Barish K Bad Urdu Novel | Episode 15 | بارش کے بعد اردو ناول
آج سے پانچ سال پہلے!!!
ان دنوں مہر انگیز بی اے کے پیپر دے کر مناہل آپی کی شادی کی تیاریوں میں بڑے جوش و خروش سے مصروف تھی.
اگرچہ مسکان اور اس کے تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے.
مگر مناہل آپی اتنا اچھی تھیں اس کی شادی میں شرکت نہ کرکے وہ ان کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی تھی.
اس بار امی نے قدرے دل بڑا کرکے اسے شاپنگ کرنے کے لیے کچھ اضافی رقم دی تھی. مہر انگیز نے دل کھول کر اپنے ارمان نکالے تھے.
مسکان نے مہندی رات کے لیے اپنے لیے آڈر پر شرارہ بنوایا تھا. جس پر کافی ہیوی کام کیا گیا تھا.
جبکہ مہرانگیز نے کپڑا لیکر امی سے پرپل کلر کی چولی اور اورینج کلر کا لہنگا سلوایا تھا.
رات کو جب وہ تیار ہوکے گئی تھی تو کتنی سراہتی نظروں نے اسے دیکھا تھا.پچپن میں وہ گول مٹول کیوٹ سی ہوتی تھی جس کی صاف شفاف شیشے کی طرح چمکتی آنکھیں سب سے نمایاں لگتی تھیں.
مگر اب عمر کے ساتھ ساتھ اس کے نین و نقوش نکھر کر مزید دلکش ہوگئے تھے….دوسرا پہلی بار وہ اتنے اچھے کپڑوں اور جیولری کے ساتھ تیار ہوئی تھی. کسی کام سے اندر آتے سجاول نے آئینے کے سامنے ہلکے گرین کلر کے دوپٹے کو سیٹ کرتی کنفیوز کنفیوز مہرانگیز کو دیکھا تو نظریں ہٹانا بھول گیا.
یہ سچ تھا اب وہ ان کے ہاں بہت کم آتی تھی مگر پچپن ان کا ایک ساتھ گزرا تھا.
کسی زمانے میں مسکان اور اس کی بڑی گہری دوستی ہوا کرتی تھی.
مگر جب سے ان لوگوں کی مالی حالت مستحکم ہونا شروع ہوئی تھی آہستہ آہستہ مہرانگیز ان سے دور ہوتی گئی تھی.اس میں کچھ مسکان کا رویہ بھی شامل تھا.
سٹیٹس اونچا ہونے کی وجہ سے اس کی بہت ساری نئی دوستیں بن گئی تھیں. اس نے جان بوجھ کر مہرانگیز کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا.
شادی پر وہ صرف مناہل آپی اور سیما آنٹی کی وجہ سے آئی تھی. کیونکہ وہ آج بھی اسے ویسے پیار اور اہمیت دیتی تھیں جیسے پچپن میں دیتی آئی تھیں.
بڑا گھر ہونے کی وجہ سے سارے فنکشن گھر میں کیے جا رہے تھے. باہر لان میں دلہن کے لیےسٹیج بنایا گیا تھا باقی مہمانوں کی ارینج منٹ بھی وہیں کی گئی تھی.
اس وقت پوری کوٹھی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی…
باہر میوزک سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. اندر دوپٹہ سیٹ کرکے ماتھے کی بندیا سیدھی کرتے ہوئے اچانک مہرانگیز کی نگاہ سجاول پر پڑی جو پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا. اس طرح گھورتے دیکھ کر ناگواری کی شدید لہر مہرانگیز کے چہرے پر ابھری.
لہنگے کے کونے اوپر اٹھا کر وہ جلدی سے باہر کی طرف جانے کےلیے آگے بڑھی. سجاول جان بوجھ کر اس کے راستے میں آگیا.
،، ہٹو راستہ دو…،،
وہ ماتھے پر تیوریاں چڑھا کے بولی.
سجاول نے کندھے اچکا کر چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت طاری کرتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا.
،، ہونہہ گھمنڈی کہیں کی!!!،،
اس کے جانے کے بعد وہ بڑبڑایا. سوائے مہرانگیز کے باقی سب کو سجاول بڑا جئنیس،ویل ایجوکیٹڈ اور پراعتماد پرسنیلٹی کا مالک لگتا تھا.
لڑکیاں تو ایک طرف یہاں تک کہ بھابھیاں( کزنز کی بیویاں) تک اس سے شدید متاثر نظر آتی تھیں.
اور وہ بھی انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا.
جہاں اسے ہر جگہ سے اتنی امپورٹنس مل رہی ہو وہاں مہرانگیز کی بے رخی اس کی انا کو عجیب طرح سے ٹھیس پہنچاتی تھیں. یہ سچ تھا نہ تو وہ سجاول کی طرح نہ ذہین تھی اور نہ ہی اسے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن آتا تھا. شاید اس کی یہی معصومیت اور نیچرل خوبصورتی دوسروں کو اپنی جانب کھینچتی تھی… اور شروع سے ہر خوبصورت چیز اپنی دسترس میں رکھنا سجاول کی کمزوری تھی.
باہر نکل کر سجاول کی اس حرکت پر مہرانگیز کے چہرے پہ ابھی تک ناگواری چھائی ہوئی تھی.
اگرچہ مسکان نے بھی اپنی تیاریوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر جیسے ہی وہ لان میں آئی بیک وقت کئی نظریں مہرانگیز کی طرف متوجہ ہوگئی تھیں.
مسکان جان بوجھ مہرانگیز کو مکمل نظر انداز کرکے ساری توجہ اپنی ماڈرن ٹائپ دوستوں کو دے رہی تھی. وہ اگر منہ نہیں لگا رہی تھی تو مہرانگیز نے بھی اس کے قریب گھسنے کی کوشش نہیں کی تھی.
جب سے اس کی امی(سیما آنٹی) نے مہرانگیز کو شادی پر اتنا مہنگا جوڑا خرید کر دیا تھا تب سے مسکان کا موڈ کچھ زیادہ ہی خراب تھا.
پیچ کلر کا بالکل لیٹیسٹ ڈیزائن کا وہ سوٹ جو خاص طور پر سجاول کی پسند پہ لیا گیا تھا…اسے دیکھتے ہی مسکان کو اپنی بلیک کلر کی جھلملاتی میکسی جو اس نے بڑے چاؤ سے خریدی تھی اب ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی.
جلن کے مارے اس نے خوب شور مچایا کہ اب اسے میکسی کی بجائے یہی مہرانگیز والا سوٹ چاہیے مگر نہ صرف امی بلکہ سجاول نے بھی اس حرکت پہ اچھا خاصا اسے ڈانٹ دیا تھا.
،، میں بھی دیکھتی ہوں کیسے وہ میڈم پہنتی ہے ،ایک بار بتانے کی دیر ہے کہ کس کی پسند پہ یہ سوٹ لایا گیا ہے مہرانگیز نے مر کے بھی نہیں پہننا.،،
مسکان اندر کی کرواہٹ باہر نکالتے ہوئے بولی.
،، بکواس بند کرو.،، سجاول اونچی آواز میں بولا. اس سے پہلے کہ دونوں بہن بھائیوں میں مزید کوئی بات ہوتی امی نے مسکان کو بری طرح ڈانٹ کر کمرے میں بھیج دیا.
اس وقت وہ اپنی سہیلیوں میں گھری دھڑا دھڑ سیلفیاں بنا رہی تھی… مہر انگیز کا بڑا دل کر رہا تھا کہ کاش اس کے پاس موبائل ہوتا تو وہ بھی اپنی تصاویر بنا کر دوستوں کو دکھاتی.
مناہل آپی نے اسے یوں گم صم کونے میں کھڑے دیکھا تو اشارے سے سٹیج پر بلایا.
،، بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ… پک بنوائی…؟،، اس نے جیسے دل کی آواز پڑھ لی تھی.
،، نہیں امی نے منع کیا تھا.،،
مہرانگیز نے منہ لٹکا کر کہا.
،، امی نے مووی میکر سے بنوانے کو منع کیا ہوگا موبائل سے تو نہیں. شادی کی کم از کم ایک آدھ تصویر تو ہونی چاہیے… میرا موبائل تو کمرے ہے ارم یار سجاول کو ذرا بلانا اس کے موبائل کا رزلٹ بہت شاندار ہے.،،
،، بس رہنے دیں مناہل آپی مجھے کوئی پک نہیں بنوانی.،،
سجاول کا سن کر اس موڈ نہ چاہتے ہوئے بھی خراب ہوگیا تھا.
،، ارے ایسے کیسے رہنے دوں اتنی پیاری لگ رہی ہو…،، مناہل آپی خفگی سے بولی.
،، میرے موبائل کا رزلٹ بہت اچھا ہے میں بنا لیتی ہوں.،،
ارم نے پیشکش کی.
ارم نے مناہل آپی کے ساتھ اس کی دو تین تصاویر کھینچی.
کچھ تصاویر مہرانگیز کی اکیلی پورے لہنگے کے ساتھ بھی بنائیں.
سجاول کن اکھیوں سے اسے ارم سے تصاویر بنواتے دیکھ رہا تھا مگر آج کوئی طعنہ مار کے اس کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا.کیونکہ ایک بار چڑانے کی دیر تھی کل اس نے شادی میں ہی نہیں آنا تھا. ویسے بھی آج اس کے گرد بہت ساری حسینائیں منڈلا رہی تھیں…اور کون کافر ان کی کمپنی انجوائے نہیں کرنا چاہے گا!!!
فنکشن کے بعد سیما آنٹی اورمناہل آپی نے بار بار رات رک جانے کو کہا مگر وہ امی کے ساتھ واپس گھر آگئی تھی.
اگلے دن شادی پر مہر انگیز نے ہلکے آسمانی کلر کی لانگ شرٹ ( جس پر گرین اور آتشی گلابی نگوں اور موتیوں کا خوبصورت کام کیا گیا تھا) کے ساتھ اسی کلر کا چوڑی دار پائجامہ پہنا تھا. جبکہ باریک شاکنگ پنک دوپٹہ جس کے چاروں کونوں پر آسمانی کلر کا باڈر بنا ہوا تھا. باڈر پر بھی پر موتیوں اور نگوں کا کام بہت دلکش لگ رہا تھا. جبکہ پورے دوپٹے میں جابجا بکھرے ہوئے سلور نگ بہت زیادہ جھلملا رہے تھے. ہار اور بندے پہن کر اس نے عجلت میں لمبی ہیل والی جوتی پہنی. کیونکہ ٹیکسی والا کب کا آچکا تھا اور امی نے جلدی باہر آنے کا شور مچایا ہوا تھا.
چادر اٹھا کر باہر نکلتے ہوئے اس نے آخری بار آئینے کے سامنے اپنا جائزہ لیا.. اگرچہ اس کے پاس میک اپ کی کوئی اچھی کولیکشن تو نہیں تھی. مگر پھر بھی آج ہر چیز پرفیکٹ لگ رہی تھی.
تنگ آستینیں پوری کلائیوں تک بند تھیں. اس لیے چوڑیوں کی ضرورت نہیں تھی، ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنتی وہ تیزی سے باہر نکلی.
امی نے نظر بھر کر اسے دیکھا…
،،سیما نے جو سوٹ دیا تھا وہ پہن لیتی تو اسے بھی خوشی ہوتی پر مجال ہے جو کبھی ماں کی مانی ہو…،،
،، امی کیا آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ڈانٹنا شروع ہو جاتی ہیں یہ برا لگ رہا ہے؟؟؟،،
وہ بازو پھیلا کر پورا سوٹ دکھاتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولی.
،،چلو وہ کل ولیمے پر ضرور پہن لینا.،،
امی تنبیہ کرنا نہ بھولیں. اس وقت تو وہ امی کی ناراضگی کی وجہ سے خاموش ہوگئی ورنہ کل مناہل آپی کے سسرال میں ولیمے پر جانے کا اس کا قطعاً موڈ نہیں تھا.
اگرچہ سیما آنٹی نے جو سوٹ دیا تھا اس کے مقابلے میں اس جوڑے کی ویلیو نہ ہونے کے برابر تھی.
مگر اس نے جان بوجھ کر نہیں پہنا تھا کیونکہ وہ مسکان کی فطرت سے اچھی طرح آگاہ تھی. اس نے سب کے سامنے اپنی حیثیت جتانے اور مہرانگیز کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا تھا.
سجاول شادی کے انتظامات سنبھالنے میں لگا ہوا تھا مردوں کے بیٹھنے کی علیحدہ جگہ بنائی گئی تھی. سعد اور عباد کو دیکھ کر اسے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ وہ لوگ آچکے ہیں .مہر انگیز کا سوچ کر مسکراہٹ خودبخود اس کے لبوں پہ آگئی.
ایسے امی نے خوامخواہ جلدی مچائی ہوئی تھی. ابھی تک تو کوئی خاص آیا نہیں مہرانگیز نے یہاں پہنچ کر منہ بنایا.
مسکان اور مناہل ابھی پارلر تھیں. بارات آنے میں کافی دیر تھی. البتہ لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ دار آنا شروع ہوگئے تھے.
سیما آنٹی نے اندر کچھ سامان رکھنے کو دیا تھا…
مہرانگیز وہ رکھ کر واپس آ رہی تھی جب راہداری سے اندر آتا سجاول تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آیا.
سجاول کی اس حرکت پہ مہر انگیز اچھی خاصی حواس باختہ ہوگئی.
،، تم نے وہ سوٹ کیوں نہیں پہنا جو امی نے دیا تھا؟،، اس نے غصے سے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا.
مہرانگیز کو سمجھ نہیں آئی کہ اس بات کا کیا مطلب ہے.
،، تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے میری مرضی میں جو بھی پہنوں.،،
،، تمہیں معلوم ہے یہاں پر کس قسم کے گیسٹ آنے والے ہیں ہماری ناک کٹوانے کے لیے یہ عام ساسوٹ پہن کر آگئی ہو.،،
غصہ تو سجاول کو اس بات پہ آیا ہوا تھا کہ مسکان کے بتانے پر اس بیوقوف نے میری پسند کی وجہ سے اتنا اچھا سوٹ نہ پہن کر برباد کر دیا ہے.
،، اگر ناک اتنی ہی عزیز ہے تو ہمیں بلایا کیوں تھا؟ یہ تو میں مناہل آپی کی وجہ سے آئی ہوں ورنہ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم جیسوں کے منہ لگنے کا.،،
،، غلطی ہوگئی جو بلا لیا…اپنی شادی پر تو میں مر کے بھی نہیں بلاؤں گا خاص طور پر تمہیں!!! ،،
وہ انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا.
،، ویسے بھی کیا فائدہ ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کا جنہیں دیکھ کر افسوس ہو کہ اس سے اچھی حالت میں تو ہمارے ملازم ہیں.،،
زہریلی نظروں سے گھورتے ہوئے وہ تیزی سے باہر نکل گیا.
پتا نہیں اس نے چڑانے کے لیے کہا تھا یا پھر واقعی اسے غصہ آیا ہوا تھا، مگر وہ باتیں سیدھی مہرانگیز کے دل پہ جا کے لگی تھی. وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کے روتے ہوئے باہر نکلی.
لاؤنج میں اس کی چادر رکھی ہوئی تھی وہ اٹھا کر اسی وقت وہ گھر جانے کے ارادے سے باہر آئی.
پچپن سے لیکر آج تک جب بھی اس کا سامنا سجاول سے ہوتا تھا… وہ ہمیشہ آنسو دے کے جاتا تھا آج بھی اس نے وہی کچھ کیا تھا.
وہ امی کو بتانے کےلیے آئی تھی کہ وہ سعد کے ساتھ واپس گھر جا رہی ہے جب شیراز انکل کی تیز آواز گونجی.
،،سیما کمرے میں میرا چیک رکھا ہوا تھا وہ کہاں ہے؟،،
،،ہوگا وہیں کہیں پھر سے دیکھ لیں.،، وہ شاید مصروف تھیں.
،،سو بار دیکھ چکا ہوں کہیں نہیں مل رہا.،،
چنگھاڑتا ہوا لہجہ تھا.
سیما سب کام چھوڑ کر تیزی سے ان کی طرف لپکیں. کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ غصے کے کتنے تیز تھے. باقی سب نامحسوس انداز میں اس طرف متوجہ ہو گئے تھے.
،،اس لڑکی سے پوچھو ابھی میرے کمرے سے نکل رہی تھی.،،
سجاول کے جانے کے بعد کمرے سے اسے نکلتے ہوئے شاید شیراز انکل نے دیکھ لیاتھا.
سیما آنٹی جو اندر جا رہی تھیں ٹھٹھک کر رک گئیں. انھوں نے بے یقینی سے نے اپنے شوہر کو دیکھا.
مہر انگیز تو جہاں تھی اپنی جگہ پہ ساکت رہ گئی تھی.
،،اپنے گھر کی بچی ہے کیسی بات کر رہے ہیں آپ!!!،،
ان کا لہجہ ایسا تھا کہ جیسے کہہ رہی ہوں کہ خدا کےلیے خاموش ہو جائیں.
مگر شیراز انکل اس وقت آپے سے باہر نظر آرہےتھے.
،، پانچ لاکھ کا چیک تھا ایسے کیسے جانے دوں. پہلے پوچھو تو سہی کہ یہ میرے کمرے میں کر کیا رہی تھی. ایک تو سمجھ نہیں آتی سیما بیگم ان دو ٹکے کے لوگوں کو بلانے کی کیا تک تھی. مجھے پورا یقین ہے چیک اس لڑکی نے اٹھایا ہے.،،
وہ براہ راست مہرانگیز کی طرف ہاتھ اٹھا کے بولے.
اس وقت شادی والے گھر میں موت سی خاموشی چھائی ہوئی تھی ہر کوئی دم سادھے یا تو شیراز انکل کو دیکھ رہا تھا یا پھر برف بنی مہرانگیز کو!!!
،،اللہ کا واسطہ ہے شیراز صاحب بس کریں.،، سیما آنٹی ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے بولیں.
،،مختیاراں کہاں مر گئی.،، وہ گلا پھاڑ کر چلائے مختیاراں گھبرائی ہوئی تیزی سے سامنے آئی.
،،تلاشی لے اس لڑکی کی ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے!!!
فرعونیت بھرے لہجے میں حکم دیا گیا.
اس سے پہلے کہ مختیاراں آگے بڑھ کر اس کی تلاشی لیتی پتا نہیں کون تھا جس نے آکر کہا کہ وہ چیک تو سجاول اٹھا کے بنک گیا ہوا ہے.
آپ ہی نے تو اسے پیسے نکلوانے کے لیے بھیجا تھا. جہاں چیک ملنے پر ہر کسی نے سکون کا سانس لیا تھا وہیں مہرانگیز کی گردن میں ایسا پھندا پھنس گیا تھا کہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ بول یا محسوس نہیں کر پا رہی تھی.
وردہ بیگم نے خاموشی سے اٹھ کر بیٹی کا ہاتھ تھاما اور اسی وقت ہمیشہ کے لیے پچپن کی سہیلی کے گھر کو الوداع کہہ دیا.
ان کے جانے کے بعد سیما آنٹی کی آنکھ میں چپکے سے ایک آنسو نکلا…. پچھلی رات انھوں نے مناہل کی شادی کے بعد سجاول کا رشتہ مہرانگیز کے ساتھ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.
اس وقت شیراز قریشی خاموش ہو گئے تھے مگر آج مہرانگیز کی تذلیل کرکے ایسا بھرپور انکار کیا تھا کہ اب اگر سجاول بھی ان کے سامنے ضد پہ آجاتا تو بھی کوئی اس رشتے کےلیے ہاں نہیں کرنے والا تھا. شیراز صاحب کاروباری بندے تھے اور انھوں نے اپنے طریقے سے سیما کی خواہش کا گلا گھونٹا تھا.
سیما آنٹی نے آنکھ سے لڑھکتے اس اکلوتے آنسو کو انگلی کی مدد سے صاف کیا…بارات آنے والی تھی مزید کوئی ایشو بنانے کی بجائے سب کی طرف معذرت بھری مسکراہٹ ڈال کے یوں مصروف ہوگئیں جیسے کچھ خاص نہ ہوا ہو.
بڑے لوگوں کے بڑے مسائل!!!
اس واقعے کے بعد ایک آنسو بھی مہرانگیز کی آنکھوں سے نہیں نکلا تھا. وہ بالکل خاموش ہوگئیں تھیں جیسے سکتے کی کیفیت میں ہوں. اس کی نیند بالکل ختم ہو گئی تھی. امی زبردستی نیند کی گولیاں کھلا کے سلا دیتی تو وہ سو جاتی ورنہ کتنا دن کتنی راتیں اس کی انگاروں پہ لوٹتے گہرے صدمے میں گزری تھیں۔
بعد میں اس واقع پر جو خاندان بھر میں تبصرے کیے گئے سو کیے گئے مگر کچھ عرصے بعد مہرانگیز کو ٹی وی پر دیکھ کر ہر کوئی اپنی جگہ پہ ساکت رہ گیا تھا.
وردہ آنٹی جو مہرانگیز کو ہاف بازو تک نہیں پہننے
دیتی تھی.اب پینٹ شرٹ پہن کر سر عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی پرینک شو کر رہی تھی.کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھا کہ یہ وہی معصوم سی بھولی بھالی مہرانگیز ہے.
کچھ تکلیف دہ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی ہماری زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں… پھر بھلے آپ باقی زندگی ان کو یاد کرکے خود تکلیف دیتے رہیں یا پھر نظرانداز کرکے آگے بڑھ جائیں.
سجاول سے ملنے کے بعد پرانے زخم پھر سے تازہ ہوگئے تھے.
گھر پہنچ کرکے بھی اس کے اندر کا ابال کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا.
نہ چاہتے ہوئے بھی سوچیں بار بار بھٹک کے اس واقعے کی طرف چلی جاتیں جنہیں یاد کرکے ہر بار تکلیف ایک نئے سرے سے محسوس ہوتی تھی.
جتنی شدید نفرت وہ ان لوگوں سے کرتی تھی اس کے سامنے اس وقت میر شہزاد کی نفرت ہیج نظر آ رہی تھی.
شروع سے لیکر آج تک وہ اس کا تماشا ہی بناتے آئے تھے. اب سجاول کے اس گھٹیا پروپوزل نے اسے ایک اٹل فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا.
دوسرے دن وہ نارمل تھی ایسے جیسے پچھلی رات اس کی زندگی میں کوئی طوفان نہ آیا ہو.
،، امی آج میں چھٹی کر رہی ہوں. آپ کب سے کہہ رہی تھی ناں کہ جیولر کے پاس چلنا ہے.،،
ناشتے کے بعد مہرانگیز نے یہ بات کہی تو امی نے بے یقینی سے اسے دیکھا.
،، بلکہ میں سوچ رہی ہوں اب شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں مزید چھٹیاں لے لوں تاکہ باقی بچی ہوئی شاپنگ مکمل کرلیں…،،
وہ اپنی رو میں کہتی جا رہی تھی کہ وردہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا.
،،اللہ تمہارا نصیب بہت اچھا کرے میری بچی!!! ،، وہ نمناک لہجے میں اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں.
شازیہ میر نے جب ایم این اے کی سیٹ کےلیے فیاض ماموں کے بیٹے وجاہت درانی کو مسترد تو چند لمحے تک وہ کچھ بول نہ سکے.
،، جیسے آپ بہتر سمجھیں.،، لمبی خاموشی کے بعد وہ مختصر بولے.
شازیہ میر ماں کو ملنے ان کے کمرے میں گئی تو چپکے سے ان کی دوائیوں کی تصاویر بھی کھینچ لی تھیں.
فیاض ماموں اسے روانہ کرنے کےلیے دروازے تک آئے تھے بظاہر انھوں نے کوئی بات تو نہیں کی مگر وہ کچھ الجھے الجھے اور پریشان لگ رہے تھے.
،، ہیلو ڈاکٹر اشتیاق صاحب!!!
جی میں شازیہ میر آپ اس وقت فری ہوں گے. میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں ابھی اسی وقت!!!،، شازیہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈاکٹر کو فون کیا.
،، ڈرائیور گاڑی گھر کی بجائے ڈاکٹر اشتیاق احمد کے کلینک لے چلو.،، انھوں نے فون بند کر کے ڈرائیور کو ہدایت دی.
اس کے کچھ عرصے بعد!!!
شازیہ میر اپنے گھر کے وسیع و عریض لان میں چئیر پر بیٹھی چائے کے ساتھ موبائل پہ مصروف تھیں. ڈھلتے سورج کی زرد روشنی پھولوں اور پودوں پر بکھری ہوئی ماحول کو مزید دلکش بنا رہی تھی. اکثر شام کی چائے وہ یہیں بیٹھ کر پیتی تھیں.
اس دوران ملازم نے اطلاع دی کہ کوئی میر شہزاد آپ سے ملنا چاہتا ہے.
میر شہزاد کا نام سن کر وہ چونکی…
،،ٹھیک ہے اسے یہاں لے آؤ اور مہرالنساء سے چائے لانے کا بھی کہہ دو.،،
وہ سیدھی ہوکر بیٹھتے ہوئے بولی.
اس وقت میر شہزاد نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بازو تھوڑے سے فولڈ کر رکھے تھے جبکہ پاؤں میں کالے رنگ کی چپل تھی.
آج اس کے بال بھی سلیقے سے سنورے ہوئے تھے. وہ وقار اور تمکنت سے چلتا ہوا سیدھا شازیہ میر کی طرف آیا.
اسے دیکھ کر واقعی شازیہ میر کو خوشگوار حیرت محسوس ہو رہی تھی. وہ اس کے استقبال کےلیے فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں.
،، پلیز.،،
کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے میر شہزاد کو بیٹھنے کا اشارہ کیا.
،،مجھے یقین نہیں آ رہا میر شہزاد تم میرے گھر آئے ہو.،،
اس کے بیٹھتے ہی شازیہ میر نے اپنی کیفیت کا برملا اظہار کر دیا.
میر شہزاد ہلکے سے مسکرایا…
،،جیل میں رہ کر مجھے خونی رشتوں کی اہمیت کا شدت سے اندازہ ہوا. ماں کے بعد ایک یہی رشتہ میرے پاس بچا ہے اور میں اب آپ کو کھونا نہیں چاہتا.،،
یہ سچ ہے ساجدہ بیگم اور فیاض ماموں نے آمنہ بیگم اور میر شہزاد کے ساتھ بہت زیادہ زیادتیاں کی تھیں.
شازیہ میر کو ہمیشہ میر شہزاد سے دلی ہمدردی محسوس ہوتی تھی مگر ان کے درمیان اتنے زیادہ فاصلے آگئے تھے کہ چاہ کر بھی وہ ان فاصلوں کو مٹا نہیں سکتی تھی.
،،اس وقت مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میرا کھویا ہوا بھائی واپس مل گیا ہو…،، شازیہ میر جذباتی ہو کر بولی.
،،میں آپ کو اپنی شادی کے لئے بلانے آیا ہوں میری خواہش ہے کہ زندگی کے اس خاص موقع پر آپ بھی شامل ہوں.،،
میر شہزاد نے اپنی شادی کا کارڈ آگے بڑھاتے ہوئے کہا.
،،ارے واہ بھئی ابھی تمہیں جیل سے نکلے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور تم نے دلہن بھی ڈھونڈ لی.،،
وہ خوشی سے کارڈ کو دیکھ کر محفوظ ہوکر بولیں.
،،اصل میں دلہن پہلے کی ڈھونڈی ہوئی تھی.،،
وہ قدرے جھنپ کے بولا. .
،،اچھا واقعی اور اتنا عرصہ جیل میں جانے کے بعد وہ تمہارے انتظار میں بیٹھی رہی؟،،
شازیہ میر کو اچھی خاصی حیرت ہوئی.
،،وہ ہمارا نکاح ہوا ہوا تھا.،،
اب یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ نکاح ہوا کیسے تھا.
،،اگر تم دس سال باہر نہ آتے تو….؟؟؟،،
،، تو ظاہری بات ہے اسے انتظار کرنا پڑتا.،،
پاؤں جھلاتے ہوئے بے نیازی سے کہا گیا.
اس وقت میر شہزاد کے سامنے مہرانگیز کا وہ چہرہ گھوم رہا تھا جب اچانک اپنے گھر میر شہزاد کو دیکھ کر وہ بے تحاشا خوفزدہ ہوگئی تھی. اور وہ شفاف خوفزدہ آنکھیں واللہ کسی کو بھی پاگل کر دینے والی تھیں!!!
میر شہزاد اور مہرانگیز کے جڑتے اس نئے رشتے کی کہانی اگلی قسط میں انشاءاللہ!!!
جاری ہے….
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول