Barish K Bad Urdu Novel | Episode 27| بارش کے بعد اردو ناول
ولید نے اثبات میں سر ہلا کر چند سیکنڈ کے لیے ہمایوں لغاری کو فریز کردیا تھا…
بادل زور سے کڑکے تھے مگر اس سے پہلے وہ خود کو سنبھال کر کوٹ سیدھا کرتا سامنے آنے والے چیف سیکریٹری سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا.
اس دن وہ معمول کے مطابق کام کرتا رہا تھا… ولید جانتا تھا جب وہ کسی بات پر بری طرح الجھتا تو خود کو ضرورت سے زیادہ مصروف کرلیا کرتا تھا…
ساجدہ بیگم کی طبیعت مزید خراب ہونے کی وجہ سے شازیہ میر ابھی تک ہوسپٹل تھیں…شام کو وہ ان کی خیریت دریافت کرنے ہوسپٹل بھی گیا….
وہاں سے واپس آکر فارم ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں کافی کے گھونٹ بھرتا کتنی دیر وہ تنہا بیٹھا رہا…..
،،ولید کو بھیجو….،،
اس نے فاصلے پر کھڑے گارڈ کو بلا کر کہا.
چند ثانیے بعد ولید اس کے سامنے تھا.
بیٹھنے کا اشارہ ملنے پر ولید اس کے مقابل چئیر پر سعادت مندی سے بیٹھ گیا….
،،کیا خیال ہے میر شہزاد کو حویلی میں کیوں قید کرکے رکھا گیا ہے؟،،
وہ ولید کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے بولا.
،،شاید اس کی جان بچانے کے لیے….،،
،،اس کی جان کو خطرہ ہے یہ بات ان لوگوں تک کیسے پہنچی….؟؟؟،،
ولید کے چہرے پر تاریک سایہ لہرایا تھا….اس بات کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا.
،،جس شام کو میر شہزاد کی حادثاتی طور پر موت واقع ہونی تھی… ٹھیک اسی صبح میر شہزاد لاپتا ہوجاتا ہے…. شازیہ میر اور پولیس کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پتا نہیں چلتا کہ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی….پھر اچانک تم آکر بتاتے ہو کہ میر شہزاد سفید حویلی میں ہے….چلو مان لیتے ہیں طلال اور شوکت بک گئے ہوں… انھوں نے کسی کو مخبری کردی ہو مگر مسئلہ کہ میر شہزاد کو جان سے مارنے کا جو دن میں نے طے کیا تھا…اس کا میرے اور تمہارے علاوہ کسی اور کو علم نہیں تھا.،،
وہ ٹھہر ٹھہر کر انتہائی تحمل سے بات کررہا تھا.
،،سر میری جان حاضر مگر میں آپ سے غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتا!!!،،
پہلی بار ولید کے چہرے پر حقیقتاً پریشانی نظر آئی تھی.
،،فکر نہ کرو مجھے تم پر مکمل بھروسہ ہے….،،
(ولید کی اٹکی سانسیں بحال ہوئیں)
،،مگر سوال یہ ہے کہ انھوں نے میر شہزاد کو قید میں کیوں رکھا ہے؟،،
ہمایوں لغاری کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے گہری نظروں سے بولا.
،،آپ کو کیا لگتا ہے شازیہ میر اس بات سے باخبر ہیں؟،،
ولید نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا.
،،یہی بات تو الجھن میں ڈال رہی ہے کہ خدانخواستہ کہیں شازیہ میر ساری حقیقت سے واقف تو نہیں ہوگئیں…؟؟؟ فرض کرو اگر اس کے علم میں یہ بات آجاتی ہے کہ اس کے بھائی کو مروانے یا پھر ساجدہ بیگم کے ذہنی توازن مذید خراب کرنے میں میرا ہاتھ شامل تھا تو کیا وہ یوں آرام سے بیٹھی ہوتیں….،،
،،پھر وہ کیا کرتیں؟،،
ولید جیسے کوئی سرا ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا.
،، وہ بہت جذباتی ہیں خاص طور پر میرے معاملے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ کبھی مجھ پر شک کر ہی نہیں سکتیں…،،
اور یہ تھا بھی سچ شازیہ میر نہ صرف ان سے شدید محبت کرتی تھیں بلکہ ان کی ہر بات پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرلیا کرتی تھیں.
،،جب تک آپ ان کے سامنے جاکر اعتراف نہ کرلیں.،،
ولید نے اختتامی جملہ اپنی طرف سے ادا کیا.
ہاں مگر میں نے آج تک کسی کے سامنے اعتراف نہیں کیا جب ثبوت ہر چیز میرے خلاف جارہی ہے تو وہ کس بنیاد پر مجھ پہ شک کریں گی اس صورت میں جب میں اس کے بچوں کا باپ ہوں….
اسی سرے پہ آکر ہمایوں لغاری الجھ جاتا تھا.
،،ممکن ہے فیاض پٹواری اپنا کوئی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہو؟،،
ولید نے اپنا تجزیہ پیش کیا…
یہ سن کر ہمایوں لغاری کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تیرنے لگی… جیسے وہ یہی سب کچھ ولید کے منہ سے سننا چاہتا تھا.
،،وہ دو نمبر کا لالچی انسان ہے…. جب تک میر شہزاد جیل میں رہا وہ اس کی جائیداد پہ عیش کرتا رہا…. اب جب ساجدہ بیگم زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہے تو اسے اپنی بقا کی فکر ستا رہی ہے…. مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ فیاض پٹواری میر شہزاد کے بدلے شازیہ میر سے کوئی لمبی چوڑی جائیداد ہتھیانے کے چکر میں ہے…،،
،،پھر آپ نے کیا سوچا ہے؟،،
ولید نے جیسے ہمایوں لغاری کی سوچ پڑھ لی تھی.
،،گولڈن چانس…..
قدرت مجھے ایک گولڈن چانس دے رہی ہے اور میں اس چانس کو مس نہیں کرنا چاہتا…. اگر ہم ان کی چال ان پہ الٹ دیں تو سمجھو ایک تیر سے دو شکار…. میر شہزاد تو جان سے جائے گا ہی… مگر جب تحقیقات میں فیاض پٹواری کے بیٹے وجاہت درانی کا نام سامنے آئے گا…تو شازیہ میر نے انھیں سفید حویلی سے نکالنے میں دو منٹ بھی نہیں لگانے…،،
وہ جیسے سب کچھ پہلے سے طے کیے بیٹھا تھا.
،،سر ایک بار آپ دوبارہ سوچ لیں کہیں عجلت میں کچھ غلط نہ ہوجائے؟،،
ولید ابھی تک متزلزل نظر آرہا تھا.
،،تم جانتے ہو کچھ دن بعد مجھے dnepsus کردیا جائے گا…. میں اس بکھیڑے کو اس سے پہلے ختم کرکے لمبی چھٹی انجوائے کرنا چاہتا ہوں…،،
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا…. اس کا مطلب وہ مذید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا. بظاہر پورا دن مصروف نظر آنے والے ہمایوں لغاری آگے کی حکمت عملی طے کرتے رہے تھے…
نہ جانے کیوں پہلی بار ولید کو محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے…
پہلا منظر
جس دن اسٹڈی روم میں ہمایوں لغاری کو معلوم ہوا کہ میر شہزاد نہ صرف اس بلیک میلر کو ڈھونڈ رہا ہے بلکہ ملغانی کے اہل خانہ سے خفیہ طور پر مل چکا ہے.
اس دن شازیہ میر بار کونسل کی جانب سے منعقدہ وکلاء کنونشن میں شریک ہونے کی وجہ سے گھر لیٹ پہنچی تھی.بچے تب تک سو چکے تھے.
مہرالنساء اپنے کوارٹر میں جانے کے لیے اس کے انتظار میں بیٹھی تھی.
ہمایوں لغاری ابھی تک اسٹڈی روم میں تھے. مہرالنساء سے پتا چلا کہ شام سے لیکر ابھی تک نہ تو وہ باہر نکلے ہیں اور نہ ہی انھوں نے رات کا کھانا کھایا ہے.
مہرالنساء کو روانہ کرکے شازیہ میر سیدھی لائبریری میں آئی… ہمایوں لغاری عجلت میں بال پین اور موبائل اٹھاتے کہیں جانے کے لیے تیار نظر آ رہے تھے.
کھانے کا پوچھنے پر انھوں نے عذر تراشا کہ ایمرجنسی میں تھانے جانا پڑ رہا ہے کھانا وہ باہر سے کھا لیں گے. کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے انھوں نے ایک مصروف مگر نرم مسکراہٹ تشویش زدہ شازیہ کی طرف اچھالی اور تیزی سے لائبریری سے باہر نکل گئے…
ان کے نکلنے کے بعد واپس پلٹتے ہوئے شازیہ میر کی نظر نیچے کرسی کے قریب پڑے ٹیبلٹ پہ پڑی.
ٹیبلٹ اٹھا کر وہ بچوں کے کمرے میں آئی. دونوں بچے گہری نیند سو رہے تھے.بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کرکے ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے ٹیبلٹ کو کھول کر دیکھا.
ٹیبلٹ کا کیمرہ ابھی تک آن تھا. اکثر وہ بچوں کی سرگرمیاں دیکھنے کے لیے ٹیبلٹ کو چیک کرتی رہا کرتی تھی.
اسی نیت سے اس نے ٹیب کھولا اور غیر ارادی طور پر اس وقت بننے والی وڈیو کو کھول کر تھوڑا سا آگے کیا.
،،واٹ میر شہزاد اسے کیسے جانتا ہے؟،،
ہمایوں لغاری کی آواز واضح تھی مگر وڈیو میں صرف اوپر چھت نظر آ رہی تھی.
اس سے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں…اس دن گیم کھیلنے کے بعد بوریت مٹانے کے لیے بٹنوں کو چھیڑتے چھیڑتے ارحم نے وڈیو ریکارڈنگ کے بٹن پر کلک کر دیا تھا….
ہمایوں لغاری نے ارحم کو بیڈروم میں لے جانے کے لیے جب کندھے سے لگایا تو گہری نیند میں بچے کے ہاتھ میں پکڑے ٹیبلٹ پہ گرفت ہلکی ہوئی اور وہ وہیں نیچے لڑھک گیا.
بعد میں جب وہ واپس اسٹڈی آیا تو اسے کال کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اس کی نظر کرسی کے قریب پڑے ٹیبلٹ پر گئی ہی نہیں یا پھر شاید قدرت اس کی مہلت ختم کرنے کی ٹھان چکی تھی.
شازیہ میر نے جب میر شہزاد کا نام اپنے شوہر کے منہ سے سنا تو سیدھی ہوکر چونکتے کے انداز میں غور سے سننے لگی.
وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا.
،،غلطی ہو گئی مجھ سے اسی وقت جیل میں مروا دینا چاہیے تھا.،،
اس کے بعد وہ فون پر میر شہزاد کو راستے سے ہٹانے اور آگے آنے والی مشکلات سے نبٹنے کے بارے میں لائحہ عمل طے کرنے لگا.
وقفے وقفے سے وہ میر فرہاد کے قتل کے بارے میں بھی بات کررہا تھا…جس طرح اس کا قتل نہایت ہوشیاری اور مہارت سے کروایا گیا تھا… آج تک نہ تو پولیس کو کوئی ثبوت ملے تھے اور نہ ہی شازیہ میر کو شک ہوا تھا. ویسے اس بار وہ میر شہزاد کے قتل کے بارے میں بھی پرامید تھا.
تم نے کبھی کسی کو عرش سے فرش پر گرتے دیکھا ہے…. شادی کے دس سال جس شخص کے ساتھ وہ ہنسی خوشی زندگی گزارتی آئی تھی وہ تو سراب کے سوا کچھ بھی نہیں تھا.
کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے اس نے بھی آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا تھا.
اپنی دولت اپنی چاہت اور سب سے بڑھ کر اسے اس مقدس مقام پہ لا بٹھایا تھا جہاں سے نیچے گرانے پر سب سے زیادہ تکلیف شازیہ میر کو ہورہی تھی…
وہ شہر کی نامور وکیل جو عورتوں کے حقوق پر گھنٹوں تقریریں کرتے تھکا نہیں کرتی تھی آج ایک عام عورت کی طرح سسک سسک کر رو رہی تھی…..
تم نے کبھی شوہر کے ہوتے ہوئے بیوہ عورت کو دیکھا ہے نہیں تو آج اس مظبوط عورت کے بیوہ ہونے کا منظر دیکھتے واللہ عورت کبھی سنگدل نہیں ہوتی….
یہ بےوفا مرد ہوتے ہیں جو اس کی روح کو جھلسا کر اسے ایک زندہ لاش بننے پر مجبور کر دیتے ہیں.
دوسرا منظر
مہرانگیز لیپ ٹاپ کے سامنے بت بنی بیٹھی تھی…. سکرین پر ہمایوں لغاری کی ایک کے بعد وڈیوز چل رہی تھیں جس میں وہ میر شہزاد کو پھنسا کر جیل بھجوانے کی پلاننگ کرتا نظر آرہا تھا…آگے چل کر وہ جیل میں قید میر شہزاد کی کسی پنچھی سے بھی ملاقات نہ کروانے کی ایس ایچ او اسلم ملغانی کو سخت ہدایات دے رہا تھا.
ججوں کو خریدنے کا اعتراف اور میر شہزاد کے بارے میں بہت ساری ایسی باتیں تھیں جن کے بارے میں مہرانگیز پہلی بار سن رہی تھی.
،،میرشہزاد بیگناہ جیل میں قید ہے…اس نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا اس پہ حد درجے نادم اور آپ سے معافی کا طلبگار ہے…..،،
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مہرانگیز میر شہزاد کو ڈھونڈنے میں مکمل طور پر ناکام ہوکر مایوسی کی انتہا پر تھی… کہ کوئی بلال نام کا شخص اسے ڈھونڈتا ہوا ہوسپٹل آیا تھا….
اس نے آکر جب یہ بات کہی تو وہ ہونقوں کی طرح بس اسے تکے گئی تھی….
میر شہزاد پچھلے چار سال سے جیل میں تھا اور یہاں وہ اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی تھی….
بلال میر شہزاد کے ساتھ جیل میں قید رہا تھا….
اپنی سزا کاٹ کر جب وہ وہاں سے جانے لگا تو میر شہزاد نے اس سے گزارش کی تھی کہ باہر جاکر کسی طرح وہ مہرانگیز تک اس کا پیغام یہ پہنچا دے… کیونکہ جیل میں صرف یہی ایک شخص تھا جس پر وہ مہرانگیز کے معاملے میں اعتبار کر سکتا تھا.
مہرانگیز کو یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ میر شہزاد کس وجہ سے جیل میں ہے…یا اتنا عرصہ اس نے کوئی رابطہ کیوں نہیں کیا وہ تو بس یہ سن کر سکتے کی کیفیت میں آگئی تھی کہ جس میر شہزاد کے نام کے بندے کا طوق وہ کئی سالوں سے گردن میں لٹکائے پھر رہی ہے اس کا واقعی اس دنیا میں کوئی وجود ہے….
اس نے بلال سے میر شہزاد کے بارے میں صرف ایک سوال پوچھا تھا کہ وہ کس جیل میں ہے…!!!
وہاں جاکر اس سے ملنے یا پھر بعد میں سعد کے کہنے پر اس نے کبھی یقین ہی نہیں کیا تھا کہ میر شہزاد بنا کسی جرم کے اتنا عرصہ سزا کاٹتا رہا ہے…
اسے ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ میر شہزاد نے جان بوجھ کر رابطہ نہیں کیا تھا ورنہ ایسا کیسے ممکن تھا کہ اتنے سال تک میر شہزاد کا رابطہ باہر کی دنیا سے بالکل منقطع ہو….
آگہی بہت بڑا عذاب ہوتا ہے مگر جب یہ غلط وقت پر ہو تو اذیت دہری ہوجاتی ہے….پہلی بار وہ اپنی تکلیف کی بجائے میر شہزاد کے بارے میں سوچ رہی تھی.
اگر مہرانگیز کی زندگی میں دکھ تھے تو میر شہزاد نے اس سے زیادہ مصیبتیں جھیلی تھیں.
فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اپنی تکالیف کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکائے نہیں پھرتا تھا…بلکہ زندگی کے روشن پہلوؤں کو ڈھوند کر آگے بڑھ جانے والا تھا.
اس نے غصے میں آکر اگر مہرانگیز سے نکاح کیا تھا تو بعد میں نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کی تھی بلکہ ابھی تک اپنی طرف سے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہا تھا…..
مگر بدلے میں مہرانگیز نے کیا دیا تھا…. دل کو چیرتی ہوئی گرم سانس نکلی… اس نے پانی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں.
اس کی حالت دیکھ کر عباد نے جلدی سے پانی کا گلاس بھر کے دیا.
مگر اندر کی جلن پورے وجود میں پھیلتی جارہی تھی دکھ، درد، پچھتاوا …کیا کیا نہیں تھا…جو اب سلگنا شروع ہوئے تھے.
وہ ہمیشہ تاریکیوں کے ساتھ رہتی آئی تھی.اس کی ساری زندگی ناشکری اور گلے شکوں سے بھری پڑی تھی….کبھی کبھی وقت ہمیں وہ سبق سکھاتا جو کوئی اور ہمیں زندگی بھر نہیں سمجھا سکتا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Wow zabardst episode love it
Thanks Isfa 💕 new episode bh upload kr di h.
Achi thi episode pr bht thori si thii🥹
Thanks Sid new vali episode ka btana zaroor k kesi lgi💕
Next episode will b last??
Aroosa Episode 28 upload kr di h mgr ye last nh h😊
Bht zabrdast
Thanks Khadija🙏 Episode 28 upload kr di h.
Episode 28 upload kr dain plz
Sid Episode 28 upload kr di h.
Weekley 2 episodes upload kia kre plz aur ye episode bht bht achi
Itni hi length rakha kre, k lagay waqae kuch parha ha.
Masha Allah full of suspense… 👌🏼✨
Pr intizaar bht mushkil h… 🥺