Barish K Bad Urdu Novel | Episode 5 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
مہر انگیز اور اس کی امی باہر صحن میں چارپائی پہ شاپنگ کا سارا سامان بکھیرے انھیں کھول کھول کر دیکھ رہی تھیں…
وہ دونوں تھوڑی دیر پہلے بازار سے لوٹی تھیں.
چھوٹے سے صحن میں سردیوں کی زرد دھوپ بہت بھلی محسوس ہورہی تھی.
جب سے مہرانگیز یونیورسٹی جانا شروع ہوئی تھی، اس کے پاس پہننے کےلیے کوئی ڈھنگ کے کپڑے نہیں تھے. کالج میں یونیفارم پہن کے جانا پڑتا تھا اس لیے کپڑوں کی اتنی زیادہ ٹینشن نہیں ہوتی تھی.
کل ابا کی تنخواہ ملی تو آج وہ چھٹی کرکے امی کے ساتھ بازار گئی تھی.
امی نے دو تین شرٹیں میچنگ کے دوپٹے کچھ دوسری ضرورت کی چیزیں خرید کر دیں تھیں.اس کے علاوہ پیر بازار سے بہت سستی اور اچھی لیسیں مل گئی تھیں.کٹ پیس پر زبردست مال آیا ہوا تھا. خواری تو بہت ہوئی تھی مگر امی اور وہ خوش تھیں کہ کم پیسوں میں بہت اچھی شاپنگ ہوگئی ہے.
اتنے میں بیل بجی….
،،تم جا کر دیکھو سعد اور عباد ہوں گے میں ذرا واش روم سے ہو آؤں.،،
امی اٹھتے ہوئے بولیں.
مہر انگیز نے جاکر دروازہ کھولا.
سامنے مسکان اور سجاول سلام کرکے اندر چلے آئے.
وہ بھی دروازہ بند کر کے ان کے پیچھے چلی آئی.
،،تم نے آج چھٹی کرلی؟،، مسکان آتے ہی بولی.
،،ہاں کچھ خریداری کرنی تھی.،، مہرانگیز نے نارمل انداز میں جواب دیا.
سجاول نے ایک گہری نظر اس پہ ڈالی… مہر انگیز نے کالے رنگ کا ڈھیلا ڈھالا سوٹ پہنا ہوا تھا… جبکہ بالوں کو فولڈ کرکے کیچر لگایا ہوا تھا.
،،کیاکیا خریدا ہے؟،، مسکان ایک ایک چیز کو تجسس سے دیکھتے ہوئے بولی.
جبکہ سجاول بازو سینے پر لپیٹے دور کھڑا خاموشی سے اس کی گئی شاپنگ کو گھورتا رہا.
،،بہن اب تم بھی ایک دو اچھے برینڈ کے سوٹخرید ہی لو…. ان کٹ پیسوں پہ اتنی محنت کرو گی لگیں گے پھر بھی سستے!!!،،
مسکان اس کی ایک ایک چیز کو اٹھا کر ناپسندیدگی کے انداز میں پھینکتے ہوئے بولی.
اس کی کسی بات کا جواب دیے بغیر مہرانگیز نے خاموشی سے شاپنگ کا سارا سامان گولے کی شکل میں اٹھایا اور اپنے کمرے میں رکھنے چلی گئی.
اتنے میں امی بھی باہر آگئی
،،ارے آپ کب آئے…؟،،
انھیں دیکھ کر امی کے چہرے پر خوشگوار حیرت امڈ آئی.
،،اسلام عليكم آنٹی.،،
دونوں نے وردہ آنٹی کو سلام کیا.
،،مہر انگیز کو نوٹس دینے تھے سوچا ابھی دیتے جائیں.،، سجاول نے وضاحت دی.
،،اب آ گیے ہو تو چائے پی کے جانا.،،
وردہ آنٹی خوش دلی سے بولیں.
سجاول وردہ آنٹی کی ہمراہی میں چلتا ہوا ہال میں آگیا.
،،ویسے آنٹی اس موسم میں چائے کے ساتھ پکوڑے تو بنتے ہیں.،،
سجاول نے بے تکلفی سےجان بوجھ کر مہرانگیز کو سنانے کےلیے اونچی آواز میں کہا:
مسکان کی کسی دوست کا فون آ گیا تھا، وہ باہر فون پہ لگی ہوئی تھی.
،،مہر بیٹا کہاں ہو… ؟،،
امی وہیں سے مہرانگیز کو چائے کے ساتھ پکوڑے تلنے کا کہنے لگیں.
،،جی امی.،،
بےدلی سے سامان رکھ کر وہ کچن میں چلی آئی. پتیلی میں پانی ڈال کر وہ بیسن گھولنے لگی.
اس وقت اس کا چہرہ اور آنکھیں غصے کے مارے دہک رہی تھیں.اگر امی کا ڈر نہ ہوتا تو وہ ان دونوں کو دروازے سے ہی چلتا کر دیتی.
جب سے ان کے ہاں پیسہ آنا شروع ہوا تھا مسکان اپنی امارت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی،.
بات بے بات اس کی چیزوں کا مذاق اڑا کے اسے نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگی رہتی تھی…حالانکہ پچپن میں وہ بہت اچھی دوستیں ہوا کرتی تھیں.
یہ پیسہ بھی ناں کبھی کبھی لوگوں کی اصلیت دکھا دیتا ہے.
پتہ نہیں اللہ تعالیٰ لوگوں کو اتنا دیتا ہی کیوں ہے؟؟؟ ایک شکوہ سا خدا سے ہوا… ایسے شکوے پتا نہیں وہ دن میں کتنی بار وہ خدا سے کرتی تھی.
اس رات میر شہزاد عجیب سی کیفیت میں گھر لوٹا تھا… غصے میں مہرانگیز کے ساتھ زبردستی نکاح تو کر لیا تھا مگر نگاہوں کے سامنے بار بار اس کا خوفزدہ چہرہ نظر آنے لگتا.
سڑک پر پروفیشنل طریقے سے باتیں کرتی… اور نکاح کے وقت ڈری سہمی مہرانگیز میں زمین و آسمان کا فرق لگ رہا تھا. دماغ کہتا جو کیا ہے بالکل ٹھیک کیا ہے… جبکہ دل میں اس کےلیے ہمدردی محسوس ہوتی.
ان سب سوچوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے واش روم میں جاکر چہرے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے…اور آئینے کے سامنے خود کو کمپوز کیا.
جو بھی میر شہزاد کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا اس کے ساتھ ایساہی ہوگا.
ایک پراعتماد مسکراہٹ اس کے لبوں پہ پھیل گئی. تولیے سے چہرہ صاف کرتا وہ باہر نکل آیا.
،،ہیلو عمران!!! مسٹر ہاشم کے ہمراہ کل میری لازمی میٹنگ ارینج کرو…،،
فون پہ کسی کو کہہ کر اس نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی چلا دیا….بے مقصد چینل سکرول کرتے کرتے رات کے کسی پہر اس کی آنکھ لگ گئی.
دوسری صبح ایک بھرپور نیند لیکر وہ بالکل تروتازہ لگ رہا تھا.
وہ میٹنگ کے لیے باہر نکل ہی رہا تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا.
میر شہزاد نے رک کر موبائل کان سے لگایا.
دوسری طرف جو بھی تھا اس کی باتیں سن کر اس کے ماتھے پہ تیوریاں چڑھتی گئیں.
بہت مختصر بات کرکے اس نے فون بند کر دیا.
فون بند کرتے وقت اتفاقاً اس کی نظر ٹیبل کے نیچے گری فائل پہ پڑی.
رات یہ فائل سنی نے اسے پکڑائی تھی جس میں مہرانگیز کے بارے میں تمام معلومات اکھٹی کی گئی تھیں.
رات کو اس کا ذہن اتنا زیادہ الجھا ہوا تھا کہ اس نے اسے کھول کر دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا.
آج اس کی ہاشم کے ساتھ فائنل میٹنگ پھر سے کینسل ہوگئی تھی.
پتا نہیں ہاشم اتنی زیادہ پس و پیش سے کیوں کام لے رہا تھا حالانکہ پچھلے ہفتے اس ڈیل کے لیےوہ بہت زیادہ پرجوش تھا.
میر شہزاد ٹھیکے پہ پٹرول پمپ لیتا تھا… شہر سے باہر ایک پمپ اس کا ذاتی تھا.
آجکل ہاشم سے پمپ ٹھیکے پہ لینے کی بات چیت چل رہی تھی.
ویسے تو ہاشم کا والد اپنا پٹرول پمپ بہت اچھی طرح سے چلا رہا تھا… کہ اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی وفات ہوگئی.
اس کے بیٹے ہاشم نے اسے چلانے کی کوشش کی مگر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے پمپ الٹا نقصان میں جانے لگا.
اب وہ اسے کرائے پہ دینا چاہتا تھا.
میر شہزاد کی کوشش تھی کہ وہ پمپ کسی طرح اسے مل جائے ،کیونکہ ایک تو وہ بہت اچھی لوکیشن پہ تھا… دوسرا اس کا امیج بھی بہت اچھا بنا ہوا تھا کہ یہاں پر خالص تیل ملتا ہے.
میر شہزاد کو یقین تھا کہ وہ اسے بہت اچھی طرح سے چلا لے گا.
سب کچھ کاغذات تیار تھے. پھر پتا نہیں کیوں ہاشم پیچھے ہٹنے لگا تھا.
کوٹ کے بٹن کھولتے میر شہزاد نے جھک کر فائل اٹھا لی.
اس نے وہیں کھڑے کھڑے اسے کھول کر دیکھا.
جس میں مہرانگیز کی تصویر کے ساتھ عمر تعلیم نوکری مستقل رہائش اور گھروالوں کے متعلق تمام معلومات درج تھیں.
مڈل کلاس طبقے سے تعلق پڑھ کر اس کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ پھیل گئی.
،،پیسے کےلیے اسی طبقے کی لڑکیاں ایسی اوچھی حرکتیں کرتی ہیں.،،
اس نے فائل بند کرتے ہوئے سوچا.
آج خود جاکر مجھے ہاشم سے واضح الفاظ میں بات کرنی چاہیے. اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا.
شام کو سفید بٹنوں والی شرٹ اور بلیک پینٹ کے ساتھ سامنے کے بال ہمیشہ کی طرح جل سے کھڑے کیے ہوئے وہ اچانک ہاشم کے سامنے جا پہنچا.
ہاشم اپنے پمپ پر باہر کرسیاں ڈالے کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا. میر شہزاد کو اچانک سامنے دیکھ کر وہ چونکنے کے انداز میں اٹھ کھڑا ہوا.
،،اسلام عليكم!،، میر شہزاد نے پاس جاکر گرمجوشی سے ہاتھ ملایا.
،،وعلیکم السلام آؤ بیٹھو…،،
آواز میں گرمجوشی مفقود تھی.
،،آپ شاید بہت بزی رہتے ہیں مجھے لگا خود جاکر بات فائنل کر لینی چاہیے… کیونکہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے میرا بہت سارا کام رکا ہوا ہے.،، میر شہزاد نے خالص کاروباری انداز میں کہا.
،،جی جی میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ بات ختم ہوجائے… آپ کے پارٹنر عمران کو تو میں نے واضح الفاظ میں انکار کر دیا ہے کہ ہم آپ کو اپنا پمپ نہیں دینا چاہتے.
شاید آپ خود کی تسلی کے لیے چلے آئے ہیں.،،
ہاشم کا لہجہ ایسے تھا جیسے وہ جلد از جلد اس سے جان چھڑانا چاہتا ہو.
،،انکار مگر کیوں؟؟؟،، میر شہزاد کو حیرت کا جھٹکا لگا.
،،دیکھیے میر صاحب بھلے یہ پمپ آپ کرائے پر لینا چاہتے ہیں مگر آفیشلی اس کا مالک تو میں رہوں گا. اس لیے میں نہیں چاہتا کہ کوئی غیر قانونی کام ہو تو سارا ملبہ مجھ پہ گرے.،،
ہاشم کسی لگی لپٹی کے بغیر اصل مدعے پہ بولا
،،جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں کسی قسم کا کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا مجھے لگتا ہے کسی نے آپ کو ہمارے خلاف غلط معلومات دی ہیں…،،
میر شہزاد وضاحت کرتے ہوئے بولا.
،،میں نے ذاتی طور پر کافی جگہوں سے معلومات حاصل کی ہیں… معاف کیجئے گا میں مطمئن نہیں ہوا ہوں.،،
ہاشم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا :
،،آپ کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟ جب سب کچھ فائنل ہے.،،
میر شہزاد بے یقینی کے عالم میں بولا.
،،جی مگر ابھی تک دستخط نہیں ہوئے….معزرت میں خود پہلے ہی اتنا نقصان اٹھا چکا ہوں اس لیے مزید رسک نہیں لے سکتا تھینک یو!!!،،
ہاشم نے ملنے کےلیے ہاتھ آگے بڑھا دیے، اس کا مطلب وہ مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا.
،،بیسٹ آف لک مسٹر ہاشم!!!،،
سرد لہجے میں ہاتھ ملاتا میر شہزاد تیزی سے واپس مڑ گیا.
،،ہاشم ڈیل سے پہلے ہی انکار کر چکا تھا؟ عمران نے مجھے کیوں نہیں بتایا….؟؟؟،،
راستے میں اس نے الجھتے ہوئے سوچا.
رات کو اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے وقت اس کا ذہن ہاشم کی باتوں میں الجھا رہا.
،،ہیلو عمران! ہاشم سے بات ہوئی؟،،
میر شہزاد نے سلش کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا.
،،جی بھائی وہ کچھ مصروف ہے… ایک دو دن میں میٹنگ رکھ لیں گے.،،
دوسری طرف سے مصروف سے انداز میں کہا گیا.
،،اوکے.،،
میر شہزاد نے فون بند کرکے سامنے میز پر رکھ دیا.
عمران مجھ سے جھوٹ کیوں بول رہا ہے…؟ اگر ہاشم انکار کر دیا ہے تو اس میں چھپانے والی کوئی تو ہے نہیں… میر شہزاد پرسوچ انداز میں سلش کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگا.
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول