Barish K Bad Urdu Novel | Episode 10 | بارش کے بعد اردو ناول
میر شہزاد کا چہرہ شکن زدہ بوڑھا لگ رہا تھا. رنگت بالکل سفید مرجھائی ہوئی تھی…یوں جیسے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لیا گیا ہو. سامنے کے بال ہمیشہ جیل سے سیدھے ہونے کی بجائے لمبے ہوکر ماتھے پہ گرے پڑے تھے. آنکھوں میں ویرانی تھی اور اس وقت مہرانگیز کو سامنے دیکھ کر نہ ختم ہونے والی بے یقینی نظر آ رہی تھی.
جبکہ مہر انگیز کی آنکھوں میں غصہ نفرت دونوں جھلک رہی تھیں.
،،بہت دعائیں مانگی تھیں تم سے ملنے کےلیے!!!،،
وہ اپنی سیاہ آنکھیں اس پہ گاڑتے ہوئے بولی.
،، میں نے بھی…،،
میر شہزاد آہستہ سے بولا.
،،میر شہزاد ان چار سالوں میں تم سے ملنے کی اتنی تڑپ تھی کہ سوتے جاگتے صرف تمہارا خیال ذہن میں رہتا تھا ہے.چار سالوں سے تم میرے حواسوں پہ چھائے ہوئے ہو…کتنی منتیں مانگی تھیں تم سے ملنے کے لیے.،،
وہ تلخی سے سلگتے ہوئے مسکرائی تھی.
،،سوچتی تھی اس سفاک شخص سے اپنی آزادی کی بھیک مانگتے ہوئے کتنا گرگڑانا پڑے گا….؟؟؟
مگر یہ کیا میر شہزاد؟؟؟
یہاں پر تو تمہاری بولتی بند ہو گئی ہے. اس وقت ایک نہتی لڑکی سے بدلہ لینے کےلیے تم اتنے اندھے ہو گئے تھے کہ میرے آنسو میری چیخیں سنائی نہیں دئیں….تمہیں!!! میری اماں کہتی ہے شادی کرلو عمر نکلی جا رہی ہے…. ارے کیسے کر لوں؟؟؟
( آواز مزید بھاری اور غمزدہ ہوگئ)
کیا بتاؤں کسی امیر زادے نے ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا دی ہے کہ مہرانگیز اب کہیں شادی نہیں کر سکتی…. اس کا زبردستی نکاح ہو چکا ہے اور وہ بھی ایسے شخص سے جس کا اتا پتا کچھ معلوم نہیں، چار سالوں سے تیری بیٹی اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہے…. میر شہزاد تونے نے میری خوشیاں نہیں میرے خواب تک چھین لے ہیں!!!،،
درد، دکھ، اذیت، نفرت کیا نہیں تھا اس کی آواز میں!!!
،، میں بھی تو چار سال سے جیل میں اپنی سزا کاٹ رہا ہوں.،،
میر شہزاد تڑپ کر بولا.
،،نہیں میر شہزاد نہیں!!!
میری اذیت کے سامنے تیرے چار سال کچھ بھی نہیں ہیں!!!
اچھا چل تو بتا تیری یہ سزا بڑی ہے یا وہ جو مجھے دی تھی ؟؟؟،،
وہ زخمی لہجے میں بولی.
اصل میں تیری بد دعا سب سے بڑی سزا ہے مہرانگیز!!!
جواباً میر شہزاد بھی زخمی ہنسی ہنستے ہوئے بولا.
،،تو پھر میری بددعا ہے کہ توں مر جائے…،،
( آواز میں شدت آگئی) اللہ کرے میر شہزاد توں مر جائے…. اگلی بار تجھے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھوں….!!!،،
چہرے پہ نقاب ڈال کے ساحرہ جا چکی تھی….جبکہ میر شہزاد جیل کی سلاخیں پکڑے وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا.
دور گاؤں کے کچے کمرے میں مٹے سے بنے چولہے پر آگ جل رہی تھی…کونے میں چارپائی پر ایک بوڑھا شخص رضائی پہنے مسلسل کھانس رہا تھا…جبکہ چولہے کے پاس ایک بڑھیا جو کافی دیر سے پھونکیں مار کر جلتی بجھتی آگ کو بڑھکانے میں لگی ہوئی تھی.
،،نیک بخت کوئی کھانسی کا شربت پڑا ہوا ہے… یہ بیماری تو میری جان لے کے چھوڑے گی…،،
بوڑھے نے کھانستے ہوئے تکلیف سے کہا.
،، اچھا دیکھتی ہوں….،، وہ عورت اٹھتے ہوئے بولی.
کچھ دیر وہ ہاتھ مار کر ادھرادھر ٹٹولتی رہی. تھوڑی دیر بعد حکیم صاحب کا شربت بوڑھے کو پکڑا کو وہ واپس چولہے کی طرف پلٹی تو ٹھٹھک کے رہ گئی…کیونکہ چولہے کے پاس بچھی چٹائی پر کوئی سر نیچے کیے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اٹھا کر آگ میں ڈال رہا تھا…. آگ نے اب شدت پکڑ لی تھی…. جب وہ دوائی ڈھونڈنے کےلیے اٹھی تھی تو وہاں پر کوئی نہیں تھا…. وہ آہستہ آہستہ بغور اسے دیکھتے قریب آئی.
آگ میں لکڑیاں ڈالتے شخص نے سر اوپر اٹھایا.
،، عارف کے ابا،،
آواز ایسی تھی جیسے اس بڑھیا نے موت کو دیکھ لیا ہو.
،،کیا ہوا؟،،
بوڑھے شخص نے رضائی سر نکال کر پوچھا.
،،مم… میر شہزاد!!!،،
تھر تھر کانپتے وہ انگلی سے اس شخص کی طرف اشارہ کر رہی تھی.
دوسری طرف احاطہ عدالت میں تھرتھلی مچی ہوئی تھی کیونکہ عارف قتل کیس کی پیشی کے لیے آیا میر شہزاد عدالت سے فرار ہوگیا تھا.
آج فائزہ آنٹی کے بیٹے کی شادی کا فنکشن تھا… امی کوئی دس بار فون کرکے مہرانگیز کو ہوسپٹل سے جلدی آنے کا کہہ چکی تھی…وہ بار بار مہرانگیز کو ساتھ چلنے کا کہہ رہی تھیں.
امی کی پچھلی دفعہ والی ناراضگی کا ڈر نہ ہوتا تو مہر انگیز اب تک صاف لفظوں میں انکار کر چکی ہوتی…. اس لیے وہ یہی ظاہر کر رہی تھی کہ آج کام زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ لیٹ آئے گی.
،،امی آپ چلے جائیں… میں نہیں آ سکتی، ویسے بھی میرا وہاں جانے کا قطعاً ارادہ نہیں تھا.اس لیے آپ میری خاطر ٹائم ضائع نہ کریں.،،
امی کا اصرار جب حد سے بڑھ گیا تو اسے مجبوراً کہنا پڑا… یہ سن کر امی نے غصے سے فون بند کر دیا تھا.
وہ اپنی طرف سے جان بوجھ کر لیٹ گھر پہنچی تھی تاکہ گھر والے تب تک چلے جائیں.
باہر دروازے پہ تالا لگا ہوا تھا…
راستے میں سعد نے فون کرکے بتایا تھا کہ ہم سب شادی پہ جا رہے ہیں.
ویسے تو ابا اکثر مہرانگیز کے اکیلے ہونے کی وجہ سے رک جاتے تھے. اس بار امی زبردستی ابو کو بھی ساتھ لے گئی تھی….کیونکہ نیا رشتہ جوڑنے کی امید لگائے فائزہ آنٹی بار بار اصرار کرکے سب کو شرکت کے لئے کہہ رہی تھی. شوہر کو ساتھ لے جانے کی دوسری وجہ مہرانگیز پر غصہ نکالنا بھی تھا.
،،اکیلی گھر میں بیٹھے گی تو اس کا دماغ ٹھکانے آئے گا.اتنی بڑی ہوگئی ہے کب عقل آئے گی، میری تو سمجھ نہیں آ رہی فائزہ جب پوچھے گی تو کیا جواب دوں گی.،،
ابو نے جب گھر رکنے کے لیے کہا تو امی نے غصے سے کہا تھا.
باہر دروازے پر تالہ لگا ہوا تھا. گھر کی ڈوبلیکیٹ چابیاں ہمیشہ مہرانگیز کے پاس رہتی تھیں.
اس وقت رات کے آٹھ بجنے والے ہوں گے…سعد نے کہا تھا کہ گھر پہنچ کر اچھے سے دروازہ بند کر لینا… ہم دس بجے تک آجائیں گے.
ٹھیک اسی ٹائم گلی میں ایک لڑکا سر پر سیاہ جیکٹ کا ہڈ گرائے موبائل میں مصروف بے نیازی سے چلتا ہوا آرہا تھا.
مہر انگیز نے پرس سے چابیاں نکال کر دروازہ کھولا.
جیسے ہی وہ اندر گھسی پیچھے کسی نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر تیزی سے دروازہ بند کر دیا.
،،خبردار منہ سے آواز نکالی تو…،،
گردن پر چھری رکھ کر سرگوشی میں کہا گیا.
مہر انگیز کی کی حالت یوں تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں!!!
،،کچن کہاں ہے….؟،،
وہ میکانکی انداز میں کچن کی طرف چلتی گئی…جبکہ چھری بدستور اس کی گردن پہ موجود رہی.
ہال کی لائٹ آن تھی لیکن کچن میں اندھیرا تھا.
،، لائٹ جلاؤ…،،
اس نے تھر تھراتے ہاتھوں سے کچن کی لائٹ جلا دی.
،،جیل میں تو بڑی بہادر بنی کھڑی تھی… یہاں پر بولتی بند ہو گئی کیا؟؟؟،،
گردن سے چھری ہٹا کر اس شخص نے طنزیہ انداز میں کہا.
مہر انگیز بجلی کی تیزی سے پیچھے گھومی….
بلیو جینز کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے اس شخص کو وہ کیسے نہ پہچانتی؟؟؟
،،میر شہزاد تم؟؟؟،،
سیاہ آنکھیں خوف سے مزید پھیل گئیں.
میر شہزاد نے کالے رنگ کی ٹوپی پہن کر بال پیچھے کیے ہوئے تھے. داڑھی مونچھیں بڑھی ہوئی تھی.اس وقت وہ بالکل مختلف حلیے میں نظر آ رہا تھا.
،،کچھ کھانے کو مل جائے گا صبح کا بھوکا ہوں.،،
وہ میز کے سامنے بیٹھتے ہوئے مہرانگیز کے خوفزدہ چہرے کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے بولا.
مہر انگیز ابھی تک سکتے کی حالت میں کھڑی تھی.
،،میرے خیال سے تمہیں کسی نے یہ نہیں بتایا ہوگا کہ مجھے جیل کس وجہ سے جانا پڑا تھا…. چلیے میں بتا دیتا ہوں… میں نے اپنے ملازم کو غصے میں اس لیے قتل کر دیا تھا کیونکہ اسے کھانا لانے میں دیر ہوگئی تھی اور شدید بھوک مجھ سے برداشت نہیں ہوتی…،،
وہ چھری کو بغور دیکھ کر الٹ پلٹ کرتے ہوئے بولا.
مہر انگیز حواس باختگی کے عالم میں کھانا بنانے کے لیے آگے بڑھی.
آٹا گوندھے وقت اس کی کپکپی کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی.
،،ویسے مجھے کچھ خاص جلدی نہیں ہے… تم آرام سے کھانا بنا سکتی ہو…،،
وہ بازو گردن کے پیچھے کرکے سر ٹکا کر بولا.
مہر انگیز سر جھکا کر آٹا گوندھتی رہی.
،،کھانا تو میں باہر سے بھی کھا سکتا تھا… مگر آجکل میں ذرا جیل سے بھاگا ہوا ہوں اور پولیس بیچاری میری محبت میں پاگل ہوکر دیوانوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہی ہے… اس لیے رسک نہیں لے سکتا تھا.
،،راگ ٹی وی میں نوکری کیوں چھوڑ دی تھی؟،،
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پوچھا:
مہرانگیز نے مڑ کر ایک کاٹ دار نگاہ اس پہ ڈالی مگر کہا کچھ نہیں!!!
،،اچھا کیا ویسے مجھے تم سے اتنے دانشمندانہ فیصلے کی ہرگز امید نہیں تھی.،،
مہرانگیز کو یوں لگا جیسے وہ اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہو..
میز پر کھانا رکھتے ہوئے میر شہزاد غور سے مہرانگیز کو دیکھتا رہا.
،،مجھے کچھ خاص جلدی نہیں ہے… تم چاہو تو کچھ کھا پی لو…،،
میر شہزاد آستینیں فولڈ کرتے ہوئے بولا.
،، مجھے بھوک نہیں ہے…،،
،،گڈ!!!،،
سمجھ جانے کے انداز میں سر ہلا کر وہ اٹھ کر سنک سے ہاتھ دھونے لگا.
واپس بیٹھتے ہوئے میر شہزاد نے مشکوک نظروں سے مہرانگیز کو دیکھا.
،،کھانے میں زہر تو نہیں ملا دیا؟؟؟
مجھے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی ناں تمہاری!!!،،
نوالہ توڑتے ہوئے مہرانگیز سے کہاگیا.
،،زہر تھا نہیں ورنہ ملا دیتی…،، مہر انگیز جل بھن کر بولی.
اس وقت وہ اپنی گھبراہٹ پر کافی حد تک قابو پا چکی تھی.
،،انٹرسٹنگ!!! مجھے صاف گو لوگ ہمیشہ سے اچھے لگتے ہیں.،،
وہ جھک کر رغبت سے کھاتے ہوئے بول رہا تھا.
،، یہ کباب تم نے بنائے ہیں؟،،
،،جی نہیں میری امی نے بنائے ہیں.،،
،،اچھے بنے ہیں… بلکہ یوں کہنا چاہیے بہت مزیدار ہیں تمہیں ایسے کباب بنانا سیکھنا چاہیے!!!،،
،،تم کون ہوتے ہو مجھے بتانے والے…!!!،،
مہر انگیز بمشکل خود پہ ضبط کرتے ہوئے بولی.
،،تمہارا شوہر!!!،،
لہجہ ایسا تھا کہ مہر انگیز کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی….
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
یہ والی ایپیسوڈ سب سے زیادہ پسند آئی۔
Episode 11 kb aey ge?
شازیہ بارش کے بعد ناول کی نئی قسط ہر ہفتے کو اپلوڈ ہوتی ہے۔
Aj ki episode nae ai???
شازیہ ایپیسوڈ تھوڑی لیٹ اپلوڈ کی جس کےلیے معذرت۔🙏 نئی قسط اب اپلوڈ ہوگئی ہے۔
Episode11??
Episode11 nae i??
سدرہ تاخیر کے لیے معذرت نئی ایپسوڈ اپلوڈ کردی ہے۔