Barish K Bad Urdu Novel | Episode 20 | بارش کے بعد اردو ناول
کچھ دنوں سے میر شہزاد خود ذہنی طور کافی ڈسٹرب تھا.
اس دن جب چیک کرنے کے لیے اس نے لیپ ٹاپ کھولا تھا تو اس میں کسی انجان ادھیڑ عمر شخص کی بہت ساری نجی تصویریں تھیں.
بند مٹھی کی شکل میں دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ کر کتنی دیر وہ پرسوچ انداز میں ان تصاویر کو دیکھتا رہا…
موٹے عدسوں والی عینک پہنے اس شخص کی عمر 35، 45 برس کے قریب ہوگئی.
اس کی اپنی فیملی کے علاوہ کچھ تصاویر پولیس کی وردی میں بھی تھیں.
جب میر شہزاد گرفتار ہوا تھا ان دنوں غازی پمپ پر کاشف نام کا ایک لڑکا کام کرتا تھا. پمپ پر چھاپے کے بارے میں اس نے میر شہزاد کو فون کرکے بتایا تھا.
میر شہزاد نے لیپ ٹاپ میں سے وہ ساری تصاویر نکال کر اپنے سیل فون میں ڈالیں اور کاشف سے ملنے چلا گیا.
کاشف آجکل ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کا کام کررہا تھا. میر شہزاد کو وہ فوراً پہچان گیا.
ایک بار اس نے اپنے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں میر شہزاد سے مدد مانگی تھی. میر شہزاد نے بغیر پیسوں کے اس کا کام کروادیا تھا. وہ ابھی تک اس کا ممنون نظر آ رہا تھا.
رسمی سلام دعا کے بعد میر شہزاد اصل نکتے کی طرف آیا.
،،کاشف کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟،، وہ فون سے اس شخص کی تصویر دکھاتے ہوئے بولا.
،،شہزاد بھائی…یہ تو وہی شخص ہے جو ان دنوں اکثر پمپ پر آتا رہتا تھا.،، کاشف اسے پہلی نظر میں پہچان گیا.
،،پمپ پر منشیات وغیرہ کی سپلائی کا سارا کام بھی اس کی نگرانی میں ہوتا تھا.،،
،،یہ کام کتنے عرصے سے چل رہا تھا؟،،
،،آپ کے جیل جانے سے تقریباً تین ماہ پہلے…
میں سمجھا تھا شاید آپ کو اس بارے میں سب کچھ معلوم ہے…،، کاشف قدرے جھجھک کر بولا.
،،کاش مجھے اس بارے میں کچھ معلوم ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی !!!،، میر شہزاد گہرے تاسف سے بولا.
اس کے بعد میر شہزاد نے اس شخص کے بارے میں مزید معلومات اکھٹی کروائیں.
اس کا نام اسلم خان ملغانی تھا.پہلے وہ سب انسپکٹر تھا، پھر اچانک اس کی ترقی ہوئی اور وہ ایس ایچ او کے عہدے پر آگیا.
عمران کی وفات کے فوراً بعد ایک پولیس مقابلے میں اس کی بھی موت ہوگئی تھی.
میر شہزاد اسے بالکل نہیں جانتا تھا. اور نہ ہی زندگی میں کبھی اس سے ملاقات ہوئی تھی… پھر سوال یہ تھا کہ وہ کیوں میر شہزاد کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا؟؟؟
عمران نے اس کی نجی تصویریں اس کے لیپ ٹاپ میں کیوں رکھی تھیں؟؟؟
یہ تو طے تھا کہ دشمن جو بھی تھا اس نے خود تک پہنچنے والے ہر بندے کو نہایت ہوشیاری سے اپنے راستے سے ہٹوا دیا تھا.
جب تک میر شہزاد اصل تہ تک نہیں پہنچ نہیں پاتا ایک خطرہ مسلسل اس کے سر پر منڈلا رہا تھا… ایسے میں مہرانگیز کو جاب پر جانے کی اجازت دے کر وہ مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا.
اتنی مہنگی کالونی میں کرائے کا گھر اس نے صرف اس وجہ سے لیا تھا کیونکہ یہاں کی سیکورٹی بہت زیادہ سخت تھی. کہیں جاتے ہوئے مہرانگیز کے معاملے میں وہ مکمل طور پر مطمئن رہتا تھا. اب اگر مہرانگیز جاب کرتی تو وہ سب کی نظروں میں فوراً آجاتی… یہ بھی ہوسکتا تھا اس بار وہ لوگ مہرانگیز کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے.
مگر مسئلہ یہ تھا کہ مہر انگیز اس کی مشکل سمجھنا نہیں چاہتی تھی. اس وقت وہ کہنیاں بیڈ پہ ٹکائے شدید غصے کی حالت میں بیٹھی تھی.
میر شہزاد کچھ دیر سر جھکا کر خاموش بیٹھا رہا پھر اٹھ کر باہر چلا گیا.
اس دن مہرانگیز اور میرشہزاد شازیہ میر کے گھر دعوت پہ گئے تھے ہمایوں لغاری وہاں سے سیدھا اپنے فارم ہاؤس پہنچا تھا.
،،ولید مجھے جیل کی وہ سی سی ٹی وی فوٹیج نکال کے دو جس میں ایک اجنبی لڑکی میر شہزاد کو ملنے آتی ہے…،،
وہ کوٹ کے بٹن کھولتا ہوا عجلت میں بولا.
چاک و چوبند ولید (جس نے بلیک ٹراؤزر اور بلیک گول گلے والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی) نے چند منٹ کے اندر وہ وڈیو نکال کے چلا دی.
ایک لڑکی کالی چادر سے چہرہ چھپائے گیٹ سے اندر داخل ہوتے دکھائی دی رہی تھی.
،،اسے زوم کرو.،،
ولید نے لڑکی پر فوکس کرکے اسے مزید زوم کیا.
،،یہی ہے وہ لڑکی میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں یہی ہے وہ!!!،،
ہمایوں لغاری نے اس لڑکی کی طرف انگلی کرتے ہوئے پورے یقین سے کہا جس کی صرف سیاہ آنکھیں نظر آ رہی تھیں.
،،مجھے اس لڑکی کا مکمل ڈیٹا چاہیے.،،
اگلی صبح ہمایوں لغاری اور شازیہ میر معلوم کے مطابق ناشتہ کر رہے تھے جب شازیہ میر کے سیل فون پر فیاض ماموں کی کال آنے لگی.
اس نےایک بار نظر انداز کرکے اپنی توجہ کھانے پر مرکوز رکھی مگر فون جب بار بار بجنے لگا تو کھانا چھوڑ کر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی.
فیاض پٹواری حددرجے پریشان تھے… کیونکہ پچھلی رات جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ پڑا تھا. اس میں اس کے بیٹے وجاہت درانی کا نام لیا جا رہا تھا. صبح سے میڈیا پر یہ خبر بریکنگ نیوز کی طرح چل رہی تھی.
اس سلسلے میں وہ چاہتے تھے کہ شازیہ میر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کے بیٹے کو اس مشکل سے نکالیں.
،،سوری ماموں میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی.،،وہ قطیعت سے بولی.
،، شازیہ بیٹی تم چاہو تو بہت کچھ کرسکتی ہو.،، وہ امید بھرے لہجے میں عاجزی سے بول رہے تھے.
،، ماموں آپ جانتے ہیں میں ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی آئی ہوں.
میرے اپنے بھائی میر شہزاد کو دس سال قید کی سزا ملی تھی. میں چاہتی تو منٹوں میں اس کی ضمانت کروا کے رہا کروا سکتی تھی. مگر آج تک میں نے جرم کرنے والوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا خواہ وہ میری ماں ہو بھائی ہو یا پھر خدانخواستہ شوہر ہی کیوں نہ ہو.،،
ہمایوں لغاری نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا.
،،شازیہ بیٹی مجھ بوڑھے پہ رحم کرو پولیس اسے گرفتار کرنے کی تیاری کر رہی ہے. کچھ تو کرو…،،
وہ تقریباً رو دینے کے قریب تھے.
،،اچھا دیکھتی ہوں آپ بس دعا کریں اس اسکینڈل میں وہ واقعی ملوث نہ ہو.،، ( حالانکہ اسے وجاہت درانی سے اس گھٹیا کام کی ہی امید تھی) ماموں کو رسمی تسلی دیتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا.
،،خیریت فیاض ماموں سے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں کیا؟،،
ہمایوں لغاری نے توس پر اسپریڈ لگاتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا.
،،ایسی کوئی بات نہیں ہے.،، شازیہ میر سنجیدہ تھی.
،،پھر تم انکی حمایت سے ہاتھ کیوں کھینچ رہی ہو؟،،
،،شاید کچھ رشتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتبار تکلیف پہنچاتا ہے.،،
پہلی بار وہ شوہر کے سامنے اعتراف کررہی تھی.
،،میں نے تو پہلے بھی آپ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت آپ ان کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتی تھیں…جیسے اب آپ میر شہزاد کے معاملے میں کررہی ہیں.،، وہ بات کو اب اصل رخ پر لا رہا تھا.
،،میر شہزاد کا اس سے کیا تعلق ہے؟،، وہ ڈونگے سے سالن نکالتے ہوئے بولی.
،،دیکھو شازیہ تم بھلے میر شہزاد کو سگے بھائی کی طرح چاہتی ہو مگر ایک بات یاد رکھنا…. وہ نہ صرف تمہارا سوتیلا بھائی ہے بلکہ اس کا حق دبا کر اس کے ساتھ بہت بڑی زیادتی بھی کی گئی ہے.،،
،،تو؟،،
،،تو یہ کہ میر فرہاد کی موت سے جتنا فائدہ تمہارے ماموں کو پہنچا ہے اس سے زیادہ میر شہزاد بھی سمیٹ سکتا ہے… تم خود سوچو میر فرہاد کی موت کے فوراً بعد وہ جیل چلا گیا تھا.
جیل میں ہونے کی وجہ سے میر فرہاد قتل کیس کی تحقیقات کے دوران کسی کا شک میر شہزاد کی طرف نہیں گیا.
اب جبکہ تمہارے بھائی کا قصہ پارینہ ہوچکا ہے تو چار سال بعد اچانک وہ جیل سے نکل کر منظر عام پر آجاتا ہے.
حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالت اس کے سارے مقدمات ایک مہینے کے اندر ختم کر چکی ہے. کیا یہ بات عجیب نہیں کہ جو شخص ایک مہینے کے اندر سارے مقدمات ختم کروانے کی طاقت رکھتا ہو وہ چار سال جیل میں رہنا کیوں پسند کرے گا؟؟؟
یہ بھی تو ہوسکتا ہے چار سال اس نے جیل میں گزارے ہی نہ ہوں وہ کوئی گیم کھیل رہا ہو. ویسے بھی میر فرہاد کے قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں حل ہوا.،،
وہ ہمیشہ کی طرح نرم اور دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا…جبکہ شازیہ میر کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہو.
ہمایوں لغاری اچھی طرح جانتا تھا کہ شازیہ میر ہمیشہ ٹھوس دلائل سے قائل ہوتی تھی.
اس وقت وہ جو کچھ کہہ رہا تھا واقعی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا.
،،اب تم تو یہ کہو گی کہ پولیس کی نوکری کی وجہ سے میں ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں،لیکن یہ بھی تو دیکھو جس بندے کے ساتھ آپ لوگوں نے اتنی بڑی زیادتی کی ہو وہ بدلہ لینے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے.،،
ہمایوں لغاری کچھ بھی پر زور دیتے ہوئے بولے.
،،ضروری نہیں جو چیزیں بظاہر نظر آ رہی ہوں حقیقت میں بھی ویسی ہی ہوں…،،
شازیہ میر کے کانوں میں میر شہزاد کے یہ الفاظ گونج رہے تھے جو اس نے اپنی پہلی ملاقات کے دوران کہے تھے.
اس کی بھوک مٹ چکی تھی. کھانے کی پلیٹ واپس دھکیلتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی.
ہمایوں لغاری نے اچھنبے سے اسے دیکھا.
،،میں جا رہی ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے…،، وہ پریشان لگ رہی تھی.
اس کے جانے کے بعد ہمایوں لغاری سکون سے ناشتہ کرتا رہا. اس کے چہرے پر بلا کی پراعتمادی تھا. ایک خاموش پرسکون سمندر جیسا ٹھہراؤ تھا جو اپنے اندر تمام راز چھپائے بیٹھا ہو.
مہرانگیز کو پہلی بار کسی نے اتنی سختی سے اپنا حکم ماننے پر مجبور کیا تھا. وہ بھلا کہاں ایسے رویے کی عادی تھے. اس کے ابا نے آج تک اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی. ایک امی تھی جس کی ڈانٹ کو وہ ہمیشہ خاطر میں نہ لاتی تھی. آج پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کتنی بدتمیزی سے ماں کے سامنے زبان چلاتی تھی. وہ ماں تھی جو خاموش ہوجاتی تھی…
مگر یہاں میر شہزاد تھا جس طرح آج وہ غصے میں لگ رہا تھا اگر وہ نہ رکتی تو حقیقت میں اس کی ٹانگیں توڑ کے رکھ دیتا.
ابھی وہ اسی سوگ میں بیٹھی تھی کہ وردہ بیگم کی کال آنے لگی…. ماؤں کا اپنے بچوں کے دل کے ساتھ کنکشن جڑا ہوتا ہے شاید!!!
اس نے آزردگی سے فون اٹھایا.
،،مہرانگیز؟،، امی نے اپنائیت بھرے لہجے میں پکارا تھا.
وہ تو پہلے غم کی بھری بیٹھی تھی، ماں کی آواز سنتے ہی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکی اور رونے لگ گئی.
،،کیا ہوا مہر؟،، وردہ بیگم حددرجے پریشان ہو گئیں.
،،کچھ نہیں بس آپ کی یاد آرہی تھی.،،
،، میر شہزاد سے کوئی بات تو نہیں ہوگئی؟،،
وہ فکرمندی سے بولیں.
،، ایسی کوئی بات نہیں ہے اس وقت میں آپ کو مس کررہی تھی کہ آپ کا فون آگیا بس پھر رونا آگیا.،،
وہ بھرائی ہوئی آواز میں ایک ایک لفظ توڑ کر بولی.
،،بیٹیوں کو اپنے میکے کی تب یاد آتی ہے جب سسرال میں ان کا کسی بات پہ دل دکھا ہوتا ہے. تم ٹھیک تو ہو؟،،
کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ مہرانگیز چھوٹی چھوٹی باتوں پہ سب کے سامنے رونے والی نہیں ہے.
،،امی میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ہے ناں؟،، اس کے لہجے میں پچھتاوا، ندامت دونوں تھے.
،،لو بھلا مائیں کبھی بیٹیوں سے ناراض ہو سکتی ہیں.،، امی چمکار کر بولی.
،،لیکن میں کبھی اچھی بیٹی نہیں رہی ہوں.،،وہ کرب سے آنکھیں بھینچ کر بولی.
،،مہر میری جان کیا ہوا ہے؟ کیوں ایسی باتیں کررہی ہو؟،،
مگر مہرانگیز کی آواز اتنا زیادہ بھرائی ہوئی تھی کہ اس سےکچھ بولا نہیں جا رہا تھا. کوئی جواب دیے بغیر فون بند کرکے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.
ادھر وردہ بیگم کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا. عجیب عجیب سے وسوسے اٹھ رہے تھے.
دوسری طرف پمپ پر جاکر بھی میر شہزاد کا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا. ذہن ابھی تک صبح کے اس ناخوشگوار واقع پہ الجھا ہوا تھا. اس نے اپنے لیے ایک کپ کافی کا منگوایا… آج اسے کافی کچھ زیادہ ہی کڑوی لگ رہی تھی. ایک دو گھونٹ بھر کر اس نے کافی کا کپ واپس بھجوا دیا.
بارہ بجے کے قریب وہ واپس گھر آیا تو مہرانگیز منہ پہ کمبل لپیٹے سو رہی تھی. لاؤنج میں ناشتہ ویسے کا ویسے ٹیبل پر پڑا تھا.
اس نے برتن اٹھا کر کچن میں رکھے… اور وہیں ٹی وی چلا کر بیٹھ گیا. بے مقصد چینل سکرول کرتے کرتے وہ مزید اکتا گیا.
ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد اس نے بیڈ روم میں جھانکا تو وہ اٹھ کر جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی… اس کی آنکھیں لال اور متورم تھیں.
،،مہر انگیز بھوک لگ رہی ہے کہیں باہر کھانا کھانے چلیں؟،،
وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے قریب آکر نرمی سے بولا.
مہر انگیز نے چونک کر اسے دیکھا میر شہزاد کے چہرے پر شرمندگی اور ندامت تھی.
،،چلیں…،، وہ جیسے ہار مانتے ہوئے بولی.
میر شہزاد نے جھرجھری لیکر زور سے سر کو جھٹکا. کیونکہ ابھی وہ دروازے کے پاس کھڑا تھا. مہرانگیز کو منا کر باہر چلنے کےلیے کہنا صرف ایک خیال تھا.
صبح جس طرح کا اس نے شدید ردعمل دیا تھا فی الحال اسے منانا اتنا آسان نہ تھا.
وہ کچھ کہے بغیر تھکے تھکے قدموں سے واپس لاؤنج میں آکر بیٹھ گیا. مہرانگیز اس سے مزید بدظن ہوگئی تھی .دل پہ بھاری بوجھ آگرا تھا.
اتنے میں بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی.
وہ بیزاری سے اٹھ کر دروازے پر گیا باہر سعد آیا ہوا تھا. سعد کو یوں اچانک دیکھ کر وہ کچھ گڑ بڑا گیا.
،،امی نے آج رس ملائی بنائی تھی… اپو کو بہت پسند ہے تو اس کےلیے بجھوائی ہے.،،
سعد شاید اس کے چہرے کے تاثرات بھانپ گیا تھا اس لیے فوراً وضاحت دی.
میر شہزاد چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے خوشدلی سے سعد کو ملا.
سعد اس کی معیت میں چلتا ہوا اندر آیا.
،،مہر انگیز!!!،،
،،مہرانگیز!!!،، اس بار میر شہزاد نے قدرے اونچی آواز میں پکارا.
مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا.
،،نماز پڑھ رہی ہوگئی.،، اس نے بلاوجہ وضاحت دی.
،،مہرانگیز تمہارا بھائی سعد آیا ہے.،،
چند لمحے توقف کے بعد میر شہزاد نے دوبارہ بھاری آواز میں پکارا.
اس بار وہ فوراً باہر نکلی تھی. اس کا دوپٹہ ابھی تک سر پہ نماز کے انداز میں لپیٹا ہوا تھا.
سعد اسے دیکھ کر ملنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا.
وہ غور سے مہرانگیز کے اداس چہرے کو دیکھ رہا تھا.
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد سعد واپس چلا گیا تھا.زیادہ تر وہ اور سعد آپس میں بولتے رہے تھے. مہر انگیز بالکل خالی الذہنی کی کفیت میں بیٹھی رہی تھی. وہ پریشان تھی تو اس نے اپنی پریشانی سعد سے چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی.
سعد کے سامنے میر شہزاد کو حددرجے شرمندگی محسوس ہورہی تھی. اسے روانہ کرنے دروازے تک صرف میر شہزاد گیا تھا.
،،شہزاد بھائی اپو غصے کی تیز ہیں مگر وہ دل کی بہت اچھی ہیں.آج صبح امی نے اس سے بات کی تھی تو وہ رو رہی تھی .پلیز آپ ان کا خیال رکھا کریں.،،
جاتے جاتے سعد اس سے شکوہ کرگیا تھا.
جواب میں اس نے کوئی وضاحت نہیں دی تھی بلکہ خاموش ہوگیا تھا.اسے روانہ کرکے وہ واپس آیا تو مہرانگیز ابھی تک صوفے پر بیٹھی تھی.
میر شہزاد کو شدید برا لگا کہ اتنی سی بات پہ اس نے امی کو فون کردیا. سعد کے سامنے یوں ظاہر کررہی تھی جیسے وہ اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہو.ایک گرہ اس کے دل میں پڑی تھی.
اسے نظرانداز کرکے وہ دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا. وہ ناراض تھی تو میر شہزاد نے دوبارہ اسے منانے کی کوشش نہیں کی تھی.
مہر انگیز کی روٹین شروع سے ایسی تھی کہ وہ صبح سویرے جاب پر چلی جاتی تھی. اب گھر میں اکیلے سارا دن گزارنا اس کےلیے کسی قید سے کم نہ تھا.
اوپر سے میر شہزاد کا رویہ اسے مزید اشتعال دلا رہاتھا. وہ اس کی وجہ سے جاب پر نہیں جارہی تھی. مگر بجائے وہ اس شرمندہ ہوکر اور اپنے رویے کی معافی مانگتا.الٹا اس کا موڈ آف تھا.
دونوں ساری رات جاگتے رہتے مگر ایک دوسرے کو دیکھ کر فوراً کروٹ دوسری طرف پھیر لیتے تھے. اگلی صبح وہ خاموشی سے باہر چلا جاتا اور مہرانگیز سارا دن اکیلی گھر میں بولائی بولائی سی پھرتی رہتی. وہ بہت کم روتی تھی مگر اب تو جیسے آنسو نے آنکھوں میں ڈیرا ڈال دیا تھا.
میر شہزاد کی بےرخی دیکھ کر آج اس نے امی کے گھر جانے کا پکا فیصلہ کرلیا تھا.
میر شہزاد پمپ پر تھا جب مہرانگیز کی کال آئی. اس کا نمبر دیکھ کر دل عجیب طرح سے دھڑکا تھا.
،،سعد آیا ہوا ہے میں امی کے گھر جا رہی ہوں.،،
مہر انگیز نے نہایت خشک لہجے میں گویا اطلاع دی.
،،ٹھیک ہے جو تمہارا دل کرے.،، سنگدلی سے جواب دے کر وہ اندر ہی اندر کھول رہا تھا. اسے مہرانگیز سے اس قسم کے بچکانہ فیصلے کی ہرگز امید نہیں تھی.
ادھر مہرانگیز توقع کررہی تھی کہ میر شہزاد اسے جانے سے روکے گا.
مگر اس کا سفاک جواب سن کر وہ مذید دکھی ہوکر امی کے گھر چلی گئی تھی.
،،سر کوئی عورت آئی ہوئی ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے؟،،
وہ جو پریشانی کے عالم کنپٹیاں مسل رہا تھا نے چونک کر سر اوپر اٹھایا.
،،کون ہے؟،، آواز میں حیرت تھی.
،،پتا نہیں کہتی ہے آپ سے ملنا ہے.،، ملازم نے جواب دیا.
،،ٹھیک ہے اسے اندر بھیجو.،، میر شہزاد سیدھا ہوکر بیٹھتے ہوئے بولا.
اتنے میں ایک عورت جو سر سے لیکر پاؤں تک سیاہ برقعے میں ملبوس تھی اندر داخل ہوئی.
ٹھیک اسی وقت ہمایوں لغاری کسی ضروری کام کےلیے باہر نکل رہا تھا کہ اس کے موبائل پر میسج آیا.
اس نے مصروف انداز میں سکرین پر نظر دوڑائی. میسج پڑھ کر اس کا چہرہ سفید پڑ گیا. یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کی گردن میں پھندا ڈال کر سانس روک دی ہو.
اس نے حواس باختہ ہوکر ادھر ادھر نظر دوڑائی کہیں کسی نے اسے اس حالت میں دیکھ تو نہیں لیا تھا.
،،فوراً فارم ہاؤس چلو.،، عجلت میں گاڑی کا دروازہ کھول کر اس نے ڈرائیور کو حکم دیا.
ولید( ذاتی محافظ)نہایت پھرتی سے فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ آ بیٹھا تھا.
اس نے اپنے پیچھے سیکورٹی کےلیے آنے والی گاڑیوں کو روکنے کے لیے ولید کو اشارہ دیا.
ولید نے فوراً وائرلیس سیٹ سے منع کر دیا.
گاڑی میں اے سی کی کولنگ ہونے کے باوجود ہمایوں لغاری کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو رہے تھے.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Please next episode jldi upload kr dena ap
Ok
Next Episode ka wait nh ho rha😔