Barish K Bad Urdu Novel | Episode 7 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
میر شہزاد سے نکاح کے بعد!!!
دوسرے دن کی صبح معمول کے مطابق تھی…. گیارہ بج چکے تھے جبکہ مہر انگیز منہ پہ کمبل لپیٹے ابھی تک سو رہی تھی.
،،تم آج کام پر نہیں جاؤ گی؟؟؟،،
امی نے کمرے میں آکر قدرے فکرمندی سے پوچھا:
،،نہیں.،،کمبل میں سے جواب آیا.
،،کیوں؟؟؟،،
،،میں نے جاب چھوڑ دی ہے.،،
،،کیوں چھوڑ دی ہے؟،، وہ جیسے شاک میں آ گئیں.
،،آپ کو پسند جو نہیں تھی یہ جاب… کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں تھیں.اس لیے میں نے سوچا چھوڑ دوں.،،
،،یہ خیال مہارانی کو اب آیا ہے، جب سارے خاندان کی لعنت ملامت سن کے سہہ لی. اب کیا فائدہ تھا چھوڑنے کا!!!،،
امی کی اس بات پہ مہر انگیز نے کوئی جواب نہیں دیا.
،، ہوگئی ہوگی کسی سے لڑائی، تمہاری بنتی تو ہے نہیں کسی سے، سعد بتا رہا تھا کہ رات تم پریشان لگ رہی تھی.،،
وہ اسے ٹٹولتے ہوئے پوچھ رہی تھیں.
اس بات پر مہر انگیز نے کمبل دھکیل کے اٹھ کر چپل پہنتے ہوئے امی کی طرف دیکھا.
،،یہ جاب میں نے اپنی مرضی سے کی تھی اور چھوڑی بھی اپنی مرضی سے ہے. آپ تو ویسے بھی خوش نہیں تھیں اب کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں…؟،،
رکھائی سے جواب دیتی مہرانگیز جلدی سے باتھ روم میں گھس گئی.
جب وہ باہر نکلی تو امی کمرے سے جا چکی تھیں.
اس کے سیل فون پر بار بار راگ ٹی وی کے پروڈیوسر کی کال آ رہی تھی..
صبح مہرانگیز نے عمر ( اپنے ساتھ کام کرتے لڑکے) کو فون کرکے جاب چھوڑنے اور استعفیٰ بھجوانے کے بارے میں اطلاع دی تھی.
رانا صاحب شاید اس بارے میں کنفرم کرنا چاہتے تھے.
چوتھی بار کال آنے پر بالآخر مہرانگیز نے کال اٹینڈ کر ہی لی.
،،یہ میں کیا سن رہا ہوں مس مہرانگیز!!! آپ جاب چھوڑ رہی ہیں،،؟
رانا صاحب کی آواز میں بے یقینی تھی.
،، جی سر،.،،
مختصر جواب دیا گیا.
،،مگر کوئی وجہ تو ہونی چاہیے! ابھی تو آپ نے کامیابی کے زینے پہ پہلا قدم رکھا تھا… اپنا تابناک مستقبل ایسے کیسے چھوڑ سکتی ہیں؟؟؟،،
ہموار لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی گئی.
،،جی سر میں آپ کی بات سمجھ سکتی ہوں مگر میری مجبوری ہے.،،
،،دیکھیے مس مہر اگر آپ اپنی سیلری سے مطمئن نہیں تو ہم مزید بڑھا دیتے ہیں.،،
اپنے چینل کی واحد سونے کی چڑیا کو وہ ایسے کیسے جانے دے سکتے تھے.
اور یہ تھا بھی سچ مہر انگیز کے پرینک شو کی وجہ سے ہی ان کے چینل کی ریٹنگ کچھ بڑھی تھی، ورنہ تو ہزاروں چینل کی بھرمار میں مقامی اور کم بجٹ کے راگ ٹی وی کی ویلیو نہ ہونے کے برابر تھی.
جب سے مہرانگیز نے یہاں پر کام کرنا شروع کیا تھا…اس چینل میں گویا جان پڑ گئی تھی.
،،ایسی کوئی بات نہیں ہے سر بس میں یہ جاب نہیں کرنا چاہتی.،،
وہ بنا کسی حیلے کے بولی.
،،یقیناً آپ کو اس سے اچھی آفر مل رہی ہوگی…. پلیز آپ ایک بار ہمارے ہاں کام کرنے کے بارے میں ضرور سوچیے گا، ہم آپ کو منہ مانگی آفر دینے کو تیار ہیں!!!،،
رانا صاحب آخری کوشش کرتے ہوئے بولے.
،،جی سر شیور!!! فی الحال تو میرا کوئی ارادہ نہیں ہے.،،
مہر انگیز نے فون بند کرکے لمبی سانس کھینچی اور اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیے.
وہ جاب کیوں چھوڑ رہی ہے…؟
حالانکہ رانا صاحب صحیح کہہ رہے تھے… ابھی تو وہ کامیابی کی سیڑھی پہ چڑھنا شروع ہوئی تھی پھر اچانک نیچے کیوں اترنے لگی تھی؟؟؟
ابھی تو اس نے آگے جانا تھا… بہت آگے اتنا کہ اس رات مناہل کی شادی پر جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اس کا جواب دینے کےلیے بھلے جو قیمت دینی پڑتی وہ چکانے کو تیار تھی.
اس واقعے کے بعد مہر انگیز کو لگتا تھا کہ کوئی بڑے سے بڑا سانحہ اسے نہیں ہلا سکتا.
اس لیے پہلی بار جب وہ اس شعبے میں آئی تھی تو مخالفت کا ایک طوفان تھا جو مہرانگیز کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا. گھر والوں کی ناراضگی، خاندان کہ باتیں،کام کے دوران ہراسمنٹ…. ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا غرض وہ سب کچھ برداشت کرگئی تھی.
اپنی عزت، انا اور غیرت کو اس نے اسی رات سب کے سامنے تماشا بنتے ہوئے دفنا دیا تھا!!!
پھر اچانک سے میر شہزاد کسی بگولے کی مانند اس کے راستے میں آگیا تھا.
میر شہزاد کی گرفتاری!!!
پولیس اسے ہتھکڑیاں پہنا کر تھانے لے گئی تھی.
میر شہزاد کا خیال تھا کہ عمران ضرور کوئی نہ کوئی وکیل اس کی ضمانت کےلیے بھیجے گا.
مگر ایسا نہ ہوا.
دوسری صبح اسے سیشن کورٹ کے سامنے لایا گیا. پولیس نے تفتیش کے لئے مزید دن مانگے.
چنانچہ عدالت نے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا.
جیل میں میر شہزاد کے وہ دن بہت بھاری تھے….اس کا باہر کی دنیا سے رابطہ بالکل منقطع تھا.
خود اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو ہو رہا ہے؟
عمران کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سیکنڈ کے پہلے حصے میں میر شہزاد کا شک اس پر جاتا مگر عمران اسے دھوکہ دے رہا تھا…اس بات پہ یقین کرنے سے پہلے ہزار تاویلات اس کے حق میں آجاتیں.
،ہوسکتا ہے کوئی اور اسے پھنسانے کی کوشش کر رہا ہو…؟
مگر عمران کو اس سے رابطہ ضرور کرنا چاہیے تھا.
خود سے سوال خود سے جواب کرتے کرتے وہ مزید الجھ جاتا.
پولیس اس سے تفتیش کر رہی تھی مگر مار پیٹ ان سب روایتی طریقوں سے گریز کیا گیا تھا.
چودہ دن جیسے تیسے کرکے گزرے.
چودھویں دن اس کی طرف سے وکیل مقرر کیا گیا تھا مگر وہ ایک بار بھی میر شہزاد سے آکر نہیں ملا… اب نہیں معلوم وکیل کس نے کروایا تھا؟؟؟
پولیس کی جانب سے میر شہزاد کے جرائم کی فہرست ثبوتوں کے ساتھ پیش کی گئی.
میر شہزاد ہر جرم کا انکار کرتا رہا.سب سے پریشان کن صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب عارف کے والدین نے عارف کی موت کا ذمہ دار میر شہزاد کو قرار دیتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کر دیا.
ایک اور مقدمہ میر شہزاد کے خلاف کھل گیا تھا.
عارف کی موت حادثاتی طور پر گیس لیک ہونے سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی.
اس بات کا علم وہاں پمپ پر موجود تمام عملے کو تھا. میر شہزاد باقاعدگی سے اس کے والدین کو ہر ماہ انسانی ہمدردی کے تحت کچھ پیسے بھجوا دیتا تھا. اگلی پیشی پر اس پمپ کے تمام عینی شاہدین نے آکر گواہی دی کہ میر شہزاد کے بری طرح پیٹنے کی وجہ عارف کی جان چلی گئی تھی.
اللہ اللہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!!!
ایک شکنجہ تھا جو بڑی مہارت سے اس کے گرد کسا جا رہا تھا.
جاری ہے….
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول