Barish K Bad Urdu Novel | Episode 13 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد مہرانگیز کے گھر والے آ چکے تھے.
اس دوران وہ خود کو کچھ حد تک سنبھال چکی تھی.
مگر اس کا چہرہ ابھی تک سفید تھا. امی تو اسے دیکھے بغیر کمرے میں چلی گئی تھی. جبکہ عباد نے ہاتھ میں پکڑا شاپر مہرانگیز کی طرف بڑھایا.
،،یہ آپ کے لیے بابر بھائی نے کھانا پارسل کرکے بھجوایا ہے. بار بار پوچھ رہا تھا کہ تمہاری اپو کیوں نہیں آئی؟،،
اس کے بتانے کا انداز بہت ہی بچکانہ تھا جبکہ سعد نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی.
،، بھاڑ میں جائے بابر اور اس کا کھانا.،،
مہرانگیز شاپر واپس اس کے ہاتھ میں تھما کر چلی گئی.
عباد نے منہ بنا کر سعد کو دیکھا.
،، کوئی بات نہیں فریج میں رکھ دو صبح گرم کرکے تم خود کھا لینا.،،
سعد کا یہ مشورہ کچھ برا بھی نہیں تھا.
میر شہزاد کے اس طرح دھڑلے سے گھر میں داخل ہونے اور اس کی باتوں نے مہرانگیز کو بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا تھا.
اس کا سکون برباد ہوچکا تھا. سارا دن عجیب عجیب خیالات اس کے ذہن میں گردش کرتے رہتے.
مہر انگیز کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میر شہزاد اس حد تک آ جائے گا.
ہوسپٹل سے آکر وہ کمرے میں پڑی رہتی. کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا.
زندگی ایک بوجھ لگنے لگی تھی.
ادھر امی کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا کہ فائزہ بات پکی کرکے منگنی کرنا چاہ رہی ہے تم اقرار کرو تو میں منگنی کی تاریخ دوں.
اس دن مہرانگیز ہوسپٹل میں معمول کی ڈیوٹی پر تھی. جب ڈاکٹر عالیہ نے اسے اپنے کمرے میں بلایا.
ظہر کے وقت ڈاکٹر عالیہ کچھ دیر ریسٹ کرتی تھی. مریضوں سے فارغ ہوکر کام وغیرہ کے بارے میں کچھ جاننا ہوتا تو وہ مہر انگیز کو اپنے کمرے میں بلا لیتی تھی.
مہر انگیز جب اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر عالیہ جائے نماز بچھا کر نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی.
اسے دیکھ کر اس نے جائے نماز تہہ کرکے میز کی دراز میں رکھی اور دوپٹے کو ویسے سر پہ لپٹا رہنے دیا.
مہر انگیز سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گئی.
ڈاکٹر عالیہ بھی سلام کا جواب دے کر اس کے مقابل اپنی کرسی پر آ بیٹھیں.
،، کیسی ہو مہرانگیز؟،،
وہ ہمیشہ کی طرح شائستہ لہجے میں بولی.
مہر انگیز ہلکا سا مسکرا کر اور ہوسپٹل کے کام کے بارے میں بتانے لگ گئیں.
،، مہر انگیز آج میں نے آپ کو کام کے بارے میں پوچھنے کےلیے نہیں بلایا بلکہ کچھ دنوں سے میں نوٹ کر رہی ہوں تم مجھے پریشان لگ رہی ہو.
تمہاری رنگت بھی دن بدن زرد ہوتی جا رہی ہے.
ویسے تو مجھے پرسنل سوال پوچھنے کا حق نہیں مگر تمہاری حالت دیکھ کر مجھے تشویش ہو رہی ہے کہ اتنی بہادر مہرانگیز کو آخر ہوتا کیا جا رہا ہے؟،،
ڈاکٹر عالیہ اس کی ویران آنکھوں میں جھانک کر بولی.
چند لمحے تو مہرانگیز بالکل خاموش ہوگئی… کیونکہ آج تک اس نے کسی سے اپنی فیلنگ شئیر نہیں کی تھیں.
ایک سخت خول تھا جس کے اندر وہ اپنے سارے جذبات چھپا کے رکھتی تھی.
اس کے اندر آج تک کسی کو جھانکنے کی اجازت نہیں دی تھی.
کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بظاہر غصے کی تیز نظر آنے والی مہرانگیز اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے.
یہاں تک کہ سب سمجھتے تھے کہ مہرانگیز بہت زیادہ بے حس ہے. اسے کسی چیز کا اثر نہیں پڑتا.
کچھ دیر وہ سر کو جھکا کر خالی ہاتھوں کو دیکھتی رہی جیسے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہو کہ ڈاکٹر عالیہ کو کچھ بتائے یا نہ بتائے؟؟؟
،، میں مرنا چاہتی ہوں ڈاکٹر صاحبہ!!!،،
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی.
،،کیونکہ مجھے زندہ رہنے کے لیے کوئی وجہ نظر نہیں آتی.،،
،، تم اللہ سے اپنا تعلق مظبوط بناؤ تمہیں زندہ رہنے کی وجہ مل جائے گی.،،
،، مگر میرا خدا کے وجود پر یقین اٹھتا جا رہا ہے کبھی کبھی مجھے لگتا ہے یا تو خدا کا کوئی وجود نہیں ہے یا پھر وہ میرے ساتھ انصاف نہیں کرتا!!!،،
یہ بات مہرانگیز کسی اور کے سامنے کرتی تو اگلا شاید اس پر مشرک ہونے کا دعویٰ کر دیتا مگر اس وقت اس کے سامنے ڈاکٹر عالیہ بیٹھی تھی جو بجائے برا منانے کے اس کی باتیں توجہ سے سنتی رہی.
،، ڈاکٹر عالیہ یہ جو آپ اتنی دلجمعی سے عبادت کرکے اللہ پہ یقین رکھتی ہیں ناں اس سے زیادہ میں نے سجدے کر کر کے دعائیں مانگی ہیں میں نے!!!
مگر اللہ یا تو اپنے پیاروں کی دعائیں سنتا ہے یا پھر طاقتوروں کی!!!
اور میں تو ٹھہری کمزور اور گناہ گار.،،
اس کے لہجے میں درد بھرا طنز تھا.
،،اگر تمہیں انصاف نہیں مل رہا تو تم معاف کردو اس سے اگلے کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر تم اس اذیت سے نکل آؤ گی جس سے اب گزر رہی ہو.،،
ڈاکٹر عالیہ نے نرم آواز میں کہا.
،، کاش کہ معاف کرنے سے میرے مسئلے حل ہو جاتے،
ڈاکٹر صاحبہ میں ایسی دلدل میں پھنس چکی ہوں جہاں سے صرف موت مجھے باہر نکال سکتی ہے.،،
،،مہر انگیز اللہ تعالیٰ کبھی بھی ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہمیں آزمائش نہیں ڈالتا کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے.
میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں…
کہتے ہیں کہ ایک تاجر تھا. ایک دن وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا. اس دوران اس کا ہاتھ مٹی پہ پڑا تو اس کے دوست چیخنے لگ گئے کیونکہ وہ جہاں جہاں ہاتھ لگاتا وہ مٹی سونا بننے لگ جاتی یہ دیکھ کر وہ تاجر رونے لگ گیا اور کہا کہ آج تو خوشحالی کی انتہا ہوگئی ہے اور ہر انتہا کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے.
تاجر کی بات درست نکلی. کچھ ماہ کے اندر وہ بالکل قلاش ہوکر بھیک مانگنے پہ آگیا.
ایک دن سخت بھوک کے عالم میں کہیں سے کھانا مانگ کر وہ جا رہا تھا کہ ٹھوکر لگنے سے گر پڑا، اس کا کھانا بھی نیچے گر کر خراب ہوگیا جب وہ اسے کھانے لگا تو روٹی پر ساری گندگی لگی ہوئی تھی. یہ دیکھ کر کچھ لوگ جو اسے جانتے تھے افسوس سے سر ہلانے لگ گئے.
مگر وہ شخص زور زور سے ہنس کر یوں خوشی کا اظہار کرنے لگا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو. لوگوں کو اس بات پہ حیرت ہوئی تو اس تاجر نے کہا کہ آج تو ذلت و زوال کی انتہا ہوگئی ہے اب اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوگا. پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ پھر سے کامیاب تاجر بن گیا.
کیونکہ جس طرح اچھا وقت ہمیشہ نہیں رہتا اسی طرح برا وقت بھی گزر جاتا ہے.،،
یہ واقعہ سنا کر ڈاکٹر عالیہ لمحے بھر کو خاموش ہوئی پھر دوبارہ گویا ہوئی…
،،مہرانگیز اگر تم اس وقت مشکل کی انتہا پہ ہو تو سمجھ جاؤ اب تمہاری واپسی شروع ہوگئی… مگر واپس مڑنے کےلیے تمہیں بہادر بننا پڑے گا لوگوں سے ڈرنے کی بجائے تم ان سے سامنا کرنے کی ہمت پیدا کرو انشاءاللہ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا.،،
،، مگر ڈاکٹر صاحبہ جب ہمارے سامنے ہمارے اپنے ہوں جنہیں ہم تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے تو انھیں دکھ دے کر کیسے سامنا کریں…؟،، مہر انگیز کچھ الجھ کے بولی.
،، یہ سچ ہے وقتی طور پر انھیں افسوس ہوگا… مگر تم ایک بات بھول رہی ہو ہمارے اپنے وہ ہوتے ہیں جو ہمیں مشکل میں نہیں دیکھ سکتے بلکہ وہ ہمیں مشکل سے نکالنے کےلیے کوشش کرتے ہیں.
باقی تو صرف ہماری ہاں میں ہاں ملا کر تماشا دیکھنے والے ہوتے ہیں.،،
ڈاکٹر عالیہ کی بات درست تھی. اسے ہمیشہ یہی خوف رہتا تھا کہ اس کے گھر والوں کو پتا چل گیا تو پتا نہیں کیا ہوگا.
مگر یہ بات اب اسے سمجھ آ رہی تھی کہ جس مشکل میں وہ پھنس چکی ہے اس سے اکیلے نکلنا اب تقریباً ناممکن ہے.
اس کے پاس گھر والوں کو بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا اور یہی بات وہ خود کو سمجھا نہیں پا رہی تھی.
،،مہر انگیز تم بہت اچھی لڑکی ہوں میں جانتی ہوں تم کبھی بھی جان بوجھ کر کوئی غلط کام نہیں کرو گی اگر تم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بہادر بن کے اس کا سامنا کرو بزدلوں کی طرح موت میں فرار حاصل کرنا چھوڑ دو.
اس وقت تمہیں اپنے رب سے بہت زیادہ شکوے ہیں ایک دن آئے گا جب تم اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہو جاؤ گی کیونکہ مجھے لگتا ہے تم اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو.،،
ڈاکٹر عالیہ کی بات سن کر مہرانگیز یوں مسکرائی جیسے کہہ رہی ہو کہ میں اس قابل کہاں ؟؟؟
کیونکہ اس نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے شکوے کیے تھے. وہ سمجھتی تھی کہ وہ اتنی گناہ گار ہے کہ اللہ تعالیٰ معافی مانگنے سے بھی اسے معاف نہیں کرتا.
دوسرے دن مہرانگیز نے ہوسپٹل نہیں گئی.کیونکہ سب سے پہلے وہ امی سے بات کرنا چاہتی تھی.
مگر اب ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ کیسے اپنے نکاح کے بارے میں امی کو بتائے. کتنی بار اس نے بتانے کے لیے لب کھولے مگر الفاظ لبوں پہ آکے دم توڑ جاتے تھے. ایک پل صراط تھی جس سے مہرانگیز کو گزرنا تھا.
آخر کار ہمت کرکے وہ امی کے کمرے میں داخل ہوئی. اس وقت امی کپڑے نکال کر الماری صاف کر رہی تھی.
وہ ان کے سامنے خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گی.
امی نے قدرے اچھنبے سے اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں.
،، امی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں.،، مہرانگیز ہاتھوں کی انگلیوں کو مسلتے ہوئے ہچکچا کر بولی.
،، اور جو کچھ کہنا ہے کہو، مگر بابر کے رشتے پر انکار میں نہیں سننا چاہتی!!!،،
وہ بدستور کپڑے لپیٹے ہوئے ٹھنڈے لہجے میں بولیں.
،، امی پلیز جو بات میں آپ کو بتانے والی ہوں اس میں میری رضامندی بالکل شامل نہیں تھی.
مجھے لگتا تھا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مگر اب امی میں بری طرح پھنس چکی ہوں وہ میر شہزاد میری جان نہیں چھوڑ رہا.،،
میر شہزاد کا نام لبوں پہ آتے ہی مہرانگیز سسک سسک کر رونے لگی.
،، کون میر شہزاد؟؟؟
یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟،،
امی دہل کر اس کے لرزتے ہاتھ جھنجھوڑ کر تیز لہجے میں بولی.
،، میر شہزاد جس نے چار سال پہلے مجھ سے نکاح کیا تھا!!!
یہ الفاظ نہیں تھے بلکہ ایک ماں کے دل کو چیرنے والے تلوار کے ایسے گہرے وار تھے جن کا درد صرف بیٹیوں والی مائیں ہی محسوس کر سکتی ہیں.
ایک طوفان تھا جو مہرانگیز کے انکشاف کے بعد اس گھر میں آیا تھا.
امی صدمے اور غم سے بالکل نڈھال ہوگئی تھیں.
رہ رہ کے دل میں ہول اٹھتے مہرانگیز پہ شدید غصہ نکالنے کے بعد بھی کسی پل چین نہیں آ رہا تھا.
باقی سب گھر والے(مہرانگیز سمیت) پچھلے دو ہفتے سے یوں خاموش تھے جیسے بولنے پر مقدس خاموشی ٹوٹ کر پھر سے قیامت میں ڈھل جائے گی.
،، امی آپ ایک بار میر شہزاد سے مل لیں ہوسکتا ہے مہرانگیز ٹھیک کہہ رہی ہو میر شہزاد نے زبردستی اس کے ساتھ نکاح کیا ہو.،،
ماں کو مشورہ دینے والا یہ بیس سالہ سعد تھا.
وردہ بیگم سنجیدہ طبیعت کے حامل سعد کی باتوں کو ہمیشہ سے اہمیت دیتی تھیں.
،،کیا خبر اس وقت مہارانی کی رضامندی بھی شامل ہو.،،
امی کو ابھی بھی مہرانگیز پہ غصہ تھا.
،،امی اگر مہرانگیز اپنی مرضی سے نکاح کرتی تو راگ ٹی وی میں جاب نہیں چھوڑتی میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ اس رات اپو بہت زیادہ پریشان لگ رہی تھیں.،،
،، خدا جانے اس ٹی وی پر کام کرنے کی نحوست اور کتنا ہمیں رسوا کرے گی…
اور وہ بد ذات میر شہزاد پتا نہیں کون ہے. مہر انگیز کہتی ہے کہ وہ جیل سے بھاگا ہوا بہت خطرناک مجرم ہے… اور اسے دھمکی دے کر گیا ہے کہ اپنے علاوہ کہیں اور شادی نہیں کرنے دے گا.
یہ سب جاننے کے بعد اب کون کرے گا خاندان میں اس کے ساتھ شادی؟؟؟،،
ماں تھی بیٹی کے مستقبل کی فکر علیحدہ کھائے جا رہی تھی.
،، میں ملا ہوں میر شہزاد سے… اس کے بارے میں معلومات بھی اکھٹی کی ہیں. مجھے وہ اچھا لڑکا لگا ہے. میرے خیال میں آپ ایک بار اس سے مل لیں شاید کوئی حل نکل آئے.،،
سعد نے پرامید انداز میں کہا.
امی نے بے یقینی سے اسے دیکھا جو سعد کہنا چاہتا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس رخ پر سوچنے لگ گئی تھیں.
اس کے پندرہ دن بعد!!!
عشاء کے بعد امی مہرانگیز کے کمرے میں داخل ہوئی. اسے دیکھ کر وہ جلدی سے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی.
اس واقعے کے بعد آج وہ پہلی بار غور سے مہرانگیز کو دیکھ رہی تھیں.
پریشانی میں انھیں ہوش ہی نہیں رہا تھا کہ مہرانگیز بھی اسی کیفیت سے گزر رہی ہے.
وہ بہت زیادہ کمزور ہوگئی تھی. زرد رنگت اور آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے آج ایک ماں کو نظر آ رہے تھے.
مہر انگیز کو دیکھ کر وہ اپنے اوپر قابو نہ پا سکیں… اور رونے لگ گئیں.
،، کاش کہ ماؤں کو بیٹیوں کے نصیب اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اختیار دیا جاتا.،،
،، مہرانگیز تمہاری شادی میر شہزاد کے ساتھ اگلے مہینے کی سولہ تاریخ کو طے کر دی گئی ہے.،،
اپنے آنسو پونجھ کر وہ سنجیدگی سے بولیں.
،،یہ ایک ماہ کی مہلت میر شہزاد نے مانگی ہے ورنہ تو ہمارا ارادہ اس سے پہلے کرنے کا تھا.،،
،،امی آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟،، مہرانگیز بے یقینی اور شاک کی کفیت میں بولی.
،،طے یہ پایا ہے کہ شادی سادگی سے ہوگئی،،
امی تو جیسے مہرانگیز کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھیں.
مگر پھر بھی شادی کی تیاری تو کرنی ہے.
کل سے تم چھٹی کرو گی اور میرے ساتھ شاپنگ کے لیے چلو گی.،،
جاری ہے…
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول