Barish K Bad Urdu Novel | Episode 28| بارش کے بعد اردو ناول
ہمایوں لغاری کی اصلیت معلوم ہونے کے بعد شازیہ میر کے پاس یہ وقت سوگ منانے کا بلکہ میر شہزاد کی جان بچانے کا تھا.وہ چاہتیں تو اپنے شوہر کا جرم ساری دنیا کے سامنے لاکر اسے مجرم ثابت کرسکتی تھیں مگر اس سے اس کے کئیریر اور بچوں پر بہت برا اثر پڑتا….
بہت سوچ بچار کے بعد اس نے جوگی سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا….جوگی سے ملنے وہ اپنے ذاتی ڈرائیور کے ساتھ نہیں جاسکتی تھیں.. کیونکہ ہمایوں لغاری نہایت ہوشیاری سے شازیہ میر کی ایک ایک حرکت کو ٹریس کروارہا تھا…اس لیے پہلے وہ حویلی آئیں اور یہیں سے فیاض پٹواری نے گاڑی اور ڈرائیور بھیج کر شازیہ میر کی جوگی سے ملاقات کا بندوبست کروایا تھا.
اس دن لاپتا ہونے سے پہلے صبح جب میر شہزاد گھر سے باہر نکلا تو دو موٹر سائیکل سوار کچھ فاصلہ رکھ کر اس کا تعاقب کرنے لگے…
لمحہ بہ لمحہ میر شہزاد پر نظر رکھنے کے لیے ولید نے ان کو ہائر کیا تھا تاکہ مقررہ وقت پر کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے….
راستے میں جعلی پولیس وردیوں میں ملبوس چند اہلکاروں نے میر شہزاد کو روک کر باہر نکلنے کا کہا اس کے نکلتے ہی کوئی تیز خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی اور وہ وہیں پہ لڑھک گیا تھا.
میر شہزاد کی گاڑی چند منٹ کے لئے موٹر سائیکل سواروں کی نظروں سے اوجھل ہوئی تھی مگر ان کے وہاں پہنچنے تک میر شہزاد کا کوئی نام و نشان نہیں تھا جبکہ اس کی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی نظر آئی تھی.
ادھر شازیہ میر نے ہمایوں لغاری کی موت کے لیے وہی دن اور وقت منتخب کیا تھا جو وہ میر شہزاد کے لیے طے کیے بیٹھا تھا….
شازیہ کا خیال تھا کہ میر شہزاد کے ہوش میں آنے سے پہلے جس خاموشی سے اسے اٹھایا گیا تھا اسی خاموشی سے رات تک واپس گھر چھوڑ دیا جائے گا مگر بدقسمتی سے ہمایوں لغاری کے خلاف شازیہ میر کا پہلا وار ہی ناکام گیا تھا!!!
دوسری طرف حویلی میں میر شہزاد کو ہوش آنا شروع ہوگیا تھا…. چنانچہ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا کہ جب تک ہمایوں لغاری کی طرف سے اس کی جان کو خطرہ رہتا وہ اسے حویلی میں رکھواتیں…
ابھی وہ آگے کا لائحہ عمل سوچ رہی تھیں کہ ساجدہ بیگم کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ اس میں پڑ گئیں جس کی وجہ سے ہمایوں لغاری والا معاملہ پس پشت چلا گیا… یوں میرشہزاد کی قید کے دن مذید طویل ہوتے گئے….
حویلی میں میر شہزاد اتنے دنوں سے شازیہ میر کا انتظار کرتے کرتے نہ صرف شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہورہا تھا بلکہ اب اسے شک ہونے لگ گیا تھا کہیں فیاض پٹواری شازیہ میر کو لاعلم رکھ کر کوئی چال تو نہیں چل رہا ہے…
حویلی میں میر شہزاد کی موجودگی کو راز میں رکھا گیا تھا…یہ راز فیاض پٹواری، چند مخصوص گارڈز اور فوجی (اس گھر کا سب سے پرانا اور وفادار ملازم) تک محدود تھا…
ساجدہ بیگم کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے فیاض پٹواری کو ہوسپٹل رہنا پڑرہا تھا ایسے میں میر شہزاد کی ساری ذمہ داری فوجی کے سپرد کردی گئی تھی…
میر شہزاد نے جب واش روم جانا ہوتا تو دو گارڈز آکر پیر میں ڈالی گئی بیڑی کا احاطہ چند فٹ بڑھا دیتے تھے بعد میں زنجیر دوبارہ کس دی جاتی تھی…
آج صبح جب گارڈز آئے تو میر شہزاد اچانک ان پر جھپٹ پڑا اور ان میں سے ایک کو پکڑ کر گردن سے دبوچ لیا…
،،قریب مت آنا ورنہ اس کی گردن دبا دوں گا وہ دوسرے گارڈز کو اپنے قریب بڑھتے دیکھ کر دھاڑا…،،
،،کھڑے کھڑے میری شکل کیا دیکھ رہے ہو جاکر چابی لاؤ….،، وہ دوبارہ گرجا.
پہلا گارڈ بوکھلاہٹ میں باہر کی جانب دوڑا….چند لمحے بعد دوڑتے قدموں کی آواز آئی….
دس بارہ سیکورٹی اہلکاروں نے آکر بمشکل اس گارڈ کو میر شہزاد کی گرفت سے چھڑایا….
میر شہزاد بےتحاشا چلا رہا تھا اور بار بار فیاض پٹواری کو سامنے آنے کا کہہ رہا تھا….
گارڈ کو وہاں سے لیجاکر دروازہ دوبارہ بند کردیا گیا… کچھ دیر تک میر شہزاد بکتا جھکتا اور فیاض پٹواری کو گالیاں دیتا رہا….
جب ہر طرف سے سناٹا چھا گیا اور میر شہزاد کو پورا یقین ہوگیا کہ وہ لوگ واپس جاچکے ہیں تب وہ چپکے سے اٹھا اور پلنگ کے نیچے پڑے موبائل کو اٹھایا..
جو اس نے نہایت ہوشیاری سے گارڈ کی جیب سے نکال کر پاؤں کی مدد سے نیچے لڑھکا دیا تھا… اس نے عجلت میں گارڈ کا ٹچ موبائل اٹھا کر کال ملانی چاہی مگر اس پہ لاک لگا ہوا تھا…. خوش قسمتی سے ایمرجنسی کال کا آپشن کھلا تھا…. نمبر یاد رکھنے کے معاملے میں میر شہزاد شروع سے بالکل زیرو تھا….اس وقت اسے اپنے اور مہرانگیز کے نمبر کے علاوہ کسی اور کا نمبر زبانی یاد نہیں تھا….
سب سے پہلے میر شہزاد نے مہرانگیز کا نمبر ملایا مگر کسی نے کال اٹینڈ نہیں کی اس نے دوبارہ کال ملائی مگر دوسری طرف سے کوئی رسپانس موصول نہیں ہوا….
اس دن جب اسے اغوا کیا گیا تھا تو وہ اپنا دوسرا موبائل گھر پر بھول گیا تھا میر شہزاد نے اس نمبر پر کال ملانی چاہی مگر وہ پاور آف جارہا تھا….
جس گارڈ کی گردن کو میر شہزاد نے پکڑا تھا وہ باہر نکل کر کتنی دیر اپنی گردن کو سہلاتا اور منہ بھر کر میر شہزاد کو گالیاں دیتا رہا.
کچھ دیر بعد جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اسے احساس ہوا کہ موبائل اس کی جیب میں نہیں ہے….
پریشانی کے عالم میں اس نے ساتھ کھڑے گارڈ کو بتایا….آن کی آن میں وہ دوبارہ میر شہزاد کے کمرے کی طرف دوڑے.
دروازہ کھلنے کی آواز سن کر نمبر ملاتا میر شہزاد چونکا….اس دوران گارڈز اندر گھس کر ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کرکے دیکھنے لگ گئے تھے …. ان میں سے ایک نے اپنا موبائل نکال کر اس گارڈ کے نمبر پر مسڈ کال دی چند لمحوں بعد تکیے کے نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آنے لگی…. موبائل جھپٹ کر میر شہزاد کو معنی خیز انداز میں دیکھتا وہ گارڈ اپنے ساتھی کے ہمراہ باہر نکل گیا میر شہزاد نے بے بسی کے عالم میں ایک ٹانگ اٹھا کر زور سے بیڈ پہ ماری اور تکیہ اٹھا کر نیچے پھینک دیا.
جس وقت میر شہزاد نے مہرانگیز کے نمبر پر کالیں کر رہا تھا اس وقت مہرانگیز اور عباد دوسرے کمرے میں ڈیٹا ریکور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے… پورا دن وہ لیپ ٹاپ پہ لگے رہے شام کو جاکر وہ وڈیوز ریکور ہوئیں تھیں…
وڈیوز دیکھنے کے بعد غم سے نڈھال مہرانگیز کو نہ تو موبائل کا ہوش رہا تھا اور نہ ہی کسی اور نے اس کا موبائل اٹھا کر مسڈ کال چیک کی تھیں…
رات تک مہرانگیز کی طبیعت مذید خراب ہوگئی تھی… شدید بخار کے ساتھ وہ پوری رات بہکی بہکی باتیں کرتی رہی تھی…جبکہ موبائل وہیں دوسرے کمرے میں ویسے کا ویسے پڑا رہ گیا تھا…
ہمایوں لغاری کے حکم پر ولید جو مہرانگیز اور اس کے پورے گھر والوں کے نمبرز کو ٹریس کررہا تھا اس نے جب مہرانگیز کے نمبر پر انجان کالز آتی دیکھیں تو فوراً اس نمبر کی لوکیشن چیک کروائی…لوکیشن حویلی کی طرف سے آرہی تھی…اور یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی تھی.
آج صبح میر شہزاد کے ہنگامہ کرنے کی بدولت پہلے جو بات چند مخصوص گارڈز تک محدود تھی اب پھیل کر حویلی کے تقریباً ہر ملازم تک پہنچ چکی تھی.
ادھر ذرا سی جستجو کے بعد ولید کو متصدقہ خبر مل گئی کہ حویلی میں فیاض پٹواری نے میر شہزاد کو قید کرکے رکھا ہوا ہے…
شازیہ میر نے فیاض پٹواری کو ابھی تک اصل حقیقت سے لاعلم رکھا تھا.
فیاض پٹواری اچھی طرح جانتا تھا کہ جس طرح شازیہ میر میر شہزاد کے بارے میں اتنی محتاط اور سنجیدگی برت رہی ہے یقیناً کوئی نہایت سنگین معاملہ ہے…
اس لیے اس نے میر شہزاد کی حویلی میں موجودگی کو اپنے بیٹے وجاہت درانی سے بھی چھپا کر رکھا ہوا تھا… کہ کہیں حماقت میں وہ کوئی گڑبڑ نہ کردے…
اسے شازیہ میر کی جانب سے جو حکم دیا جا رہا تھا وہ اس کو بجا لا رہا تھا.
میر شہزاد کے سیکورٹی گارڈ کو یرغمال بنانے کی بات تو فیاض پٹواری تک پہنچا دی گئی مگر ان کے عتاب سے بچنے کے لیے موبائل والی بات دونوں گارڈز دانستہ طور پر چھپا گئے تھے…
ان کی یہی حماقت میر شہزاد کےلیے آگے کیا طوفان لانے والی تھی اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا.
پیروں کے نشان!!!
بظاہر ریسٹورنٹ کے لیے بہت زیادہ مصروف میرشہزاد کچھ اور کام بھی نہایت خاموشی سے کررہا تھا ان میں سے ایک ہمایوں لغاری کی سرگرمیوں پر خفیہ طریقے سے نظر رکھنا شامل تھا.
اسلم ملغانی کا سابقہ ریکارڈ چیک کرتے ہوئے جس بات نے میر شہزاد کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا وہ یہ کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تھا تو ان دنوں ملغانی ہمایوں لغاری کے ماتحت کام کرتا تھا…. ملغانی کے گھر والوں سے ملنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ اس کے ہمایوں لغاری کے ساتھ گہرے روابط تھے…
نوٹ کرنے کی بات یہ تھی کہ میر فرہاد کے مرنے اور اس کے جیل جانے پر فیاض پٹواری کے علاوہ اگر کسی اور کو فائدہ پہنچتا تو یقیناً وہ شازیہ میر اور ہمایوں لغاری ہی تھے. شازیہ میر اتنا نہیں گر سکتی تھیں کہ جائیداد کی خاطر وہ اپنے سگے بھائی کو یوں بیدردی سے مروا کر دوسرے بھائی کو بے گناہ جیل بھجوا دیتیں….
جہاں تک ہمایوں لغاری کی بات تھی اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں میر شہزاد کچھ نہیں جانتا تھا.
جب میر فرہاد کو قتل کیا گیا تھا تو اس وقت موقع واردات پر ثبوت اور دوسری چیزیں فوراً ضائع کردی گئی تھیں…. حالانکہ پولیس کے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہمایوں لغاری کے علم میں لائے بغیر پولیس اتنی بڑی لاپرواہی کیسے کرسکتی تھی؟؟؟
خاص طور پر جب قتل ایک عام آدمی کا نہیں بلکہ پنجاب کے انتہائی باثر سیاسی اور جاگیردار گھرانے کا ہو….
اور یہ تو طے تھا جنہوں نے میر فرہاد کو قتل کروایا تھا وہی میر شہزاد کے دشمن تھے.
میر شہزاد اچھی طرح جانتا تھا کہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرآت ایک عام سب انسپکٹر اسلم ملغانی کبھی نہیں کرسکتا تھا جب تک اس کے پیچھے کوئی بڑا ہاتھ نہ ہوتا…. وہ بڑا ہاتھ یقیناً ہمایوں لغاری کا تھا جس نے پس پردہ رہ کر نہایت ہوشیاری سے اسے دنیا کی نظر میں مجرم ثابت کرکے جیل پھنکوا دیا تھا… کڑیاں آہستہ آہستہ ملتی جا رہی تھیں…
میر شہزاد ابھی اس کے پیروں کے نشان ڈھونڈ رہا تھا… جبکہ انتہائی شاطر دماغ کا حامل ہمایوں لغاری اس کی سوچ سے تیز اپنی طرف بڑھتے ہر قدم کو کچلنے کے لیے وہ پہلے سے گھات لگائے بیٹھا تھا!!!
اگرچہ ساجدہ بیگم کی طبیعت میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے… مگر رات شازیہ میر واپس گھر لوٹ آئی تھیں کیونکہ بچے گھر پر نوکروں کے رحم وکرم پہ تھے.
آج فیاض ماموں نے شازیہ کو مشورہ دیا تھا کہ کسی طرح آپ ایک بار میر شہزاد سے مل کر اسے مطمئن کرلیں کیونکہ اب اس کےصبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا… میر شہزاد کو سنبھالنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا تھا….
ملنا تو وہ بھی چاہتی تھیں مگر حویلی جاکر وہ مذید کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھیں…. کیونکہ جس طرح ہمایوں لغاری اس کے خاندان کے خون کا پیاسا ہوا بیٹھا تھا اگر اسے ذرا سا شک ہوجاتا کہ شازیہ میر اس کی اصلیت سے واقف ہو کر میر شہزاد کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے تو وہ اپنی بقا کے لئے شازیہ میر کی جان لینے سے بھی نہ چوکتا….
ہمایوں لغاری کل سے سندھ روانہ ہوگیا تھا…سندھ میں اس نے اپنے پیر کرم داد شاہ کے آستیانے پر حاضری دینی تھی….
کوئی یہ سن کر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگا کہ اتنا پڑھا لکھا شخص پیروں فقیروں کے در پر حاضری دینے جاتا ہے مگر ہمایوں لغاری کو نہ صرف ان پیروں پر کامل یقین رکھتا تھا بلکہ اپنے رکے ہوئے کام کی کامیابی کے لیے ان سے خاص عمل بھی کرواتا رہتا تھا…
میر شہزاد کے معاملے میں اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا…ایسے میں بندش کے توڑ کے لئے پیرکرم داد سے ملنا کے در پر حاضری دینا ضروری ہوگیا تھا.
ولید پہلے ہمیشہ اس کے ساتھ جاتا تھا مگر اس بار چونکہ اس نے پیچھے رہ کر میرشہزاد کے قتل کے اور اس کے بعد کی صورتحال پر قابو پانا تھا… اس لیے وہ فارم ہاؤس میں رک گیا تھا….
سب کچھ پلان کیا جاچکا تھا بس انتظار تھا تو آنے والی صبح کا!!!
سازش کی بو!!!
رات میر شہزاد صحیح طرح سے سو نہیں پایا تھا پوری رات و عجیب و غریب خواب دیکھتا وہ بار بار نیند سے جاگ جاتا تھا…. صبح ملازم جب کھانے کی ٹرالی اندر لیکر آیا تو میر شہزاد گہری نیند سو رہا تھا….
وہ ٹرالی واپس دھکیلتا کچن کی طرف جارہا تھا جب راستے میں ایک گارڈ نے روک کر سخت لہجے میں پوچھا کہ وہ کھانا واپس کیوں لارہا ہے…؟
،،وہ صاحب ابھی سورہے ہیں… فوجی کا حکم ہے کہ اسے نیند میں ڈسٹرب نہ کیا جائے…،،
،،مگر اب فوجی نے ابھی مجھے کہا ہے کہ اسے زبردستی جگا کر ناشتہ کراؤ…،،
،،کوئی نہیں جگائے گا اسے بخشو تم کچن میں واپس جاؤ…،،
پیچھے سے فوجی کی بھاری آواز آئی جو گارڈ کو شعلہ بار نظروں سے گھور رہا تھا.
ملازم تو سر جھکا کر چلا گیا مگر وہ گارڈ تن کے کھڑا ہوگیا.
،،تم ایک ملازم ہو اور بہتر یہی ہے کہ ملازم بن کر رہو…،، گارڈ نے طنزاً کہا
،،اس وقت بھی میں ایک ملازم ہوں اور اپنی ملازمت کررہا ہوں تمہیں اندر آنے کس نے دیا…؟ تمہاری ڈیوٹی باہر کی ہے.،،
فوجی کی اس بات پہ وہ نخوت سے سرجھٹکتا باہر چلا گیا.
اس کے بعد فوجی کچن میں گیا…
،،میر شہزاد کےلیے جو ابھی ناشتہ بنایا گیا ہے اسے ضائع کر دو نیا کھانا میری نگرانی میں تیار ہوگا.،،
باورچی کو ہدایات دیتا جب وہ کچن سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ باہر گارڈز کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا تھا اور وہ آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے.
حویلی کے قابل اعتبار گارڈز کو اندر کا مرکزی دروازہ بند کرنے کا حکم دے کر وہ پھرتی سے سے کمرے میں گیا وہاں سے اسلحہ نکالنے لگا… اس دوران ایک گارڈ نے آکر بتایا کہ باہر حویلی میں فائرنگ ہورہی ہے…
،،فیاض پٹواری کو فون کرکے فوراً اطلاع دو…،، رائفل اٹھا کر وہ میر شہزاد کے کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے بولا.
دروازہ دھڑام سے کھلا تھا… میر شہزاد فائرنگ کی آواز سن کر پہلے سے جاگا ہوا تھا…
،،میر صاحب!!! آپ کی جان کو خطرہ ہے. آپ کو میرے ساتھ فوراً نیچے تہہ خانے میں چلنا ہوگا.،،
فوجی نے پھرتی سے اس کے پاؤں کی بیڑی کھولتے ہوئے کہا.
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
bht bht zbrdast novel h. I am a big fan❤️
Thanks Fatima
Bht hi achi thi episode ap k next novel ka wait rhy ga
صائمہ آپ چاہتی ہیں کہ مجھے نیا ناول لکھنا چاہیے؟
Han g ap k novel prhny ki adat ho gai h bht acha likhti hn ap plz mazeed novel b likhti rahain