دل ہمیشہ ٹوٹتے رہتے ہیں اصل کمال ٹوٹے دل کو پھر سے جوڑنا ہوتا ہے۔
سلطان نے فخر سے شوپیس کو دیکھتے ہوئے کہا، جسے دیکھ کر ذرا سا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ یہ پہلے کتنے ٹکڑوں میں ٹوٹا ہوا تھا۔
جس سے اب جوڑا ہے وہ کبھی ٹوٹنے نہیں دے گا۔
اماں برکتاں عجیب سے انداز میں بولی۔
سلطان نے اچھنبے سے اماں برکتاں کو دیکھا۔۔۔ مگر کہا کچھ نہیں۔
دوسرے دن کی صبح بہت نکھری نکھری تھی۔۔۔ پچھلے ہفتے کی چھائی دھند اب چھٹ چکی تھی۔
سلطان نے آج سارے دروازے کھلوا دیے تھے۔۔۔ تیز چمکیلی دھوپ آنکھوں کو بھلی لگ رہی تھی۔
جب وہ باہر نکلی تو اس نے خود کو اچھی طرح سے ڈھانپا ہوا تھا۔ سنہری رنگ جامنی دوپٹے میں چمک رہا تھا۔
یہ آپ کا موبائل، میں نے گھر فون نہیں کیا۔۔۔ میں چاہتی ہوں آپ کسی طرح مجھے گھر پہنچانے کا انتظام کروا دیں، فون کرنے کی بجائے میں خود ان کے سامنے جانا چایتی ہوں۔
علیشبہ نے موبائل سلطان کو واپس کرتے ہوئے کہا۔
سلطان نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ کل والی بات کا ذرا سا شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر سادگی تھی۔۔۔ عجیب سی سادگی۔
ٹھیک ہے میں کروا دوں گا۔۔۔اور کچھ؟؟؟
نہیں بس شکریہ وہ کہتی ہوئی واپس پلٹ گئی۔
سلطان پرسوچ نظروں سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس واقعہ کے بعد اب وہ کیا سوچ رہی تھی۔۔۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔
اس دن کے بعد سے علیشبہ بہت کم سلطان کے سامنے آتی تھی۔ گھر میں عجیب سی ویرانی گھلنے لگی۔
سردار آپ اسے واپس گھر بھجوا دیں یہی ہم سب کےلیے بہتر ہے۔۔۔ اماں برکتاں کافی لیکر آئی تو سلطان کو سوچوں میں گم دیکھ کر کہا۔
سلطان نے نظریں اوپر اٹھائیں اس کی آنکھوں میں اداسی تھی نہ ختم ہونے والی اداسی۔۔۔
اماں برکتاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، علیشبہ کو گھر واپس بھیج دینا چاہیے۔ سلطان نے مرے مرے انداز میں کہا۔
سیاہ جیپ سڑک پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔
ڈرائیونگ سیٹ پر سلطان بیٹھا تھا ،اس کے ساتھ علیشبہ تھی۔۔۔ جس نے سفید رنگ کا بڑا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا، جس پر اسی رنگ کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔ یہ دوپٹہ اماں برکتاں نے اپنی بیٹی سے کڑھائی کروا کر اسے تحفے میں دیا تھا۔
اس وقت علیشبہ کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ سلطان کبھی کبھی کن اکھیوں سے اسے دیکھ لیتا تھا۔
اس دن کے واقعہ کے بعد سے وہ معصوم سی علیشبہ کہیں گم ہو گئی تھی۔
علیشبہ میں جانتا ہوں آپ احمر کی شادی سے بہت پریشان ہیں۔ مگر آج میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
سلطان نے بغیر کسی تمہید کے کہنا شروع کیا۔
جاری ہے۔۔۔
( تحریر حمنہ قندیل)

Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode ۹ علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 10 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *