Barish K Bad Urdu Novel | Episode 12 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
میر شہزاد کے باپ میر جہانگیر کی دو بیویاں تھیں.
بڑی بیوی ساجدہ کا تعلق غیر برادری سے تھا. اس کے میکے والے میر جہانگیر کی طرح کئی مربع اراضی کے مالک تو نہیں تھے مگر پھر بھی اچھے خاصے زمیندار اور سیاست میں اثر ورسوخ رکھنے والے تھے.
اس سے چھوٹی بیوی آمنہ میر جہانگیر کے چچا کی بیٹی تھی.
جتنی جائیداد کا مالک میر جہانگیر تھا اتنی زمینیں اکلوتی ہونے کے ناطے آمنہ کے حصے میں آئی تھیں. چنانچہ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے آمنہ کے باپ نے اس کی شادی اپنے بھتیجے میر جہانگیر کے ساتھ کر دی تھی، تاکہ خاندانی جائیداد غیروں میں جانے کی بجائے اس کے بھتیجے کے پاس رہے.
جب آمنہ کی شادی میر جہانگیر کے ساتھ ہوئی تو اس وقت اس کی پہلی بیوی ساجدہ سے ایک چار سال کی بیٹی شازیہ تھی.
اس کے ایک سال بعد آمنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو بہت زیادہ خوشیاں منائی گئیں… کیونکہ اس وہ اس گھر میں پیدا ہونے والا پہلا بیٹا تھا. جس کا نام میر شہزاد رکھا گیا تھا.
ساجدہ کو لگتا تھا کہ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے… یہیں سے اس کے اندر نہ ختم ہونے والی نفرت کا آغاز ہوا.
چونکہ گھر پہ میر جہانگیر کا ہولڈ ہونے کی وجہ سے ساجدہ سر عام تو آمنہ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی تھی.
مگر اندر ہی اندر اسے تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی.
بہت زیادہ ڈاکٹروں پیروں فقیروں کا در چھاننے کے بعد بالآخر ساجدہ کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا جس کا نام میر فرہاد رکھا گیا.
میر فرہاد جب پیدا ہوا تو اس وقت میر شہزاد چھ سال کا تھا. ان دنوں ساجدہ کے پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے.
ساجدہ کے بیٹے میر فرہاد کو پیدا ہوئے بمشکل ایک ماہ بھی نہیں ہوگا جب میر جہانگیر کی روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات ہوئی.اس جیپ میں ڈرائیور کے علاوہ آمنہ کا باپ بھی شامل تھا. وہ ایکسیڈنٹ اتنا شدید ہوا تھا کہ تینوں موقع پر فوت ہو گئے تھے.
مشکل کی اس گھڑی میں ساجدہ کا پورا میکہ اس کے ساتھ کھڑا تھا جبکہ بیچاری آمنہ کا تو سب کچھ لٹ گیا تھا.
ماں اس کی بچپن میں فوت ہوگئی تھی. بہن یا بھائی کوئی تھا نہیں. شوہر اور باپ بھی چل بسے تھے. میر جہانگیر کی موت کے بعد ساجدہ کا بڑا بھائی فیاض پٹواری اور اس کی ماں نے تقریباً یہاں آکر ڈیرے ڈال دیے.
بہانے بہانے سے آمنہ کو ذلیل کیا جاتا. اس گھر میں اب ساجدہ کی حکمرانی تھی. ایک رات گھر کے ملازم نے آکر آمنہ کو بتایا کہ میر شہزاد کو مارنے کے لیے ساجدہ اور اس کا بھائی پورا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں.
کسی بھی وقت وہ میر شہزاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.
اس رات آمنہ بےسروسامانی کے عالم میں میر شہزاد کو لیکر اس حویلی کو چھوڑ کر چلی گئی تھی. خاندانی جائیداد سے زیادہ قیمتی اس کا بیٹا تھا.
بعد میں آمنہ کو ڈھونڈنے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ انھیں پھر کبھی نہ ملی. اچھا تھا کانٹا خود ہی نکل گیا تھا.
قسمت کا کھیل دولت ،طاقت، اقتدار ساجدہ کی جھولی میں آگرے تھے… یہاں سے ساجدہ کا ایک نیا دور شروع ہوا!!!
آمنہ میر شہزاد کو لیکر لاہور اپنی سہیلی سلمیٰ کے پاس پہنچی تھی. سلمیٰ کا باپ اور آمنہ کا باپ دونوں بہت اچھے دوست تھے.دونوں گھروں میں آنے جانے کی وجہ سے آمنہ اور سلمی بھی آپس میں سہیلیاں بن گئیں تھیں. دونوں میں خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رہتا تھا.
اگرچہ شادی کے بعد ان کے درمیان رابطے بہت کم ہو گئے تھے مگر ان حالات میں آمنہ کو واحد سلمی کا ہی گھر نظر آیا تھا جہاں سے اسے پناہ مل سکتی تھی… اور سلمی نے بھی بہنوں سے بڑھ کر دوستی کا حق نبھایا تھا.
کچھ عرصہ سلمی کے گھر رہنے کے بعد اسی محلے میں کرائے کا گھر ملنے پر آمنہ وہیں شفٹ ہوگئی تھی.
آمنہ کو ہمیشہ یہی خوف رہتا تھا کہ میر شہزاد کو ساجدہ یا اسکا بھائی فیاض پٹواری کوئی نقصان نہ پہنچا دیں… اس لیے وہ سب سے اس کی شناخت چھپاتی تھی.
محلے میں سلمیٰ کے علاوہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ میر شہزاد کا باپ کتنا بڑا جاگیردار تھا یا پھر سلائی سنٹر کھول کے گھر کا خرچہ چلانے والی بیوہ آمنہ خود کتنی بڑی جائیداد کی مالک ہے.
باپ اور شوہر کے بعد سب سے قیمتی چیز جو بچی تھی وہ میر شہزاد تھا. اس کی سلامتی کے لیے وہ ہر چیز قربان کر سکتی تھی.
کہتے ہیں ان حالات میں بچے بہت زیادہ سہم جاتے ہیں حالات انھیں وقت سے پہلے بڑا کر دیتے ہیں مگر میر شہزاد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا. مجال ہے وہ کسی سے ڈرتا یا دب کر رہتا.پچپن ہی سے کوئی بچہ اسے تنگ کرتا یا کچھ چھیننے کی کوشش کرتا تو میر شہزاد اس کی وہ درگت بناتا کہ باقی بچے اس قسم کی شرارت کرنے سے دس بار پہلے سوچتے.
گلی کے بچے تو پہلے ہی سے اس کے ماتحت تھے.
کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا دوسرے محلے کے بچوں کے ساتھ بہت اہتمام سے میچ کھیلے جاتے تھے اور اسی اہتمام سے لڑائیاں بھی کی جاتی تھیں.
ذہین ہونے کے باوجود پڑھائی سے ہمیشہ اس کی جان نکلتی تھی. بیچاری آمنہ نے بڑے ترلے کیے کہ کسی طرح اسے پڑھائی میں دلچسپی لے، مگر اس طرف توجہ ہوتی تو وہ بھی دلچسپی لیتا.
شروع ہی سے اس کا رجحان کاروبار کی طرف تھا. وہ بڑے بڑے خواب دیکھا کرتا تھا. ساتویں کلاس سے اس نے چھوٹے موٹے جگاڑ کرنا شروع کر دئیے تھے. جب وہ میٹرک میں فیل ہوا تو آمنہ نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اسے پڑھائی چھوڑ کر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی. عمران سلمی کا بیٹا تھا. دونوں ہم عمر اور ایک دوسرے کے ہر اچھے برے کام کے ساتھی تھے. چنانچہ پڑھائی کو خیر باد کہہ کر دونوں نے مل کر اسی محلے میں تیل کی ایجنسی کھولی…عمران میر شہزاد ماتحت رہ کر کام کرتا تھا.باقی بزنس آگے بڑھانے کے لیے سارے پلان میر شہزاد کے ہوتے تھے. جس دن اس نے اپنا پٹرول پمپ خریدا تو اس دن آمنہ بہت زیادہ خوش تھی.
برا وقت اب ختم ہوچکا تھا… میر شہزاد ماں کو ہر وہ آسائش دینا چاہتا تھا جو اس سے چھین لی گئی تھی.
میر شہزاد نے سرمایہ نہ ہونے کے باوجود کامیاب کاروبار کرکے ماں کے وہ سارے خدشات دور کر دیے تھے جو مزید نہ پڑھنے کی وجہ سے آمنہ کو لاحق رہتے تھے.
اسے دیکھ کر آمنہ کو میر جہانگیر یاد آ جاتا تھا وہ بھی ایسا ہی تھا. پڑھائی چھوڑ کر کاروبار کرنے کی سب سے بڑی وجہ ماں کو مزید محنت کرنے سے روکنا تھا. یہ بات آمنہ کو اب سمجھ آ رہی تھی. وہ اپنے اوپر رشک محسوس کرتی تھی کہ آج کے دور میں اتنا خیال رکھنے والا بیٹا اللہ تعالیٰ نصیب والوں کو دیتا ہے.
آمنہ کو شاید بیٹے کے محفوظ مستقبل کا انتظار تھا.ایک رات جو وہ سوئیں تو پھر کبھی نہ اٹھ سکیں. وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں، ان کی یوں اچانک موت نے میر شہزاد کو بالکل نڈھال کر دیا تھا. اس کی تو دنیا ہی ویران ہوگئی تھی. اس کا کاروبار ہر چیز سے دل اٹھ گیا. ان حالات میں سلمیٰ خالہ اور عمران نے اس کا بہت زیادہ ساتھ دیا تھا. کتنا عرصہ اس کے لیےکھانا سلمیٰ خالہ کے گھر سے پک کر آتا رہا تھا.
مشکل کی اس گھڑی میں عمران نے اس کے پھیلتے کاروبار کو سنبھالا تھا.
آہستہ آہستہ وہ اپنی زندگی کی طرف لوٹنے لگا…. کہتے ہیں انسان جتنا بڑا دکھ جھیلتا ہے اس سے بڑی آسانیاں بھی اس کی زندگی میں آتی ہیں.
ماں کی وفات کے بعد میر شہزاد کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا.
بہت جلد کرائے کا گھر چھوڑ کر اس نے اپنا شاندار گھر لے لیا.
ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی خریدنا میر شہزاد کےلیے عام سی بات تھی. عام زندگی سے نکل کر وہ اب لگژری لائف سٹائل میں داخل ہو چکا تھا.
عمران کے حالات بھی بہت اچھے ہوگئے تھے. زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی مگر پھر ؟؟؟
کہتے ہیں جب کالی بلی راستہ کاٹے تو سمجھو مشکلات شروع ہونے والی ہیں. مگر فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے راستے میں کالی بلی نہیں بلکہ دلہن کے روپ میں مہرانگیز نے راستہ روکا تھا…. بس پھر اس کے بعد میر شہزاد مصیبتوں میں ایسا گھرا کہ ابھی تک وہ ان سے نکل نہیں پایا تھا.
میر شہزاد مہرانگیز کے گھر!!!
اس وقت میر شہزاد مہرانگیز کے گھر کچن میں موجود تھا اور دروازے پر بیل بج رہی تھی.
جبکہ مہر انگیز سکتے کی کیفیت میں کھڑی تھی. اس کے گھر والے آ چکے تھے اس کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ جاکر دروازہ کھولتی، کیونکہ ایک قیامت تھی جو تھوڑی دیر بعد سب پہ ٹوٹنی تھی. میر شہزاد اٹھ کے مہرانگیز کے سامنے آیا…
،،تم گھر والوں سے چھپانے کی بجائے ان کو بتا کر حقیقت کا سامنا کرنے کی کوشش کرو. کیونکہ میں تمہیں طلاق دیکر کہیں اور شادی کرنے دوں گا یہ بھول ہے تمہاری.،،
سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ دروازہ کھولنے کے لیے آگے بڑھا.
مہر انگیز کے سفید پڑتے چہرے پر موت کا سا خوف تھا. میر شہزاد جاتے جاتے واپس پلٹا…
،،فکر نہ کرو تمہارے گھروالے ابھی میرج ہال سے نکل رہے ہیں، تقریباً بیس پچیس منٹ بعد پہنچیں گے. دروازے پر میرا آدمی مجھے لینے آیا ہوا ہے دروازہ اچھی طرح سے بند کر لینا.،،
یہ کہہ کر مہرانگیز کا غصب ناک چہرہ دیکھنے کی بجائے وہ تیزی سے باہر نکل گیا. مہر انگیز نے بھاگ کر دروازہ بند کیا اور اس کی پشت پر کمر ٹکا کر تقریباً گرنے کے انداز میں نیچے بیٹھتی گئی.
کاش اس سے پہلے کہ مجھے موت آجائے ،اس وقت وہ مایوسی کی انتہا پر تھی. ہر چیز سے فرار کا راستہ صرف موت میں نظر آ رہا تھا.
اتوار کی صبح بہت خاموش خاموش تھی. کھانے کی میز پر شازیہ میر کڑھائی والا ڈیزائنر سوٹ پہنے بالوں کا جوڑا بنا کر کہیں جانے کے لئے تیار نظر آرہی تھی.
بلیک ٹی شرٹ اور ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر میں ملبوس اس کا شوہر ہمایوں ساتھ ناشتہ کر رہا تھا.
اخبار سے نظر ہٹا کر وقفے وقفے سے وہ مضطرب شازیہ کو دیکھ لیتا تھا.
،، کوئی مسئلہ ہے کیا؟،،
اس نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا کر شازیہ سے پوچھا.
شازیہ نے چونک کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرائی.
،،نہیں کچھ خاص نہیں بس سوچ رہی ہوں امی جان کے ہاں کب سے چکر نہیں لگایا آج وہاں چلی جاؤں. بچے یہیں چھوڑ جاؤں گی وہ تمہیں کافی مس کر رہے تھے.،،
،، پھر یوں کرتے ہیں اکھٹے چلے جاتے ہیں. ارحم، طیب نانو کے گھر کا سن کر خوش ہوں گے. میری بھی ساجدہ آنٹی سے کتنا عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی.،،
ہمایوں لغاری نے فوراً ساتھ چلنے کا پروگرام بنایا.
،،اکھٹے پھر کبھی چلیں گے آج میں خود اکیلی جانا چاہتی ہوں.،،
،، ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی.،، اس نےکندھےاچکائے.
،،مہرالنساء میرا بیگ لے آؤ.،، ایک رسمی مسکراہٹ شوہر کی طرف اچھال کر وہ ملازمہ کو آواز دینے لگی.
شازیہ میر جب گاڑی سے اتری تو اس نے نظر بھر کر حویلی کو دیکھا.
سفید حویلی آج بھی ویسی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی تھی.
ملازم تیزی سے اسے اندر کی طرف لے جانے کے لیے آگے بڑھا. لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی.
،،امی جان کہاں ہیں؟،،
برانڈڈ بیگ کہنی پر ٹکائے سر کا دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے اس نے ملازم سے پوچھا.
،، بیگم صاحبہ نیند کی گولیاں لیکر کر سو رہی ہیں.،، ملازم نے سعادت مندی سے جواب دیا.
،، اور فیاض ماموں؟،، وہ ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے ساتھ بیٹھے ہیں.
،،ٹھیک ہے جب وہ فری ہو جائیں تو انھیں میرے آنے کا بتا دینا.،،
جب فیاض اندر داخل ہوا تو شازیہ فوجی کو بلا کر اسے کچھ ہدایات دے رہی تھی.
ماموں کو دیکھ کر اس نے فوجی کو باہر جانے کے لئے سر کا اشارہ کیا.
فوجی اس گھر کا سب سے پرانا اور وفادار ملازم تھا. جب وہ یہاں پر کام کرنے آیا تو اس وقت وہ بارہ تیرہ سال کا تھا.اس کے کام کی پھرتی دیکھ کر میر جہانگیر اسے فوجی کہہ کر بلاتا تھا. بس پھر اصل نام کی بجائے سب اسے فوجی بلانے لگ گئے.
تقریباً 55 سالہ کلین شیو فیاض پٹواری( جس کے چہرے سے ابھی بھی دیہاتی تاثر نظر آتا تھا) نے اس وقت بوسکی کا سوٹ پہنا ہوا تھا اس وقت شازیہ میر کو یوں اچانک دیکھ کر اس کے چہرے پہ حیرت تھی.
،،شازیہ بیٹا آپ یوں اچانک اپنے آنے کی اطلاع بھی نہیں دی؟،،
،،اسلام عليكم،، ماموں شازیہ نے اٹھ کر سلام کیا.
،،وعلیکم السلام جیتی رہو بیٹی!،، وہ ہمیشہ کی طرح پیار اور اپنائیت سے بولے.
،،بچے کہاں ہیں؟،، وہ ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے بولے.
،، بچوں کے بابا آئے ہوئے تھے اس لیے وہ ان کے ساتھ رک گئے.،،
،،بیٹھو بیٹھو.،، وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے.
،،اسلم، عابد ارے کہاں مر گئے سارے!،،
ملازم فوراً اندر داخل ہوئے.
،،دیکھ نہیں رہے شازیہ بیٹی آئی ہے کھانے کا اچھا سا بندوبست کرو.،،
ملازموں کو ہدایت دے کر وہ شازیہ کی طرف متوجہ ہوا.
،،امی ٹھیک ہیں؟،،
،،بس گزارہ چل رہا ہے پارٹی کے سارے انتظام میں خود دیکھ رہا ہوں. ساجدہ بہن کی ذہنی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے.
الیکشن قریب آ رہے ہیں سوچ رہا ہوں اس بار ایم این اے کےلیے نیا خون شامل کیا جائے. باقی پارٹی کے معاملات میں خود دیکھ لوں گا.
،،آپ صحیح کہہ رہے ہیں مگر نیا خون شامل کرنے کے لیے کوئی قابل اعتبار شخص ہے آپ کی نظر میں؟،،
شازیہ میر نے ماموں کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا.
،، وجاہت درانی میرا بیٹا کیا خیال ہے اس کے بارے میں؟،،
وہ اپنی طرف سے بہترین تجویز دیتے ہوئے بولے.
،،مگر مجھے وہ اس سیٹ کےلیے مناسب نہیں لگ رہا.،، شازیہ میر نے پہلی بار ماموں کی تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا.
اس نے جب ماموں کی تجویز کو رد کیا تو چند لمحے وہ کچھ بول نہ سکے.
،،جیسے آپ بہتر سمجھیں.،،
لمبی خاموشی کے بعد وہ مختصر بولے.
شازیہ میر ماں کو ملنے ان کے کمرے میں گئی تو چپکے سے ماں کی دوائیوں کی تصویریں بھی کھینچ کے اپنے ساتھ لے گئی تھی.
فیاض ماموں اسے روانہ کرنے کےلیے دروازے تک آئے تھے بظاہر انھوں نے کوئی بات تو نہیں کی مگر وہ کچھ الجھے الجھے اور پریشان لگ رہے تھے.
ہیلو میں کچھ دوائیوں کی پک بھیج رہی ہوں مجھے اس کے بارے میں مکمل معلومات چاہیں شازیہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کسی کو فون کرکے کہا.
جاری ہے….
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Aj ki episode??aj saturday tha
ثمینہ اپلوڈ کر دی ہے۔ پلیز آپ مجھے بتا سکتی ہیں موبائل میں صحیح طرح سے اوپن ہورہی ہے؟
Han g..mery mobile mai theak sy show ho rhi h
Thanks a lot Samina🙏 kch shikayat a rhi thn k mobile mn open nh ho rhi.
Han g theak sy open ho rhi h.
Han g