Barish K Bad Urdu Novel | Episode 14 | بارش کے بعد اردو ناول
مہرانگیز کے گھر سے ہوکر میر شہزاد پوش علاقے کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا.
یہ گھر اس کے دوست عون نے وقتی طور پر اسے رہنے کے لیے دیا تھا.
جب میر شہزاد جیل سے بھاگا تو سب سے پہلے اس نے عون سے مدد مانگی تھی.
عون کے ساتھ اس کی دوستی بہت دلچسپ انداز میں ہوئی تھی.
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میر شہزاد نے نوٹ کیا کہ ایک بھکاری مسلسل اس کے پمپ پر آ رہا ہے. ایک یہ نارمل بات تھی،کیونکہ اکثر مانگنے والے چکر لگاتے رہتے تھے.
بظاہر وہ ایک بھکاری تھا مگر میر شہزاد کو وہ بھکاری کچھ مشکوک سا لگا تھا.
ایک رات ڈھائی بجے اس نے بلاوجہ اس بھکاری کو اپنے پمپ پر بیٹھے دیکھا تو اپنے عملے کو کہا کہ اسے پکڑ کر میرے پاس لے آؤ.
میر شہزاد نے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ روایتی بھکاریوں کی طرح جواب دینے لگا.
مطمئن نہ ہونے پر میر شہزاد نے اسے کمرے میں بند کردیا.
دوسری صبح ناشتہ کرا کے اس شرط پر چھوڑا کہ آئندہ اس پمپ کے قریب نہیں بھٹکنا!!!
اس کے کچھ دن بعد!!!
،، ایکسکیوزمی!!!
مجھے اس کلر کے جوگرز چاہیں.،،
میر شہزاد جوتوں کی دکان پر اپنے لیے جوگرز پسند کرکے کے انھیں ڈبے میں پیک کروا رہا تھا…. جب پیچھے سے یہ آواز آئی.
اس نے چونک کر دیکھا. وہ تقریباً اٹھائیس انتیس سال کا ایک چاک و چوبند نوجوان تھا جو میر شہزاد کے جوگرز کو یوں دلچسپی سے دیکھ رہا تھا جیسے پہلی نظر میں ہی یہ جوگرز اسے پسند آ گئے ہوں.
،، سوری سر اس کلر میں صرف یہی ایک جوڑا تھا آپ کوئی دوسرا کلر دیکھ لیں.،،
سیلزمین نے معذرت کرتے ہوئے کہا.
،،اٹس اوکے مگر مجھے یہی کلر پسند تھا.،،
اس نوجوان نے میر شہزاد کے خریدے گئے جوگرز پہ ایک پسندیدہ نظر ڈالی اور واپس جانے لگا.
،، اگر آپ کو یہ اتنے پسند آئے ہیں تو آپ یہ لے سکتے ہیں.،،
میر شہزاد نے اسے پکار کر فراخدلانہ انداز میں پیشکش کی.
وہ بے یقینی کے انداز میں واپس مڑا….
،،مگر یہ تو آپ لےچکے ہیں؟،،
،،ہاں مگر اب میں یہ اپنی مرضی سے آپ کو دے رہا ہوں.،،
،،وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ میں آپ کی پسند پہ ڈاکا ڈالوں…،،
وہ ابھی بھی ہچکچا رہا تھا.
،، رکھ لے یار ایک جوتوں کی تو بات ہے کونسا میں دکان اٹھا کے دے رہا ہوں.،،
میر شہزاد ہلکے پھلکے انداز میں بولا.
وہ مسکرا کر والٹ سے پیسے نکالنے لگا.
،،لگتا ہے آپ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ گفٹ کے پیسے نہیں لیے جاتے..،، میر شہزاد زبردستی اس کا والٹ بند کرکے اس نوجوان کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرکے چلا گیا.
اگلی بار وہ اسے ایک ریسٹورنٹ میں نظر آیا. مگر اس بار اس نوجوان نے زبردستی اپنی طرف سے میر شہزاد کو ڈنر کروایا.
،، اب آپ مجھے سچ سچ بتائیں سر!!! کہ آپ میرا پیچھا کس شک کی بنیاد پر کر رہے ہیں؟؟؟،،
کھانا کھانے کے بعد میر شہزاد نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا.
،،میں کوئی پیچھا نہیں کر رہا یہ تو بس ایک اتفاق ہے.،،
اس کی پراعتمادی میں ذرا سی لغزش نہ آئی.
،،شاید یہ اتفاق ہو مگر جو بھکاری بن کر میرے پمپ کی جاسوسی کرتے رہے ہیں… وہ تو اتفاق نہیں ہوسکتا.،،
یہ سن کر اس کی آنکھوں میں چونکنے والی حیرت ابھری مگر وہ اسی اعتماد سے مسکراتا رہا.
،،مجھے میجر عون کہتے ہیں. کچھ دیر بعد اس نے کہنا شروع کیا… آجکل میری ڈیوٹی میں نیٹو کنٹینر کے ڈرائیوروں پر نظر رکھنا اور ان کی ہر سرگرمی کی رپورٹ دینا شامل ہے.
حال ہی میں ہم نے ایک ڈرائیور کو پکڑا جو دہشت گردی میں ملوث تھا. اس کے بعد ہم ہر اس شخص کو چیک کر رہے تھے، جس کے ساتھ اس ڈرائیور کی تھوڑی سی بھی جان پہچان تھی.
چونکہ وہ اکثر اس پمپ پر آتا رہتا تھا. پیسے نہ ہونے پر وہ یہاں سے تیل بھی ادھار پہ ڈلوا کے جاتا رہا ہے. اس لیے ہم آپ کو چیک کر رہے تھے.
چونکہ آپ اس معاملے میں مکمل کلئیر ہیں… مگر ایک الجھن تھی تمہیں کیس شک ہوا کہ میں بھکاری نہیں ہوں. اسی لیے میں آپ کے سامنے دوبارہ ایک اجنبی کی حیثیت سے آیا…
اس دن جوتوں کی دکان پر میں چیک کر رہا تھا کہ اس حلیے میں تم مجھے پہچانتے ہو یا نہیں؟؟؟مگر یار توں تو ہماری سوچ سے زیادہ تیز نکلا.ویسے مجھے ایسے ذاتی طور پر ایسے ذہین لوگ پسند ہیں.،،
آخر میں میجر عون نے ستائش سے کہا.
،،مجھے پہلی نظر میں معلوم ہوگیا تھا کہ آپ پیشہ ور بھکاری نہیں ہیں. کیونکہ ایک تو آپ کی آنکھیں اور کان ہر وقت الرٹ نظر آتے تھے. دوسری بات آپ کے ہاتھ مجھےبقطعاً بھکاریوں والے نہیں لگے تھے. کیونکہ اس طرح کے ہاتھ یا تو بہت سخت محنت کرنے والوں کے ہوتے ہیں یا پھر آرمی کی ٹریننگ کرنے والوں کے…جوتوں کی دکان پر میں نے آپ کو پہچان لیا تھا اورپہلے جو شک تھا اس دن یقین میں بدل گیا کہ آپ کا تعلق کس شعبے سے ہے…چونکہ میں کوئی غلط کام نہیں کررہا تھا تو میں نے سوچا جب تک آپ مجھے کلئیر نہیں کرلیتے یہ کھیل جاری رکھتے ہیں.،،
میر شہزاد نے مکمل اطمینان سے کہا.
،، گڈ اگلی بار میں اپنے ہاتھوں اور کانوں پر توجہ دوں گا.،، میجر عون نے محفوظ ہو کر کہا.
،، یہ بتاؤ ڈنر کیسا لگا…،،
،،ڈنر بہت ٹیسٹی تھا سر!!!،،
،،ایک بات ذہن میں رکھ لو یہ ڈنر ہر کسی کو نہیں کروایا جاتا.،،
،،جی سر جانتا ہوں میں شاید آپ کو میرے تعاون کی ضرورت ہے.،،
،،تمہیں پمپ چھوڑ کر آرمی جوائن کر لینی چاہیے سیریسلی یہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے.،،
میجر عون نے پہلی بار مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا.
اس دن کے بعد وقتا فوقتاً ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں.
چونکہ میر شہزاد کا پیشہ ایسا تھا کہ اس قسم کے ڈرائیوروں سے روز اس کا پالا پڑتا رہتا تھا.
بعد میں میر شہزاد نے آرمی کے ساتھ بہت زیادہ تعاون کیا تھا. کئی اہم معلومات میر شہزاد نے ذاتی طور پر اکٹھی کرکے میجر عون کودیں تھیں.
میجر عون کا تعلق فوج سے تھا یہ بات میر شہزاد جانتا تھا مگر پھر بھی بہت ساری باتیں میر شہزاد کو معلوم نہیں تھیں. جیسے خفیہ ایجنسی میں وہ کتنے بڑے عہدے پر فائز ہے یا پھر اس کا اصلی نام کیا ہے؟ کیونکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے اکثر اپنی شناخت چھپاتے ہیں. وہ تقریباً میر شہزاد سے دو تین سال بڑا ہوگا. اس کے باوجود دونوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی.
بعد میں میجر عون کا وہاں سے تبادلہ ہوگیا تو رابطہ تقریباً ختم ہوگیا تھا.
میر شہزاد جب جیل سے بھاگا تو ان حالات میں اسے میجر عون سے مدد لینے کا خیال آیا تھا.
رابطہ کرنے پر اس وقت وہ لاہور میں نہیں تھا مگر نہ صرف اس نے رہنے کے لئے اپارٹمنٹ دلوا دیا تھا بلکہ اپنے اختیارات استعمال کرکے کچھ دن بعد اس کی ضمانت بھی منظور کروا دی تھی.
اس کے علاوہ اس کے تمام مقدمات ایک مہینے کے اندر ختم کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی.
عدالت نے جب میر شہزاد کو دس سال قید کی سزا سنائی تھی تو کچھ عرصے بعد میر شہزاد نے ہائیکورٹ میں اپیل کی تھی.
حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اپیل سے کچھ نہیں بدلنے والا مگر بلال کے سمجھانے پر پر وہ اپیل کرنے پر راضی ہوگیا تھا.
وہ عدالت جو ایک پیشی کےلیے کئی کئی مہینے لگا دیتی تھی اب روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر رہی تھی.
میر شہزاد کے وکیل کا موقف تھا کہ اس کا موکل میر شہزاد عدالت سے فرار نہیں ہوا تھا بلکہ اسے اغوا کیا گیا تھا.
ایک بار وکیل نے کہا تھا کہ عدالت میں دو طرح کی زبان سمجھی جاتی ہے ایک پیسے کی اور دوسری طاقت کی… یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ اس کیس میں طاقت کی زبان استعمال کی جا رہی تھی.
میر شہزاد کے جیل میں جانے کے بعد عمران کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات ہوگئی تھی.
جیل سے نکلنے کے بعد میر شہزاد نے بہت زیادہ کوشش کی کہ کسی طرح معلوم ہوسکے کہ ان سب کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا… مگر بدقسمتی سے ہر جگہ عمران کا نام سامنے آتا تھا . مگر میر شہزاد کا دل ابھی بھی ماننے کو تیار نہیں تھا کہ عمران اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کر سکتا ہے.
کیس تیزی سے ختم ہوتا جا رہا تھا. جب وہ جیل میں تھا تو کوئی بھی ملنے نہیں آتا تھا مگر اب سب کہہ رہے تھے کہ جیل میں ہمیں آپ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی.
تو سوال یہ تھا کہ عمران تو مرگیا تھا پھر اس کے بعد کون تھا جو میر شہزاد سے کسی کو ملنے نہیں دے رہا تھا.
وہ جو بھی تھا حالات میر شہزاد کے حق میں جاتے ہی کمال مہارت سے منظر سے ہٹ گیا تھا.
میر شہزاد نے فیاض پٹواری کی مکمل چھان بین کروائی مگر وہ بھی اس معاملے میں مکمل کلیئر نکلا.
بد قسمتی سے میر شہزاد ایسے گمنام دشمن کو ڈھونڈ رہا تھا جس کا کوئی وجود دنیا کی نظر میں نہیں تھا. جس دن وہ عدالت سے باعزت بری ہوا اس سے اگلے دن سعد کا فون آیا تھا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے.
****
عدالت میں خلع کا کیس دائر کرنے سے پہلے سعد نے ایک بار میر شہزاد سے ملنا مناسب سمجھا.
مہر انگیز نے جس طرح اس کا خوفناک نقشہ کھینچا تھا وہ اپنے ذہن میں غنڈہ ٹائپ ایک خطرناک انسان کا تصور لے کر آیا تھا.
مگر یہاں پر اس کی ملاقات ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق طبیعت کے حامل میر شہزاد سے ہوئی … جو اپنی غلطی پر شرمندہ اور مہرانگیز کے ساتھ شادی کےلیے سنجیدہ نظر آ رہا تھا.
سوائے اس کے کہ اس کا باپ کتنا بڑا جاگیردار تھا،باقی میر شہزاد نے سعد کو اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا.
گھر آکر سعد نے سنجیدگی سے میر شہزاد کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا.
اس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا، اس کے باوجود وہ ایک کامیاب کاروبار کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا.
یہ بات سعد کی نظر میں قابل تعریف تھی.
وہ نہ صرف ذہین تھا بلکہ حالات کو اپنے حق میں موڑ لینے کی بھی صلاحیت رکھتا تھا.
اتنا عرصہ جیل میں رہنے کے باوجود آج بھی وہ حالات سے مایوس ہونے کی بجائے آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا… سعد کو یقین تھا کہ عنقریب وہ پھر سے اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو جائے گا.
دوسری بات ابو کے رشتے داروں میں مہرانگیز کے لیے کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں تھا.
صرف ایک پھپھو کا بیٹا تھا جو مہرانگیز سے عمر میں کافی بڑا تھا اور اس کی بھی شادی ہوچکی تھی.
باقی امی کے رشتہ دار جو مالی لحاظ سے ان سے بہت اوپر تھے. ان کی ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ تھی.
وہ اپنے سٹیٹس کے برابر رشتہ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے.
یہ سچ تھا کہ خاندان کی لڑکیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت مہرانگیز تھی.
مگر ٹی وی پر کام کرنے کی وجہ سے خاندان بھر میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا.
فائزہ آنٹی اگر اپنے بیٹے کا رشتہ مانگ رہی تھی تو بابر کی وجہ سے کیونکہ بابر نے شور ڈالا ہوا تھا کہ اس نے مہرانگیز کے ساتھ شادی کرنی ہے.
باقی فائزہ آنٹی ایسی منہ پھٹ گھمنڈی لڑکی کو بہو بنانے پر کچھ خاص خوش نہیں تھیں… جو گھر جانے پر سیدھے منہ بات کرنا گوارا نہ کرتی ہو.
سعد کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح سے تھا کہ میر شہزاد سے نکاح والی بات خاندان والوں کو معلوم ہوتے ہی کوئی بھی مہرانگیز سے رشتہ کرنے کےلیے تیار نہیں ہوگا… الٹا سب کو باتیں کرنے کا ایک اور موقع مل جائے گا. فائزہ آنٹی نے بھی پیچھے ہٹنے میں ایک منٹ نہیں لگانا تھا.
ان حالات میں میر شہزاد ایک اچھا اور مناسب آپشن تھا جو مہرانگیز کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنے کو تیار تھا.
میر شہزاد کو گھر بلانے سے پہلے سعد اور امی نے ان سب باتوں پر خوب غور و خوض کیا تھا.
بلال صاحب (مہرانگیز کے ابو)بہت سادہ انسان تھے. وہ اپنی کوئی بھی رائے نہیں دیتے تھے جو وردہ بیگم کو مناسب لگتا گھر میں وہی فیصلہ کیا جاتا.
امی اور سعد نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ اگر میر شہزاد پوری طرح سے شادی کےلیے سنجیدہ نظر آیا تو پھر زبردستی خلع لینے کی بجائے مہرانگیز کی شادی میر شہزاد کے ساتھ طے کر دی جائے گی.
اس طرح مزید رسوائی کی بجائے بات اندر کی اندر رہ جائے گی.
میر شہزاد کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ.. مہرانگیز کی امی شادی کے لئے راضی ہوجائے گی.
فی الحال وہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ فوراً بیاہ کر گھر لے جاتا مگر جس طرح مشکل سے اس نے وردہ بیگم کو اپنی طرف سے مطمئن کیا تھا اسے ڈر لگا کہ کہیں وہ اپنا فیصلہ بدل نہ لیں.
چنانچہ اس نے ایک ماہ کی مہلت مانگی تاکہ اس دوران وہ کچھ نہ کچھ بندوبست کرلے.
مہر انگیز کے خوب چیخنے چلانے رونے دھونے پر امی ایک قدم پیچھے نہ ہٹنے کو تیار نہیں ہوئیں. اس کا تو سوچ سوچ کے دماغ پھٹا رہا تھا کہ جس بندے سے وہ اتنی شدید نفرت کرتی ہے اس کے ساتھ پوری زندگی وہ کیسے گزارے گی؟؟؟
پہلے اگر وہ کسی بات کی ضد کرتی تو گھر میں کوئی نہ کوئی اس کی حمایت کر دیتا تھا ،مگر اس بار سب نے نظریں پھیری ہوئی تھیں.
،، سعد پلیز تم امی کو سمجھاؤ میں کیسے اس غنڈے کے ساتھ رہوں گی؟،،
وہ روہانسی ہوکر سعد کے پاس چلی آئی تھی.
،،مجھے تو امی کا فیصلہ بالکل مناسب لگ رہا ہے. باقی تم نے اس غنڈے کے ساتھ کیسے رہنا ہے یہ تمہارا مسئلہ ہے میرا نہیں!!!
بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے تمہیں فائزہ آنٹی کی بہو بننے سے بچایا ہے.،،
سعد نے سنجیدگی سے چشمہ درست کرتے ہوئے کہا اور دوبارہ پڑھنے میں محو ہو گیا.
امی کے لاکھ کہنے کے باوجود نہ تو وہ شاپنگ کے لیے جا رہی تھی اور نہ ہی اس نے ہوسپٹل سے چھٹی لی تھی.
اس شام وہ گھر جانے کےلیے ہوسپٹل سے باہر نکلی تو سامنے پارکنگ ایریا میں کار کی پشت سے ٹیک لگائے سجاول اس کے انتظار میں کھڑا تھا.
اس نے سیاہ کرتا پہنا ہوا تھا.جس کے گلے پر کڑھائی کا کام تھا. بازو فولڈ کرنے کی وجہ سے کلائی میں پہنی ریسٹ واچ نمایاں نظر آ رہی تھی.
مہرانگیز اتنے سالوں بعد آج اسے دیکھ رہی تھی.وہ پہلے سے زیادہ بڑا اور پرکشش لگ رہا تھا.
یا پھر شاید پیسے نے مزید نکھار دیا تھا.
وہ اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھنے لگی.
،، اگر تم چاہتی کہ یہاں پر کوئی تماشا نہ بنے تو پلیز دس منٹ میری بات سن لو.،،
اس نے مہرانگیز کے پیچھے آتے ہوئے کہا.
،،میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی.،،
غصے سے جواب دے کر وہ تیز تیز چلنے لگی.
مگر سجاول نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا.
،، چھوڑو میرا ہاتھ!!!،،
،، میں کہہ رہا ہوں ناں صرف دس منٹ چل کر میری بات سن لو مگر تمہیں خود شوق ہے اپنا تماشا بنانے کا تو پھر ٹھیک ہے بننے دو!!!،،
جواباً سجاول نے لا پرواہی سے کہا.
اردگرد کے لوگ اب دونوں کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے.
،، ٹھیک ہے بولو میں سن رہی ہوں…،،
وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر وہیں رک گئی.
،، اندر بیٹھو.،،
اس نے مہرانگیز کے لیے گاڑی کا دروازہ کھول کر کہا.
مہر انگیز نے ادھر ادھر دیکھا اور خاموشی سے بیٹھ گئی.
سجاول گھوم کر دوسری طرف آیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی کو ریورس کرکے پیچھے کی طرف نکالنے لگا.
،،اب جو کہنا ہے جلدی سے کہو میرے پاس تمہاری بکواس سننے کے لیے وقت نہیں ہے.،،
مگر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ سن ہی نہیں رہا. ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں مہرانگیز کو لے جاکر اس نے اپنی مرضی کا آرڈر دیا.
اس دوران وہ بالکل خاموش رہی تھی.
آرڈر دے کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوا.
،،مہر انگیز میں جانتا ہوں تمہارے ساتھ بہت برا ہوا مگر اس کی سزا ہم سب کاٹ رہے ہیں. میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں.،،
چار سال بعد اب معافی یاد آئی جب باپ جیل چلا گیا مہرانگیز نے استہزائیہ انداز میں ہنس کر سوچا.
فائزہ آنٹی کے بیٹے کی شادی سے واپس آکر سعد نے مہرانگیز کو بتایا تھا کہ ناجائز کالونیوں کے کیس میں شیراز انکل کو نیب والے پکڑ کر لے گئے ہیں.
شادی پر سیما آنٹی کے گھر والوں میں سے کوئی نہیں آیا تھا.
ان دنوں وہ میر شہزاد کی وجہ سے اتنا ڈسٹرب تھی کہ اس بات پر وہ جی بھر کر کے خوشی بھی نہیں منا سکی تھی.
،،بس اور بھی کچھ کہنا ہے یا میں جاؤں؟،،
،،مہرانگیز کیا سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہوسکتا؟؟؟
تم مجھے بہت پسند ہو.
امی ہمیشہ کہتی تھی کہ میرے بیٹے کو صرف مہرانگیز سوٹ کرتی ہے.
ایک بار تم ہاں کر دو تو میں باقی سب کو منا لوں گا. پلیز ماضی میں جو ہوا اسے بھول جاؤ.،،
،، کیوں بھول جاؤں میں!!!،،
وہ تقریباً شدت غم سے چلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی. اس کی آنکھیں غصے سے جل رہی تھیں.
،، تمہاری بکواس اس لیے سننے چلی آئی کیونکہ وہاں پر میں کام کرتی ہوں اور میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہو.
بہتر یہی ہوگا آئندہ میری نظروں کے سامنے مت آنا ورنہ میں بھول جاؤں گی کہ کس کا تماشا زیادہ بنتا ہے.،،
وہ تقریباً غصے سے کانپ رہی تھی…
،،جتنا چیخنا ہے چیخ لو مگر میں جانتا ہوں تم ابھی بھی مجھے پسند کرتی ہو.،،
وہ جو جا رہی تھی یکدم پیچھے پلٹی…
،،یہ خوش فہمی کب سے ہے تمہیں؟؟؟،،
،،کیونکہ اتنے عرصے سے جو بھی رشتہ آتا ہے تم اسے ریجیکٹ کر دیتی ہو.
ابھی کچھ دن پہلے وردہ آنٹی نے بابر کی امی کو بھی انکار کر دیا ہے.
میں جانتا ہوں تم ابھی بھی مجھے پسند کرتی ہو… اس لیے کہیں اور شادی نہیں کر رہی.،،
سجاول اطمینان سے کہتا چلا جا رہا تھا.
،،تمہیں یہ کسی نے نہیں بتایا کہ اگلے مہینے کی سولہ کو میری شادی ہے.،،
وہ سرد لہجے میں بولی.
،،میں جانتا ہوں کہ اس وقت تم جھوٹ بول رہی ہو.،، وہ محفوظ انداز میں مسکرایا.
،،تو پھر ٹھیک ہے سجاول قریشی اگلے مہینے کی سولہ کو آجانا!!!
دیکھتے ہیں کون جھوٹا ہے…؟؟؟،،
اس وقت وہ نفرت کی اس انتہا پر تھی جہاں سے ایک اور نفرت کو سہنا آسان ہوجاتا ہے!!!
آج لگتا ہے بس تماشا تھا
وہ تعلق جو بے تحاشا تھا
(اتباف ابرک)
اس کے بعد وہ رکی نہیں تھی اور نہ ہی بار بار بلانے پر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا. کیونکہ اگر وہ رکتی تو حقیقت میں اس کے ہاتھوں سجاول کا قتل ہو جاتا.
جاری ہے….
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Bht interesting novel h
تھینکس صامیہ۔ آپ کا فیڈ بیک بہت معنی رکھتا ہے۔ آپ نے میرا دوسرا ناول علیشبہ اور سلطان پڑھا ہے؟
Han g wo b prha h..bht زبردست h wo b..
Thanks Samia 💕🙏🙏
Episode 15??
اپلوڈ ہوگئی ہے۔