Barish K Bad Urdu Novel | Episode 16 | بارش کے بعد اردو ناول
اس دوران ملازمہ چائے کے ساتھ دوسری لوازمات لے کر آگئی.
،،آپ کے ہسبنڈ نظر نہیں آ رہے ورنہ اسے بذات خود بلا لیتا تواچھا رہتا.،،
میر شہزاد نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے پوچھا.
،،ان کی آجکل سندھ میں پوسٹنگ ہے. مہینے میں ایک آدھ چکر لگتا ہے. میں انھیں کہہ دوں گی البتہ کنفرم نہیں کرسکتی کہ وہ آ پائیں گے یا نہیں؟،،
چائے کے بعد میر شہزاد جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا… شازیہ میر نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ آج شام کا کھانا ان کے ساتھ کھائے مگر اسے جلدی تھی اس لیے معذرت کرکے چلا آیا.
،،ایک اور بات بھی کلئیر کرنی تھی.،،
جاتے وقت میر شہزاد نے شازیہ میر کو مخاطب کرکے کہا.
،،اس دن فیاض پٹواری کے بارے میں میں نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ صرف میرا شک تھا. اس وقت مجھے یہی بہتر لگا تھا کہ جو چیز میں اپنے لیے محسوس کر رہا ہوں آپ کو بھی خبردار کر دوں…
مگر بعد میں چھان بین کروانے پر معلوم ہوا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے.
آپ کے چونکہ وہ ماموں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے آپ کسی غلط فہمی میں رہیں.،،
،،فکر نہ کرو مجھے تمہاری نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ہے.،،
جواباً شازیہ میر نے جواباً اطمینان سے کہا.
میر شہزاد کی آمد شازیہ میر کےلیے ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند تھی. اس کے نین و نقوش میر فرہاد (شازیہ میر کا چھوٹا بھائی)سے کافی ملتے تھے. میر فرہاد کا خیال آتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھی تھی…
آہ!!!
بہت ہی معصوم اور بے ضرر اس کا چھوٹا بھائی… ساجدہ بیگم نے پڑھائی کے سلسلے میں اسے بیرون ملک بھیج دیا تھا. وہ زیادہ تر وہ وہیں پلا بڑھا تھا. پچیس چھبیس سال کا وہ بھرپور نوجوان جسے سیاست کے نام سے چڑ تھی…وہ زندگی کو اپنے طریقے سے جینا چاہتا تھا.
آج سے پانچ سال پہلے گاڑی میں کسی نے چھ گولیاں مار کر اسے بیدردی سے قتل کر دیا تھا.
ساجدہ بیگم اکلوتے جوان بیٹے کی یوں اچانک موت پر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھیں.
شازیہ میر نے بہت زیادہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کو ڈھونڈ سکے.
مگر آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل پایا تھا. حالانکہ وہ خود شہر کی نامور وکیل تھی اس کا شوہر ہمایوں لغاری پولیس میں ایس ایس پی کے عہدے پر فائز تھا مگر قتل اتنی پلاننگ سے کیا گیا تھا کہ قاتلوں تک پہنچنے والے ہر راستے بند ہوجاتے تھے.
ان دنوں اس کے شوہر نے دبے دبے لفظوں میں فیاض پٹواری پر شک کا اظہار کیا تھا مگر شازیہ میر کو یہ بات بہت زیادہ ناگوار گزری تھی اور اس نے سختی سے نہ صرف اس بات کی تردید کی تھی بلکہ ماموں پر شک کرنے کی وجہ سے اچھی خاصی ناراض بھی ہوگئی تھی.
اس کے بعد اس کے شوہر نے اس ٹاپک پر دوبارہ کوئی بات نہیں کی تھی. بعد میں ان کا دوسرے شہر تبادلہ ہوگیا اور تفشیش وہیں کی وہیں رہ گئی تھی.
مگر اتنے عرصے بعد جیل سے نکل کر میر شہزاد نے جب کچھ اس قسم کے خدشے کا اظہار کیا تو شازیہ میر کتنی دیر کچھ بول نہ سکی.
کیا واقعی فیاض ماموں اس قدر گر سکتے ہیں؟ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس رخ پر سوچنے پر مجبور ہوگئی تھیں.
میر شہزاد کہہ بھی تو ٹھیک رہا تھا میر فرہاد کے بعد اسے جیل بھیج دیا گیا تھا.
ساجدہ بیگم تو کسی کھاتے میں نہیں رہی تھیں. ان سب کا فائدہ فیاض ماموں کو ہی پہنچ رہا تھا.
ادھر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ساجدہ بیگم کی دوائیاں دیکھ کر ایک اور انکشاف کیا تھا کہ ان دوائیوں سے دماغی حالت ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ رہی ہے. اس دن شازیہ میر کی آنکھیں حقیقت میں کھلی تھیں.
اب اگر میر شہزاد آکے کہہ رہا تھا کہ فیاض پٹواری کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے…. تعلق ہو نہ ہو مگر اب وہ اپنی آنکھیں بند کرنا نہیں چاہتی تھیں.
شازیہ میر کے گھر سے ہوکر میر شہزاد سیدھا مہرانگیز کے گھر پہنچا.
جلدی میں وہ اپنے آنے کی اطلاع فون پر نہیں دے پایا تھا.
مہر انگیز بیڈ پر آنکھیں موندے آدھی سوئی آدھی جاگ رہی تھی. جب عباد ہڑبڑایا سا اس کے کمرے میں داخل ہوا.
،،اپو جلدی سے اٹھیں میر شہزاد آیا ہوا ہے.،،
اتنا جھٹکا تو اسے کرنٹ سے نہیں لگتا جتنا میر شہزاد کا سن کر لگا تھا.
وہ تقریباً بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوگئی.
،، وہ کیا کرنے آیا ہے؟،،
عباد سے زیادہ پریشان وہ خود ہو گئی تھی.
،، پتا نہیں…اس نے امی اور سعد بھائی کے بارے میں پوچھا…تو میں نے کہا کہ وہ بازار گئے ہوئے ہیں…پھر اس نے آپ کا پوچھا؟،،
،، اور تم نے کیا کہا…؟،،
،،میں نے کہا اپو سو رہی ہیں. تو اس نے کہا جاکر اسے اٹھا کر بلا آؤ کوئی ضروری بات کرنی ہے.،،
،،تم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے تھے کہ مہرانگیز بھی ان کے ساتھ بازار گئی ہوئی ہے…،،
وہ تقریباً رونے کے قریب جاکر بولی.
،،اب میں کیا کروں؟،،
،،جاکر کہو مہرانگیز نے آنے سے منع کر دیا ہے. جو بات کرنی ہے تم سے کرے.،،
عباد تابعداری سے اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا. اس کے جانے کے بعد اس نے فوراً امی کو فون کیا.
،،کہاں ہیں آپ؟؟؟،،
،،بازار ہیں اور کہاں…،،
،، میر شہزاد آیا بیٹھا ہے…. اسے کوئی ضروری بات کرنی ہے.،،
میر شہزاد کا نام منہ پہ لاتے ہوئے اسے حلق تک کرواہٹ محسوس ہوئی تھی.
،،ٹھیک ہے اسے بٹھاؤ، چائے وغیرہ کا پوچھو ہم بس روانہ ہو رہے ہیں…پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جائیں گے.،،
امی نے عجلت میں کہا.
،،ہونہہ چائے کہیں پلا ہی نہ دوں.،، مہرانگیز نے سر جھٹک کر فون بند کر دیا.
،،وہ آپ اپو سے بات نہیں کرسکتے جو بات کرنی ہے مجھ سے کریں.،،
عباد نے جاکر قدرے رعب والا انداز اپناتے ہوئے کہا.
،،کیوں مہرانگیز سے کیوں بات نہیں ہوسکتی؟،،
میر شہزاد نے حیرت سے بھنویں اچکائیں.
،،ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکیاں سامنے نہیں آتیں….،،
واہ کیا منطق نکال کے لایا تھا.
،،ٹھیک ہے پھر میں آنٹی اور سعد کا ویٹ کر لیتا ہوں.،،
میر شہزاد آرام سے صوفے کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے بولا.
عباد اسے دیکھ کر اچھا خاصا ہڑبڑایا ہوا لگ رہا تھا… خاص طور پر مہرانگیز سے کمرے سے نکل کر وہ مزید پریشان لگ رہا تھا.
میر شہزاد کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں آکر اس قسم کی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جائے گی.
،،اچھا تو محترمہ میرا سامنا نہیں کرنا چاہتی… میں بھی دیکھتا ہوں کیسے چھپتی ہو مجھ سے…،،
میر شہزاد نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے سوچا.
،،یار جب تک وہ لوگ نہیں آتے کوئی چائے وغیرہ ہی پلا دو….،،
چائے کا اس نے جان بوجھ کر کہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کچن دوسری طرف ہے… چائے بنانے کے لیے مہرانگیز کو لازمی اپنے کمرے سے نکل کر یہاں ہال سے گزر کر جانا پڑتا.
،،اپو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ چائے نہیں بنا سکتیں.،، سنجیدگی سے جواب دیا گیا.
،، چلو کوئی بوتل ہی پلا دو….،،
(شاید اس بہانے وہ یہاں سے چلا جائے) میر شہزاد نے ایک اور تیر چلایا.
،،امی اور سعد بھائی آجائیں تو بوتل بھی لے آؤں گا.،،
وہ بھی مہرانگیز کا بھائی تھا…
ابے سالے ایک بار شادی ہو جانے دے پھر دیکھتا ہوں کیسے بہن کی چوکیداری کرتا ہے!!! میر شہزاد نے دانت پیستے ہوئے سوچا.
،،ایک گلاس پانی کا مل جائے گا دل بیٹھا جا رہا ہے میرا…،،
کچھ دیر بعد میر شہزاد کی ڈوبی ہوئی آواز نکلی.
عباد نے اٹھ کر اسے ایک گلاس پانی کا تھما دیا.
خدا خدا کر کے وردہ آنٹی اور سعد آئے…
میر شہزاد انھیں مہرانگیز کے کپڑوں اور زیور وغیرہ کے پیسے دینے آیا تھا کیونکہ ایک تو اسے ان سب چیزوں کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا کہ کیا کچھ دیا جاتا ہے. دوسرا اس طرح مہرانگیز اپنی پسند کی ہر چیز خرید سکتی کیونکہ بعد میں پہننا تو اس نے تھا.
وردہ آنٹی بار بار پیسے لینے سے انکار کرتی رہیں کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ بجائے پیسے دینے کے وہ لوگ خود بری بنا کے لائیں.
مگر میر شہزاد نے اپنی مصروفیت اور دوسری وجوہات بتا کر جیسے تیسے کرکے انھیں راضی کرلیا.
اس کے علاوہ وہ ولیمے کے کارڈ بھی لیکر آیا تھا.تاکہ وہ لوگ اپنے جن رشتہ داروں کو بلانا چاہیں ولیمے کے کارڈ میر شہزاد کی طرف سے انھیں دے دیں.
باتوں باتوں میں نظر بچا کر وہ مہرانگیز کے کمرے کو بھی دیکھ لیتا تھا…. شاید وہ کہیں سے نظر آ جائے مگر…
عباد اس دوران اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتا رہا.اس کی خونخوار نگاہیں مسلسل میر شہزاد کا پیچھا کرتی رہیں.
بمشکل خود پر کنٹرول کرتے ہوئے وہ وہاں سے روانہ ہوا. اس موٹے سے تو میں بعد میں نمٹ لوں گا… حد ہوگئی یار نکاح ہوا ہے شادی کر رہا ہوں وہ سالا دیکھ تو ایسے رہا تھا جیسے اس کی بہن کو بھگا کے لے جا رہا ہوں میر شہزاد باہر نکل کر بڑبڑایا.
اصل تجسس تو اسے مہرانگیز کو دیکھنے کا تھا.
اس نے شادی کےلیے ہاں تو کردی تھی… مگر اس کے بعد کیا اب بھی وہ اس سے نفرت کرتی تھی یا پھر اس نے اب اپنی سوچ تبدیل کرلی تھی.
مگر وہ تو بالکل سامنے ہی نہیں آئی تھی. اس کے تاثرات جانے بغیر میر شہزاد مزید الجھ کر واپس آگیا.
عمران نے میر شہزاد کے جیل میں جانے کے بعد پٹرول پمپس کے سارے ٹھیکے آگے بیچ دیے تھے. اس کے گھر کی وہ اشیاء جو اتنا عرصہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوسکتی تھیں وہ ساری بیچ کے پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیے تھے. ایسے جیسے اسے پورا یقین ہو کہ میر شہزاد دس سال جیل سے باہر نہیں آئے گا.
مقدمات سے فارغ ہونے کے بعد سب سے پہلے اس نے اپنے ذاتی غازی پمپ کو پھر سے رینیو کروایا کیونکہ اتنا عرصہ بند رہنے کی وجہ سےاس کی تقریباً ہر چیز ختم ہوئی پڑی تھی. اسی پمپ سے ملحقہ زمین میر شہزاد نے ان دنوں سستے داموں خریدی تھی. اب نہ صرف پمپ کے اردگرد مزید پٹرول پمپس کھل گئے تھے بلکہ کئی نئی عمارتیں اور پلازے بھی بن چکے تھے. شہر سے قدرے ہٹ کر وہ جگہ اب ایک گنجان تجارتی علاقے میں تبدیل ہو چکی تھی.
غازی پمپ کو دوبارہ کھول کر اس کا ارادہ اس کے ساتھ ایک اچھا اور مہنگا ریسٹورنٹ بنانے کا تھا. اس مقصد کے لیے اس نے اپنا گھر، اور ہر وہ چیز جو کچھ بھی قیمت دے سکتی تھی بیچ کر سارا سرمایہ ریسٹورنٹ بنانے میں لگا دیا.
شادی کے دن قریب آ رہے تھے… پمپ کا کام تقریباً فائنل تھا. ریسٹورنٹ کا نقشہ بن چکا تھا اب بنیادیں ڈالی جا رہی تھیں.
رہائش کےلیے اس نے کرائے کا گھر لیکر شفٹنگ وغیرہ بھی کر لی تھی.
شادی سے دو تین دن پہلے وہ سلمیٰ خالہ کے گھر انھیں لینے گیا.
جیل سے نکل کر اس نے کتنی بار ان سے ملنے کی کوشش کی تھی مگر اتفاق ایسا بنتا کہ وہ گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں.
آج بیل بجانے پر دروازہ انھوں نے خود کھولا اتنے عرصے بعد اپنے سامنے میر شہزاد کو دیکھ کر وہ اپنے جذبات پہ قابو پا نہ سکیں اور زاروقطار رونے لگیں. کتنی دیر کندھے سے لگائے میر شہزاد انھیں تسلیاں دیتا رہا.
سلمیٰ خالہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی ہوگئیں تھیں. اس کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے.
بڑی بیٹی کی شادی کب سے کر چکیں تھیں جبکہ چھوٹی کی شادی میر شہزاد کے جیل میں جانے کے بعد کی تھی.
عمران کا بھائی کاشان جو سب سے چھوٹا تھا اس وقت میٹرک کر رہا تھا مگر بھائی کی وفات کے بعد پڑھائی چھوڑ کر پرائیویٹ جاب کرنا شروع کردی تھی.
،،میرا بیٹا عمران ایسا نہیں تھا. اگر عمران کی وجہ سے تمہیں جیل جانا پڑا تو اس کی جگہ میں معافی مانگتی ہوں تم اسے معاف کر دو…،،
وہ میر شہزاد کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولیں.
،، خالہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ!!!
عمران میرا بھائی تھا میں اس سے ناراض نہیں ہوں جس طرح مجھے بےگناہ جیل بھیج کر پھنسایا گیا ویسے عمران کو بھی استعمال کیا گیا. میں جانتا ہوں عمران مر کے بھی مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا. یہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں اس سے ناراض ہوں!!!،،
میر شہزاد ان کے بوڑھے ہاتھ تھام کر کتنی دیر تسلیاں دیتا رہا.
وہ آیا تو انھیں اپنے ساتھ لینے تھا تاکہ شادی پر ماں کی کمی وہ آکر پوری کریں مگر جب اس نے ساتھ چلنے کو کہا تو ان کے چہرے پر عجیب سا خوف چھا گیا.وہ بالکل خاموش ہوگئیں… ان کی اس پر اسرار خاموشی کو میر شہزاد نے بھی محسوس کیا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Episode 17?
اپلوڈ کردی ہے۔
Episode 17nae ai
سدرہ نئی ایپسوڈ اپلوڈ کردی ہے امید ہے آپ کو پسند آئے گی۔
Aj ki episode nae ai
نئی ایپسوڈ اپلوڈ کردی ہے🙏