Barish K Bad Urdu Novel | Episode 4 | بارش کے بعد اردو ناول
،، لڑکیو جلدی سے تیار ہوجاؤ میں بس یہ ختم کرنے والا ہوں…. ویسے تو آنٹی کے ہاتھ کے مزید پراٹھے کھانے کا بڑا دل کر رہا ہے… مگر پہلے اتنا زیادہ کھا چکا ہوں ساری ڈائٹنگ کا ستیاناس ہوجائے گا.،،
سجاول مہرانگیز اور مسکان کو مخاطب کرتے ہوئے بولا.
وہ اپنے ویٹ کے بارے میں بہت زیادہ کونشیس رہتا تھا.
اس کی بڑی وجہ اس کی نارمل ہائٹ تھی. تھوڑا سا موٹاپا فوراً نظر آنے لگ جاتا…اور قد مزید چھوٹا لگتا.
،،آپ لوگ جائیں میں آج چھٹی کر رہی ہوں.،،
مہر انگیز بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے بولی اور کھٹاک سے کچن سے ہاہر نکل گئی.
،،چلو مسکان.،،
سجاول فوراً اٹھ کھڑا ہوا اس کے چہرے پر ناگواری صاف جھلک رہی تھی.
،،اچھا آنٹی اب ہم چلتے ہیں… اتنے مزیدار پراٹھوں کے لیے بہت بہت شکریہ!!!،،
اس نے ہاتھ پونجھتے ہوئے وردہ آنٹی کو مخاطب کیا.
وہ بیچاری مہر انگیز کے رویے پر خود نادم تھی جواب میں صرف مسکرا کر سر ہلا سکی.
ان کے روانہ ہوتے ہی امی آندھی و طوفان کی طرح مہر انگیز کے کمرے میں آئیں.
،،یہ کیا بدتمیزی تھی… تمہیں شرم آنی چاہیے گھر پر آئے لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتا ہے…؟،،
،،یہی تو میں پوچھنا چاہتی ہوں یہ سب کیا تھا؟ آپ اچھی طرح جانتی ہیں میں مر کے بھی ان کے ساتھ نہیں جاتی تو پھر وین بند کروانے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟،،
،،پیسے درختوں پر نہیں لگتے دو تین ہزار کی بچت ہوجاتی ویسے بھی سیما بار بار کہہ رہی تھی مجھے انکار کرنا اچھا نہیں لگا.،،
امی خفگی سے بولی.
،،امی خدا کے لئے یہ بات آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی… جب سے ان کا سٹیٹس اونچا ہوا ہے وہ سب پہلے جیسے نہیں رہے…ایک دو تین ہزار کے پیچھے آپ مجھے ذلیل مت کروائیں.آپ کو یاد نہیں ہے پچھلے سال سیما آنٹی نے مسکان کا سوٹ مجھے دیا تھا، تو کیسے خدیجہ کی منگنی پر مسکان سب کو اترا اترا کر بتا رہی تھی کہ مہرانگیز نے میرا سوٹ پہنا ہوا ہے.،،
( وہ سوٹ مسکان کو تنگ ہوگیا تو سیما آنٹی نے اٹھا کر مہرانگیز کو دے دیا تھا اور کہا تھا کہ مہنگا سوٹ ہےاس نے ایک بار پہنا ہے تم پہن لو)
،،ہاں مگر وہ تو مسکان نے کہا تھا سیما آنٹی نے بعد میں اسے ڈانٹا بھی تو بہت تھا.،،
امی ان کا دفاع کرتے ہوئے بولیں.
،،امی ایک سیما آنٹی کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مسکان اور میں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، وہ وہاں پر سب کے سامنے مجھے شرمندہ کرتی رہے گی. مجھے سو فیصد یقین ہے اس بارے میں شیراز انکل کو پتا نہیں ہوگا. ورنہ وہ بھی کم نہیں ہیں کسی سے.،،
مہر انگیز چیزیں ادھر ادھر رکھتے ہوئے غصے سے بولی.
،،اب میں نے ہاں کر دی ہے مجھے کچھ نہیں سننا کل سے تم جا رہی ہو بس!!!،،
امی تیزی سے اپنا فیصلہ سناتی چلی گئیں.
،،ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں جاؤں گی یونیورسٹی ان کے ساتھ جانے سے بہتر ہے میں اپنی پڑھائی چھوڑ دوں.،،
مہرانگیز نے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا.
شام کو ابا کے سامنے وہ خوب چیخی چلائی…
وہ بیچارے کیا کہتے آج تک امی نے اپنی مرضی کے فیصلے کیے تھے…اب ان کی بھلا کیا دال گلتی!!!
،،اگر بچی أن کے ساتھ نہیں جانا چاہ رہی تو ڈرائیور کو کہہ دیتے ہیں؟
ویسے بھی خوامخواہ احسان اٹھانا اچھا نہیں لگتا.،، ابا نے ڈرتے ڈرتے امی سے پوچھا.
،،سیما نے اتنی محبت سے کہا ہے مجھے انکار کرنا اچھا نہیں لگتا یہ لڑکی تو ویسے ہی پاگل ہے!!!،،
امی قدرے نرم پڑتے ہوئے بولیں.
،،میں خود کر لیتی ہوں فون لائیں ابا مجھے اپنا موبائل دیں.،،
مہرانگیز پرجوش ہوکر بولی.
انھوں نے اجازت کے انداز میں بیگم کو دیکھا وہ سر جھٹک کر کچن میں چلی گئیں.
،،ہیلو سیما آنٹی میں مہر انگیز!!!
جی ٹھیک ہوں امی بھی ٹھیک ہے…. وہ میں نے یہ کہنے کےلیے فون کیا تھا کہ آپ نے امی سے کہا تھا یونیورسٹی مسکان کے ساتھ جانے کےلیے…. آپ کے اخلاص کا بہت شکریہ!!!
مگر مجھے کسی کو اپنی خاطر ڈسٹرب کرنا اچھا نہیں لگتا…. میں کل سے اپنی وین پر جاؤں گی…. نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بس مجھے خود اچھا نہیں لگتا،
اچھا اوکے اللہ حافظ!!!،،
،،یہ لیں ابّا وین والے انکل کو فون کر کے کل آنے کا کہیں.،،
مہرانگیز موبائل ابا کو پکڑاتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی.
دوسری طرف مسکان نے خوب بڑھا چڑھا کر اپنی امی کو مہر انگیز کے بارے میں آکر بتایا تھا.
سجاول کا موڈ بھی اچھا خاصا خراب تھا.
،،پتا نہیں سمجھتی کیا ہے خود کو!!!،،
اس نے بھی اپنی رائے دی تھی.
اس وقت سجاول امی کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب مہر انگیز کا فون آیا.
،،ماشاءاللہ بڑی خوددار بچی ہے.،، امی فون بند کرتے ہوئے ستائش سے بولیں.
،،خوددار نہیں گھمنڈی ہے بہت زیادہ!!! اچھا ہوا خود فون کرکے انکار کر دیا ورنہ میں تو مر کے بھی اب نہیں جاتا.،،
سجاول جل بھن کر بولا:
یونیورسٹی جوائن کیے دس بارہ دن ہوئے ہوں گے….جب سجاول مسکان کو لینے یونیورسٹی آیا کھڑا تھا.
مہرانگیز بھی اسی وقت باہر نکلی.
،،چلیں مسکان ویسے کچھ لوگوں کو عزت کی سواری راس نہیں آتی….انھیں دھکے کھا کے جانے کا بڑا شوق ہوتا ہے.،،
سجاول نے جان بوجھ کر وین میں گھستی مہر انگیز کو سنانے کے لیے اونچی آواز میں کہا.
مہر انگیز وین سے اسی وقت واپس پلٹی…
،،مسکان پتا نہیں کیسے تم اس چھوٹی سی ڈولی میں بیٹھ کر جاتی ہو میرا تو دیکھ کے دم گھٹنے لگ جاتا ہے… میری مانو تو تم بھی وین لگوا لو… کم از کم سانس تو آرام سے لے سکو گی.،،
وہ مسکان کو ترس سے دیکھتے ہوئے بیگ کندھے پر دھکیلتی واپس وین میں گئی.
دونوں بہن بھائی اپنی چھوٹی کار کے آگے زہریلے گھونٹ بھرتے رہ گئے….
دوسرے دن سجاول ابو سے منتیں کرکے بڑی گاڑی لیکر آیا….مسکان کو چھوڑ کے سجاول اپنی یونیورسٹی میں چلا جاتا تھا جو کچھ فاصلے پر تھی.
چھٹی کے ٹائم مسکان باہر نکلی تو مہر انگیز نظر نہیں آئی…
،،سب محنت بےکار گئی بھائی!!!
مہر انگیز نے آج چھٹی کر لی ہے.،،
مسکان آتے ہی مایوسی سے کہا.
،،ایک تو پڑھائی میں ماشاءاللہ سے ٹاپر ہے اوپر سے چھٹیاں بھی شروع کر دیں. سمجھ نہیں آتی وردہ آنٹی نے اس لڑکی کو اتنی زیادہ ڈھیل کیوں دی ہوئی ہے.،،
جواباً سجاول بھی جھنجھلا کے بولا.
،،ایک منٹ اس کی دوست نے چھٹی کے ٹائم مجھے کچھ نوٹس پکڑائے ہیں جو مہر انگیز کو واپس کرنے تھے… کیوں نہ جاتے ہوئے اس کے گھر سے ہوکر جائیں.،،
مسکان معنی خیز انداز میں مسکرا کر بولی.
،،ضرور!!!،،
سجاول اپنے بال سیٹ کرتے ہوئے گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولا.
جاری ہے….
( تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول