Barish K Bad Urdu Novel | Episode 2 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
میر شہزاد سے نکاح کے وقت مہر انگیز میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سر اٹھا کر انکار کر دیتی….
،،ارے میرے یار کا نکاح ہوا ہے… کوئی مٹھائی شٹھائی ہو جائے.
سجو فوراً مٹھائی کا ڈبہ لیکر آو.،،
دعا کے بعد موٹی آنکھوں والے ایک فربہ شخص (جس کے آدھے چہرے کو کالی مونچھوں نے ڈھانپا ہوا تھا) نے کسی کو حکم دیا.
،،اس کی کوئی ضرورت نہیں سنی، میں ذرا جلدی میں ہوں… مہر انگیز صاحبہ کو عزت و احترام سے ان کے گھر پہنچا دیجئے گا…،،
میر شہزاد اٹھتے ہوئے بولا.
،،یار دو منٹ رک جا مٹھائی آنے والی ہے.،،
سنی نے اصرار کرتے ہوئے کہا.
،،مٹھائی اس محترمہ کو کھلا دیجئے گا.،،
حقارت بھری نظر ڈالتا میر شہزاد اٹھ کر وہاں سے چلا گیا.
،،باجی آپ مٹھائی کھائیں گی؟،،
پستہ قد والے دبلے پتلے سجو نے مہر انگیز سے پوچھا:
میر شہزاد کے جانے کے بعد پہلی بار مہر انگیز نے نظریں اٹھا کر دیکھا…
،،کیڑے پڑیں تم سب کو!!!،،
انھیں مٹھائی کھاتے دیکھ کر وہ غصے سے بولی.
مہر انگیز کی اس بات پر سب کا یوں مشترکہ قہقہہ بلند ہوا جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو.
،،سن راشد رات کا ٹائم ہے.کالو کو ساتھ لیکر بھابھی کو عزت و احترام سے گھر تک چھوڑ آؤ.،،
مٹھائی سے فارغ ہونے کے بعد سنی نے اپنے ساتھی سے کہا.
،،اور ہاں دھیان سے میر شہزاد کی بیوی ہے… کوئی غلط نظر اٹھا کے مت دیکھنا!!! ورنہ تیرا کیا حشر ہوگا یہ توں اچھی طرح جانتا ہے.،،
وہ دونوں شرافت کے ساتھ مہر انگیز کو اس کے گھر تک چھوڑ گئے.
اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے.
گھنٹی بجانے پر دروازہ اس کے چھوٹے بھائی نے کھولا.
،،امی کہاں ہے؟،،
مہر انگیز نے آتے ہی پہلا سوال کیا.
،،وہ تو سو گئی ہیں کہہ رہی تھیں کچن میں سالن اور روٹی رکھی ہے اٹھا کے کھا لینا.،، سعد نے بتایا.
وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی. اس نے ابھی تک دلہن والا سوٹ پہنا ہوا تھا.
جب سے وہ جاب کرنے لگی تھی.کبھی کبھار شوٹنگ کے بعد وہ لیٹ ہو رہی ہوتی تو اسی گٹ اپ میں گھر چلی آتی تھی اور دوسرے دن کپڑے سامان وغیرہ لوٹا دیتی.
اس لیے اس حلیے میں دیکھ کسی نے نوٹس نہیں کیا تھا.
،،اپو میں کھانا لے آؤں آپ کےلیے؟،،
سعد نے تھوڑی دیر بعد آکر پوچھا:
اس نے چونک کر سعد کو دیکھا اتنی دیر سے عام سے سنگل بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے وہ ویسے کی ویسے بیٹھی تھی.
،، نہیں تم سو جاؤ میں کھانا کھا کر آئی ہوں.،،
اس نے آہستگی سے جواب دیا.
،،کوئی بات ہے اپو؟،،
وہ غور سے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ رہا تھا.
اس نے نفی میں سر ہلایا اور زبردستی مسکرائی.
،،میں چینج کر لوں.،،
وہ اپنے کپڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی.
سعد اثبات میں سر ہلا کر واپس چلا گیا.
اس کے جانے کے بعد وہ امی کے جہیز کی پرانے فیشن کی بنی سنگھار میز کے سامنے آئی.
وقت کی رفتار نے اس کے شیشے کو اچھا خاصہ دھندلا دیا تھا.
وہ کتنی دیر خود کو آئینے میں دیکھتی رہی…. گہری لال لپ سٹک ابھی تک اس کے ہونٹوں پر ویسے کی ویسی لگی ہوئی تھی.
بڑے ارمان سجائے تھے ناں اس دن کے لیے ایک زخمی مسکراہٹ اس کے چہرے پر عود کر آئی.
💔💔💔
،،یار مہر انگیز خدا کےلیے اپنی امی جان کو کہیں ایک نیا سوٹ بنوا ہی دیں تمہیں…ہر فنکشن پہ یہی سوٹ پہنے دیکھ دیکھ کر مجھے تو اس کا ڈیزائن تک حفظ ہوگیا ہے سجاول قریشی اس کے قریب آکر آہستہ سے بولا.،،
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مہر انگیز کا ایف ایس سی میں بہت برا رزلٹ آیا تھا… اب وہ سمپل بی اے میں ایڈمیشن لے رہی تھی.
وہ اپنی کزن کی مہندی رات پر آئی ہوئی تھی…. جب سجاول خاموشی سے اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا… پہلے تو اس نے اسے نوٹس نہیں کیا مگر جب اس نے اسے متوجہ کرکے یہ بات کہی تو آہانت کے مارے مہر انگیز کا چہرہ سرخ ہوگیا….اس کے پلٹ کر جواب دینے سے پہلے وہ وہاں سے جا چکا تھا.
سجاول کے ان دو جملوں نے فنکشن کا سارا مزہ برباد کر کے رکھ دیا تھا.
وہ بار بار اپنی لال آنکھیں رگڑتی رہی تھی. سجاول کہہ بھی تو ٹھیک رہا تھا…. گولڈن کلر کا یہ شرارہ جس پر گوٹا کناری کی موٹی موٹی پٹیاں لگی ہوئی تھیں…. اس نے اتنی بار پہنا تھا کہ اب تو صحیح تعداد بھی بھول گئی تھی.
میٹرک کے دور کا سلا ہوا یہ شرارہ امی اسے ہر مہندی کے فنکشن پر پہنا دیتی تھی.
پچھلی بار خوب رونے دھونے اور منہ بنانے پر امی نے وعدہ کیا تھا کہ ارم کی شادی پر نیا سوٹ لیکر دوں گی….
مگر جب اس کا خراب رزلٹ آیا تو غصے کے مارے امی نے نیا سوٹ تو کجا جوتی تک بھی نہیں خرید کے دی تھی.
ارم کی بہن انعم اسے بار بار رات رہنے کا کہہ رہی تھی مگر اس وقت اس کا اتنا موڈ خراب تھا کہ وہ جلد از جلد اپنے گھر جا کر ان کپڑوں سے پیچھا چھڑا کر ڈھیر سارا رونا چاہتی تھی.
جیسے ہی گھر جانے کے لیے امی نے تیاری پکڑی… سجاول نے فوراً آ کر انھیں اپنی گاڑی میں چھوڑنے کی پیشکش کی امی تو جیسے پہلے سے راضی بیٹھی تھیں.
مہر انگیز اس وقت اپنی چادر لینے اندر گئی ہوئی تھی. جب وہ باہر آئی تو امی سعد اور عباد پہلے سے گاڑی کے اندر بیٹھ چکے تھے.
ڈرائیونگ سیٹ پر سجاول اس کی راہ تک رہا تھا.
اسے دیکھ کر مہرانگیز کا دل چاہا کہ ابھی جاکر سجاول سمیت اس گاڑی کو آگ لگا دے.
،،سعد نکلو یہاں سے پیچھے میں بیٹھوں گی.،،
امی پر آیا غصہ وہ سعد پہ نکالتے ہوئے بولی.
،،آجا یار کیسی سڑیل بہن سے پالا پڑا ہے.،،
سجاول نے بیک ویو مرر سے اپنے بال سیدھے کرتے ہوئے سعد کو بلایا.
وہ بیچارہ برے برے منہ بناتا آگے جاکر کر بیٹھ گیا.
مہر انگیز کا چہرہ غصے کے مارے دہک رہا تھا.
تم رکی کیوں نہیں گھر سے تو رات رہنے کا ارادہ کرکے آئی تھی.
گاڑی چلنے کے بعد امی نے مہرانگیز سے پوچھا.
اگر پتا ہوتا سجاول قریشی کے ساتھ جانے کا موڈ بن گیا ہے تو کہیں رک ہی جاتی.
مہر انگیز نے کھولتے ہوئے سوچا.
امی کے اس سوال پر سجاول نے مسکرا کر شیشے میں مہر انگیز کے چہرے کو دیکھا.
،،بس بور ہو رہی تھی.،،
مختصر جواب دے کر وہ باہر کی طرف دیکھنے لگی.
،،آنٹی بلال انکل سے کہیں ایک آدھ مہران کی گاڑی وہ بھی لے لیں آج کے دور میں سواری ایک لازمی ضرورت بن چکی ہے.،،
سجاول نے تھوڑی دیر بعد وردہ آنٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.
ایک تاریک سا سایہ وردہ آنٹی کے چہرے پر آ کے گزر گیا…
،،بس بیٹا دعا کرو.،،وہ حسرت سے بولیں.
ہونہہ چھوڑ دیا نیا شگوفہ!!!
بیچارے ابا کی شامت کے لیے…
مہر انگیز نے سانس پیتے ہوئے سوچا.
پورا راستہ مہر انگیز نے ایک لفظ نہیں بولا جبکہ سجاول اس کی امی سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا تھا.
کن اکھیوں سے وہ مہر انگیز کے چہرے کے بگڑتے زاویے کو بھی دیکھ لیتا تھا.
اس نے گاڑی ان کے گھر کو جانے والی گلی کے قریب روکی.
کیونکہ تنگ راستے کی وجہ سے کار آگے نہیں جا سکتی تھی.ویسے تو زیادہ تر سجاول کے پاس مہران کار ہی رہتی تھی.
مگر شادی بیاہ کے موقع پر شیراز انکل دل بڑا کر کے اپنے بیٹے کو سخت ہدایات کے بعد بڑی گاڑی دے دیتے تھے.
مہر انگیز کے گھر تک چھوٹی گاڑی آجاتی تھی مگر چونکہ اب امیرزادے کے پاس بڑی گاڑی تھی تو امی اور اس کے دونوں بھائی اسی وقت نیچے اتر گے تھے.
اس دوران مہر انگیز کی انگوٹھی گاڑی میں گر پڑی.
،،امی آپ چلیں میں انگوٹھی ڈھونڈ کر آ رہی ہوں.،، مہر انگیز نے امی کو کہا.
وردہ آنٹی سجاول کا شکریہ ادا کرکے گھر کی طرف چل پڑیں جو سامنے دو گھر چھوڑ کر تھا.
،، محترمہ اب اتر بھی جائیں مجھے اور بھی بہت کام ہیں.،،
سجاول نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد تنگ آکر کہا.
اس دوران امی کافی آگے نکل چکی تھیں.
،،بس مل گئی ہے.،،
مہر انگیز انگوٹھی اوپر کرتے ہوئے جلدی سے بولی اور باہر نکل کر اتنی شدت سے دروازہ بند کیا بے کہ بے اختیار سجاول کے ہاتھ کانوں تک چلے گئے.
تھوڑا آگے جاکر آگے جاکر اس نے مڑ کر سجاول کو دیکھا جو گاڑی سے نکل کر پریشانی کے عالم میں دروازہ چیک کر رہا تھا.
جاری ہے۔۔۔
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول