Alishbah Aur Sultan Urdu Novel Episode 8

Alishbah Aur Sultan Urdu Novel | Episode 8 | علیشبہ اور سلطان اردو ناول

علیشبہ اور سلطان اردو ناول قسط 8

کچھ دن گھر میں بہت زیادہ رش رہا… علیشبہ کے دوست یونیورسٹی کے ٹیچرز ماما پاپا کے جاننے والے غرض کوئی ایسا نہ تھا جس نے علیشبہ کے زندہ ہونے کا سنا ہو اور مبارکباد دینے نہ آیا ہو.
چند دنوں سے علیشبہ کو محسوس ہورہا تھا کہ اس کے گھر والے اسے کچھ بتانا چاہتے ہیں مگر ہمت نہیں کر پا رہے….
اس رات سب اکھٹے بیٹھے تھے جب پاپا نے علیشبہ کو مخاطب کیا…
،،علیشبہ بیٹے میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں… یہ بات بتاتے ہوئے مجھے کتنی تکلیف ہورہی اس کا اندازہ تم اچھی طرح سے کر سکتی ہو…،،
کرنل شفیع مرزا جیسے مظبوط انسان کا اس طرح کمزور پڑنا علیشبہ کو مزید غمگین کر گیا.
واقعی بیٹیوں کے دکھ والدین کو ہلا کے رکھ دیتے
ہیں…
،، جی پاپا میں سمجھ رہی ہوں.،،
وہ آہستہ سے بولی.
،،بیٹا احمر میرا انتخاب تھا… ہنس مکھ ہر کسی سے گھلنے ملنے والا احمر بطور جیون ساتھی مجھے تمہارے لیے اچھا لگا تھا. اس حادثے سے پہلے شادی کی تیاریاں دونوں گھرانوں میں چل رہی تھیں.
بیٹا تقدیر کے آگے ہم سب بے بس ہیں. میں جانتا ہوں جو بات میں کہنے جا رہا ہوں اس سے میری بچی کو بہت زیادہ تکلیف پہنچے گی. مگر ہم سب حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے.،
پاپا جو قیامت آپ مجھ پر توڑنے جا رہے ہیں وہ پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے…
علیشبہ نے زخمی انداز میں پاپا کو دیکھ کر سوچا..مگر کہا کچھ نہیں اور خاموش رہی.
یوں لگ رہا تھا جیسے پاپا کو احمر کی شادی کے بارے میں بتانے کےلیے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں.
،،بیٹا آپ کے زندہ ہونے کوئی آثار نہیں تھے… ہم احمر کے والدین کو مزید انتظار نہیں کروا سکتے تھے اور کرواتے بھی تو کس کےلیے…؟
اس لیے تمہاری ماما اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں جاکر اشرف صاحب کو اپنے بیٹے کی شادی دوسری جگہ کرنے کی اجازت کھلے دل سے دینی چاہیے…میری بچی تمہارے نصیب میں احمر نہیں لکھا تھا، ورنہ دریا کی موجیں یوں تمہیں اس سے چھین کے نہ لے جاتیں.
مجھے یقین ہے تمہارے نصیب میں اس سے خاص لکھا ہوا ہے… بلاشبہ تقدیر کے آگے ہم سب بےبس ہیں.،،
،،آپ مجھے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احمر نے کہیں اور شادی کرلی ہے…؟،،
علیشبہ نے صاف گوئی سے پوچھا.
کرنل شفیع مرزا نے خاموشی سے گردن جھکا دی.
علیشبہ نے بھلے خود کو کتنا مظبوط کیا ہوا ہو.. پاپا کے یوں گردن جھکا کر اعترف کرنے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی.
،،میں اپنی بیٹی کے لیے احمر سے اچھا رشتہ ڈھونڈوں گی.،، ماما گلے سے لگائے تسلی دیتے ہوئے بولی.
بات اچھے برے ہونے کی نہیں تھی… بات اس دلی وابستگی کی تھی جو احمر کے نام سے جڑنے کی وجہ سے علیشبہ کو ہوگئی تھی
،،عشو آپی وہ اتنا اچھا بھی نہیں تھا دیکھا کیسے ہر وقت میرا مذاق اڑاتا رہتا تھا. آپ تو ایسے ہی اپنے آنسو ضائع کر رہی ہیں.،،
شایان نے اپنی طرف سے علیشبہ کو تسلی دینے کی کوشش کی.
یہ سن کر وہ تلخی سے مسکرا دی.
کتنی خوشگوار یادیں تھیں انھیں بھلانا اتنا آسان نہیں تھا نہ علیشبہ کےلیے اور نہ ہی احمر کے لیے…
جس دن سے احمر علیشبہ کو زندہ دیکھ کر گیا تھا عجیب سے پچھتاوے اور نہ ختم ہونے والی شرمندگی میں مبتلا تھا… اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنے محبت کے دعوے کرنے کے بعد علیشبہ کا سامنا کیسے کرے گا؟؟؟
علیشبہ کو گھر واپس آئے ایک مہینہ ہونے والا تھا… وہ نماز پڑھ کر جائے نماز لپیٹ رہی تھی…جب اس کی ماما آئی.
،،دیکھو تو کیسا حلیہ بنایا ہوا ہے.،،ماما نے سر پر اوڑھے دوپٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا. علیشبہ نے حیرت سے ماں کو دیکھا.
،،ماما میں نماز پڑھ رہی تھی.،،
،، ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر تم اتنا زیادہ تبدیل کیوں ہوتی جارہی ہو… نہ دوستوں کے پاس جاتی ہو… اب بازار جانے کو تمہارا دل نہیں کرتا… میں سوچ رہی ہوں کہ ایک چکر سلون کا لگا لو ،دیکھو تو تمہارا چہرہ کتنا ڈل ہو رہا ہے… میں آج ہی نیہا سے اپوائنمنٹ لے لیتی ہوں.،،
،،پلیز ماما ایسا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے… میں کہیں نہیں جا رہی.،، علیشبہ بےزاری سے بولی.
،، تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟
میری جان جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب اس بات پر سوگ منانے کی بجائے زندگی میں آگے بڑھو… احمر کے بارے میں اتنا زیادہ مت سوچو!!!،،
ماما نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا.
،،کوشش کر تو رہی ہوں مگر آپ بار بار اس کا ذکر کرکے مجھے بھولنے ہی نہیں دے رہیں.،،
،،میں بس اپنی وہ علیشبہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں جو زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتی تھی… جو زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھی.،،
،، ماما میں اب بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں بس اب میری ترجیحات بدل گئی ہیں…،،
،،اچھا چلو ہوسکے تو تنہا کمرے میں بیٹھنے کی بجائے کم از کم گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت گزار لیا کرو… تمہارے پاپا تمہیں لیکر کافی پریشان ہیں.،،
،،میں خود کوشش کر رہی ہوں کچھ وقت تو لگے گا… پلیز آپ سب میری ٹینشن نہ لیں میں ٹھیک ہوں…،، علیشبہ نے بدقت مسکراتے ہوئے تسلی دی.
،،ہمیشہ ایسے ہی مسکراتی رہا کرو…،، ماما اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی.
اس دن کے بعد سے زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگی تھی… مگر علیشبہ کا طرز زندگی بالکل بدل گیا تھا. کہاں وہ سارا دن کانوں میں ہیڈ فون لگائے میوزک سنتی لاپرواہ سی دکھتی علیشبہ اور کہاں اب اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار نظر آتی علیشبہ!!!
جینز کے ساتھ شارٹ شرٹ کی بجائے دوپٹے سمیت سادہ لباس نے لے لی تھی. یوں لگتا جیسے اپنی ایک ایک سانس اللہ کی رضا میں ڈھالنا چاہتی ہو. پاپا نے سب کو سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ اس کی اس تبدیلی پر کوئی نہیں ٹوکے گا.
اتنے بڑے سانحے کے بعد علیشبہ کا یوں گم صم ہو جانا انہونی بات نہیں تھی. بڑا بھائی علیحدہ رہتا تھا… اس سے چھوٹے کی آجکل نئی نئی جاب لگی تھی وہ دوسرے شہر چلا گیا تھا.
ماما پاپا کی اپنی سوشل روٹین تھی. شایان اور علیشبہ زیادہ تر آپس میں رابطے میں رہتے تھے. وہ بیچارہ اپنی طرف سے اس کا دل بہلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا. آج زبردستی اسے اپنے ساتھ گیم کھیلنے پر راضی کیا تھا.
،،عشو آپی ایک بات پوچھوں؟،،
کھیلتے کھیلتے اس نے اچانک پوچھا.
،، پوچھو،، علیشبہ کی توجہ گیم پر تھی.
،، کیا واقعی آپ کومے میں چلی گئی تھیں؟،،
،،تم کیوں پوچھ رہے ہو؟،، علیشبہ نے چونکتے ہوئے پوچھا.
،،بس مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ اتنا زیادہ تبدیل احمر کی وجہ سے نہیں ہوئی ہیں. آپ کے ساتھ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جو آپ ہم سب سے چھپا رہی ہیں.،،
،،نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. ،، اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا.
،،اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو اس دن آپ نے جھوٹ کیوں بولا تھا کہ مجھے کسی کا نمبر یاد نہیں رہا.،،
شایان نے غور سے علیشبہ کے بدلتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا.
،،اب یاد نہیں رہا تو اس میں میرا کیا قصور ہے…؟،، علیشبہ نے جھنجھلا کے جواب دیا.
،، لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کی یاداشت کتنا تیز ہے میں مان ہی نہیں سکتا کہ تمہیں سب کے نمبر بھول گئے.،،
،،میں نے نہیں کھیلنی کوئی گیم ویم!!!،، وہ ناراضگی کا اظہار کرکے اچانک گیم چھوڑ کر چلی گئی. جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ شایان کے سوالوں سے فرار چاہتی تھی.
*
علیشبہ کچن میں چائے بنا رہی تھی جب ماما اس کے پاس آئی…
،،یہ سب کیا ہے کیوں میرے لیے اتنے پرابلم کریٹ کر رہی ہو؟؟؟،،
،،آپ کےلیے چائے بنا دوں؟،، علیشبہ نے نظرانداز کرتے ہوئے کہا.
،،میں نے ابھی کیا پوچھا ہے؟ ،، وہ سخت لہجے میں بولیں.
،،جی کیا پوچھا ہے؟،، وہ پورا گھوم کر ماما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی.
،،سکینہ مجھے بتا رہی تھی کہ تم گھر کے ملازموں کے سامنے آنے سے کترانے لگی ہو ، تو کیا چاہتی ہو نوکروں کی پوری فوج تمہارے لیے نکال دوں؟؟؟،،
،،میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی!!! ،،
،، نہیں کی!!! مگر یہ جو تم آجکل کر رہی ہو اس کا کیا مطلب ہے؟
تم نے پارٹیوں میں جانا بالکل چھوڑ دیا ہے… دوستوں میں سے ہر لڑکے سے رابطہ ختم کر دیا باہر جاتے ہوئے بڑی چادر لینے لگی میں خاموش رہی…
مجھے لگتا تھا احمر کی وجہ سے پریشان ہو بعد میں آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاؤ گی. مگر میں غلط تھی…. میری جان کیوں پتھر کے دور میں واپس جانا چاہتی ہو…؟ اللہ تعالیٰ اتنا سخت نہیں ہیں وہ ہم سب کو معاف کر دیں گے. یہی عمر تو ہے زندگی انجوائے کرنے کی…. تمہاری وجہ سے اتنا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کوئی کہتا ہے کومے کی وجہ سے دماغی مسئلہ ہوگیا ہے… کوئی تمہاری اور احمر کی بات لیکر ایشو بنا رہا ہے کیوں اتنا تنگ کر رہی ہو ہمیں؟،،
نگہت بیگم روہانسی ہوکر بولی.
،،ماما مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں ہے… جسم ڈھانپنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے میں صرف اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں.،،
،،وہ تو ٹھیک ہے مگر آج کے دور میں خاص طور پر ہماری سوسائٹی میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں ہے.اس وجہ سے تمہارا اچھا رشتہ نہیں ہوگا. خدا کےلیے کچھ تو میرا خیال کرو لوگ کیا کہیں گے؟،،
،،ماما مرنے کے بعد لوگ قبر میں ساتھ نہیں جاتے… کچھ دن بعد سب بھول جاتے ہیں. میں لوگوں کی خاطر اپنے اللہ کو ناراض نہیں کرسکتی.،،
،،میری جان ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے، کیوں اس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟؟؟،،
،،کیونکہ میں موت کو قریب سے دیکھ کر آئی ہوں، اس کے بعد لوگ کیسے بھول جاتے ہیں اس کا اندازہ مجھ سے بہتر کون کر سکتا ہے، اب میں نے لوگوں کی پرواہ کرنی چھوڑ دی ہے.،، علیشبہ نے عجیب انداز میں کہا.
،،میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تمہارے پاپا آئیں میں ان سے بات کرتی ہوں.،،
وہ پریشانی سے کہتے ہوئے واپس پلٹ گئیں.
اس رات پاپا نے اپنے کمرے میں بلا کر کچھ باتیں کہی تھیں…
،،علیشبہ بیٹا میں جانتا ہوں تم اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ اپنے برے بھلے کا خود فیصلہ کر لو… آجکل جس حالت سے تم گزر رہی ہو وہ بھی میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں.
تم خود کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہو بہت اچھی بات ہے. مگر بیٹا ابھی تو یہ سب کرنا تمہیں آسان لگ رہا ہے لیکن ضروری نہیں آگے چل کر تم ان سب پر قائم رہ پاؤ…. تمہاری عمر میں مجھے بڑا جوش چڑھا تھا نیک ہونے عبادات کرنے کا…. لیکن آگے چل کر میں توازن نہیں رکھ پایا. پچپن میں ابا جی نے نماز کی جو پختہ عادت ڈلوائی تھی وہ ابھی تک قائم ہے.
آپ اچھے کام کریں عبادات کریں لیکن ہر چیز اعتدال میں رہ کر تاکہ بعد میں تھک کر فرائض سے غافل نہ ہوجائیں.اس لیے آپ وہ کریں جس پر ساری زندگی قائم رہ پائیں…
بیٹا کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آپ اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑ دیں.
ٹھیک ہےتم لڑکوں سے دوستی نہیں رکھنا چاہتی مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی کزنوں اور دوسری دوستوں سے رابطہ ختم کر دو.
اسلام میں مہذب لباس پہننے کا حکم ہے مگر زیب و زینت سے تو منع نہیں کیا گیا.
اپنی ڈریسنگ اچھی رکھو اللہ نے استطاعت دی ہے تو اس کا اظہار کرو. یہ نہیں کہ ہمیشہ سفید لباس اپنے اوپر فرض کردو… اللہ تعالیٰ کبھی نہیں چاہتے کہ مجھے خوش رکھنے کےلیے آپ پوری دنیا سے قطع تعلق کرلیں.
اسلام میں جو نرمی دی گئی ہے اس کا فائدہ اٹھاؤ اصل کمال یہ نہیں کہ آپ دنیا کو بالکل چھوڑ دیں بلکہ دنیا کو ساتھ لیکر اسلام پر مکمل کاربند ہی حقیقی کامیابی ہے.
اگر آپ کو لگتا ہے آپ ساری زندگی قائم رہ پائیں گی تو میری سپورٹ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گی.،،
پاپا کی باتوں نے دماغ کی بہت ساری گرہیں کھول کے رکھ دی تھیں. وہ اپنی اولاد پر زبردستی کرنے کی بجائے ہمیشہ ان کی اپنی سوچ کو فوقیت دیتے تھے. اگر کوئی بات منوانی ہوتی تو ہمیشہ دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے.
گھر میں پرانی رونقیں آہستہ آہستہ لوٹنے لگیں تھیں.
علیشبہ نے خود پر جو سنجیدگی کا خول چڑھا رکھا تھا اب اتر رہا تھا. یہ نہیں کہ اللہ کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑ گیا تھا… بلکہ زندگی کے ہر قدم پر وہ اپنی سوچ کی بجائے اسلام کے بتائے گئے اصولوں سے رہنمائی لینے لگی تھی.
شایان کے ساتھ ہنسی مذاق ماما سے لاڈ پیار کرنا اور پاپا سے فرمائشیں خوشیاں جیسے واپس لوٹ آئی تھیں.

تقریباً ڈیڑھ سال بعد شام کو ماما پاپا گھر لوٹے تو کچھ زیادہ خوش نظر آ رہے تھے. ان کے چہروں پر نظر آتی خوشی علیشبہ نے بھی محسوس کرلی تھی.
رات کو دونوں اس کے کمرے میں آئے.
،،علیشبہ بیٹا آج ہم آپ سے خاص بات کرنے آئے ہیں.،،
(آتے ہی پایا نے بولنا شروع کر دیا تھا) علیشبہ بیٹا آپ کا رشتہ بہت اچھی جگہ سے آیا ہے. مجھے لگتا ہے آزمائش کا دور اب ختم ہو گیا. خوشیاں آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں.،،
ماما کا چہرہ بھی خوشی سے تمتما رہا تھا.
،،بیٹا لڑکا بہت ہی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے بیرون ملک جاب ہے. اس کی فیملی بہت زیادہ پڑھی لکھی اور اچھی ہے…
میرے دوست اقبال صاحب کے لڑکے کے ماموں سے قریبی مراسم ہیں. اگلے مہینے وہ لوگ شادی کی تاریخ طے کرنے پاکستان آ رہے ہیں.ہم نے ہر طرح سے معلومات حاصل کی ہیں کوئی بات بری نہیں لگی.
،، ماشاءاللہ سے لڑکے کو تمہارے پردے کرنے پر یا کسی اور بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے…(ماما نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا)ورنہ مجھے تو بہت فکر تھی کہ آج کے دور میں اس قسم کی لڑکی کو کون پسند کرتا ہے.،،
،،علیشبہ بیٹا میں چاہتا ہوں آپ لڑکے سے ایک بار مل لیں… ہاں یا ناں کا فیصلہ آپ خود کریں.،،
پاپا نے کہا.
،،پاپا اس کی کوئی ضرورت نہیں مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے آپ میرے لیے جو پسند کریں گے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.،،
علیشبہ کے اس جواب نے کرنل شفیع مرزا کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا.
اس بات کو ہفتہ گزرا ہوگا جب شایان نے آکر علیشبہ کو اطلاع دی.
،،آپی کوئی آپ کا مہمان آیا ہوا ہے کہتا ہے میں نے علیشبہ سے ملنا ہے.،،
اس شام ماما پاپا گھر پر نہیں تھے.
،،کون ہے؟،، علیشبہ نے حیرت سے پوچھا.
،،پتا نہیں میں بھی پہلی بار مل رہا ہوں… کہتا ہے علیشبہ کے ہاتھ کی کافی بنوا کر لے آؤ…،،
وہ اجنبی کون تھا؟ کیا علیشبہ کے گھر میں آنے والا شخص کسی خاص مقصد کے لیے آیا تھا؟ یہ سب کچھ اگلی قسط میں انشاءاللہ!!!
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
نوٹ: اس ناول کی تمام اقساط آپ نیچے دی گئی لنک پہ کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

Episode 1 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 2 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 3 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 4 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 5 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 6 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 7 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 8 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode ۹ علیشبہ اور سلطان اردو ناول

Episode 10 علیشبہ اور سلطان اردو ناول

پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *