Barish K Bad Urdu Novel | Episode 11 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
،،اور جتنا جلدی اس حقیقت کو قبول کر لو اتنا تمہارے حق میں بہتر ہوگا…،، میر شہزاد نے مہرانگیز کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا.
،،میں زبردستی کے اس رشتے کو نہیں مانتی…. میرا بہت جلد رشتہ طے ہونے والا ہے… بہتر یہی ہوگا کہ تم اس رشتے کو ختم کردو.،،
،،اگر میں نہ کروں تو کیا کرو گی؟،، لچسپی سے پوچھا گیا.
،،مجھے عدالت میں جانے پر مجبور مت کرو !!!،،
وہ عدالت کے نام پر زور دے کر بولی.
،، عدالت!!!،،
میر شہزاد طنزیہ انداز میں مسکرایا.
،،عدالت جانے کے بعد جب سب کو تمہارے نکاح کا پتا چلے گا تو کس کس کو جواب دو گی…. یہ بابر کا رشتہ تو ختم سمجھو….!!!،،
،،میں لوگوں سے نہیں ڈرتی میر شہزاد!،،
،،اور میں عدالت سے نہیں ڈرتا مہرانگیز!،،
وہی انداز… وہی لہجہ…
مہر انگیز زچ ہو کے رہ گئی…
اس دوران مہرانگیز کے موبائل پر کال آنے لگی…دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں… مہر انگیز نے الرٹ انداز میں پرس کی طرف دیکھا.
،،اٹھا لو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے.،،
میر شہزاد بے فکری سے بولا.
وہ تیزی سے کچن کاونٹر پر پڑے پرس کی طرف بڑھی…. موبائل پر سعد کی کال آ رہی تھی.
وہ موبائل نکال کے کچن سے باہر جانے لگی.
،،آں ہاں…. کال تم میرے سامنے اٹینڈ کرو گی….،،
وہ چھری اٹھا کے اسے واپس آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا.
مہر انگیز نے زہریلی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اوکے کا بٹن دبا دیا.
،، ہیلو….،
،، ہیلو اپو آپ گھر پہنچ گئی ہیں؟،،
،، ہاں،، مہرانگیز نے مختصر جواب دیا.
،،کھانا کھایا ہے؟،،
،، کھا لیا ہے.،، وہ حتی المقدور اپنے لہجے کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے بولی.
،،مجھے پتا ہے آپ جھوٹ بول رہی ہیں… کیونکہ شام کا کھانا امی نے نہیں بنایا تھا…،، سعد اس کےلیے فکر مند لگ رہا تھا.
،، کباب پڑے ہوئے تھے، وہی تل لیے ہیں.،،
وہ میر شہزاد کو ایک نظر دیکھ کر بولی جو خاموشی سے سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف تھا.
،،امی آپ سے سخت ناراض ہیں…(چند لمحے سکوت کے بعد سعد بولا) آپ کو اس طرح انکار نہیں کرنا چاہیے تھا.،،
،،واپس کب آ رہے ہو…؟،، وہ اس کی بات نظر انداز کرکے بولی.
،،ابھی تو کھانا بھی نہیں لگا دیکھو شاید لیٹ ہو جائیں.،،
،،اچھا اچھا بس آپ نکلنے والے ہیں…،،(مہرانگیز جان بوجھ کر میر شہزاد کو سنانے کےلیے اونچی آواز میں بولی) اور اللہ حافظ کہتے ہوئے اس نے جلدی سے کال کاٹ دی.
میر شہزاد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی.
،،آپ کے ہاں مہمانوں کو کھانے کے بعد چائے نہیں پلائی جاتی کیا؟،،
میر شہزاد کھانا کھانے کے بعد کرسی پر سر ٹکا کر ریلکس انداز میں ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے بولا.
،،ہمارے ہاں مہمانوں کو چائے پلائی جاتی ہے… جیل سے بھاگے مجرموں کو نہیں!!!،،
،،چلیں پھر ٹھیک ہے…میں ویٹ کر لیتا ہوں… تمہارے گھر والے تھوڑی دیر بعد پہنچنے والے ہوں گے…وہ یقیناً اپنے ہونے والے مسکین داماد کو چائے کے بغیر تو جانے نہیں دیں گے.،،
اس کے چہرے پہ وہی ازلی سفاکی تھی.
مہر انگیز پاؤں پٹختے ہوئے کیتلی اٹھا کر چولہے پہ رکھنے لگی….اس کے چہرے پر غصہ،بے بسی، جھنجھلاہٹ واضح تھی.
ایک وہی شخص تھا جس کے سامنے وہ بے بس ہو جاتی تھی…اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کا ہر حکم ماننے پر مجبور ہو جاتی تھی.
میر شہزاد مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھتا رہا.
مہر انگیز کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے.
باوجود پریشانی کے اس کے کام میں پھرتی اور نفاست دونوں تھیں.
میر شہزاد کو شروع سے یہ چیزیں بہت متاثر کرتی تھیں.
بدقسمتی سے اس وقت مہرانگیز کی یہ خوبیاں میر شہزاد کے دل میں مزید گھر کرتی جا رہی تھیں.
،، تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟؟؟،،
چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے پوچھا.
،، یہ بتانا میں ضروری نہیں سمجھتی.،،
،،ٹھیک ہے تمہاری مرضی….!،، وہ آرام سے چائے کی چسکیاں لیتا رہا جبکہ مہرانگیز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکال کھڑا کرتی.
چائے پینے کے بعد وہ اسی اطمینان سے بیٹھا رہا.
،،پلیز اب تو یہاں سے چلے جاؤ،ابھی میرے گھر والے آ جائیں گے.،، جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو وہ اس کی منت کرتے ہوئے بولی.
،،آنے دو اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے ویسے بھی تم لوگوں سے نہیں ڈرتی…،،
،، میں لوگوں سے نہیں ڈرتی مگر وہ میرے گھر والے ہیں… میں انھیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی.،، وہ دکھ سے بولی.
،،جس طرح تم اپنے گھر والوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی اسی طرح میں اپنی فیملی کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا.(اس بار وہ نرم آواز میں کہہ رہا تھا) چونکہ اب تم میری فیملی کا حصہ ہو تو میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ دوبارہ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنا. میرے پیچھے بہت خطرناک دشمن لگے ہوئے ہیں جو میری ذرا سی کمزوری پکڑنے کے لئے تاک میں بیٹھے ہیں. اس وقت میں پولیس سے بھاگا ہوا ایک مجرم ہوں…بہت پلاننگ سے مجھے پھنسایا گیا ہے. مہر انگیز ٹرسٹ می!!! میں اتنا برا بھی نہیں ہوں. ہوسکتا ہے مجھے دوبارہ گرفتار کرلیا جائے مگر آئندہ تم بھول کر بھی جیل میں نہیں جاؤ گی. یہ میرا نمبر ہے اس پر تم صرف انتہائی ضرورت پڑنے پر رابطہ کرو گی.،،
وہ اسے ایک سفید کارڈ بڑھاتے ہوئے بولا جس پر صرف نمبر لکھا ہوا تھا.
،،تم مجھے طلاق دے دو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا.،، وہ آسان سا حل تجویز کرتے ہوئے بولی.
،، کاش کہ دے پاتا.،، وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولا.
،، ٹھیک ہے پھر میں پولیس کو جاکر بتا دیتی ہوں کہ ہمارا آپس میں کیا رشتہ ہے.،، پہلی بار میر شہزاد کی کمزوری مہرانگیز کے ہاتھ لگی تھی.
،،شوق سے جاؤ میرے اور تمہارے نکاح کی وڈیو ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے. تمہارے گھر والے دیکھ کر یقیناً خوشی سے سرپرائزڈ رہ جائیں گے.،،
وہ بھی میر شہزاد تھا مہرانگیز کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھنے والا.
،،تم میری جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے تمہاری وجہ سے میری کہیں شادی نہیں ہوسکتی، کیا ملے گا تمہیں کسی لڑکی کی زندگی برباد کرکے؟؟؟،، وہ بھرائی آواز میں بولی.
،،میں صرف اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں. ویسے بھی طلاق لیکر کرو گی کیا؟؟؟اب اس عمر میں تمہارے رشتے آنے سے تو رہے…،، وہ اسے تپاتے ہوئے بولا.
،،تم ہو ہی اس قابل کہ ساری زندگی جیل میں سڑتے رہو.،، مہرانگیز کھولتے ہوئے بولی.
،، تھینک یو!!!،،
وہ بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ بولا.
اتنے میں بیرونی دروازے کی بیل بجی. مہر انگیز کے پاؤں سے زمین سرکنے لگی،اس کے گھر والے آ چکے تھے. میر شہزاد ابھی تک وہیں موجود تھا. اسے لگا جیسے اس وقت وہ ریت کا مجسمہ بن گئی ہے… ہاتھ لگانے پر بھربھرا کے زمین بوس ہو جائے گی.
میر شہزاد کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی نظر نہیں آ رہی تھی وہ اسی اطمینان سے بیٹھا تھا.
مہرانگیز کے گھر جانے سے تین دن پہلے!!!
پرسکون شام ڈھل رہی تھی… جس جگہ میر شہزاد بیٹھا ہوا تھا وہاں پر کچھ زیادہ خاموشی اور ہر طرف موت کا سناٹا تھا. شام کا زرد سورج بس لوٹنے کو تھا.
آسمان پر گہرا سرمئی رنگ چار سو پھیلا ہوا نظر آ رہا تھا.
میر شہزاد سیاہ پینٹ پر سیاہ جیکٹ پہنے ایک قبر کے سرہانے خاموشی سے بیٹھا تھا.
،،ماں تم نے کہا تھا کہ ان سے ہمیشہ دور رہنا. میں اپنی بات کا عہد اچھی طرح سے نبھا رہا تھا مگر اب وہ خود میرے راستے میں آگے ہیں… آپ ہمیشہ چاہتی تھیں میں دوبارہ کبھی وہاں نہ جاؤں.
مگر ماں ضروری نہیں ہر بار خود کو چھپا لیا جائے جب تک باہر نکل کر مشکل کا سامنا نہیں کیا جائے گا…وہ مصیبت کسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے آتی رہے گی.
آپ فکر نہ کریں میر شہزاد اب بچہ نہیں ہے وہ سب سنبھال لے گا. اب ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب چکانا پڑے گا.،،
پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ایک عزم سے کہتے ہوئے وہ اٹھا…. ہڈ اوپر گرائی اور محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا… وہاں سے چلا گیا.
اس سے اگلے دن!!!
،،میم کوئی آپ سے ملنے آیا ہے؟،،
تقریباً 37 سالہ سمارٹ سی جاذب نظر عورت جو جھک کر کچھ لکھ رہی تھی نے چونک کر سر اوپر اٹھایا.
،،ٹھیک ہے پانچ منٹ بعد بھیج دینا…،، اس نے عام سے انداز میں ملازم کو دیکھتے ہوئے جواب دیا.
پانچ منٹ بعد متوازن قدم اٹھاتا وہ اندر داخل ہوا…..اور اجازت کے انداز میں کرسی کے قریب آکر رک گیا.
اس عورت نے اجنبی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا…. اور دوبارہ سر جھکا کر فائل پہ کچھ لکھنے لگی.
وہ شخص پراعتماد انداز میں کرسی دھکیل کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے بیٹھ گیا.
،،نام کیا ہے…؟ ،، خالص پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا گیا.
،، میر شہزاد!!!،،
جس ٹانگ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اس کا پاؤں جھلاتے ہوئے بے نیازی سے کہا گیا.
،،ایکسکیوز می!!!،،
اس نے چونک کر یوں دیکھا جیسے اپنی سماعت پہ یقین نہ آیا ہو.
،،میر شہزاد آپ کا سوتیلا بھائی….نام تو سنا ہوگا؟،،
،، اووو….میر شہزاد
my step brother
اچھا تو وہ آپ ہیں.،،
ہونٹ سیٹی کے انداز میں سکوڑ کر وہ کرسی کی پشت پر سیدھی ہوکر بغور اسے دیکھتے ہوئے بولی.
،، جی،، سر کو جھکا کر سعادت مندانہ انداز میں جواب دیا گیا.
،، یہاں آنے کا مقصد؟؟؟،، پنسل کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے اس نے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا.،،
جیل سے بھاگا ہوا ہوں…. منشیات رکھنے کے جرم میں دس سال قید کی سزا ملی تھی. یہ بات اس شہر کی نامور وکیل شازیہ میر کو معلوم نہ ہو ایسا ہو تو نہیں سکتا!!!،،
،، ہاں میں نے سنا تو تھا مگر تم اتنا گر جاؤ گے مجھے امید نہیں تھی.،،
،،امید تو خیر مجھے بھی نہیں تھی کہ کچھ لوگ اتنا بھی گر سکتے ہیں.،،
،، اپنا کیا دوسروں پہ مت ڈالو میرے چھوٹے بھائی!،، اس کے لہجے میں پیار بھری سرزنش تھی.
،،اور میں ڈال بھی نہیں رہا، میں تو بس آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں کہ ضروری نہیں جو چیزیں بظاہر نظر آ رہی ہوں وہ حقیقت میں بھی ویسی ہی ہوں…،،
،،میں سمجھی نہیں؟؟؟،،
،، یہ سچ ہے کہ سوتیلے بہن بھائی ہونے کے ناطے ہمارے درمیان کبھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے مگر بڑی بہن ہونے کے ناطے میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہم دونوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے.،،
،،تمہارے خیال میں وہ کون ہوسکتا ہے…؟،، وہ اس کی بات کو ہلکا لیتے ہوئے بولی.
،،تمہارا ماموں فیاض پٹواری.،،
وہ سرد لہجے میں بولا.
میر شہزاد کے اس انکشاف کے بعد کمرے میں عجیب سا ماحول بن گیا.یہ سن کر شازیہ میر بالکل خاموش ہوگئیں.
،،کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ ماموں یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟،،
چند لمحے سکوت کے بعد وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی.
،،مجھے اس پہ شک ہے آپ خود سوچیں ان حالات میں سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو رہا ہے… میں چاہتا ہوں آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں.،،
وہ عجیب سے انداز میں کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا. شازیہ میر کتنی دیر اپنی کرسی سے ہل نہ سکی… میر شہزاد ایک نئے رخ پر اسے سوچنے پر مجبور کر گیا تھا.
جاری ہے…
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
بہت بہت زبردست ناول ہے۔میں تو آپ کی فین ہوگئی ہوں۔