Barish K Bad Urdu Novel | Episode 18 | بارش کے بعد اردو ناول
شادی کے اگلے دن!!!
صبح سات بجے کے قریب موبائل کی بار بار بجنے والی میسج ٹون سے مہرانگیز کی آنکھ کھلی.
اس وقت میر شہزاد کمرے میں موجود نہیں تھا.
نائلہ( اس کے سکول کے زمانے کی بیسٹ فرینڈ) کے میسجز کی بھرمار تھی. وہ نائلہ کو جواب دیے بغیر بالوں کو کیچر میں لپیٹ کر واش روم میں چلی گئی.
جب وہ واپس آئی تب بھی میر شہزاد کا کوئی اتا پتا نہیں تھا.
اس نے بلیک نیٹ کا پلین سوٹ پہنا تھا.جس کے گلے کے نیچے صرف ریڈ بٹن لگے ہوئے تھے.
ڈریسنگ کے سامنے بالوں کو ہیئر ڈرائیر سے خشک کرتے ہوئے نائلہ کی کال پہ کال آنے لگی. اس نے اوکے کا بٹن دبا کر سپیکر آن کردیا.
،،ہیلو،،
،،ہیلو مہرانگیز تھینک گاڈ تم نے فون تو اٹھایا. صبح سے کال کر کرکے ہلکان ہورہی ہوں.،،
نائلہ کے لہجے میں دبا دبا سا جوش تھا.
،،صبح سویرے ایسی کونسی آفت ٹوٹ پڑی جو اتنی ہلکان ہوئی جا رہی ہو؟،،
مہرانگیز بدستور بالوں کو ڈرائی کرتے ہوئے بولی.
،،لوجی یہ آفت کم ہے کیا اتنا ہینڈ سم لڑکا ڈھونڈ لیا اور یہاں میڈم مجھے غنڈا غنڈا کہہ کر ٹالتی رہی.،،
مہرانگیز کے اچانک شادی کرنے کا سن کر نائلہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا تھا کہ لڑکا کیسا ہے؟
،،غنڈا ٹائپ قسم کا ہے.،،
جواباً مہرانگیز نے سنجیدگی سے کہا تھا.
صبح میر شہزاد جب جاگا تو مہرانگیز گہری نیند سو رہی تھی. وہ کتنی دیر فرصت سے اسے دیکھتا رہا تھا. جس طرح دیکھنے میں وہ اکہڑ اور بدمزاج لگتی تھی حقیقت میں وہ اس سے بالکل مختلف اور معصوم تھی.
باہر جاتے ہوئے وہ دروازہ باہر سے لاک کرکے گیا تھا،اس لیے جب واپس آیا تو بیل دینے کی بجائے لاک کھول کر اندر آگیا.
مہرانگیز اس وقت نائلہ سے فون پر لگی ہوئی تھی، اسے میر شہزاد کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا.
کچن میں جاتے ہوئے دروازے کے قریب مہرانگیز کی آواز اس کے کانوں میں پڑی.
،،اب غنڈے تمہیں ہینڈ سم لگنے لگیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے.،، مہرانگیز بیزاری سے بول رہی تھی.
،،اچھا چھوڑو یہ بتاؤ رات کیا کیا باتیں کی تھیں؟ اور اس نے تمہاری تعریفیں تو بہت کی ہوگئی؟؟؟،،
نائلہ تجسس سے پوچھ رہی تھی.
،،ہاں بہت کی تھیں… اس پارلر والی نے جو سفید کبوتری بنادیا تھا. اوپر سے بالوں کا سٹائل ایسا بنا تھا جیسے گنجی مرغی کے سر پر کسی نے صراحی رکھ دی ہو.،،
مہر انگیز کو کل سے اس بیوٹیشن پہ خوب تپ چڑھی ہوئی تھی.
،،اب اتنی بھی بری نہیں لگ رہی تھی.،، نائلہ اس کے غصے کو نظر انداز کر کے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولی.
میر شہزاد مسکرا کر کچن میں ناشتے کا سامان رکھنے چلا گیا.
چند ثانیے بعد دروازے کی بیل بجی. مہرانگیز ابھی تک بیڈ روم میں تھی. اچانک اس کے گھر والوں کے بولنے کی آوازیں آ نے لگیں.
وہ جلدی سے نکل کر لاؤنج میں آئی. سعد، عباد ،امی اور پھپھو اس کےلیے ناشتہ لیکر آئے ہوئے تھے.
باقی سب تو اسے دیکھ کر خوش ہوگئے تھے مگر سعد اور امی بغور اس کے چہرے کے تاثرات جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ آیا وہ خوش ہے بھی یا نہیں؟؟؟
،،اس کی کیا ضرورت تھی آنٹی؟ ایسے آپ نے خوامخواہ تکلف کیا.،،
میر شہزاد ودرہ آنٹی سے کھانا لیتے ہوئے بولا.
،،تکلف کی کوئی بات نہیں بیٹا دلہن کا پہلا ناشتہ ہمیشہ اس کے میکے سے آتا ہے.،،
وردہ آنٹی نے گویا اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا.
،،چلیں آپ سب بیٹھیں میں کھانا لگاتا ہوں ناشتہ ساتھ کرتے ہیں.،،
میر شہزاد کچن میں جاتے ہوئے بولا.
وردہ آنٹی نے مہرانگیز کو گھور کر اسے کچن میں جاکر مدد کروانے کا اشارہ دیا.
مجبوراً اسے اٹھ کر جانا پڑا… وہ ریک سے پلیٹیں نکال رہا تھا. جب مہرانگیز اندر داخل ہوئی صبح کے بعد اکیلے میں پہلی بار ان کا آمنا سامنا ہو رہا تھا.
میر شہزاد نے مسکرا کر اس کا استقبال کیا. مہرانگیز کی پلکوں پر بھاری بوجھ آگرا. عجیب سا شرم و لحاظ تھا جو اب ان کے بیچ آگیا تھا.
کھانا لگاتے دوران مہرانگیز نے پھر نظریں اٹھا کر میر شہزاد کی طرف نہیں دیکھا تھا.
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد اس کے گھر والے واپس چلے گئے تھے.
آج شام کو ولیمہ تھا. میر شہزاد اس سلسلے میں وہ کافی مصروف تھا.
ادھر مہرانگیز ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ ولیمے کےلیے کون سے پارلر سے تیار ہونے جائے.
،،تم ٹینشن نہ لو میں نے شازیہ باجی سے بات کرلی ہے تھوڑی دیر بعد وہ تمہیں اچھے سے پارلر میں لے جائیں گی.،،
میر شہزاد نے اسے کافی دیر سے الجھے ہوئے دیکھا تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ حل کردیا.
،،وہ میں آج ڈائمنڈ کا سیٹ پہن لوں جو رات آپ کی بہن نے مجھے گفٹ کیا تھا؟،،
مہرانگیز نے قدرے جھجھکتے ہوئے پوچھا.
،،جو تمہارا دل کرے.،، وہ چونک کر اسے دیکھتے ہوئے بولا.
کیونکہ اس طرح باقاعدہ اجازت لینے پر میر شہزاد کو اچھی خاصی حیرت ہورہی تھی.
ابھی تک وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ مہرانگیز نے اسے دل سے قبول کیا ہے یا پھر وہ زبردستی کا رشتہ نبھانے کی کوشش کر رہی ہے.
ولیمے کی تقریب بہت اچھے اور مہنگے ہوٹل میں رکھی گئی تھی.
سوائے شیراز انکل کی فیملی اور بابر کے باقی وردہ آنٹی کے سب رشتہ داروں نے شادی میں شرکت کی تھی.
خاندان کے ہر لڑکے کو اس بات کا زیادہ تجسس تھا کہ دیکھیں تو سہی آخر کونسی وہ ہستی ہے جسے مہرانگیز نے شرف قبولیت بخشا ہے.
شادی والے دن اتنی مختصر بارات دیکھ کر سب نے گھر جاکر خوب باتیں بنائی تھیں. کہیں سے خاندانی لوگ نہیں لگتے.
وردہ آنٹی غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے عنقریب ان کی اصلیت نکلے گی پھر انھیں پتا چلے گا کہ غیروں میں رشتے کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے. غرض جتنے منہ اتنے تبصرے کیے گئے تھے.
مگر اگلے دن ولیمے کی تقریب اور اتنی ہائی سوسائٹی کے لوگوں کی شرکت دیکھ کر سب کی بولتی بند ہو گئی تھی.
میر شہزاد سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس ہر کسی سے مسکرا کر ملتا اچھا خاصا پرکشش لگ رہا تھا.
دراز قد سفید کھلتی رنگت،سنجیدگی اور پروقار انداز میں مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے اس شخص کو دیکھ کر میر شہزاد کی آنکھوں میں اجنبی تاثر ابھرا.
،، ہمایوں لغاری!!!
آئی تھنک آپ شازیہ میر کے حوالے سے مجھے جانتے ہیں.،،
سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس ہمایوں لغاری نے میرشہزاد کی الجھن دور کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا.
،،ارے ایس ایس پی صاحب آپ!!!،، میر شہزاد نے آگے بڑھ کر گرمجوشی سے مصافحہ کیا.
Nice to meet you Meer Shahzad.
،،تھینک یو سر آپ سے مل کر بہت اچھا لگا.،،
میر شہزاد خلوص اور اپنائیت سے بولا.
جبکہ ہمایوں لغاری کا چہرہ بدستور سنجیدہ اور بے تاثر رہا.
گیدرنگ کی بجائے میر شہزاد نے عورتوں اور مردوں کےلیے علیحدہ ارینجمنٹ کروائی تھی.
مہر انگیز اپنی دوستوں میں گھری آج قیامت ڈھا رہی تھی. کل کی نسبت آج وہ زیادہ پراعتماد اور خوش نظر آ رہی تھی.اسے دیکھ کر فائزہ آنٹی کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے. کیونکہ کل سے اس کا بیوقوف بیٹا بابر اس ڈائن کے سوگ میں خود کو کمرے میں بند کیے پڑا تھا.
حسد اور رشک کے ملے جلے جذبات سے سب دلہن کو دیکھ کر اپنے اپنے کمنٹس پاس کر رہے تھے.
رات بارہ بجے کے قریب تقریب اپنے اختتام کو پہنچی.
،، آجکل تمہارے روابط میر شہزاد کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں بڑھ رہے؟؟؟،،
ولیمے کے بعد تھک ہار کر شازیہ میر اس وقت سونے کی تیاری کر رہی تھی، جب ہمایوں لغاری نے یہ بات کہی.
،،ہاں میر شہزاد مجھے میر فرہاد کی طرح عزیز ہے.
میں سمجھتی ہوں اس کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کی گئی ہے.،،
شازیہ میر ہاتھوں پر لوشن لگاتے ہوئے بولی.
،،مگر ایک بات تم بھول رہی ہو وہ ایک مجرم ہے تم نہیں جانتی وہ کن کن دھندوں میں ملوث رہا ہے؟،،
ہمایوں لغاری بیڈ پر ٹانگیں پسارے کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا.
،،جن حالات میں اس کی پرورش ہوئی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.ایک منشیات کیس ہی تو تھا کوئی قتل تو نہیں کیا اس نے؟؟؟
اس سے بڑے مجرم تو ہم ہیں… میرا خیال ہے اب وقت آ گیا ہے کہ میر شہزاد کو بھی وہی مقام اور رتبہ دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے.،،
وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولی.
(کوئی قتل تو نہیں کیا اس نے…) یہ الفاظ ہمایوں لغاری کے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح لگے تھے. شازیہ میر تو تھکی ہاری تھی فوراً سو گئی.
مگر ہمایوں لغاری کی آنکھوں سے نیند اڑ چکی تھی. کوئی قتل تو نہیں کیا ہاں واقعی کوئی قتل تو نہیں ہوا تھا اس سے… وہ ایک نئے رخ پر سوچ رہا تھا.
میر شہزاد اور مہرانگیز رات بہت لیٹ گھر پہنچے تھے.
اتنا بھاری لہنگا اور جیولری پہن کر مہرانگیز کا تھکن کے مارے برا حال تھا. وہ جلد از جلد یہ سب اتار کر فریش ہونا چاہتی تھی.
ابھی وہ ڈریسنگ کے سامنے آئی ہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے میر شہزاد کی موجودگی کا احساس ہوا جو مبہوت نظروں سے آئینے میں اس کا خوبصورت عکس دیکھ رہا تھا.
وہ قدرے حجل ہوگئی.
،،بہت پیاری لگ رہی ہو.،، وہ ریسٹ واچ اتارتے ہوئے بولا.
مہرانگیز سر جھکا کر چوڑیاں اتارنے لگی.
،،میں ہیلپ کردوں؟؟؟،، میر شہزاد اس کے سامنے آکر ڈریسنگ کے قریب ٹکتے ہوئے بولا.
،، میں خود اتار لوں گی.،، سنجیدگی سے جواب دیا گیا.
وہ مسکرا کر اسے چوڑیاں اتارتے ہوئے دیکھتا رہا. جیولری اتارتے وقت بھی اس نے اپنی خدمات پیش کیں. مگر مہرانگیز اس کی یہ پر خلاص آفر بھی رد کر دی.
الٹا میر شہزاد کی اتنی قریب سے موجودگی اسے مزید irritate کر رہی تھی.
،، تم خوش ہو؟؟؟،، وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا.
کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ مہرانگیز اسے پسند نہیں کرتی مگر اس کے باوجود وہ خاموش تھی. اس کی یہی خاموشی میر شہزاد کو الجھن میں ڈال رہی تھی.
جاری ہے…
( تحریر حمنہ قندیل)
فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول