Barish K Bad Urdu Novel | Episode 19 | بارش کے بعد اردو ناول
،، کچھ سوالوں کے جواب نہ ہی جانو تو تمہارے حق میں بہتر رہے گا.،،
رکھائی سے جواب دیتی وہ وارڈروب سے کپڑے نکال کر واش روم میں چلی گئی.
،،وہ کیا سمجھتا ایک رات میں ان چار سالوں کی اذیت بھول جاؤں گی؟،،
اس کی آنکھیں جل رہی تھیں…کبھی کبھی انسان اس کفیت میں چلا جاتا ہے کہ جب الفاظ بے معنی ہوجاتے ہیں.بے بسی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تکلیف کا اظہار کرنا اپنی توہین کرنے کے مترادف لگتا ہے.
پچھلی رات صرف میر شہزاد ہی بولتا رہا تھا. مہرانگیز بالکل خاموش رہی تھی. جب کچھ کہنے کا فائدہ ہی نہ رہا ہو تو خاموشی ہر کفیت کو ڈھانپ لیتی ہے.
جب وہ واپس آئی… تو میر شہزاد گہری نیند سوگیا تھا.
مہرانگیز خالی آنکھوں سے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی. میر شہزاد کا چہرہ مطمئن اور پرسکون تھا.
غلط انسانوں کے چہرے اتنے پرسکون بھی ہوسکتے ہیں؟؟؟
جب تک اسے نیند نہیں آئی وہ اسی کے بارے میں سوچتی رہی تھی.
اگلے دن گیارہ بجے اسکی آنکھ کھلی. وہ کسل مندی سے آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی.
تھوڑی دیر بعد وہ بیڈ روم سے نکل کر لاؤنج میں آئی…لاؤنج کے ساتھ کچن تھا. ایل کی شیپ میں کچن اتنا بڑا تو نہیں تھا مگر. نہایت نفیس اور جدید طرز پہ بنا ہوا تھا.
اس نے ہاتھ سے جمائی روکتے ہوئے فریج کھولا. فریج میں روز مرہ استعمال کی تقریباً ہر چیز پڑی تھی. مہرانگیز نے نوٹ کیا فریج کے ساتھ کچن بھی بہت صاف ستھرا ہے. ایک ایک چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی. اس نے دودھ نکال کر اپنے لیے چائے بنائی اور ایک انڈا بھی بوائل کیا.
اس نے چائے اور انڈا وہیں کچن میں بیٹھ کر ختم کیا. اس کے بعد پورے گھر کو پہلی بار تفصیل سے دیکھا. سب سے پہلے ڈرائنگ روم تھا. پھر دو بیڈ روم تھے…درمیان میں چھوٹی سی راہداری تھی.
لاؤنج اور کچن گھر کے آخری کونے میں تھے.اور سب سے آخر میں ایک چھوٹا سا لان بھی تھا. وہ لاؤنج سے دروازہ کھول کر لان میں آگئی.وہاں پر تقریباً نہ ہونے کے برابر سبزہ تھا. لان میں ایک جھولا بھی لگا ہوا تھا. مہرانگیز نے ہاتھ کی مدد سے جھولے کو آگے کی طرف دھکا دیا. ایک دو چکر کے بعد جھولا خود بخود رک گیا. وہ واپس لاؤنج سے ہوتے ہوئے بیڈ روم میں آگئی.
میر شہزاد ریسٹورنٹ پر کام ہونے کی وجہ سے وہاں کا چکر لگانے گیا ہوا تھا جب وہ واپس آیا تو مہر انگیز بیڈ روم میں بکھری ہر چیز واپس اپنی جگہ پہ رکھ کر کمرہ تقریباً سیٹ کر چکی تھی.
صاف ستھرا کمرہ دیکھ کر میر شہزاد کو یک گونہ اطمینان حاصل ہوا کیونکہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں وہ بہت زیادہ کانشس تھا.کسی چیز میں بے ترتیبی یا بکھیرا دیکھ کر اس کے سر میں درد شروع ہو جاتا تھا. آمنہ بیگم بیٹے کی اس خبطی عادت سے اکثر نالاں رہتی تھی.
وہ مہرانگیز کےلیے پیزا لیکر آیا تھا دونوں نے کمرے میں بیٹھ کر خاموشی سے پیزا ختم کیا.
مہر انگیز کے موبائل میں شادی اور ولیمے کی اتنی زیادہ تصاویر اکھٹی ہوگئیں تھیں کہ فون بار بار ہینگ ہورہا تھا. ابھی اس کی دوستیں مزید وڈیوز اور تصاویر اسے سینڈ کررہی تھیں.
اس نے انھیں لیپ ٹاپ میں ڈالنے کا سوچا.
،، آپ کے پاس لیپ ٹاپ ہے؟،، اس نے میر شہزاد کو مخاطب کرکے پوچھا.
،، لیپ ٹاپ….،، چونکہ میر شہزاد موبائل اور لیپ ٹاپ ضرورت کی حد تک استعمال کرتا تھا. شاید یہی وجہ تھی ابھی تک اس کا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں تھا.
،،ایک تھا تو سہی…،، مگر اسے زیادہ تر عمران استعمال کرتا تھا میر شہزاد جیسے ذہن پہ زور دیتے ہوئے بولا.
،،شاید پمپ پہ پڑا ہوگا… شام کو لے آؤں گا.،،
،،بس رہنے دیں شام کو سعد کے لیپ ٹاپ میں جاکر ڈال دوں گی.،،
آج مہرانگیز نے امی کے گھر جانا تھا. شام کا کھانا بھی ان کی طرف تھا.
جب وہ وہاں پہنچے تو سب جیسے ان کے انتظار میں تھے.
وردہ بیگم نے بہت اہتمام سے ان کےلیے کھانا بنایا تھا.
،،آنٹی زبردست آپ کے ہاتھ میں ماشاءاللہ بہت ذائقہ ہے.اس دن آپ کے کباب بھی مزیدار تھے.،،
میر شہزاد لقمہ منہ میں لیتے ہوئے بولا.
مہر انگیز کے گلے میں کچھ پھنسا تھا. جبکہ باقی سب میر شہزاد کو یوں دیکھنے لگےجیسے اس نے کوئی شگوفہ چھوڑا ہو.
،،میرے ہاتھ کے بنے کباب کب کھائے؟،،
وردہ بیگم جیسے یاد کرتے ہوئے بولیں.
میر شہزاد کو اب حالات کی سنگینی کا احساس ہوا مہرانگیز اسے کچا کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی.
،،مہرانگیز… مہرانگیز بتا رہی تھی کہ میری امی کے ہاتھ کے بنے کباب بہت لذیذ ہوتے ہیں.،،
میر شہزاد ہاتھ سے مہرانگیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گڑبڑا کر بولا.
وردہ آنٹی مسکرا کر مطمئن ہوگئی.
ٹرائفل کھاتی مہرانگیز نے چمچ واپس پلیٹ میں رکھ دیا اور پانی کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا.
،،میں آج رات یہیں پہ رہوں گی.،، کھانے کے بعد اس نے سرگوشی کے انداز میں میر شہزاد کو اطلاع دی.
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میر شہزاد واپس گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا.
مہرانگیز اطمینان سے اپنی جگہ پہ بیٹھی رہی.
امی نے چونک کر مہرانگیز کو دیکھا جس کے واپس جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے.
وردہ بیگم نے میر شہزاد کو رات رکنے کے لئے بار بار اصرار کیا. وہ کن اکھیوں سے مہرانگیز کو دیکھتا رہا مگر مہرانگیز نے جھوٹے منہ ایک بار بھی آفر نہیں اگر وہ کرتی تو میر شہزاد رک بھی جاتا.
اس کے جاتے ہی وردہ بیگم نے کڑوی نگاہوں سے مہرانگیز کو دیکھا.
،،تم اس کے ساتھ کیوں نہیں گئی؟،،
،،کیا ہوگیا ہے امی… میرا دل کر رہا تھا یہاں پر رکنے کو… دو دن میں پرائی ہوگئی ہوں کیا؟؟؟،،
،،میرا مطلب یہ نہیں تھا ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے اب اچھا تو نہیں لگتا. اگر رکنا ہی تھا تو اسے بھی روک لیتی.،،
امی ہموار لہجے میں بولیں.
،،آپ کے کہنے پہ وہ نہیں رکا میرے کہنے پہ رک جاتا؟،، مہرانگیز منہ بنا کر بولی.
اس دن شام کو میر شہزاد نے لیپ ٹاپ ڈھونڈ کر اسے ملازم کے ہاتھ کاریگر کے پاس بھیجوایا تھا. کیونکہ کوشش کے باوجود میر شہزاد سے اس کا پاسورڈ نہیں کھل رہا تھا.
ریپئر شاپ والا اس وقت گاہکوں میں بزی تھا. اس نے ملازم کو کہا کہ کل صبح آکر لے جانا.
اگلے دن صبح ملازم نے لیپ ٹاپ میر شہزاد کو لاکر دے دیا.
اس نے وہیں بیٹھ کر چیک کرنے کے لیے اسے کھولا….
،،آج بھی جانے کا ارادہ نہیں ہے؟،،
دوسرے دن شام کو امی نے قدرے مشکوک انداز میں پوچھا.
،،آرہا ہے لینے… جارہی ہوں.،،
،،تو پھر کچھ تیار ہوجاؤ ایسے منہ لٹکا کر جاؤ گی.،،
مہرانگیز سانس بھر کر کپڑے چینج کرنے چلی گئی.
رات کو میر شہزاد کے ساتھ وہ واپس گھر آگئی تھی. مہرانگیز نے نوٹ کیا میر شہزاد معمول سے زیادہ خاموش ہے. پتا نہیں وہ جان بوجھ کر اسے نظرانداز کر رہا تھا یا پھر واقعی اسے کوئی پریشانی لاحق تھی.اگلے چند وہ بہت زیادہ مصروف رہا.
آج شام کو میر شہزاد نے مہرانگیز کو تیار رہنے کا کہا تھا. کیونکہ شازیہ میر بار بار دعوت کا اصرار کر رہی تھی.
جب وہ ان کے ہاں پہنچے تو ہمایوں لغاری کوٹ کہنی پہ ٹکائے کہیں جانے کے لیے بس نکل ہی رہا تھا. انھیں دیکھ کر سلام کرنے کے لیے رک گیا.
مہرانگیز نے ہلکے اورنج کلر کے کرتے کے اوپر بلیک نیٹ کا اوپن گاؤن پہنا تھا. جبکہ بلیک باریک سٹریپ والی جوتی اورنج ٹراؤزر کے نیچے نمایاں نظر آ رہی تھی.
میر شہزاد کو ملتے وقت ہمایوں لغاری نے چند سیکنڈ کے لیے مہرانگیز کو غور سے دیکھا تھا. جو مرعوب نظروں سے اتنے بڑے عالیشان گھر کو دیکھ رہی تھی.
ہمایوں کے اس طرح غور سے دیکھنے کو میر شہزاد نے فوراً نوٹ کیا تھا.
وہ پانچ منٹ سے زیادہ دیر نہیں رکا تھا. شازیہ میر بہت زیادہ گرمجوشی سے ان کا استقبال کر رہی تھی. اس کے دونوں بچے بھی نئی ممانی اور ماموں کو دیکھ کر اچھے خاصے ایکسائیٹڈ تھے.
،،شازیہ باجی آپ کے ہزبینڈ آپ کے ساتھ کیسے ہیں؟،،
کھانے کے بعد وہ سب سوئمنگ پول کے نزدیک کھڑے تھے جب میر شہزاد نے یہ بات پوچھی.
جبکہ مہر انگیز بچوں کے ساتھ دوسری طرف مصروف تھی.
،،کیا مطلب کیسے ہیں…؟
He is a really nice person.
،،میرا مطلب ان کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟،،
میر شہزاد ابھی بھی سنجیدہ تھا.
،،وہ اپنی فیملی کی بہت پرواہ کرتے ہیں. ان کا ایٹیٹیوڈ ہمیشہ بہت قابل تعریف رہا ہے. مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟،، شازیہ میر الجھ کر بولی.
،،بس ایسے ہی… ،، میر شہزاد آنکھوں پہ گلاسز لگاتے ہوئے بولا.
،،کیا آپ کی بہن اور بہنوئی بھی منشیات کا کاروبار کرتے ہیں؟،،
واپسی پر راستے میں مہرانگیز نے نہایت سنجیدگی سے جب یہ بات پوچھی تو ڈرائیونگ کرتا میر شہزاد مسکراہٹ دبا کر رہ گیا
،،تم کیوں پوچھ رہی ہو؟،،
،،بس ایسے ہی…،، وہ سامنے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی.
،،ان کے تو اس سے بھی بڑے بڑے دھندے ہیں… یہ تو مجھ غریب کا ایک صرف یہی ایک چھوٹا سا دھندا ہے.،،
میر شہزاد مسکین شکل بنا کر بولا.
یہ سن کر مہر انگیز یوں خاموش ہوگئیں جیسے اسے اس بات کی امید تھی.
،،شازیہ باجی شہر کی نامی گرامی وکیل ہیں. ان کے شوہر پولیس میں ایس ایس پی ہیں. وہ کوئی غلط کام نہیں کرتے.،،
کچھ دیر بعد میر شہزاد نے اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا.
،،پھر بھی اتنی دولت ایک وکالت اور پولیس کی نوکری سے نہیں آجاتی.،،
وہ ان کی شاہانہ طرز زندگی ملازموں اور سیکورٹی گارڈز کی فوج دیکھ کر ابھی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھی.
،،میرے ابا نے دو شادیاں کی تھیں. شازیہ باجی پہلی بیوی سے ہیں. ان کی امی بہت زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں.،، (اب یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ جس کے غنڈے کے ساتھ وہ بیٹھی ہے اس کا باپ کتنا بڑا جاگیردار تھا)
،،ہمارا ان سے ملنا جلنا بالکل نہیں تھا. اب شازیہ باجی اور میں برسوں سے ٹوٹا یہ رشتہ بحال کرنے کی اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں.
ہوسکتا ہے ان کے شوہر کی خاندانی جائیداد ہو؟آخر شازیہ باجی نے ایسے تو ان سے شادی نہیں کی ہوگی. میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا. ان فیکٹ ہمایوں لغاری سے میری پہلی ملاقات اپنے ولیمہ پر ہوئی تھی.،،
،،سنو آئندہ کبھی تمہارا سامنا ہمایوں لغاری سے ہو تو قدرے محتاط رہنا.،،
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میر شہزاد نے نہایت سنجیدگی سے مہرانگیز کو کہا.
،،کیوں؟،، اس نے مشکوک نظروں سے میر شہزاد کو دیکھتے ہوئے پوچھا.
، بس ایسے ہی مجھے وہ کچھ عجیب سے لگے ہیں.،،
مہرانگیز کو سمجھ نہیں آئی کہ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ بہرحال وہ خاموش ہوگئی.
اگلی صبح میر شہزاد نے کچن میں جھانکا تو مہرانگیز جلدی اٹھ کر ناشتہ بنا رہی تھی.
شادی کے بعد آج وہ پہلی بار باقاعدہ ناشتہ بنانا شروع کر رہی تھی.
وہ بھی آکر اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا…
،،پلیز آپ جاکر لاؤنج میں بیٹھیں.،،
میر شہزاد کی موجودگی میں کام کرتے ہوئے وہ ہمیشہ کنفیوز ہوجاتی تھی.
،،کیوں میں یہاں پہ کھڑا کیوں نہیں ہوسکتا؟تمہیں کسی چیز کی ضرورت بھی تو ہوسکتی ہے….،،
وہ ڈھٹائی سے بولا.
،،فی الحال مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.،، سانس پی کر وہ جلدی جلدی انڈہ پھیٹنے لگی.اس دوران میر شہزاد کی کوئی ضروری کال آگئی اور وہ کال سننے چلا گیا.
جب وہ واپس آیا تو مہرانگیز ٹیبل پہ ناشتہ لگا چکی تھی.
،،تم ناشتہ نہیں کرو گی ؟،،اسے اندر جاتے دیکھ کر میر شہزاد نے پوچھا.
،،نہیں مجھے جلدی ہے.،، یہ کہتے ہوئے وہ کمرے میں چلی گئی.
میر شہزاد ناشتہ وہیں چھوڑ کر اندر آگیا.
،،تم کہیں جا رہی ہو….،، اسے حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی صبح صبح وہ کہاں جا سکتی ہے.
،،ہاں جاب پہ جا رہی ہوں. کل سے میری چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں.،،
،،جاب… مگر تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟،،
،،ضرورت ہے تو جا رہی ہوں…،،
وہ ہینڈ بیگ اٹھاتے ہوئے بولی.
،،تم کہیں نہیں جا رہی آرام سے آکر ناشتہ کرو.،، پہلی بار وہ سخت لہجے میں بولا تھا.
،،سوری مجھے دیر ہورہی ہے.،، وہ باہر نکلتے ہوئے بولی.
میر شہزاد اس کے بالکل سامنے آ کر راستہ روک کر کھڑا ہوگیا.
،،ایک بار کہہ دیا ہے کہ تم نہیں جا رہی تو بس نہیں جا رہی…پہلے تم جاب کرتی تھی اور بات تھی. مگر اب تم نہیں کرسکتی.،،
،،اب کیوں نہیں کرسکتی؟،،
اب تم میر شہزاد کی بیوی اور اس کی ذمہ داری ہو…،،
،،بیوی…،، مہرانگیز استہزائیہ انداز میں ہنسی.
،،کیا گارنٹی ہے کہ تم اپنی بیوی کو پہلے کی طرح چھوڑ کر کئی سال کےلیے غائب نہیں ہوجاؤ گے؟؟؟
میر شہزاد جس طرح کے تمہارے دھندے ہیں جیل میں جانا تمہارے لیے عام سی بات ہے. تمہاری خاطر میں اتنی اچھی جاب نہیں چھوڑ سکتی.
،،مہرانگیز تمہیں جاب چھوڑنی پڑی گی.. آئی بات سمجھ میں!!!،، خوفناک سرسراتا لہجہ تھا.
،،راستہ چھوڑو میرا…،، وہ اس کے غصے کو نظر انداز کرکے بولی.
،،میں کہہ رہا ہوں اگر اب تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تمہاری ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں تھما دوں گا.،، وہ ضبط کی انتہا پر تھا.
مہرانگیز نے بے یقینی سے اسے دیکھا… وہ جو کچھ دن پہلے کہہ رہا تھا کہ میری وجہ سے ان آنکھوں میں آنسو نہیں آئیں گے.
وہ شکست خوردگی سے ہینڈ بیگ بیڈ پہ گرا کر وہیں بیٹھ گئی.
،،پلیز مہرانگیز میری بات سمجھنے کی کوشش کرو…،، میر شہزاد قدرے نرم پڑتے ہوئے اس کے کاندھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا.
،،ہاتھ مت لگاؤ مجھے…،،
I said don’t touch me.
جس لہجے میں مہرانگیز نے کہا تھا. میر شہزاد فوراً پیچھے ہٹ گیا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Next episode???20
Huma upload kr di h.
Thank you