Barish K Bad Urdu Novel | Episode 6 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
،،کیا بنا رہی ہو؟؟؟،،
مسکان فون کرنے کے بعد سیدھی کچن میں چلی آئی تھی.
،،چائے کے ساتھ پکوڑے!!!
ویسے تم تو صرف چائے لو گی…ایسی سستی چیزیں بھلا کہاں کھاتی ہو …؟،،
مہر انگیز بیسن لگے آلو گھی میں ڈالتے ہوئے بولی.
اس وقت کچن پکوڑوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا.
،،کیوں نہیں کھاؤں گی…؟ آپ کے گھر کے پکوڑے تو شروع ہی سے مجھے بہت پسند ہیں.
ویسے جو مزہ گھر کی بنی چیزوں کا ہوتا ہے بازاری کھانوں میں کہاں ملتا ہے.،،
مسکان کڑاہی میں تلتے پکوڑوں کو للچاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی.
،،ہاں صحیح کہہ رہی ہو جیسے میری امی کے ہاتھ کی سلائی کے سامنے یہ برینڈڈ سوٹ عام سے لگتے ہیں.،،
مہر انگیز کا اشارہ مسکان کے سوٹ کی طرف تھا.
،،ایسی بھی کوئی بات نہیں. تم خوامخواہ برا منا گی ہو… میں تو یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ اب تم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہو، بندہ کچھ اچھے سوٹ بنا لیتا ہے، اب ایسی بھی کیا غربت کہ گھر میں آنٹی کے سوٹ پہننے کی نوبت آگئی ہے.،،
مسکان اس کے کالے جوڑے کو استہزائیہ ہنسی کے ساتھ دیکھتے ہوئے بولی.
،، اپنی امی کے پہنے ہوئے ہیں کوئی خیرات سے اٹھا کر نہیں لائی.یہ جو روز روز آکر ہم غریبوں سے نت نئی فرمائشیں کرتے رہتے ہو…اس سے ہمارا اچھا خاصا بجٹ ڈسٹرب ہوجاتا ہے، امی بیچاری تو مروت میں کچھ نہیں کہتی مگر آپ لوگوں کو خود سوچنا چاہیے کہ اتنے امیر نہیں ہیں ہم…جو یہ سب افورڈ کر سکیں.،،
وہ ٹرے میں پکوڑے اور چائے رکھتے ہوئے رکھائی سے بولی.
،،میں نے تو کوئی فرمائش نہیں کی تم نے خود ہی بنائے ہیں.،،
مسکان کندھے اچکا کر بولی.
،،وہ اس لیے بنائے ہیں کیونکہ تمہارے بھائی جاااان کا بڑا دل کر رہا تھا آج پکوڑے کھانے کو!!!
اسے جاکر اچھی طرح سے سمجھا دینا آئندہ کچھ کھانے کو دل کرے تو جاکر باہر سے کھا لے.اب اتنے بھی غریب نہیں ہو تم کہ بازار سے ایک پکوڑے بھی افورڈ نہ کر سکو.،،
مہرانگیز وہی جملہ اس کے منہ پہ مارتے ہوئے ٹرے اٹھا کر چلی گئی.
مسکان کو یوں لگا جیسے مہرانگیز نے اس کے چہرے پہ کھینچ کے طمانچہ مارا ہو!!!
غصے سے پاؤں پٹختے جس وقت وہ ہال میں پہنچی، مہرانگیز سجاول کے سامنے ٹرے رکھ کر جا چکی تھی.
مسکان کو مہر انگیز کی باتوں پر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ دل چاہنے کے باوجود اس نے ایک پکوڑا بھی نہ چکھا.
جبکہ سجاول بڑی رغبت سے پکوڑوں کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتا رہا.
وہ بار بار بھائی کو گھر چلنے کا کہنے لگی.
،،کیا ہوا اتنی جلدی کیوں مچا رکھی تھی….؟؟؟،،
گاڑی میں بیٹھتے ہی سجاول نے مسکان کو کہا.
،،اتنی بے عزتی کروانے کے بعد اب بھی بیٹھی رہتی کیا؟؟؟،،
،،کیا ہوا؟،،
سجاول نے حیرت سے بھنویں اچکائیں.
جواباً مسکان نے شروع سے لیکر آخر تک ساری بات بتائی.
،، اچھا اس نے میرے بارے میں یہ کہا…،، سجاول ہونٹوں پہ آئی مسکراہٹ سمیٹتے ہوئے بولا.
،،ہونہہ!!! اتنا غرور کس بات پر ہے… ؟میڈم خود تو آنٹی کے کپڑے پہنے پھر رہی تھی اور میرا پانچ ہزار کا سوٹ اسے عام سا لگ رہا تھا.،،
،،آر یو شیور وہ آنٹی کا سوٹ تھا؟،،
سجاول نے تصدیق چاہی.
،،ہاں نہیں تو اور کیا… میں نے خود کتنی بار وہ سوٹ وردہ آنٹی کو پہنے دیکھا ہے.ویسے میں نے بھی منہ پہ کہہ دیا کہ اتنی بھی غریب نہیں ہو تم کہ آنٹی کے سوٹ پہنتی پھرو.،،
مسکان اطمینان سے بولی.
،،تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا… جس کا بھی پہنا ہوا تھا…لگ تو اس پہ بہت اچھا رہا تھا!!!،،
سجاول سنجیدگی سے بولا.
،،اب تم بھی شروع ہو جاؤ اس کی طرف داری کرنے.
کیا ضرورت تھی وہاں جاکر فرمائشیں کرنے کی؟ خوامخواہ میری بے عزتی کروا دی!!!،،
جواباً وہ چڑ کر بولی.
،،اچھا سنو!!! امی کو اس بارے میں کچھ مت بتانا.،،
سجاول نے سمجھانے کے انداز میں کہا.
،،پاگل ہوں امی کو تو ویسے بھی مہرانگیز میں کوئی برائی نظر نہیں آتی، الٹا ہمیں ڈانٹیں گی…،،
مسکان موبائل سکرول کرتے ہوئے ناگواری سے بولی.
،،گڈ!!!،،
سجاول نے یوٹرن لیتے ہوئے سنجیدگی سے ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کر دی کیونکہ ذرا سی لاپرواہی سے گاڑی کو خراش بھی آجاتی تو ابو نے اس کی چمڑی ادھیڑ دینی تھی.
دوسرے دن مہرانگیز نے ردا کی جاکر خوب کلاس لی.
،،مر نہیں گئی تھی.ایک چھٹی ہی کی تھی ناں؟کیا ضرورت تھی مسکان کو میرے نوٹس پکڑانے کی…؟،،
،،سوری ایم رئیلی سوری کیا اس نے گم کر دیے نوٹس؟؟؟
،،پلیز آپ ناراض ناں ہوں. میں آپ کو فوٹو کاپی کروا دوں گی.،،
موٹی فریم کا چشمہ لگائے کلاس کی سب سے پڑھاکو لڑکی ردا پریشان ہوکر بار بار معذرت کر رہی تھی.
،،نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے… بس آئندہ میرا کوئی سامان مسکان کو نہیں دینا !!!،،
مہرانگیز اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولی.
،،جی جی سمجھ آگئی.،،
ردا نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے وہاں سے جانے میں عافیت سمجھی.
مسکان کی کچھ دن بعد سالگرہ تھی… اس نے مہرانگیز کو نہیں بلایا پچھلے سال اس کے بلانے پر بھی مہرانگیز نہیں گئی تھی.
دوسرے دن اس کا سامنا ہوا تو مہرانگیز نے نہ تو سلام کیا اور نہ ہی سالگرہ وش کی… یہ ایک طرح سے دونوں میں خاموش جنگ کا آغاز تھا.
اب اکثر ایسا ہونے لگا کہ دونوں سامنے آ بھی جاتی تو وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرکے گزر جاتیں. یہی شکر تھا سبجیکٹ علیحدہ ہونے کی وجہ سے دونوں مختلف کلاسوں میں بیٹھتی تھیں.
،ہاشم کے انکار کے بعد تیل کی سپلائی کےلیے کسی دوسری کمپنی کی طرف سے آفر آگئی.
میر شہزاد اس میں اتنا الجھا کہ اسے عمران سے کچھ پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئی.
ویسے بھی ہاشم انکار کر چکا تھا زیادہ اس پروجیکٹ کے پیچھے بھاگنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں تھا.
مہرانگیز سے نکاح کے تقریباً بیس دن بعد!!!
صبح صبح کے وقت… میر شہزاد شہر سے ہٹ کر ایک پمپ(جس پر مرمت کا کام چل رہا تھا) اس کا معائنہ کرنے آیا ہوا تھا کہ بار بار کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی… اس نے کال اٹینڈ کی.
،،ہیلو شہزاد بھائی میں کاشف.،،
،،ہاں بولو کاشف…،،
،، وہ بھائی پمپ پہ چھاپہ لگ گیا ہے. پولیس سب عملے کو پکڑ کر لے گئی ہے.عمران بھائی تو فرار ہوگئے ہیں. مگر پولیس اس وقت آپ کو پکڑنے آ رہی ہے.،،
کاشف گھبرائی آواز میں جلدی سے بولا.
کاشف اس کے ذاتی پمپ کا ملازم لڑکا تھا.
میر شہزاد کا اتنا وسیع پیمانے پر کاروبار پھیلا ہوا تھا کہ اس کے پاس اپنے ذاتی پمپ کو دیکھنے کا ٹائم نہیں ملتا تھا.
اس لیے اس نے اس پمپ کی ساری ذمہ داری عمران کو سونپی ہوئی تھی.
،،چھاپہ مگر کیوں؟؟؟،،
،،وہ جی آپ کو معلوم تو ہے وہاں پر منشیات کا دھندہ…..،،
مگر اس کی پوری بات سننے سے پہلے میر شہزاد نے فون بند کردیا کیونکہ اس وقت پولیس کی بھاری نفری پمپ میں داخل ہو رہی تھی.
فون بند کرکے وہ پراعتماد انداز میں پولیس کی طرف چلا آیا.
،،میں انسپکٹر جمشید!!! آپ کو غازی پمپ پر منشیات رکھنے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں.،،
ایک پولیس والے نے آگے بڑھ کر میر شہزاد کو ہتھکڑیاں پہنا دیں.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
بہت مزے کا ناول ہے اگلی ایپیسوڈ کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔
شکریہ ماہا