Barish K Bad Urdu Novel | Episode 17 | بارش کے بعد اردو ناول
کچھ دیر تک وہ سلمیٰ خالہ کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر جب انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا تو میر شہزاد نے زیادہ اصرار نہیں کیا.
،،خالہ یہ کارڈ شہناز اور مہناز (سلمیٰ خالہ کی بیٹیاں) کو دیجئے گا.،،
وہ کارڈ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا.
انھوں نے کارڈ لیکر ایک طرف خاموشی سے رکھ دیے.
کارڈ دیکر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا… اسے روانہ کرنے سلمیٰ خالہ دروازے تک آئیں.
،،میر شہزاد تم مجھے عمران کی طرح عزیز ہو میں تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتی مگر اب ہم تم سے مذید کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتے.،،
وہ کرب سے آنکھیں بند کر کے بولی.
،،سلمیٰ خالہ آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی؟؟؟
آپ جانتی ہیں ماں کے بعد میرا اس دنیا میں آپ کے سوا اور کوئی نہیں ہے….،، میر شہزاد تڑپ کر بولا.
،،میر شہزاد ایک بیٹا پہلے کھو چکی ہوں مگر دوسرا کھونے کا حوصلہ مجھ بدنصیب میں اب نہیں ہے.،،
جس درد اور تکلیف سے انھوں نے یہ بات کہی میر شہزاد اپنی جگہ پہ ساکت رہ گیا.
،،آپ یقیناً کچھ مجھ سے چھپا رہی ہیں؟ پلیز جو کچھ بھی آپ کو معلوم ہے مجھے بتائیں.،، وہ شدت سے بولا.
مگر انھوں نے کوئی جواب دیے بغیر دروازہ بند کر دیا.
میر شہزاد کتنی دیر دروازہ بجاتا رہا مگر دوسری طرف خالہ کی سسکیوں کی آوازیں آتی رہیں.
اس شام شازیہ میر بچوں کو کمرے میں لیجا کر ملازموں کو گھر کی ساری کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے کا کہہ رہی تھی…
مغرب کی طرف سے اٹھنے والی گرد بہت خطرناک طوفان کا پتا دے رہی تھی.
عجیب سی گھبراہٹ اور بے چینی ہر کسی کو محسوس ہو رہی تھی.
،، امی لگتا ہے آج کوئی طوفان آنے والا ہے.،، مہرانگیز نے باہر نکل کر کہا.
،،اللہ اپنا رحم کرے،، وردہ بیگم نے آسمان کی طرف نظریں دوڑاتے ہوئے فکرمندی سے کہا.
دیکھتے ہی دیکھتے گہرا اندھیرا چھا گیا… شدید آندھی کے ساتھ بادلوں اور بجلی کی گرج چمک آنکھوں کو خیرہ کئے جا رہی تھی.
( عجیب اتفاق یہ ہے کہ جس طرح کے طوفان کا نقشہ میں نے ابھی کھینچا ہے جس دن یہ میں نے لکھا تھا شام کو بالکل اچانک ایسی شدید آندھی اور بارش حقیقت میں بھی آئی تھی)
سلمیٰ خالہ باہر کے موسم سے بے نیاز شدت غم سے نڈھال تھیں. بار بار میر شہزاد کا غمزدہ چہرہ سامنے آجاتا… تو وہ تڑپ کے اٹھ کر بیٹھ جاتیں…
آج انھوں عمران کے ساتھ میر شہزاد کو بھی کھو دیا تھا وہ اسے اپنے بچوں کی طرح عزیز تھا. مگر کبھی کبھی انسان اس قدر بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنے زخم مرہم رکھنے والوں سے بھی چھپانے پڑ جاتے ہیں
آہ!!! وہ زخم سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں.
میر شہزاد بہت پریشانی کے عالم میں گھر لوٹا تھا…
عمران کی موت اس کی وجہ سے ہوئی تھی یہ خیال اس کی جان نکالنے سے زیادہ سنگین تھا، وہ نہیں جانتا تھا کہ جیل جانے کے بعد پیچھے کیا ہوا تھا عمران کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا تھا؟؟؟
مگر یہ تو طے تھا کہ اس کی وجہ سے کچھ ایسا ضرور ہوا تھا جس کی وجہ سے سلمیٰ خالہ اتنی زیادہ خوفزدہ تھیں.انتہائی سرتوڑ کوششوں کے باوجود ابھی تک وہ اصل حقیقت تک پہنچ نہیں پایا تھا.
یہ بے بسی کی انتہا تھی!!!
باہر بجلی شدت سے چمک رہی تھی بادلوں کے گرجنے کی آوازیں ماحول کو مزید غمزدہ بنا رہی تھیں.
کچھ دن بعد اس کی شادی اور نئی زندگی کی شروعات ہونے والی تھی.
مگر وہ بالکل تنہا تھا. ماں کے بعد عمران اور اس کے گھر والوں نے اسے کبھی اکیلا ہونے کا احساس نہیں دلایا تھا. آج سلمیٰ خالہ کے گھر سے ہوکر عمران بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا. ہر مشکل وقت میں وہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا. پچپن سے لیکر آج تک بیتائے ایک ایک پل زخمی یادیں بن کر اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے.
شدید طوفان کے بعد رات کے بارہ بجے موسلادھار بارش جو شروع ہوئی پھر اس نے رکنے کا نام نہیں لیا. شازیہ میر انجانے احساس کے ساتھ بار بار نیند سے جاگ جاتی تھیں.
دو بجے کے قریب وہ کمرے سے نکل کر لونگ روم میں آگئیں. راکنگ چیئر پر اپنے شوہر ہمایوں لغاری کو جھولتے دیکھ کر بے یقینی کے عالم میں ٹھٹھک کر وہیں رک گئیں.
وہ آنکھیں بند کیے مسلسل جھول رہا تھا. اس کے چہرے پر اضطراب تھا.
،، آپ کب آئے؟،،
شازیہ میر نے حیرت سے پوچھا.
ایک گھنٹہ پہلے وہ آنکھیں کھولے بغیر بولا.
،،یوں اچانک سب خیریت تو ہے؟،،
وہ فکر مندی سے بولیں.
،، تم جانتی ہو میں ہمیشہ اپنے مسائل خود سولو کرتا آیا ہوں… تمہیں بتا کر ڈسٹرب کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا. تم جاکر آرام کرو اگر مسئلہ ہے بھی تو میں خود اسے ہینڈل کر لوں گا.،،
شازیہ میر خاموشی سے واپس چلی گئیں.
کیونکہ وہ شروع سے ایسا تھا بڑے سے بڑے کرائسز سے گزر کر اس کا چہرہ ہمیشہ پرسکون اور بےتاثر رہتا تھا…کچھ اس کی جاب کا بھی یہی تقاضا تھا.
قتل، پولیس مقابلے، مار دھاڑ ،سیاسی دباؤ اس طرح کے کئی ہزار مسائل روزانہ کی بنیاد پر ہوتے تھے. شازیہ میر ان تمام عوامل کو اچھی طرح سمجھتی تھی.
دوسرے دن کی صبح بہت خوشگوار تھی.
شازیہ میر کچن میں ملازمہ کے ہمراہ بہت اہتمام سے ناشتہ تیار کروا رہی تھیں. کیونکہ بہت دنوں بعد اس کا شوہر گھر آیا تھا. اس لیے ناشتے میں وہ کوئی کمی پیشی نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں.
،،یہ کارڈ کس کا ہے؟،،
شازیہ میر ڈائننگ ٹیبل پر کھانا رکھ رہی تھی جب ہمایوں نے ہاتھ میں پکڑا کارڈ لہرا کر پوچھا.
،،یہ میر شہزاد کی شادی کا کارڈ ہے.،،
میر شہزاد کا ذکر کرتے ہوئے اس کے چہرے پر واضح خوشی نظر آ رہی تھی.
،،جہاں تک مجھے یاد ہے اسے تو دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی؟،،
،،ہاں مگر اب وہ عدالت سے باعزت بری ہوگیا ہے.
(وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولی)
،،میر شہزاد خود انوٹیشن دینے آیا تھا.آپ کو بھی بھی بلا کے گیا ہے… میں فون کرکے بتانے کا سوچ رہی تھی چلو اچھا ہوا آپ آگئے تو اکھٹے شرکت کریں گے.،،
،،ایمرجنسی میں میرا تبادلہ یہاں پر ہوا ہے اس لیے بنا بتائے آنا پڑا.،،
وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا.
،،رئیلی یہ تو بہت اچھی خبر ہے.،،
وہ خوش دلی سے بولیں.
ہمایوں لغاری ہمیشہ اس طرح اچانک سرپرائز دیا کرتا تھا.
،،ہاں کچھ مہینے اب آپ کو مجھے برداشت کرنا پڑے گا.،،
اس کا انداز چھیڑنے والا تھا. رات والی کفیت کا ذرا سا شائبہ اس کے چہرے پر نظر نہیں آ رہا تھا.
،، یہ پراٹھا لیں ناں.،،
جواباً شازیہ میر مسکراتے ہوئے بولی.
میر شہزاد اور مہرانگیز کی شادی!!!
شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی. مہر انگیز کی طرف سے تو اچھی خاصی رونق رہی تھی مگر میر شہزاد کے بہت قریبی لوگ شامل ہوئے تھے.
شازیہ میر نے بھائی کی شادی میں بھرپور طریقے سے شرکت کی تھی.
رخصتی کے وقت سب میرج ہال سے واپس چلے گئے تھے. مگر دلہا دلہن کو چھوڑنے وہ گھر تک ساتھ آئی تھی.
مہرانگیز کو کمرے میں بٹھا کر کچھ دیر باتیں وغیرہ کرتی رہی تھی.
اس وقت میر شہزاد بہن کا بہت زیادہ ممنون نظر آ رہا رہا تھا. شازیہ میر نے اس کی خوشیوں میں شریک ہوکر اسے ایک فیملی ہونے کا احساس دلایا تھا.
تھوڑی دیر رکنے کے بعد وہ گھر جانے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ بچے اور شوہر گھر پر تھے.
میر شہزاد بہن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے روانہ کرنے دروازے تک آیا.
باہر گاڑی میں ڈرائیور اور محافظ اس کے انتظار میں الرٹ کھڑے تھے.
شازیہ میر کو روانہ کرکے وہ واپس کمرے میں آیا.
میر شہزاد نے سفید رنگ کی شیروانی پہنی تھی.جبکہ مہرانگیز کا لال اور گولڈن کلر کا جوڑا تھا.
اس وقت وہ سر جھکائے بیٹھی تھی.جبکہ چہرے پر برائے نام گھونگھٹ ڈلا ہوا تھا.
چند لمحے وہ اس کے چہرے کے سرد تاثرات دیکھتا رہا… پھر سنجیدگی سے چلتا ہوا وہ اس کے مقابل بیڈ پر بیٹھ گیا.
،،کچھ کہو گی نہیں؟؟؟،،
میر شہزاد کی اس بات پہ مہرانگیز نے نظر اٹھا کر
دیکھنا گوارا نہیں کیا.
،،یار مہرانگیز تمہاری یہ خاموشی مجھے واقعی کنفیوز کر رہی ہے.،،
،،اگر نکاح کے وقت کوئی آسمان نہیں ٹوٹا تھا تو فکر نہ کرو اس بار بھی کوئی قیامت نہیں آنے والی.،،
کیا سفاک لہجہ تھا!!!
وہ اس کی سوچ سے زیادہ بے باک اور منہ پھٹ تھی.
،،تم کم قیامت ہو کیا…؟؟؟،،
وہ آدھی ٹانگیں نیچے لٹکائے بیڈ پر گر سا گیا.
اس وقت مہرانگیز کا جھکا ہوا چہرہ اس کے بالکل سامنے تھا.
،،اب بھی ناراض ہو مجھ سے؟؟؟،، اپنائیت بھری آواز سے پوچھا گیا جبکہ اس دوران اس کی نظریں بدستور مہرانگیز کے چہرے پر تھیں.
مہر انگیز نے کوئی جواب نہیں دیا.
،،کہتے ہیں شادی کی پہلی رات کوئی شکوے شکایت نہیں کرنی چاہیے ورنہ ساری زندگی ایسے لڑائی جھگڑوں میں گزرتی ہے…،،
بازو گردن کے پیچھے کیے اس کی خاموشی نظر انداز کرکے وہ دوبارہ بولا .
اس بار اس کا ارادہ اسے بات کرنے پر اکسانے کا تھا.
،،تو کونسا بعد میں ہماری اچھی گزرنے والی ہے.،،
زہر بھرے طنزیہ لہجے میں جواب آیا.
یہ تھا بھی سچ مہرانگیز کوئی خوش فہمی لیکر نہیں آئی تھی. شادی سے پہلے لڑکیاں بہت حسین خواب دیکھا کرتی ہیں جبکہ وہ صرف اس غنڈے کو ساری زندگی برداشت کرنے کے لیے خود کو تیار کرتی رہی تھی.
،،بس آج کی رات تو کچھ ایسا نہ کہو.،،
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا.
اس بار مہر انگیز نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی…. یہ اس بات کا اظہار تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس رشتے کو قبول کرکے آئی تھی.
،،بہت رلایا ہے ناں میں نے تمہیں..مگر اب میں اپنی ہر زیادتی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں آئندہ ان آنکھوں میں میری وجہ سے کبھی آنسو نہیں آئیں گے.
(مہرانگیز کا ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا) پلیز مجھے بددعا مت دینا مہر انگیز کیونکہ تمہاری دعاؤں میں بہت اثر ہے….مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اتنی جلدی سن لیتا ہے.،،
،،اگر میری دعاؤں میں اتنا اثر ہوتا تو اس وقت میں تمہارے سامنے نہیں بیٹھی ہوتی میر شہزاد!!!،،
،،کیونکہ اس بار تمہاری دعاؤں سے زیادہ میری دعاؤں میں شدت زیادہ تھی.ورنہ اس وقت میں تمہارے سامنے نہ بیٹھا ہوتا مہرانگیز!!!،،
وہ واقعی لاجواب کردیتا تھا وہ لب بھینچ کے رہ گئی.
،،ارے ہاں منہ دکھائی میں تو کچھ دیا ہی نہیں.
(اسے جیسے اچانک یاد آیا ہو….)میری ماں ہمیشہ کہا کرتی تھی میر شہزاد تیرا رنگ تو اتنا صاف نہیں ہے مگر میں اپنی بہو بہت گوری چٹی ڈھونڈوں گی تاکہ میرے پوتے پوتیاں بہت خوبصورت ہوں… وہ نہیں ہیں ورنہ اسے کہتا ماں بالکل ویسی دلہن ڈھونڈی ہے جیسے توں کہا کرتی تھی….،،
میر شہزاد سونے کے دو کنگن اسے پہناتے ہوئے بولا.
مہندی سے بھری گوری گوری کلائیاں کنگن پہنانے سے مزید سج گئی تھیں.
،،یہ میری ماں کے کنگن ہیں تمہیں دینے کے لیے مجھے اس سے بڑھ کر قیمتی اور کوئی چیز نہیں لگی.
شکریہ بھی نہیں کہو گی کیا؟؟؟،،
وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا.
،،شکریہ!!!،، روکھا پھیکا سا جواب آیا.
،،میں فریش ہوکے نماز پڑھ لوں تمہیں کچھ چاہیے؟،،
مہرانگیز نے نفی میں سر ہلایا.
وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا.
اس کے جانے کے بعد مہرانگیز نے لمبی سانس کھینچی اور سر اٹھا کر پورے کمرے کا جائزہ لیا.
جہیز کا سامان شادی سے پہلے سعد اپنی نگرانی میں سیٹ کروا گیا تھا. بالکل نئے ڈیزائن کا فرنیچر بہت خوبصورت لگ رہا تھا. پورے کمرے میں پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں.
وہ بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ کے سامنے آئی.وہ ایسے ہی اتنی پیاری تھی مگر بیوٹیشن نے بہت ہیوی میک اپ کرکے اس کی نیچرل لک بالکل چینج کر دی تھی.
اوپر سے بالوں کا سٹائل عجیب سا بنا ہوا تھا.مہرانگیز منہ بنا کر بالوں سے پنیں نکالنے لگی.
میک اپ جیولری اتار کر اس نے بیگ سے کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گئی
. جب وہ باہر نکلی تو میر شہزاد ابھی تک کمرے میں نہیں آیا تھا.
میر شہزاد جیل جانے سے پہلے نماز کی اتنی پابندی نہیں کیا کرتا تھا بس جمعہ باقاعدگی سے پڑھ لیا یہی بہت تھا. مگر جیل میں اتنا عرصہ وہ بالکل تنہا اور دنیا سے کٹ کر رہ گیا تھا.
اس دوران نامحسوس انداز آہستہ آہستہ میں وہ اللہ سے جڑتا چلا گیا تھا.
وہ اپنی ہر بات،دکھ اور ساری پریشانیاں اللہ تعالیٰ سے شئیر کرنے لگا. وہاں رہ کر اسے احساس ہوا تھا کہ سوائے اللہ کے باقی سب سہارے عارضی ہیں.
ان دنوں مہرانگیز بھی تکلیف میں گزر رہی تھی.
اس کی پریشانی ایسی تھی کہ کسی کو بتا کر دل کا بوجھ بھی ہلکا نہیں کر سکتی تھی چنانچہ اس کے سارے گلے شکوے اللہ تعالیٰ سے ہوتے تھے۔
کبھی کبھی اسے لگتا جیسے اللہ تعالیٰ اس کی کوئی دعا سنتا ہی نہیں ہے اور کبھی وہ پورے خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے لگ جاتی تھی.
عجیب بات یہ تھی کہ اس مشکل وقت میں دونوں کا تعلق ایک ہی ہستی سے جڑ گیا تھا.
میر شہزاد نماز پڑھ کر کتنی دیر آنے والی زندگی کی خوشیوں اور سلامتی کی دعائیں مانگتا رہا.
ادھر مہرانگیز نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے استقامت کی دعا مانگ رہی تھی.کیونکہ ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا جس سے آپ پسند نہ کرتے ہوں بہت مشکل ہوتا ہے.
میر شہزاد جب کمرے میں آیا تو وہ جائے نماز لپیٹ کر رکھ رہی تھی.اس نے سکن کلر کا سمپل سوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ گہرے سبز رنگ کا دوپٹہ میک اپ سے عاری چہرے پر غصب ڈھا رہا تھا.
سفید کرتے کی آستینیں تھوڑی سی فولڈ کیے وہ وہیں رک گیا.
دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں میر شہزاد کی آنکھوں میں بے باکی تھی.
مہر انگیز نے گھبرا کر فوراً نگاہیں جھکا لیں.
وہ مسکراتا ہوا اس کے قریب آیا…
،،او مائی گاڈ مہرانگیز مجھے یقین نہیں آ رہا تم شرماتی بھی ہو…،،
وہ اس کے بلش ہوتے گال دیکھ کر بولا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Week mai 2 episodes upload kia krain plzzz
نیکسٹ ایپسوڈ اپلوڈ کر دی ہے🙏