Barish K Bad Urdu Novel | Episode 26| بارش کے بعد اردو ناول
اس کے جانے کے بعد بےچینی سے پہلو بدلتے ہمایوں لغاری کےلیے ایک ایک سیکنڈ گزارنا کسی قیامت سے کم نہ لگ رہا تھا.
وہاں سے اٹھ کر مہرانگیز اپنے بیڈ روم میں آئی سامنے ٹیبل پہ میر شہزاد کا لیپ ٹاپ پڑا ہوا تھا.
،،سنو آئندہ کبھی تمہارا سامنا ہمایوں لغاری سے ہو تو قدرے محتاط رہنا.،،
لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے کہے گے میر شہزاد کے یہ الفاظ اچانک اس کے دماغ میں گونجے.
اس دن شازیہ میر کے گھر سے ہوکر واپس آتے ہوئے راستے میں پتا نہیں کیوں میر شہزاد نے اسے یہ کہا تھا… جہاں تک وہ میر شہزاد کو جان پائی تھی وہ بلاوجہ کسی کے بارے میں ایسی بات نہیں کیا کرتا تھا.
اگر اس نے ہمایوں لغاری کے بارے میں اسے خبردار کیا تھا تو یقیناً اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگئی…
ایسے میں وہ اپنے شوہر کی اتنی اہم چیز کیسے اس کے حوالے کر سکتی تھی.
لیپ ٹاپ اٹھا کر اس نے دراز میں رکھ کر لاک لگایا اور خود کو کمپوز کرتی واپس آئی.
دونوں میاں بیوی نے مہرانگیز کو خالی ہاتھ دیکھ کر سوالیہ نگاہیں اس پر مرکوز کردیں.
،،لیپ ٹاپ گھر پر نہیں ہے. اب مجھے یاد آرہا ہے… ایک دن پہلے شام کو وہ اپنے کسی دوست کو ملنے گئے تھے تو لیپ ٹاپ ساتھ لے گئے تھے.،،
مہرانگیز نے اتنی عمدگی اور غیر متتزلزل لہجے میں جھوٹ بولا….جیسے واقعی لیپ ٹاپ گھر پر نہ ملنے پر اسے سب سے زیادہ افسوس ہورہا ہو.
شازیہ میر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری جبکہ ہمایوں لغاری تشویش سے اس کے دوست کے بارے میں پوچھنے لگ گئے.
،،جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا مجھے اپنے شوہر کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے….،،
وہ روہانسی ہوکر بولی.
،،کوئی بات نہیں تم اتنی ٹینشن مت لو… پولیس اپنے طریقے سے کام کررہی ہے ناں انشاءاللہ ہم جلد میر شہزاد کا پتا چلا لیں گے.،،
شازیہ میر نے مہرانگیز کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا.
،،شاید لیپ ٹاپ کی مدد سے ہم میر شہزاد کے دشمنوں تک جلدی پہنچ جاتے کیا آپ مکمل شیور ہیں لیپ ٹاپ گھر پر نہیں ہے؟،،
ہمایوں لغاری نے ایک اور کوشش کی….
،،جی میں بھلا کیوں چھپاؤں گی….انفیکٹ میں تو خود چاہتی ہوں کہ میرا شوہر جلد از جلد بازیاب ہو….،،
اس بار وہ قدرے تلخی سے بولی.
،،اصل میں پہلے آپ نے کہا کہ لیپ ٹاپ گھر پر ہے اس لیے میں کنفرم کرنا چاہ رہا تھا کہ شاید وہ گھر پر ہو….،،
ہمایوں لغاری نے گڑبڑا کر فوراً وضاحت پیش کی….
حالانکہ وہ اتنی معمولی باتوں کی وضاحتیں دینے والا تھا نہیں….
،،جانے دیں ایک لیپ ٹاپ ہی کی تو بات ہے…پہلے پریشانی کی وجہ سے دوست کی طرف خیال نہیں گیا ہوگا.،،
شازیہ میر نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا.
،، ہاں ایک لیپ ٹاپ ہی کی تو بات ہے…،،
ہمایوں لغاری اندر ہی اندر بیچ و تاب کھاتے ہوئے بڑبڑائے.
واپس گھر جاتے ہوئے جہاں ہمایوں لغاری کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں وہیں شازیہ میر موبائل پر تیزی سے کسی کو میسج ٹائپ کرتی بظاہر مصروف نظر آرہی تھی.
اس دوران اس کے نمبر پہ کال آنے لگی.
،،ہیلو…. اچھا کب؟ اوکے میں آ رہی ہوں.،،
شازیہ میر نے مختصر بات کرکے فون بند کردیا.
،،خیریت؟،،
ہمایوں لغاری نے تشویش سے پوچھا.
،،امی جان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے مجھے ابھی ہوسپٹل جانا ہوگا….،،
وہ قدرے پریشانی سے بولی.
چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے ہمایوں لغاری نے گاڑی کا رخ گھر کی بجائے ہوسپٹل کی طرف موڑ دیا.
سفید حویلی کا قیدی!!!
خود کو حویلی میں پاکر میر شہزاد عجیب سی کیفیات میں گھر گیا تھا.
حویلی کے ساتھ اس کی بہت زیادہ جذباتی وابستگی تھی کیونکہ یہ اس کے پچپن کا گھر تھا جہاں وہ ایک مکمل فیملی کے ساتھ رہتا تھا. ماں باپ کے بیتے پل اس کی زندگی کے سب سے زیادہ حسین پل تھے…وہ خوشگوار یادیں ایک بار پھر سے تازہ ہوگئی تھیں… یہاں سے جانے کے بعد لاہور جاکر کتنا عرصہ سفید حویلی اس کے خوابوں میں نظر آتی رہی تھی.
میر شہزاد کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی یہاں پر دوبارہ قدم بھی رکھے گا….اور وہ بھی ان حالات میں….
ملازم دروازے سے کھانے کی ٹرالی اندر دھکیل کر وہیں سے واپس پلٹ جاتا تھا.
اس کے شور مچانے بار بار پوچھنے پر صرف یہی بتایا گیا تھا کہ اس سلسلے میں شازیہ میر خود آکر آپ سے بات کریں گئیں.
اور پچھلے تین روز سے وہ ایک ایک منٹ گنتا شازیہ کا انتظار کررہا تھا… اسے سب سے زیادہ فکر مہرانگیز کی ہورہی تھی… کچھ حد تک وہ سمجھ تو گیا تھا کہ شازیہ میر نے اسے نقصان پہنچانے کی بجائے کسی اور مقصد کے لیے یہاں پر رکھوایا ہوا ہے…اور وہ مقصد کیا ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہو پارہا تھا.
آج صبح کھانے کے لیے ملازم نے جب کمرے کا لاک کھولا تو ایک ادھیڑ عمر کی فربہی مائل عورت جس کے وائٹ گرے کلر کے بوائے کٹ طرز کے بال تھے نے اچانک اندر کی طرف جھانکا….
میر شہزاد پلنگ پر لیٹا دونوں بازو گردن کے پیچھے کیے بے چینی سے ایک پاؤں جھلاتا چھت کو تکے جارہا تھا…
موٹی فریم کا چشمہ پہنے وہ عورت مبہوت نظروں سے اسے دیکھنے لگی.
میر شہزاد نے سر اوپر کرکے اس عورت کو دیکھا.
،،تم میر فرہاد ہو؟،،
وہ والہانہ انداز میں اس کی طرف بڑھی….
اس دوران ملازم نے فوراً اس عورت کو پیچھے کرکے دروازہ باہر کی طرف سے بند کردیا….
میر شہزاد نے ساجدہ بیگم کو بالکل پچپن میں دیکھا تھا اب وہ بالکل مختلف حلیے میں نظر آرہی تھی. نہ صرف حلیہ تبدیل ہوگیا تھا بلکہ اس کی ذہنی حالت بھی صحیح نہیں لگ رہی تھی.
،، میرا بیٹا آگیا… میر فرہاد زندہ ہے. میں نے ابھی اسے کمرے میں دیکھا ہے…. ،،
ہذیانی انداز میں چلاتی اس عورت کی آوازیں پوری حویلی میں گونج رہی تھیں….
شازیہ میر نے مہرانگیز کو میکے جانے سے منع کردیا تھا ان کے خیال میں جب تک میر شہزاد کا کچھ پتا نہیں چلتا مہرانگیز کے لیے یہ گھر زیادہ محفوظ رہے گا.
اس لیے اس کے امی ابو، سعد اور عباد یہیں مہرانگیز کے گھر پر رہ رہے تھے….
ان دونوں کے روانہ ہونے کے بعد مہرانگیز عباد کے پاس آئی…
عباد اگرچہ پڑھائی میں تو اتنا اچھا نہیں تھا مگر اس ذہن کمپیوٹر اور ان چیزوں میں بہت زیادہ چلتا تھا.
،،عباد ایک کام کر سکتے ہو…؟،،
وہ لیپ ٹاپ عباد کے سامنے رکھتے ہوئے بولی.
عباد نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا.
،،اس لیپ ٹاپ میں کچھ وڈیوز ایسی ہیں جو چرا لی گئ ہے…. ہوسکتا ہے میر شہزاد کو اغوا کرنے والوں کا کوئی تعلق ان وڈیوز سے ہو…کیا تم وہ چرایا گیا ڈیٹا واپس ریکور کرسکتے ہو….؟،،
،،میں کوشش کرتا ہوں.،،
عباد نے لیپ ٹاپ اپنی طرف سرکا کر اسے کھولتے ہوئے سنجیدگی سے کہا.
ہوسپٹل کا منظر!!!
شازیہ میر اور ہمایوں لغاری جب ہوسپٹل کے بہترین کشادہ روم میں داخل ہوئے تو بیڈ پر دنیا جہان سے بے خبر ساجدہ بیگم کی آنکھیں بند تھیں. جبکہ اس کے دائیں طرف کاؤچ پر فیاض ماموں سر جھکائے بیٹھا تھا. اس کے چہرے پر پریشانی اور تفکر واضح تھا.
،،امی جان کی اب طبیعت کیسی ہے؟،،
شازیہ میر نے آگے بڑھ کر تشویش سے فیاض پٹواری سے پوچھا.
،،ابھی تو سکون آور انجکشن کی وجہ سے سوگئی ہیں…ہوش آئے تو کچھ پتا چلے…،،
وہ آہستگی سے بولے.
شازیہ میر وہیں ماموں کے ساتھ کاؤچ پر بیٹھ گئی. ہمایوں لغاری فون کان سے لگائے ضروری کال کا اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل آئے.
،،مجھے وہ لیپ ٹاپ ہر حال میں چاہیے…،،
فون پر کسی کو دبی دبی آواز میں ہدایات ہوئے وہ محتاط نظروں سے اردگرد نگاہ بھی دوڑا لیتا تھا.
،،اس کے دوست کے پاس لیپ ٹاپ ہے یا نہیں یہ پتا کروانا اب تمہارا کام ہے.،،
فون بند کرکے جب وہ واپس آیا ہوا تو شازیہ میر اور فیاض پٹواری سر جوڑے مدہم سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے. ہمایوں لغاری کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ دونوں اچانک خاموش ہوگئے….
وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر فیاض پٹواری سے ساجدہ بیگم کے بارے میں پوچھتا رہا….
جب تک ان کی حالت نہ سنبھلتی شازیہ میر نے یقیناً وہیں رہنا تھا.
جبکہ ہمایوں لغاری اتنی دیر رک کر ساجدہ بیگم کے ہوش میں آنے کا انتظار نہیں کرسکتا تھا ابھی وہ واپس جانے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ ساجدہ بیگم ہڑبرا کر اٹھ بیٹھیں…
،،میرا بیٹا کہاں ہے؟،، وہ حواس باختگی کے عالم میں ادھر سے ادھر دیکھتے ہوئے بولیں….
شازیہ میر اور فیاض پٹواری تیزی سے اس کی طرف بڑھے….
میر فرہاد میرا انتظار کر رہا ہے مجھے اس کے پاس جانا ہے….
وہ تقریباً نیچے اترنے لگیں
،،امی جان ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ آرام کریں.،،
شازیہ میر ماں کو دوبارہ لیٹاتے ہوئے بولی.
اس دوران نرس نے آکر ایک اور انجکشن لگادیا…
،،میرا بیٹا زندہ ہے وہ حویلی میں ہے….اسے تم لوگوں نے کمرے میں بند کیا ہوا ہے وہ مجھے بلارہا ہے…مجھے اس کے پاس لے چلو…،،
دوبارہ نیند میں جاتے ہوئے کتنی دیر تک وہ غمزدہ آواز میں اپنے بیٹے میر فرہاد کو پکارتی رہیں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا تھا اکثر ان کی حالت ایسے بگڑ جایا کرتی تھی…
ضمیر کا بوجھ!!!
ٹی وی لاؤنج میں زور زور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں….
روزانہ کی طرح سجاول اور اس کے باپ کی آپس میں کسی بات پہ لڑائی چل رہی تھی.
جہاں باپ کے سامنے بدتمیزی سے بات کرتا سجاول خاموش ہونے میں نہیں آریا تھا وہیں ڈھلتی عمر کے شیراز صاحب کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہیں تھے.
مسکان علیحدہ اپنے کمرے آنسو بہارہی تھی….آج اسے یہاں پر آئے دو مہینے ہونے کو آئے تھے مگر ابھی تک نہ تو اس کے سسرال میں کوئی لینے آیا تھا اور نہ ہی فون کرنے پر اس کا شوہر کال اٹینڈ کررہا تھا.
یہاں امی کے گھر بات بات پہ سجاول لڑنے پہ آجاتا… ابو علیحدہ ہر بات کا غصہ امی اور اس پہ آکر نکالتے…
اس بار امی اور مناہل آپی نے بھی اس کی طرف داری کرنے کی بجائےالٹا اسے قصوروار ٹھہرانا شروع کر دیا تھا.
،،سسرال والوں سے بنا کر رکھو شوہر کی غلطیوں کو نظر انداز کرو. امی کی مثال تمہارے سامنے ہے… ابو غصے کے کتنا تیز ہیں. مگر پھر بھی وہ نباہ کر رہی ہیں. اور نہیں تو مجھے دیکھ لو تین جیٹھانیوں کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے ہمارے مسائل نہیں ہوتے کیا….؟؟؟
مگر ہر بات پہ ایشو بنا کر میکے آکے بیٹھ جانا عقلمندی نہیں.،،
لمبے چوڑے لیکچر کے بعد مناہل آپی ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سے گئی تھی.
فارم ہاؤس!!!
ہمایوں لغاری ہوسپٹل سے سیدھا اپنے فارم ہاؤس پہنچا تھا.
وہاں پر ایک اور بری خبر اس کا انتظار کررہی تھی….
کہ شازیہ میر نے مہرانگیز کے گھر کے باہر سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں مذید اضافہ کردیا تھا.
ولید نے جب یہ خبر سنائی تو وہ بھونچکا کے رہ گیا.
،،اگر اندر نہیں گھس سکتے تو گھر کے ملازموں کو استعمال کرو…ان کے ذریعے لیپ ٹاپ حاصل کرنے کی کوشش کرو…،،
ہمایوں لغاری نے کرواہٹ کے عالم میں ایک اور تجویز دی.
،،گھر میں صرف ایک ماسی کام کرتی تھی جسے میر شہزاد کے لاپتا ہونے کے بعد کام کرنے سے روک دیا گیا ہے…،،
شوکت نے بیچارگی کے ساتھ کہا.
،،ہوسکتا ہے وہ لڑکی سچ بول رہی ہو لیپ ٹاپ واقعی میر شہزاد کسی دوست کے پاس ہو…،،
ایک اور ساتھی نے اپنی رائے دی.
،،ناممکن وہ لڑکی پرینک شو میں کام کرتی رہی ہے…وہ ہماری سوچ سے زیادہ چالاک ہے…. جس یقین کے ساتھ اٹھ کر وہ لیپ ٹاپ لینے گئی تھی میں مان ہی نہیں سکتا کہ لیپ ٹاپ اس گھر میں نہ ہو…
اسے اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کا ایک راستہ ملا ہے…. وہ ہم پر اعتماد نہیں کررہی لیکن وہ وڈیوز دوبارہ ریکور کروانے کی ضرور کوشش کرے گی…اگر لیپ ٹاپ اس کے پاس نہیں بھی ہے تو وہ اس کے دوست سے رابطہ کرے گی…،،
ہمایوں لغاری نے بےحد سنجیدگی کے ساتھ کہا.
،،لیپ ٹاپ گھر کے اندر ہی ہے کیونکہ پچھلے ایک ہفتے سے ہم میر شہزاد کی ایک ایک نقل و حرکت کو نوٹ کررہے تھے…. جس شام کا وہ ذکر کررہی ہے اس وقت وہ دونوں اکٹھے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیے تھے.،،
ولید نے پرسکون انداز میں کہا.
،،گڈ!!! ان کے گھر پر نظر رکھو… یقیناً وہ ڈیوز ریکور کروانے کے لیے لیپ ٹاپ ضرور باہر نکالیں گئے….یا پھر کسی ایکسپرٹ سے رابطہ کریں گے…امید ہے آگے تم خود سنبھال لو گئے….،،
ولید کی طرف دیکھ کر پہلی بار ہمایوں لغاری آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا.
اگلےدن ہمایوں لغاری کی ڈی پی او ریاض پراچہ کے ساتھ ایک اہم میٹنگ تھی…
چند دن پہلے ایک بلاگر کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا….الیکٹرانک میڈیا پر تو اس خبر کو دبا دیا گیا تھا مگر سوشل میڈیا پر اس کے حق میں زور وشور سے آواز اٹھائی جارہی تھی.
ہمایوں لغاری کے کئی نامور سیاستدانوں سے گہرے روابط تھے. ان کی ایما پر مخالف جماعت کے بندوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مروانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا.
میٹنگ کے بعد وہ بے حد خراب موڈ کے ساتھ باہر نکلا تھا…
پولیس پر بہت زیادہ دباؤ بڑھنے کی وجہ سے اوپر سے اسے عارضی طور پر معطل کرنے کی بات چل رہی تھی. آج ڈی پی او صاحب اس سلسلے میں اسے قائل کرتے رہے تھے…
معطل ہونے کی صورت میں نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہونی تھی بلکہ ان حالات میں جب میر شہزاد کا معاملہ اس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا اچانک ملازمت اور اختیارات سے ہاتھ دھونا اپنی کھال ادھڑوانے کے مترادف تھا.
،،سر میر شہزاد کے بارے میں ایک اہم اطلاع ہے…،،
باہر بیتابی سے منتظر ولید نے آگے بڑھ کر سرگوشی کے انداز میں آکر ہمایوں لغاری کے کان میں کہا.
تیزی سے چلتے قدم وہیں پر رک گئے …. ابرو استفہامیہ انداز میں کھنچ گئے…
،،اسے سفید حویلی میں قید کرکے رکھا گیا ہے.،،
ولید جیسے یہ بتانے کے لئے سانس روکے کھڑا تھا.
ہمایوں لغاری نے بےیقینی کے عالم میں ولید کو دیکھا.
،،میر شہزاد کو سفید حویلی میں قید کرکے رکھا گیا ہے…؟؟؟،،
بات دہرا کر اس نے دوبارہ تصدیق چاہی.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Bht zabrdadt novel h
Bht shukria anonymous🙏 next episode upload ho gi h.
Love this episode
Thanks Sid🙏 next episode aj upload kr di h.
Plz plz episode aj uplaod kr dain
Aasia upload kr di h.
Episode 27?waitinggggggg
Anonymous upload kr di h.