Barish K Bad Urdu Novel | Episode 29| بارش کے بعد اردو ناول
جزا و سزا کا دن!!!
وہ دونوں کمرے سے نکل کر راہداری کی طرف بھاگے…ابھی وہ دوسری راہداری کی طرف مڑنے لگے تھے کہ پیچھے سے گولی چلنے کی آواز آئی…
میر شہزاد تیورا کر گرا تھا…یہ وقت پلٹ کر جوابی فائرنگ کرنے کا نہیں بلکہ میر شہزاد کی جان بچانے کا تھا… فوجی نے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی تو اس کے سارے ہاتھ خون میں نہلا گئے… میر شہزاد کو پیچھے کمر میں گولی لگی تھی درد کی شدت سے وہ کھڑا نہیں ہوپارہا تھا…
،،میر صاحب!!! ہمت کریں آپ کو کچھ نہیں ہوگا…،،
فوجی اس کا ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے کرکے اسے پکڑ کر آگے کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا.
گولیاں چلنے کی آوازیں مزید قریب آرہی تھی… فوجی اسے سہارا دے کر زبردستی چلنے پر مجبور کر رہا تھا…
وہ اپنے پیچھے سارے دروازے بند کرتا جارہا تھا تاکہ پیچھا کرنے والے جلدی نہ پہنچ جائیں…درد کی شدت سے میر شہزاد سے مذید چلنا اب دوبھر ہو گیا تھا.
،،مجھے یہیں چھوڑ دو… میری خاطر تم اپنی جان خطرے میں مت ڈالو…،،
میر شہزاد نے نقاہت کے عالم میں فوجی سے کہا.
مگر فوجی اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے جلدی سے اسے پیچھے اپنی کمر پہ لاد کر دونوں ہاتھ آگے کی طرف مظبوطی سے پکڑ کر تیزی سے زینے اترنے لگا…
میر شہزاد کی آنکھوں میں دھند بڑھتی جارہی تھی مگر اس کا شعور کام کررہا تھا…
پتا نہیں فوجی کتنی دیر اسے اٹھا کر بھاگتا رہا… ایک جگہ رک کر اس نے نیچے اتارا اور مظبوط آہنی دروازے کا تالا کھولنے لگا.
دروازہ کھول کر وہ اسے اندر لے آیا تھا….
،،بیوی…،،
مہرانگیز استہزائیہ انداز اس کے پاس کھڑی ہنس رہی تھی.
،،کیا گارنٹی ہے کہ تم اپنی بیوی کو پہلے کی طرح چھوڑ کر کئی سال کےلیے غائب نہیں ہوجاؤ گے؟؟؟،، پرس اٹھا کر وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہی تھی.
فوجی اب اسے نیچے سلا کر اس کی شرٹ اتار کر شاید خون روکنے کے لیے کوئی کپڑا باندھنے کی کوشش کر رہا تھا…
،،تم سب غلط کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟،،
،،فرض کرو اگر میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں تو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی؟؟؟،،
وہ اس کی طرف دیکھ کر شریر انداز میں بول رہا تھا.
،،پتا نہیں.،،
وہ گڑبڑا گئی تھی….مہرانگیز اور تہہ خانے کا منظر آپس میں گڈمڈ ہونے لگے تھے…
،،میرشہزاد….تمہیں کچھ نہیں ہوگا. ہاں کچھ نہیں ہوگا… تم ایسے نہیں جاسکتے.،،
تھر تھر کانپتی وہ جیسے اس کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھی.
،،میں کہیں نہیں جارہا.،،
وہ آہستگی سے بڑبڑا رہا تھا…
،،وہ تمہیں مار دیں گے.،،
،،کسی نے نہیں مارا مجھے…دیکھو میں تمہارے سامنے ہوں.جسٹ ریلکس مجھے کچھ نہیں ہوگا.،،
فوجی پٹی باندھ کر اب اس کی کروٹ بدل رہا تھی… دھند تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی… تہہ خانے کا منظر آنکھوں سے تحلیل ہونے لگ گیا تھا.
میر شہزاد پچپن کا کوئی خواب دیکھ رہا تھا یا پھر حقیقت تھی اس کا بابا ہاتھ تھام کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا… جبکہ سامنے ماں مسکراتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھے جا رہی تھی…
آہستہ آہستہ اس کا پورا وجود آزاد ہوتا گیا ہر غم ہر تکلیف ہر بوجھ سے آزاد کسی پنچھی کی مانند…ہلکا پھلکا…
صبح کے دس بجے ہوں گے جب مہرانگیز کی آنکھ کھلی… رات اس کے گھروالوں نے اسے سکون آور گولیاں کھلا دی تھیں جس کی وجہ سے وہ اتنی دیر تک سوتی رہی تھی…اس وقت بخار تو اتر گیا تھا مگر جسم میں میں درد کی شدت ابھی باقی تھی…وہ انگلیوں کی مدد سے کنپٹیوں کو مسلتی بستر سے نیچے اتری… رات کیا ہوا تھا… ذہن دوبارہ اس طرف بھٹکنے لگا تھا… توجہ ہٹانے کے لیے وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آگئی…
اس کے گھر والے مہرانگیز کی آمد سے بےخبر ٹی وی اسکرین کے سامنے بالکل ساکت دم سادھے بیٹھے تھے…
مہرانگیز کی نگاہیں بھی خود بخود ان کی نظروں کے تعاقب میں ٹی وی پر چلی گئیں…
،،سابق رکن قومی اسمبلی ساجدہ بیگم کے گھر پر فائرنگ…کہا یہ جارہا ہے کہ حملے کے وقت وہ گھر پر موجود نہیں تھیں مگر حویلی میں کچھ ہلاکتوں کی اطلاع ہے…،،
اس وقت اسکرین پر ایک طرف سفید حویلی کے باہر کا منظر دکھایا جارہا تھا جہاں میڈیا اور پولیس کی بڑی تعداد نظر آرہی تھی… جبکہ دوسری طرف نیوز اینکر میکانکی انداز میں سب سے پہلے بریکنگ نیوز دینے کے چکر میں ہلکان ہوتی نظر آ رہی تھی.
،،غیر متصدقہ اطلاعات کے مطابق حویلی میں ساجدہ بیگم کے سوتیلے بیٹے میر شہزاد کی موجودگی کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں….جس کے لاپتا ہونے کی رپورٹ چند دن پہلے تھانے میں درج کروائی گئی تھی….،، اینکر کی آواز میں تیزی آگئی تھی….
میر شہزاد کا نام سن کر مہرانگیز کے دل کو دھکا سا لگا تھا…سہارے کے لیے اس نے قریب پڑے صوفے کے کونے کو پکڑا….باقی سب گھر والے پلکیں جھپکائے بغیر ٹی وی کی طرف متوجہ تھے.
،،ابھی ابھی خبر ملی ہے ساجدہ بیگم کے سوتیلے بیٹے میر شہزاد کی حویلی میں موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے…کہا یہ جارہا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوگئی ہے… مذید تفصیلات ہم اپنے نمائندے سے جانتے ہیں.،،
چنگھاڑتی آواز میں موت کا پروانہ سنایا جارہا تھا…
نیوز روم کا منظر ہٹا کر پوری اسکرین پر حویلی سے لائیو کوریج دکھائی جارہی تھی…
سائرن بجاتی ایمبولینس کا شور کانوں میں ائیر فونز لگائے زور وشور سے تفصیلات بتاتے نمائندے کی آواز کہیں دور بہت دور سے… مہرانگیز کے کانوں میں آرہی تھی…
ہر چیز گہرے سکوت میں ڈھل کر جیسے منجمند ہوگئی تھی ….
اس کی آنکھوں کے گرد روشنیاں تھیں کہ بڑھتی ہی جارہی تھیں سفید، لال، زرد آگ کی طرح دہکتی ہوئی روشنیاں انھی روشنیوں کے بیچ وہ جیل کی سلاخیں پکڑے میر شہزاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی.
وقت بہت پیچھے چلا گیا تھا…
،،اصل میں تیری بد دعا سب سے بڑی سزا ہے مہرانگیز!!!،،
میر شہزاد زخمی انداز میں مسکرا رہا تھا.
،،تو پھر میری بددعا ہے کہ توں مر جائے…،،
( آواز میں شدت آگئی) ،،اللہ کرے میر شہزاد توں مر جائے…. اگلی بار تجھے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھوں….!!!،،
منظر چھٹنے لگا تھا….
بڑی اسکرین پر بغیر شرٹ کے صرف بلیک جینز پہنے سٹریچر پر خون میں لت پت میر شہزاد کو باہر کھڑی ایمبولینس میں منتقل کیے جانے کا منظر لائیو دکھایا جارہا تھا….
ابھی تو تدفیں باقی ہے ابھی تو
لہو سے اپنے نہلایا گیا ہوں
(رئیس امروہی)
،،پلیز مجھے بددعا مت دینا مہر انگیز تمہاری دعاؤں میں بہت اثر ہے….،،
وہ جیسے اس سے التجا کر رہا تھا…
دہکتی روشنیاں سیاہ اندھیرے میں بدلتی جارہی تھی.
کسی زمانے میں میر شہزاد کےلیے ایسی ہی موت کی تمنا کیا کرتی تھی وہ….ایسا ہی منظر دیکھنے کی کتنی حسرت تھی ناں اسے…
کبھی کبھی شدت سے مانگی گئی دعا کی قبولیت کی گھڑی جب آتی ہے تب احساس ہوتا ہے کہ وہ
دل جو نفرت کی انتہا پر تھا وہ تو کب پلٹ چکا ہے… نفرت محبت میں ڈھل گئی تھی… مگر بددعائیں پیچھا نہیں چھوڑتیں… واللہ وہ ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ پوری سچائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں تب انسان تڑپ اٹھتا ہے…
قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے…
وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا ﴿۱۱﴾
ترجمہ:(انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے. انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے.)
ہاں واقعی انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے….
جزا و سزا کا دن!!!
پوری رات کا سفر کرکے ہمایوں لغاری جب پیر کرم داد کے ہاں پہنچا تو صبح صادق کی ہلکی ہلکی سفیدی ابھی پھیلنا شروع ہورہی تھی…
شہر سے ہٹ کر دیہاتی علاقے میں پیر کرم داد شاہ کی سرائے آج بھی اتنی ہی پرونق تھی جیسے کسی ویرانے میں بارات اتری ہوئی ہو… رہائش اور چھاؤں کے لئے بنے لمبے کمروں اور اونچے ستونوں والے برآمدوں میں لوگوں کی بھیڑ عجب منظر پیش کررہی تھی.
معمول کی چہل پہل اور رش اتنا تھا جیسے یہاں پر کبھی رات اتری ہی نہ ہو… .
ایک طرف لنگر کےلیے قطار میں دیگیں چڑھی ہوئی تھیں جن سے اٹھتی کھانے کی خوشبوئیں پورے ماحول کو مہکا رہی تھیں…دوسری طرف پرچی کے لیے مختلف علاقوں سے آئے لوگوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی..
جس طرح ڈاکٹر سے ملنے کےلیے پرچی لی جاتی ہے ویسے پیر کرم داد شاہ سے ملاقات کرنے کےلیے لائن میں لگ کر پرچی لینی پڑتی تھی… جو جتنی جلدی آجاتا اس کا نمبر پہلے لگ جاتا….دوردراز سے آئے لوگ اسی مقصد کے لیے رات رک جاتے تھے.
ہمایوں لغاری نے گاڑی سے اتر کر اپنے ساتھ لائی بوتل سے پانی نکال کر چند چھینٹے منہ پہ مارے….
طلال اور شوکت کو وہ اپنے ساتھ لیکر آیا تھا…
یہاں اس سے بڑی بڑی گاڑیوں میں لوگ آئے کھڑے تھے…
کہا یہی جاتا تھا کہ پیر صاحب کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ہے…
ہمایوں لغاری پہلی بار کسی دوست کے مشورے پر شازیہ میر کے ساتھ شادی کی مراد لیکر یہاں آیا تھا… پھر یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کوئی کہتا پیر صاحب کے قبضے میں جنات ہیں جن کے ذریعے وہ کام نکلواتے ہیں… بعض لوگ کہتے کہ نہیں وہ ولی اللہ ہیں ان کی دعائیں کبھی رد نہیں کی جاتیں جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ وہ کالے جادو کے ماہر عالم ہیں….
اندر کسی کو اسلحہ ساتھ لیکر جانے کی اجازت نہیں تھی. کیونکہ سیکورٹی کا انتظام پیر کرم داد کے بندے خود سنبھالتے تھے.
منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ واپس گاڑی کے اندر چلا گیا… طلال نے فوراً چھوٹا تولیہ سامنے کیا… اس نے تولیہ لیکر ہاتھ صاف کیے…
جبکہ اس دوران شوکت پرچی لینے کے لیے لائن میں لگ چکا تھا…
چونکہ ولید وہیں فارم ہاؤس میں تھا…وہاں کی تازہ صورتحال جاننے کے لیے اس نے ولید کو کال ملائی…
دوسری طرف سے سب کچھ ٹھیک اور منصوبے کے مطابق جارہا تھا…
فون بند کرنے کے بعد ہمایوں لغاری بہت زیادہ پرامید اور سرشاری کی کیفیت میں لگ رہا تھا…اسے یقین تھا کہ جیسے آج کا دن اس کی تقدیر بدلنے والا ہے.
باری آنے پر جب وہ پیر کرم داد سے ملاقات کےلیے گاڑی سے باہر نکلا تو اس نے ماتھے کے بال پیچھے کرکے سر پر سفید رومال باندھ رکھا تھا…سفید کرتے کی آستینیں تھوڑی سی فولڈ کرنے کی وجہ سے براؤن چمڑے کی برینڈڈ واچ دور سے نمایاں نظر آرہی تھی.
شوکت اور طلال اسلحہ سمیت وہیں گاڑی کے پاس رک گئے تھے.
اندر پیر صاحب مراقبے کی حالت میں بیٹھے تھے…
،،جس مقصد کےلیے آئے ہو وہ تمہارے بس کا نہیں ہے….،،
پیر کرم داد نے آنکھیں کھولے بغیر کہا.
،، اسی لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں…،،
وہ اس کے گرد عقیدت سے بیٹھتے ہوئے بولا.
پیر کرم داد نے مسکرا کر آنکھیں کھول دیں اس نے اپنے چہرے اور جسم پر پر بےتحاشا تیل مل رکھا تھا…. جس کی خوشبو ناقابل برداشت تھی.
،،جس کی جان لینا چاہتے ہو اس کے گرد دعاؤں کا مظبوط حصار ہے…،،
آواز میں جلال پیدا کیا گیا تھا…
،،فکر نہ کرو پیر کرم داد کہیں نہ کہیں سے جھول پکڑ لے گا.،،
لمحے بھر کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا…
سرمے بھری آنکھوں میں شیطانی چمک تھی.
ہمایوں لغاری نہایت عقیدت سے نذرانہ دے کر باہر نکلا….
باہر برآمدے میں تاحد نظر لوگوں کا ہجوم نیچے فرش پر بیٹھا تھا….
آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے ہمایوں لغاری کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا کہ لوگ مرعوب ہوکر خود بخود راستہ چھوڑنے لگے تھے….
،،ایک منٹ لغاری صاحب…،،
انھی ہجوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکر اسے نہایت قریب سے پکارا…
اپنا نام کسی اجنبی کے منہ سے سن کر وہ لحظے بھر کو ٹھہر گیا تھا… تب تک وہ شخص ہجوم کو چیرتے ہوئے بالکل اس کے مقابل آگیا…
ہمایوں لغاری نے چشمہ اتارکر اسے دیکھا…
سیاہ چمکیلی رنگت کچھڑی بالوں والا شخص بےخوفی سے اس کا راستہ روکے کھڑا تھا…
،،ایکسیوز می.،، چشمہ دوبارہ آنکھوں پہ لگا کر وہ اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنے لگا….
،، وہ کیا ہے صاحب … آجکل کے انسان سانپوں سے زیادہ زہریلے ہوگئے ہیں…سانپ کا زہر ان پر اثر کرنا چھوڑ چکا ہے….،،
وہ شخص اپنے گرد لپیٹی لال اور سبز دھاریوں والی شال سے ہاتھ باہر نکالتے ہوئے بولا.
ہمایوں لغاری کے جسم میں سنسنی دوڑی تھی… وہ خوفزدہ ہوکر وہاں سے بھاگنے لگا تھا کہ شال کے اندر چھپائے ریوالور سے بیک وقت کئی گولیاں باہر نکلیں اور سیدھی ہمایوں لغاری کے جسم کے اندر تک اترتی چلی گئیں…گولیاں چلنے کی آواز سے اندر باہر بیٹھے لوگوں میں بھگڈر سی مچ گئی تھی… کھچڑی بالوں والا شخص اسی ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آرام سے باہر نکلتا جارہا تھا….
جاری ہے….
بارش کے بعد اردو ناول آپ کو کیسا لگ رہا ہے آپ کے کمنٹس کا انتظار رہے گا۔
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
Plz mir shehzad ka na marain 😥😥
Bht choti but achi episode thi ,
Very disappointed
Lengthy likhe hamna
Short episode
But also interesting