Barish K Bad Urdu Novel | Episode 25| بارش کے بعد اردو ناول
سجاول اور مسکان!!!
اس دن مہرانگیز کے گھر سے ہوکر واپس جاتے ہوئے جہاں سجاول حد درجے خاموش تھا…وہیں مسکان مہرانگیز کو میر شہزاد کی نظروں میں گرانے کی اپنی بھونڈی کوشش پہ مسرور نظر آ رہی تھی.
،،یہ شاطر لڑکیوں کے کام ہیں جو اپنی اداؤں سے اچھے خاصے امیر زادوں کو پھنسا لیتی ہیں…اس مہرانگیز کو ہی دیکھ لو جسے خاندان میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا آج وہ ہم سے اچھا شوہر ہتھیا کر گردن اکڑائے بیٹھی ہے…نصیب نصیب کی بات ہے…(ٹھنڈی سانس)
ایک میرے والا ہے دبکو… دوسروں کے اشاروں پہ چلنے والا اپنی تو کوئی سوچ ہے ہی نہیں… ہر بات میں ماں بہن کی سائیڈ لینے کھڑا ہوجاتا ہے.،،
یہ کہہ کر اس نے تائیدی نگاہوں سے سجاول کی طرف دیکھا مگر وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا.
،،تمہیں کیا ہوا؟اتنا منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟،،
اس نے قدرے اچھنبے سے اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا.
،،اس کو کہتے ہیں لنگور کو مل گئی حور…،،،
ہلکے سبز رنگ کے سوٹ میں شفاف دمکتا چہرہ سجاول کی آنکھوں میں ٹھہر سا گیا تھا جیسے!!!
اس وقت وہ اندر تک سلگ رہا تھا.
،،بس کریں بھائی اتنی حور بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ میر شہزاد اتنا برا ہے.،،
،،پہلی بار تمہیں مہرانگیز کی کوئی چیز پسند نہیں آرہی؟؟؟،، لہجہ طنزیہ تھا.
،،کہیں تم تو امیدوار نہیں تھے اس کے؟،،
وہ چہرہ موڑ کر مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی.
،،وہ صرف میری تھی۔۔۔ وہ کسی اور کے ساتھ جچ ہی نہیں سکتی… یو نو واٹ ابو نےہمیشہ ہمارے ساتھ
زیادتیاں کی ہیں…ان کے غلط فیصلوں کی بدولت آج ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.،،
،،مثلاً کونسے غلط فیصلے کیے ہیں؟؟؟ یہ جو اتنی بڑی گاڑی لیکر گھوم رہے ہو یہ سب اس باپ کی مرہون منت ہے…جس کی وجہ سے آج کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.،، بات کرتے ہو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا… انتہائی ترش لہجے میں مسکان نے جتایا.
غصہ تو اسے مہرانگیز کے بارے میں بھائی کے خیالات جان کر آیا ہوا تھا….
،،جانتی ہو خاندان اور باہر کس طرح سے تبصرے ہو رہے ہیں ہمارے بارے میں…؟ابو نے ہر جگہ اپنا اور ہمارا تماشا بنایا ہوا ہے.،،
،،کرپشن صرف ابو نے نہیں کی…خاندان کا تو کام ہے باتیں بنانا وہ کونسے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں.جب بیٹا باپ کے بارے میں اس طرح کی گھٹیا سوچ رکھے گا تو دوسروں کی زبانیں کھلنی ہی ہیں. میرے سامنے تو کوئی بات کرے منہ نہ توڑ دوں اس کا….،،
،،اگر اپنی اس زبان کو تھوڑا بہت کنٹرول کرنا سیکھ لیتی تو آج اپنے گھر بس رہی ہوتی ہر دوسرے تیسرے دن منہ اٹھا کے یہاں نہ آجاتی.،،
وہ بھی اس کا بھائی تھا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا.
،،ہاں ہاں سچ کہاں تم سے ہضم ہوتا ہے… منہ اس میڈم نے نہیں لگایا… اور غصہ مجھ پہ نکال رہے ہو….،،
وہ باقاعدہ لڑائی پہ اتر آئی.
،،شٹ اپ مذید میرا دماغ خراب نہ کرو…ورنہ یہیں اتار کے چلا جاؤں گا.،،
وہ غصے سے کھولتے ہوتے ہوئے بولا.
مسکان زہر کا گھونٹ بھر کے خاموش ہوگئی. کیونکہ فی الحال سجاول کے ہمراہ سفر کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا.
ہمایوں لغاری زخمی حالت میں!!!
اس دوران اچانک ہڑبونگ سی مچی…. ولید اور اس کے ساتھ دو تین بندے فوراً اسٹڈی روم میں داخل ہوئے اور آن کی آن میں وہ ہمایوں لغاری کو ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے.
شازیہ میر چوکھٹ تھامے ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں وہیں کھڑی تھی. پھر اچانک جیسے واپس حواس میں آئی ہو وہ فوراً باہر کی جانب لپکی مگر تب تک وہ لوگ ہمایوں لغاری کو لیکر وہاں جاچکے تھے. شکست خوردگی سے چلتی ہوئی وہ لونگ روم میں آئی اور وہیں کاؤچ پر ڈھے سی گئی.
دوسری طرف ملازم اسٹڈی روم میں مردہ سانپ کو ہٹا کر سرگوشیاں کرتے فرش کی صفائی میں لگے ہوئے تھے.
ہمایوں لغاری کو ایمبولینس میں فوراً طبی امداد دی گئی. ویسے بھی سانپ کا زہر پوری طرح اندر تک منتقل نہیں ہوسکا تھا.
ہوسپٹل پہنچ کر ضروری ٹیسٹ بعد کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی حالت خطرےسے باہر قرار دے دی.
ہمایوں لغاری مسلسل ہوش میں رہا تھا. وہ بار بار میر شہزاد کے بارے میں پوچھتا رہا تھا مگر ولید اور اس کے دونوں ساتھی بالکل خاموش تھے.ان دونوں کی خاموشی وہ اچھی طرح سمجھ سکتا تھا.
،،لگتا ہے قسمت آج میر شہزاد کا ساتھ دے رہی ہے…،،
ہمایوں لغاری ہوسپٹل کے لگژری روم میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا.
کیونکہ انجکشن کی وجہ سے ان کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونا شروع ہو گئی تھیں.
اس دوران شازیہ میر کی کال آگئی. وہ ہمایوں لغاری کی طبیعت جاننا چاہ رہی تھیں.
،،وہ ٹھیک ہیں ان کی حالت خطرے سے باہر ہے.
انجکشن کی وجہ سے تھوڑی بہت غنودگی میں ہیں. نہیں نہیں آپ کو آنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے…،،
ولید کال ریسیو کرکے انھیں تسلی دے رہا تھا.
ہمایوں لغاری آنکھیں موندے خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے رہے.
،،ولید کیا یہ ممکن ہے کہ وہ وڈیوز کسی طرح شازیہ میر تک پہنچ گئی ہوں؟،،
وہ پرسوچ انداز میں بولے.
،،ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے.ہم نے شازیہ میر کی ہر نقل وحرکت پر نظر رکھی ہوئی ہے. زیادہ تر وہ اپنے قریبی دوستوں اور فیاض ماموں سے رابطے میں رہی ہیں.
کسی مشکوک اجنبی سے کوئی ملاقات نوٹ نہیں کی گئی.،،
،،کچھ ایسا ضرور ہے جو مجھے مسلسل کھٹک رہا ہے پچھلے پندرہ دنوں سے ان کے رویے میں عجیب سی سرد مہری آگئی ہے.،،
وہ جیسے نیند کی کفیت میں بول رہے تھے. ان کی زبان اب لڑکھڑا رہی تھی…
،،وہ بلیک میلر کب کا مرچکا ہے ان وڈیوز کا باب ختم سمجھیں… شازیہ میر کبھی بھی اصل حقیقت نہیں جان سکتیں.،،
ولید نے مکمل اطمینان سے کہا.
،،بے فکر رہیں سر سانپ کا لائبریری میں آنا صرف ایک حادثہ تھا. ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے کسی اور بات پہ ناراض ہوں.،،
اس کے ایک اور ساتھی نے اپنی رائے ظاہر کی.
،،ہوسکتا ہے… بہرحال میں ممکنات پہ زیادہ یقین رکھتا ہوں.،،
وہ بڑبڑائے ان کا ذہن مکمل غنودگی میں ڈوبتا جارہا تھا.کوشش کے باوجود وہ مزید کچھ نہیں سوچ پارہے تھے.
میر شہزاد کا انتظار!!!
ساڑھے چار سے پانچ پھر پانچ سے چھ گھڑی کی سوئیاں موت کی سی خاموشی سے آگے بڑھ رہی تھیں مگر نہ آنا تھا میر شہزاد نے…اور نہ ہی وہ آیا.
ہزار وسوسوں میں گھری مہرانگیز کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا. وہ مضطرب انداز میں چکر پہ چکر کاٹتی بار بار میر شہزاد کا نمبر ملانے کی کوشش کررہی تھی.
مگر ہر بار کال ملانے پر نمبر پاور آف ہونے کی مخصوص نسوانی آواز گونجنے لگتی.
نوبجے کے قریب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے پریشانی کے عالم میں امی کے ہاں فون کیا. اس کے فون کرنے کی دیر تھی کہ آدھے گھنٹے بعد سب گھر والے مہرانگیز کے پاس پہنچ چکے تھے.
سعد فوراً پٹرول پمپ پہ پتا کرنے چلا گیا… کہ شاید کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا ہو.
مگر ملازمین سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ تو صبح سے یہاں پر آیا ہی نہیں ہے.
،،ہمیں فوراً جاکر پولیس میں رپورٹ درج کروانی چاہیے….،،
کسی نے خیال ظاہر کیا.
،،پولیس ہماری کہاں سنتی ہے…. ہمیں میر شہزاد کے قریبی دوستوں سے رابطہ کرنا چاہیے شاید وہ کوئی مدد کرسکیں.،،
سعد نے کہا.
،،شازیہ میر.،،
بے اختیار مہرانگیز کے منہ سے نکلا.
،،وہ بہت بڑی وکیل ہیں ان کے شوہر ایس ایس پی ہیں وہ ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے.،،
پرجوش سی مہرانگیز کے ہاتھ جیسے کوئی سرا لگا ہو.
،،پھر دیر کس بات کی فوراً فون کرو.،،
وردہ بیگم کے کہنے پر مہرانگیز شازیہ میر کا نمبر ملانے لگی.
ہمایوں لغاری ہوسپٹل میں!!!
رات گیارہ بجے کے قریب ہمایوں لغاری کو ہوسپٹل سے ڈسچارج کردیا گیا. وہ جب گھر پہنچا تو شازیہ میر اس کے انتظار میں فکرمند بیٹھی تھی.
،،اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟،،
وہ بےچینی سے اٹھ کر اس کے قریب آئی.
،،کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں. آپ آرام کریں…،،
وہ ہاتھ کے اشارے سے بولے.
ولید اسے سہارا دے کر بیڈروم کی طرف لے جانے لگا.
اتنے میں شازیہ میر کے نمبر پر کال آنے لگی.
،،ہیلو جی شازیہ میر بات کر رہی ہوں….،،
،،مہرانگیز.،،
اس نے مہرانگیز کا نام قدرے اچھنبے سے دہرایا.
بیڈروم میں جاتے قدم وہیں پہ رک گئے. سماعتیں پوری طرح فون پر ہونے والی گفتگو کی طرف متوجہ تھیں.
،،اچھا کب؟ چلو تم پریشان نہ ہو. ہوسکتا ہے وہ کہیں چلا گیا ہو…آج رات دیکھ لو…. میں پتا کروانے کی کوشش کرتی ہوں.،،
،،خیریت؟؟؟،،
ہمایوں لغاری نے مڑ کر پریشان کھڑی شازیہ سے پوچھا.
،،مہرانگیز کا فون تھا کہہ رہی ہے کہ میر شہزاد صبح سے لاپتا ہے…..،،
وہ ابھی تک موبائل تھامے متذبذب کھڑی تھی.
،،یہ بھی اس کی کوئی نئی چال ہوگئی.،،
وہ سر جھٹک کر آگے کی طرف بڑھ گیا.
،،ہوسکتا ہے وہ کسی مصیبت میں ہو.،،
،،تمہارا بھائی ہے تم ایسا سوچنے میں حق بجانب ہو،،
پلٹ کر دیکھے بغیر اتنے مدہم لہجے میں کہا گیا کہ آواز شازیہ میر تک پہنچ جائے.
جبکہ شازیہ میر تیزی سے کسی کا نمبر ملانے لگی.
،،کیا کہہ رہا تھا؟،،
سب نے فون بند کرتی مہرانگیز سے سے تجسس سے پوچھا.
،،وہ کہتی ہیں آج رات دیکھ لو شاید واپس آجائے.،،
،،ہمیں خود کچھ کرنا چاہیے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا.،،
،،ہم آخر کیا کرسکتے ہیں.،،
مہرانگیز رنجیدگی سے بولی. اندر دل جیسے کٹ رہا تھا.
وہ رات انھوں نے امید اور خوف کے ملے جلے تاثر کے ساتھ گزاری.
اگلی صبح بہت خاموشی اور سوگواری سے مہرانگیز کے گھر اتری تھی. شازیہ میر تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر سے ہوکر نکلی تھی.
رات میر شہزاد کی گاڑی سڑک کے کنارے مل گئی تھی اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی کہ میر شہزاد کو اغوا کرلیا گیا تھا.
اغواکار کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا تھا.
پولیس اپنی طرف سے انوسٹی گیٹ کر رہی تھی.
میر شہزاد قید میں!!!
روشن دان سے صبح کی ٹھنڈی کرنیں چھن چھن کر کمرے میں آرہی تھیں.
میر شہزاد شاید پچپن کا کوئی حسین خواب دیکھ رہا تھا….اس کی ماں بالوں میں انگلیاں پھیرتی اسے پیار سے جگا رہی تھیں. کسی خوشگوار احساس کے ساتھ اس نے فوراً آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک سفید کشادہ کمرے میں پلنگ پر پایا. اس کے ایک پاؤں میں زنجیر تھی جسے پلنگ کے ساتھ باندھا گیا تھا.
کچھ لمحے تو اسے سمجھنے میں لگے کہ وہ کہاں پر ہے پھر جیسے سب کچھ واضح ہوتا گیا.
اس نے اردگرد نگاہیں دوڑائی وہ کمرا اسے کچھ جانا پہچانا لگا.
پھر جیسے اچانک جھماکہ ہوا ہو وہ اس کمرے کو اچھی طرح پہچانتا تھا. اگرچہ وقت کے ساتھ اس میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئی تھیں مگر چھ سال کی عمر اتنی چھوٹی نہ تھی کہ وہ اپنے پچپن کمرے کو پہچان نہ پاتا.
سفید حویلی کا چپہ چپہ ابھی تک اس کی یادداشت میں محفوظ تھا.
تیسرا روز!!!
آج میر شہزاد کو لاپتا ہوئے تیسرا روز تھا. جہاں شازیہ میر شہزاد کو ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھی تو وہیں ہمایوں لغاری اپنے ذرائع سے اس کا پتا لگانے کی تگ و دو میں تھا.
اسے خدشہ تھا کہیں میر شہزاد جان بوجھ کر اپنے اغوا ہونے کا کوئی ڈرامہ تو نہیں کررہا کیوںنکہ لاپتا ہونے کی وجہ سے شازیہ میر کی اس کےلیے ہمدردیاں دوبارہ سے لوٹنے لگی تھیں.
اس وقت وہ شازیہ میر کے ہمراہ مہرانگیز کے گھر آیا ہوا تھا.
مہر انگیز سر پر دوپٹا لیے خاموش چہرہ جھکا کر افسردہ کیفیت میں بیٹھی تھی.
جبکہ اس کے پہلو میں شازیہ میر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بالکل فریش لگ رہی تھی. اس کا برینڈڈ بیگ اور موبائل سامنے ٹیبل پہ دھرا تھا.
،،تم پریشان مت ہو انشاءاللہ اسے کچھ نہیں ہوگا…،،
شازیہ میر نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر بولی.
بالکل مقابل دوسرے صوفے پر بیٹھے ہمایوں لغاری نے نظریں اٹھا کر مہرانگیز کو دیکھا.
وہ بلاشبہ حسن کے ہر معیار پر پورا اترتی تھی…غمزدہ اجڑے چہرے کا اپنا ایک سحر تھا اوپر سے وقفے وقفے سے گرتے آنسو کسی بھی مرد کو پاگل کرسکتے تھے.
ہماری لغاری نے دل ہی دل میں اس کے حسن اور میر شہزاد کے انتخاب کو سراہا…
یہ تو قسمت اچھی تھی کہ بیچاری کا شوہر کڈنیپ ہوگیا ورنہ آج وہ ایک بیوہ کی حیثیت سے سامنے بیٹھی ہوتی.
اس عمر میں اس کے بیوہ ہونے کا سوچ کر ہمایوں لغاری کو مہرانگیز پر قدرے ترس بھی آیا.مگر اس میں بھلا اس کی کیا غلطی تھی؟؟؟
میر شہزاد خود اس کے راستے میں آیا تھا مجبوراً اسے انتہائی قدم اٹھانا پڑا تھا.
اس نے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیےگردن جھٹک کر جواز گھڑا.
،،کیا کوئی ایسی بات یا چیز آپ نے نوٹ کی ہو جس سے اغواکاروں کا مقصد واضح ہوسکے؟،،
اس نے قدرے آگے کی طرف جھک کر سنجیدگی سے مہرانگیز سے سوال کیا.
،،مجھے کچھ زیادہ تو معلوم نہیں ہے مگر ایک بار وہ فون پر کسی کو کہہ رہے تھے کہ میرے لیپ ٹاپ سے چرائی گئی وہ وڈیوز کسی طرح واپس مل جائیں تو ہم اس اصل بندے تک پہنچ جائیں گے.،،
،،کونسی وڈیوز؟؟؟،،
ہمایوں لغاری نے بے اختیار چونک کر پوچھا.
،،اس بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں ہے.،،
مہرانگیز صاف گوئی سے بولی.
،،وہ چرائی گئی وڈیوز لیپ ٹاپ سے دوبارہ حاصل بھی تو کی جاسکتی ہیں.،،
شازیہ میر اچانک کسی خیال کے تحت بولی.
ہمایوں لغاری کا دل ڈوب کے ابھرا تھا. اس کا ہاتھ بے اختیار پسینہ پونجھنے کے انداز میں بے ماتھے پہ چلا گیا کہ کہیں کوئی اس کی چوری پکڑ نہ لے.
،،وہ لیپ ٹاپ کہاں ہے میں کسی ایکسپرٹ سے ڈیٹا ری کور کروانے کی کوشش کرتا ہوں.،،
ہمایوں لغاری بیتابی سے بولا.
،،میرے خیال میں تو میر شہزاد نے اس بارے یقیناً کوشش کی ہوگئی.،،
شازیہ میر پہلو بدل کے بولی.
،،ان کا لیپ ٹاپ یہیں گھر پر ہے. میں ابھی لے آتی ہوں شاید کڈنیپرز کے بارے میں کچھ پتا چل سکے.،،
مہر انگیز دوپٹہ سنبھال کر اٹھتے ہوئے بولی.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Shazia meer ko sb pta h tbi apny bhai ko kidnap kr k safe kr lia novel is going to end
Aj ki episode??bht interesting novel b plz upload kr dain wait nae ho rha
Huma next episode upload kr di h.
Thank you so much